وَفَدَيۡنٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِيۡمٍ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 107
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَفَدَيۡنٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِيۡمٍ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے اس کے بدلہ میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دے دیا
تفسیر:
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے فدیہ کے مینڈے کا مصداق
الصفت : ١٠٧ میں ہے کہ : اور ہم نے اس کے بدلہ میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دے دیا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : جنت سے ایک مینڈھا باہر لایا گیا جو پالیس سال سے جنت میں چر رہا تھا ‘ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو بھیج دیا پھر جمرہ اولیٰ پر گئے اور وہاں سات کنکریاں ماریں ‘ پھر جمرہ وسطیٰ پر گئے اور وہاں ساتھ کنکریاں ماریں، پھر جمرہ کبریٰ پر گئے اور وہاں سے سات کنکریاں ماریں ‘ پھر منیٰ میں قربانی کی جگہ گئے اور وہاں سے اس مینڈھے کو ذبح کردیا ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ‘ بیشک اوائل میں اس مینڈے کا سر اس کے دو سینگوں کے ساتھ میزاب کعبہ کے ساتھ لٹکا ہوا تھا اور اس کا سر سوکھ کر خشک ہوچکا تھا۔
نیز امام ابن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم کو حج کے افعال ادا کرنے کا حکم دیا گیا تو شیطان آپ کے پاس آیا ‘ پھر حضرت جبریل آپ کو جمرۃ العقبہ پر لے گئے آپ کے پاس پھر شیطان آیا آپ نے اس کو سات کنکریاں ماریں تو وہ چلا گیا ‘ پھر آپ چلے گئے تو جمرہ وسطیٰ کے پاس شیطان آیا آپ نے پھر اس کو سات کنکریاں ماریں ‘ تو ہو چلا گیا ‘ پھر آپ نے حضرت اسماعیل کو پیشانی کے بل گرادیا ‘ اور حضرت اسماعیل پر سفید قمیض تھی، انہوں نے کہا بےابا جان میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی قمیض نہیں ہے جس میں آپ مجھے کفن دیں ‘ آپ اس کو اتار کر رکھ لیں اور اسی میں مجھ کو کفن دیں ‘ پھر اچانک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مڑ کر دیکھا تو ایک بڑھی آنکھوں والا اور سفید سینگوں والا مینڈھا کھڑا تھا ہوا تھا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو ذبح کردیا ‘ حضرت ابن عباس نے کہا ہم اسی وجہ سے اسی طرح کا مینڈھا قربانی کے لئے تلاش کرتے ہیں۔
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس مینڈے کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ذبح کیا تھا وہ اس کی نسل سے تھا جس کی حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹے نے قربانی کی تھی اور ان کی قربانی کرلی گئی تھی اور وہ مینڈھا سرمگیں تھا اور اس کا اون سرخ رنگ کا تھا۔ ( تاریخ الامم الملکوک ج ا ص ١٤١٥ ھ ‘ الکامل فی التاریخ ج ا ص ٢٤۔ ٢٣‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ) مفسرین میں سے امام ابوا سحاق احمد بن ابراہیم السعلبی النیشاپوری المتوفی ٤٢٧ ھ اور امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ ‘ اور علامہ علائو الدین علی بن الخازن المتوفی ٧٢٥ ھ ‘ نے بھی اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ‘ اور امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ نے اس واقعہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ اور علامہ زمحشری متوفی ٥٣٨ ھ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ( الکشف والبیان ج ٨ ص ١٥٥۔ ١٥٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ ‘ معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٧۔ ٣٦‘ داراحیاء لتراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٠ لباب التاویل ج ٤ ص ٢٤۔ ٢٢‘ دارا الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٥ ھ المستار رک ج ٢ ص ٢٥٦٦۔ ٢٥٥ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤٠٤٠۔ ٤٠٣٩، الکشاف ج ٤ ص ٥٧ )
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے فدیہ میں جس مینڈے کو ذبح کیا گیا ہے اس کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے سینگ کعبہ میں میزاب کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے اس کا ذکر اس حدیث میں ہے :
صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے بنو سلیم کی ایک عورت نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ کو بلایا ‘ میں نے حضرت عثمان بن طلحہ سے پو چھا کہ تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیو بلوایا تھا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب میں بیت اللہ میں داخل ‘ ہوا تو میں نے وہاں پر ایک مینڈھے کے دو سینگ دیکھے ‘ میں تم سے یہ کہنا بھول گیا کہ توم ان سینگوں کو ڈھانپ دو ‘ سو اب تم ان کو ڈھانپ دو ‘ کیونکہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو نمازی کو مشغول کرالے ‘ سفیان نے کہا وہ دونوں سینگ بیت اللہ میں رکھے رہے حتیٰ کہ جب بیت اللہ میں آگ لگی تو وہ سینگ بھی جل گئے۔
(مسنداحمدج ٤ ص ٦٩ طبع قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٦٢٠١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٦٦٣٧‘ دارالفکر بیروت ‘ البدایہ والنہایہ ج اص ٢٣٥‘ دار الفکربیروت ١٤١٩ ھ ‘ الدرالمثور ج ٧ ص ١٠٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کون سے بیٹے ذبیح تھے
حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق (علیہ السلام) !
