بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

(ف1)

سورت انبیاء مکّیہ ہے اس میں سات رکوع اور ایک سو بارہ ۱۱۲ آیتیں اور ایک ہزار ایک سو چھیاسی ۱۱۸۶کلمے اور چار ہزار آٹھ سو نو_ے حرف ہیں ۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱)

لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں (ف۲)

(ف2)

یعنی حسابِ اعمال کا وقت روزِ قیامت قریب آ گیا اور لوگ ابھی تک غفلت میں ہیں ۔

شانِ نُزول : یہ آیت منکرینِ بَعث کے حق میں نازِل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو نہیں مانتے تھے اور روزِ قیامت کو گزرے ہوئے زمانہ کے اعتبار سے قریب فرمایا گیاکیونکہ جتنے دن گزرتے جاتے ہیں آنے والا دن قریب ہوتا جاتا ہے ۔

مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲)

جب اُن کے رب کے پاس سے انہیں کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اُسے نہیں سنتے مگر کھیلتے ہوئے (ف۳)

(ف3)

نہ اس سے پند پذیر ہوں , نہ عبرت حاصل کریں , نہ آنے والے وقت کے لئے کچھ تیاری کریں ۔

لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى ﳓ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﳓ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۚ-اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(۳)

اُن کے دل کھیل میں پڑے ہیں (ف۴) اور ظالموں نے آپس میں خفیہ مَشْوَرَت کی (ف۵) کہ یہ کون ہیں ایک تم ہی جیسے آدمی تو ہیں (ف۶) کیا جادو کے پاس جاتے ہو دیکھ بھال کر

(ف4)

اللہ کی یاد سے غافل ہیں ۔

(ف5)

اور اس کے اخفاء میں بہت مبالغہ کیا مگر اللہ تعالٰی نے ان کا راز فاش کر دیا اور بیان فرما دیا کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ کہتے ہیں ۔

(ف6)

یہ کُفر کا ایک اصول تھا کہ جب یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کر دی جائے گی کہ وہ تم جیسے بشر ہیں تو پھر کوئی ان پر ایمان نہ لائے گا ، حضور کے زمانہ کے کُفّار نے یہ بات کہی اور اس کو چھپایا لیکن آج کل کے بعض بے باک یہ کلمہ اعلان کے ساتھ کہتے ہیں اور نہیں شرماتے ، کُفّار یہ مقولہ کہتے وقت جانتے تھے کہ ان کی بات کسی کے دل میں جمے گی نہیں کیونکہ لوگ رات دن معجزات دیکھتے ہیں وہ کس طرح باور کر سکیں گے کہ حضور ہماری طرح بشر ہیں اس لئے انہوں نے معجزات کو جادو بتا دیا اور کہا ۔

قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ٘-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۴)

نبی نے فرمایا میرا رب جانتا ہے آسمانوں اور زمین میں ہر بات کو اور وہی ہے سنتا جانتا (ف۷)

(ف7)

اس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی خواہ کتنے ہی پردہ اور راز میں رکھی گئی ہو ، ان کا راز بھی اس میں ظاہر فرما دیا ، اس کے بعد قرآنِ کریم سے انہیں سخت پریشانی و حیرانی لاحق تھی کہ اس کا کس طرح انکار کریں ، وہ ایسا بیّن معجِزہ ہے جس نے تمام مُلک کے مایہ ناز ماہروں کو عاجز و متحیّر کر دیا ہے اور وہ اس کی دو چار آیتوں کی مثل کلام بنا کر نہیں لا سکے ، اس پریشانی میں انہوں نے قرآنِ کریم کی نسبت مختلف قسم کی باتیں کہیں جن کا بیان اگلی آیت میں ہے ۔

بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ۚۖ-فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ(۵)

بلکہ بولے پریشان خوابیں ہیں (ف۸)بلکہ ان کی گڑھت(گھڑی ہوئی چیز) ہے (ف۹) بلکہ یہ شاعر ہیں(ف۱۰) تو ہمارے پاس کوئی نشانی لائیں جیسے اگلے بھیجے گئے تھے (ف۱۱)

(ف8)

