اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّتَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخٰلِقِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 125
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّتَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخٰلِقِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
کیا تم بعل کی عبادت کرتے ہو اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو
بعل کا معنی اور اس کی پرستش کا پس منظر اور پیش منظر
الصفت : ١٢٥ میں ہے : (حضرت الیاس نے اپنی قوم سے کہا) کیا تم بعل کی عبادت کرتے ہو !
حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساک متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) الصفت : ١٢٦۔ ١٢٣‘ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں ‘ اس شہر کا نام بعل بک اس لیے رکھا گیا کہ یاں کے لوگ بعل کی عبادت کرتے تھے اور اس جگہ کا نام بک تھا پھر اس کا نام بعل بک پڑگیا۔
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت الیاس کو بعل بک کے لوگوں کی طرف بھیجا یہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ اور بنی اسرائیل کے بادشاہ عام لوگوں سے الگ رہتے تھے ‘ جس بادشاہ کے ساتھ حضرت الیاس رہتے تھے ‘ وہ حضرت الیاس کے مشوروں پر عمل کرتا تھا اور ان کی ہدایت کی پیروی کرتا تھا ‘ ایک دن اس کے پاس اس کی قوم کے بت پرست لوگ آئے اور کہا یہ شخص تمہیں گم راہی اور جھوٹ کی دعوت دے رہا ہے تم ان بتوں کی عبادت کو جن کی اور بادشاہ عبادت کرتے ہیں اور اس دین کو چھوڑ دو ‘ پھر بادشاہ ان کے کہنے میں آگیا اور حضرت الیاس سے کہا : اے الیاس ! تم میری چھوٹے دین کی طرف رہنمائی کررہے ہو اور میرا خیال ہے کہ بنو اسرائیل کے تمام باد شاہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور وہ دنیا کی نعمتوں سے مزے اٹھا رہے ہیں اور ان کی نعمتوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور ہمیں ان پر کوئی فضیلت نہیں ہے ‘ پھر وہ لوگوں کے دین کی طرف لوٹ گیا اور حضرت الیاس اس سے الگ ہوگئے۔
بعل کی ناکامی اور اس کی پرستش کو چھوڑ کر لوگوں کا حضرت الیاس کی طرف متوجہ ہونا
حافظ ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ اور امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی اپنی سندوں سے روایت کرتے ہیں :
امام محمد بن اسحاق الحسن سے روایت کیا ہے کہ اس بادشاہ کو بعل کی پرستش پر اس کی بیوی نے آمادہ کیا تھا ‘ وہ بہت دراز قد اور حسین و جسیم عورت تھی اس کا پہلا خاوند فوت ہوگیا تھا تو اس نے بعل کی صورت پر سونے کا بت بنا لیا ‘ وہ اس کو سجدہ کرتی تھی پھر اس نے اس بادشاہ سے شادی کرلی جس کے ساتھ حضرت الیاس تھے ‘ وہ بہت بدکار عورت تھی ‘ اس نے ایک بت خانہ بنایا اور اس میں بعل کو رکھ دیا اور اس نے اپنے ستر موافقین کو جمع کرلیا جو اپنے آپ کو انبیاء کہتے تھے ‘ حضرت الیاس نے ان لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ‘ تب حضرت الیاس نے دعا کی : اے اللہ بنی اسرائیل نے کفر پر اصرار کیا اور تیرے غیر کی عبادت کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں ہوئے ‘ تو ان کو دی ہوئی نعمتیں واپس لے لے ‘ حسن نے کہا پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس کی طرف وحی کی کہ میں نے ان کا رزق آپ کے اختیار میں دے دیا ہے ‘ جب تک آپ اجازت نہیں دیں گے ان کو رزق نہیں ملے گا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر تین سال تک بارش نازل نہیں کی اور حضرت الیاس نے اپنے شاگرد الیسع بن حطوب کو اس بادشاہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر تو اللہ کی عبادت کو ترجیح دیتا رہا اور تیری قوم کے سرکش لوگ ان جھوٹے مدعیان نبوت کی پیروی کرتے رہے اور اس بدکار عورت کا کہا مانتے رہے جس نے تیری خیانت کی ہے تو پھر تو عذاب اور مصائب کے لیے تیار ہوجا۔
اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو روک لیا اور انسان ‘ حیوان اور حشرات الارض بھوک سے مرنے لگے ‘ حضرت الیسع اس بادشاہ کے پاس گئے اور اس کو پیغام پہنچایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ کے شر سے محفوظ رکھا ‘ وہ واپس آکر حضرت الیاس کے پاس پہنچ گئے ‘ حضرت الیاس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ ان کو وہیں رزق دیتا تھا اور ان کے لیے اس پہاڑ پر پانی کا ایک چشمہ جاری کردیا ‘ اور جب قحط کی شدت کی وجہ سے لوگ مردار اور کتوں کے کھانے پر مجبور ہوگئے تو بادشاہ نے ان ستر جھوٹے نبیوں سے کہا کہ تم اب بعل سے فریاد کرو کہ وہ قحط کی اس مصیبت کو ہم سے دور کردے ‘ وہ اپنے بتوں کے پاس معتکف ہو کر بیٹھے اور جانوروں کو بھینٹ چڑھایا اور کافی دیر تک ان سے فریاد کرتے رہے ‘ تب بادشاہ نے ان لوگوں سے کہا کہ الیاس کا معبود تو ان لوگوں کے معبود سے بہت جلد دعا قبول کرلیتا ہے ‘ حضرت الیاس نے ان سے کہا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے ‘ اس لیے اس نے بارش کو تم سے روک لیا ہے ‘ اور تم کو قحط میں مبتلا کردیا ہے ‘ تم اپنے ان بتوں کو نکالو جن کی تم عبادت کرتے تھے پھر ان سے بارش طلب کرو دیکھیں وہ بت تمہاری فریاد کو پہنچتے ہیں یا نہیں ! ورنہ میں اپنے رب سے دعم کرتا ہوں جو تم سے یہ مصیبت دور کردے گا ‘ انہوں نے کہا ہم ایسا کرتے ہیں ‘ پھر انہوں نے اپنے بتوں کو نکالا اور ان کے سامنے زارو قطار روتے رہے اور گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعا کرتے رہے ‘ تو ان کی دعا قبول نہیں ہوئی ‘ پھر انہوں نے حضرت الیاس سے کہا : اے الیاس اب تم اپنے رب سے دعا کر رو ‘ حضرت الیاس نے دعا کی تو اسی وقت آسمان پر بادل نمودار ہوگئے اور بارش شروع ہوگئی اور دیکھتے دیکھتے جل تھل ایک ہوگیا ‘ الحسن نے کہا پھر ان تمام نے رجوع کرلیا اور حضرت الیاس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ (تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٥٧۔ ١٥٦‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٦٩١)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :
عکرمہ نے کہا اہل یمن کی لغت میں بعل کا معنی رب ہے اور اتدعون بعلا کا معنی ہے کیا تم رب کو پکارتے ہو یعنی کیا تم اللہ کے سوا کسی اور رب کو پکارتے ہو اور اس کی عبادت کرتے ہو۔ اور ابن زید نے کہا بعل نام کا ایک بت تھا جس کی وہ عبادت کرتے تھے ‘ اسی بت کے نام پر ایک شہر کا نام رکھا گیا جس کو بعلبک کہتے تھے اور یہ شہر دمشق کے پار تھا۔ (جامع البیان جز ٢٣ ص ١١١۔ ١١٠)
وہب بن منبہ نے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت حز قیل کی روح قبض کرلیا تو بنی اسرائیل میں بہت بڑے مصائب آئے اور بنی اسرائیل اللہ سے کیے ہوئے عہد کو بھول گئے ‘ انہوں نے بت نصب کردیئے اور ان کی عبادت کرنی شروع کردی ‘ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس بن یاسین بن فخ اس بن العیزار بن ہارون کو نبی بنا کر بھیجا ‘ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تورات کے احکام کی تجدید کے لیے انبیاء علہم السلام بھیجے جاتے تھے تاکہ تورات کے جن احکام پر لوگوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا ان پر عمل شروع کرایا جائے اور حضرت الیاس بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کے ساتھ رہتے تھے ‘ جس کا نام احاب تھا اور اس کی بیوی کا نام اربل تھا ‘ وہ بادشاہ حضرت الیاس کے مشوروں پر عمل کرتا تھا اور باقی بنی اسرائیل ایک بت کی پرستش کرتے تھے جس کا نام بعل تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٢٦٩٠)
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 125