علامہ ابو عبد اللہ محمد بنا احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کون سے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ اکثر علماء کا یہ مسلک ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں ‘(١) حضرت عباس بن عبد المطلب ( ایک روایت کے مطابق) (٢) حضرت عبد اللہ بن عباس (٣) حضرت عبد اللہ بن مسعود (٤) حضرت جابر بن عبد اللہ (٥) حضرت علی بن ابی طالب (٦) حضرت عبداللہ بن عمر اور (٧) حضرت عمر بن الخطاب (رض) ‘ ان سات صحابہ کا یہ نظریہ ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں ‘ اور تابعیں وغیرہ ھم میں سے علقمہ ‘ سعید بن جبیرـ‘ کعب الاحبار ‘ مکرمہ ‘ القاسم بن ابی بزہ ‘ عطائ ‘ مقاتل ‘ عبد الرحمان بن سابط ‘ زہری ‘ سدی ‘ عبد اللہ بن الہذیل ‘ مالک بن انس وغیرہ ھم نے کہا کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ذبیح ہیں ‘ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کا بھی اس پر اتفاق ہے ‘ الخاس اور طبری وغیر عہما کا بھی یہی مختار ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ـ‘ آپ کے اصحاب اور تابعین سے قوت کے ساتھ یہی منقول ہے۔
دوسرے علماء کا یہ مختار ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں ‘ حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابوالطفیل ‘ حضرت عامر بن واثلہ ( اور دوسری روایت کے مطابق) حضرت عبد اللہ بن عمر ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہی مختار قول ہے ‘ اور تابعین میں سے سعید بن المسیب ‘ الشعبی ‘ یوسف بن مہران ‘ مجاہد ‘ الربیح بن انس ‘ محمد بن کعب القرظی ‘ اکلبی اور علقمہ وغیر ہم کا یہی قول ہے۔
ابو سعید الضریر سے ذبیح کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ اشار پڑھے :
ان الذبیح ھدیت اسمعیل نطق الکتاب بذاک ولتنزیل
تم کو ہدایت دی جائے ذبیح حضرت اسماعیل ہیں کتاب اسی پر ناطق ہے اور یہی قرآن میں نازل ہوا ہے
شرف بھ خص الالہ نبینا واتی بھ التفسیر والتاویل
یہ ان کا شرف ہے اور اللہ نے ہمارے نبی کو اسکے ساتھ خاص کیا اور قرآن کی یہی تفسیر اور تاویل ہے
حضت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے پر دلائل
اصمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عمر و بن العلاء سے پو چھا کہ ذبیح کون ہے تو انہوں نے کہا : اے اصمعی ! تمہاری عقل کہاں چلی گئی ! حضرت اسحاق مکہ میں کب آئے تھے ؟ مکہ میں تو صرف حضرت اسماعیل تھیـ‘ انہوں نے اپنی اپنے والد گرامی کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کی تھی اور قربان گاہ بھی مکہ میں ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے پر اس استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ صابرین میں سے ہیں نہ کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی : فرمایا :
واسمعیل وادریس وذا الکفل من الصبرین اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صابر ( نبی) تھے۔
اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا صبر یہ تھا کہ انہوں نے ذبح کیے جانے پر صبر کیا تھا ‘ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ صادق الوعد تھے ‘ فرمایا :
واذکرفی الکتب اسمعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا اور اس کتاب میں اسماعیل علیہ کا ذکر کریں ‘ وہ وعدہ کے بہت سچے تھے اور وہ رسول اور نبی تھے۔
حضرت اسماعیل کو صادق اور الوعد اس لیے فرمایا کہ انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ذبح کے وقت صبر کریں گے سو انہوں نے اپنے اس وعدہ کو سچا کر دکھایا ‘ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وبشرنہ باسحق نبی امن الصلحین اور ہم نے ان کو اسحاق نبی کی بشارت دی جو صالحین میں ( الصّٰفّٰت : ١١٢) سے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ حضرت اسحاق کو ذبح ‘ کرنے کے حکم کیوں کر دیتاجب کہ وہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کو نبی بنائے کی بشارت دے چکا ہے تھا۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فبشرنھا باسحق ومنورا اسحاق یعقوب (ھود : ٧١) سو ہم نے ( ابراہیم کی زوجہ سارہ کو) اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعدیعقوب کی بشارت دی۔