ان کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحیٔ الٰہی سمجھ گئے ہیں ، کُفّار نے یہ کہہ کر سوچا کہ یہ بات چسپاں نہیں ہو سکے گی تو اب اس کو چھوڑ کر کہنے لگے ۔

(ف9)

یہ کہہ کر خیال ہوا کہ لوگ کہیں گے کہ اگر یہ کلام حضرت کا بنایا ہوا ہے اور تم انہیں اپنے مثل بشر بھی کہتے ہو تو تم ایسا کلام کیوں نہیں بنا سکتے ، یہ خیال کر کے اس بات کو بھی چھوڑ ا اور کہنے لگے ۔

(ف10)

اور یہ کلام شعر ہے اسی طرح کی باتیں بناتے رہے کسی ایک بات پر قائم نہ رہ سکے اور اہلِ باطل کذّابوں کا یہی حال ہوتا ہے ، اب انہوں نے سمجھا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی چلنے والی نہیں ہے تو کہنے لگے ۔

(ف11)

اس کے رد و جواب میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے ۔

مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۚ-اَفَهُمْ یُؤْمِنُوْنَ(۶)

ان سے پہلے کوئی بستی ایمان نہ لائی جسے ہم نے ہلاک کیا تو کیا یہ ایمان لائیں گے (ف۱۲)

(ف12)

معنٰی یہ ہیں کہ ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو نشانیاں آئیں تو وہ ان پر ایمان نہ لائے اوران کی تکذیب کرنے لگے اور اس سبب سے ہلاک کر دیئے گئے تو کیا یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے آئیں گے باوجودیکہ ان کی سرکشی ان سے بڑھی ہوئی ہے ۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷)

اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جنہیں ہم وحی کرتے (ف۱۳) تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو(ف۱۴)

(ف13)

یہ ان کے کلامِ سابق کا رد ہے کہ انبیاء کا صورتِ بشری میں ظہور فرمانا نبوّت کے منافی نہیں ، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔

(ف14)

کیونکہ ناواقف کو اس سے چارہ ہی نہیں کہ واقف سے دریافت کرے اور مرضِ جہل کا علاج یہی ہے کہ عالِم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عامل ہو ۔

مسئلہ : اس آیت سے تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے ، یہاں انہیں علم والوں سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کہ ان سے دریافت کرو کہ اللہ کے رسول صورتِ بشری میں ظہور فرما ہوئے تھے یا نہیں ، اس سے تمہارے تردُّد کا خاتمہ ہو جائے گا ۔

وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ(۸)

اور ہم نے اُنہیں (ف۱۵) خالی بدن نہ بنایا کہ کھانا نہ کھائیں (ف۱۶) اور نہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہیں

(ف15)

یعنی انبیاء کو ۔

(ف16)

تو ان پر کھانے پینے کا اعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ” مَا لِھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ ” مَحض بے جا ہے ، تمام انبیاء کا یہی حال تھا وہ سب کھاتے بھی تھے پیتے بھی تھے ۔

ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ(۹)

پھر ہم نے اپنا وعدہ اُنہیں سچا کر دکھایا (ف۱۷) تو انہیں نجات دی اور جن کو چاہی (ف۱۸) اور حد سے بڑھنے والوں کو (ف۱۹) ہلاک کردیا

(ف17)

ان کے دشمنوں کو ہلاک کرنے اور انہیں نجات دینے کا ۔

(ف18)

یعنی ایمانداروں کو جنہوں نے انبیاء کی تصدیق کی ۔

(ف19)

جو انبیاء کی تکذیب کرتے تھے ۔

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠(۱۰)

بےشک ہم نے تمہاری طرف (ف۲۰) ایک کتاب اُتاری جس میں تمہاری ناموری ہے (ف۲۱) تو کیا تمہیں عقل نہیں(ف۲۲)

(ف20)

اے گروہِ قریش ۔

(ف21)

اگر تم اس پر عمل کرو یا یہ معنٰی ہیں کہ وہ کتاب تمہاری زبان میں ہے یا یہ کہ اس میں تمہارے لئے نصیحت ہے یا یہ کہ اس میں تمہارے دینی اور دنیوی امور اور حوائج کا بیان ہے ۔

(ف22)

کہ ایمان لا کر اس عزّت و کرامت اور سعادت کو حاصل کرو ۔