حدیث نمبر 661

روایت ہے حضرت براء سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقرعید کے دن ہمیں خطبہ سنایا تو فرمایا کہ آج اس دن میں جس چیز سے ہم شروع کریں گے وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں پھر لوٹیں تو قربانی کریں ۱؎ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا،اور جس نے ہماری نماز سے پہلے ذبح کرلیا وہ گوشت کی بکری ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے ذبح کرلیا وہ قربانی نہیں ۲؎ (مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یعنی بقرعید کے دن مقصودی عبادتیں دو ہیں:نماز اور قربانی،جن میں نماز پہلے ہے اور قربانی بعد میں،لہذا حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس دن غسل بھی نہ کرے۔

۲؎ علماءفرماتے ہیں کہ شہر جہاں نماز بقرعید ہوتی ہو وہاں نماز سے پہلے قربانی جائزنہیں،گاؤں جہاں نماز بقرعید نہیں ہوسکتی وہاں پو پھٹتے ہی قربانی جائز ہے اور قربانی کرنے والے کا نمازعید پڑھنا ضروری نہیں بلکہ شہرمیں کسی جگہ نماز ہوجانا کافی ہے اسی لیے سرکار نے نُصَلِّیْ فرمایا یُصَلِّیْ غائب کے صیغہ سے نہ فرمایا،لہذا اگرکہیں اول وقت نما زعید ہوگئی اس کے بعد ہم نے قربانی کی پھرعید پڑھنے عیدگاہ گئے توجائز ہے،یہ تمام مسائل اس حدیث سے لیے گئے،یہ حدیث امام اعظم کی قوی دلیل ہےکہ نماز سے پہلے قربانی ہوتی ہی نہیں،امام شافعی کے وہاں ہوجاتی ہےمگربہتر نہیں۔