تو حضرت اسحاق کو ذبح کرنے کا کیسے حکم دیا جاسکتا تھا جب کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ اسحاق کی پشت اور ان کی نسل سے یعقوب پیدا ہوں گے ‘ ظاہر ہے کہ اس بشارت کے پورا ہونے سے پہلے ان کو ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا تھا۔
نیز احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم کے بیٹے کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح ہوا تھا اس کے سینگ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے اس سے معلوم ہوا کہ ذبیح حضرت اسماعیل ہیں اگر حضرت اسحاق ذبیح ہوتے تو اس مینڈھے کے سینگ بیت المقدس میں رکھے ہوئے ہوتے۔ ( الجامع الاحکام القرانجز ١٥ ص ٩٢۔ ١٩‘ دارا الفکر بیرت ‘ ١٤١٥ ھ)
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے پر مزید دلائل
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی المتوفی ٧٧٤ لکھتے ہیں :
( الصّٰفّٰت : ١٠١) میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جس بردبار بیٹے کی بشارت دی ہے وہ حضرت سید نا اسماعیل (علیہ السلام) ہیں ‘ کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے ہیں ‘ اور تمام مسلمانوں کا اور تمام اہل کتاب کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عمر میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے بڑے ہیں ‘ بلکہ اہل کتاب کی کتابوں میں ( مثلاً تورات میں) یہ تصریح ہے کہ جب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی عمر ننانوے (٩٩) سال تھی ‘ اور ان کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کریں ‘ اس کے باوجود انہوں نے کذب اور بہتان سے کام لیتے ہوئے حضرت اسحاق کو اس لئے ذبیح کہا کہ وہ اسرائیلیوں کے والد ہیں اور حضرت اسماعیل عربوں کے والد تھے ‘ اس لیے انہوں نے عربوں سے حس رکھنے کی بناء پر یہ تحریف کی ‘ اور انہوں نے اکلوتے بیٹے کا یہ معنی کیا کہ اس وقت وہ بیٹا باپ کے پاس نہ ہو ‘ کیوں کہ اس وقت حضرت اسماعیل مکہ مکرمہ میں اپنی ماں ہاجر کے پاس تھے ‘ حالانکہ اکلوتے کا معنی یہ ہے کہ اس وقت باپ کا صرف ایک بیٹا ہو اور جب حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے ان کے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا اسوقت آپ کے صرف ایک ہی بیٹے تھے اور وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ نیز پہلوٹھی کا بیٹا دوسرے بیٹوں کی بہ نسبت زیادہ پیارا اور عزیز ہوتا ہے اس لیے اگر بیٹے کو ذبح کرانے سے باپ کی آزمائش اور امتحان مقصود ہے تو آزمائش کے زیادہ قریب یہ ہے کہ پہلوٹھی کے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا جائے اور چونکہ پہلوٹھی کے بیٹے حضرت اسماعیل ہیں اس لیے ذبیح بھی وہی ہیں۔
اہل علم کی ایک جماعت کا یہ خیال ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق ہیں حتیٰ کہ یہ قول بعض صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے اس کا ذکر قرآن میں ہے نہ سنت میں ‘ اور میرا گمان یہ ہے کہ یہ قول اسرائیلیات سے منقول ہے۔ اور بعض مسلم علماء نے بغیر کسی دلیل کے اس قول کو اختیار کرلیا ‘ اور یہ اللہ کی کتاب اس طرح رونمائی کر رہی ہے کہ ذیبح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ اس میں حضرت ابراہیم کو ایک بردباربیٹے کی بشارت دی ہے اور پھر ان کے ذبح کا واقعہ ذکر کیا ہے، اور اس کے بعد حضرت اسحٰق کے پیدا ہونے کی بشارت دی ہے اور جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسحٰق کے پیدا ہونے کی بشارت دی تو کہا ہم آپ کو علم والے بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ (تفسیرابنِ کثیرج ٤ ص ١٦، دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام الحسین بن مسعود الفراء البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
القرظی بیان کرتے ہیں کہ علماء یہود میں سے ایک عالم مسلمان ہوگیا اور اس نے اسلام میں بہت نیک کام کیے، اس سے عمر بن عبدالعزیز نے پوچھاحضرت ابراہیم کے دو بیٹوں میں سے کون سے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس نے کہا حضرت اسماعیل کو، پھر اس نے کہا اے امیرالمومنین ! یہود کو بھی اس حقیقت کا علم ہے لیکن وہ آپ عرب لوگوں سے حسد کرتے ہیں کہ آپ کے باپ کو ذبح کا حکم دیا گیا ہو اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ذبیح اسحاق بن ابراہیم ہیں۔
اور اس پر دلیل یہ ہے کہ جس مینڈھے کو بطور فدیہ ذبح کیا گیا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں بنواسماعیل کے ہاتھوں میں رہے تھے اور حضرت ابن الزبیر اور حجاج کی جنگ میں وہ سینگ جل گئے۔
شعی نے کہا میں نے اس مینڈھے کے دونوں سینگوں کو کعبہ میں لٹکا ہوا دیکھا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) نے کہا میں نے اس مینڈھے کے سر کو سینگوں سمیت کعبہ کے پر نالہ کے ساتھ لٹکا ہوا دیکھا ہے وہ سرخشک ہوچکا تھا۔
اصمعی کہتے ہیں میں نے ابوعمروبن العلاء سے سوال کیا ہے کہ ذبیح کون تھے حضرت اسحٰق یا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ؟ تو انہوں نے کہا اے اصمعی ! تمہاری عقل کہاں ہے ؟ حضرت اسحٰق مکہ میں کب آئے تھے ! مکہ میں تو حضرت اسماعیل آئے تھے اور انہوں نے ہی اپنے والد کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
(معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٦، داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢٠ ھ)
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے کے دلائل کی توضیح
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے پر جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان کی مزید وضاحت حسب ذیل امور سے ہوتی ہے :
(١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَبَشَّرْنٰھَابِاِسْحٰقلا وَمِنْ وَّرَآ ئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ پس ہم نے (ابراہیم کی بیوی سارہ کو) اسحٰق کی بشارت دی اور اسحٰق کے بعدیعقوب کی (ھود : ٧١) بشارت دی۔
پس اگر ذبیح حضرت اسحٰق ہیں تو ان کی ذبح کرنے کا حکم حضرت یعقوب کے پیدا ہونے سے پہلے دیا جائے گا یا ان کے ذبح ہونے کے بعد دیا جائے گا، پہلی صورت اس لئے صحیح نہیں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ کو حضرت اسحٰق کی بشارت دی اس کے ساتھ ہی یہ بشارت دی کہ حضرت اسحٰق سے ان کے بیٹے حضرت یعقوب پیدا ہونگے تو حضرت یعقوب کے پیدا ہونے سے پہلے حضرت اسحٰق کو ذبح کرنے کا حکم دینا صحیح نہیں ہے ورنہ حضرت اسحٰق کے بعد ان سے حضرت یعقوب کے پیدا ہونے کی خبر صحیح نہیں رہے گی، اور اگر حضرت یعقوب کے پیدا ہونے کے بعد حضرت ابراہیم کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے اسحٰق کو ذبح کردیں تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے بیٹے کے بالغ ہونے سے پہلے اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا نہ کہ اس کے ایک بچہ کے باپ ہونے کے بعد اس کو یہ حکم دیا گیا۔
قران مجید میں ہے :
فلما بلغ معہ اسعی قال یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک پس جب وہ لڑکا ان کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا (تو) ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔
(٢) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ حضرات ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہ عنقریب میری رہ نمائی فرمائے گا (الصفت : ٩٩)
پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس مسافرت میں ان کو ایک نیا بیٹا عطا فرمائے جس سے وہ مانوس ہوں (الصفت : ١٠٠) اور یہ سوال اسی وقت صحیح ہوگا جس ان کا اس سے پہلے بیٹا نہ ہو وررنہ یہ تحصیل حاصل ہوگی ‘ اور مسلمانوں اور اہل کتاب کا اس اتفاق ہے کہ حضرت اسماعیل کی پیدائش سے پھر اس دعا کے بعد الصفت : ١٠٧۔ ١٠٢ میں اللہ تعالیٰ نے ذبح کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ پس ثابت ہوگیا کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے کا تورات سے ثبوت
(٣) ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے کہ تو رات کی آیات سے بھی یہ ثابت ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں ‘ اب ہم ان آیات کو پیش کر رہے ہیں : درج ذیل آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اکلوتے اور پہلوٹھی کے بیٹے تھے۔
اور ابراہم کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی اس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا اور ساری نے ابرام سے کہ کہ دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جاــ‘ شاید اس سے میرا گھر آباد ہو۔ اور ابرام نے ساری کی بات مانی۔ اور ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہوگئے تھے جب اس کی بیوی ساری نے اپنی لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے۔ اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور جب معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوئی تو اپنی بی بی کو حقیر جاننے لگی۔ ( پیدائش باب ١٦‘ آیت : ٤۔ ١ تورات ١٦‘ بائبل سوسائٹی لاہور ‘ ١٩٩٢)
اور ابرام سے ہاجرہ کے ایک بیٹا ہوا اور ابرام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ سے پیدا ہو اسماعیل رکھا۔ اور جب ابرام نے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔ ( پیدائش باب ١٦‘ آیت : ٤۔ ١ تورات ١٦‘ بائبل سوسائٹی لاہور ‘ ١٩٩٢) ان آیات میں یہ تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے ہیں اور اب جو آیات ہم ذکر کر رہے ہیں ان میں یہ تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل کے پیدا ہونے کے بعد حضرت سارہ سے حضرت اسحاق پیدا ہوئے : اور خدا نے ابراھام سے کہ ساری جو تیری بیوی ہے اس کو ساری نہ پکارنا ‘ اس کا نام سارہ ہوگا۔ اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا ‘ یقینا میں اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے۔ تب ابراھام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا اور کیا سارہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟۔ اور ابراھام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے۔ تب خدا نے فرمایا بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو ان کا نام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی ہے باندھوں گا۔ (پیدائش۔ باب : ١٧، آیت : ١٩۔ ١٥، تورات ص ١٧۔ ١٦، پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور۔ ١٩٩٢ ئ)
حسب ذیل آپ میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم کو ان کے اکلوتے بیٹے کی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا :
ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہیم کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہیم ! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اسحٰق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ (پیدائش، باب ٢٢، آیت : ٢۔ ١، تورات ص ١٢، پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور۔ ١٩٩٢ ئ)
اب آیات میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا، اور اب حضرت اسحٰق ان کے اکلوتے بیٹے نہ تھے کیونکہ اس وقت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی موجود تھے جو ان سے چودہ سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور وہی اکلوتے تھے، یہودیوں نے تورات کی اس آیات میں تحریف کرکے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ حضرت اسحٰق کا نام ڈال دیا لیکن اس آیت میں اکلوتے کا لفظ ان کی تحریف کی چغلی کھا رہا ہے
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 107
[…] تفسیر […]