امام ابو نعیم فضل بن دکین کا حافظہ چیک کرنے کے چکر میں امام ابن معین لات کھا بیٹھے

تحریر : اسد الطحاوی الحنفی

امام ذھبیؒ سیر اعلام النبلاء میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں :

أحمد بن منصور الرمادي، يقول: خرجت مع أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين إلى عبد الرزاق، خادما لهما، فلما عدنا إلى الكوفة، قال يحيى بن معين لأحمد بن حنبل: أريد أختبر أبا نعيم، فقال له أحمد بن حنبل: لا تريد، الرجل ثقة، فقال يحيى بن معين: لا بد لي، فأخذ ورقة، فكتب فيها ثلاثين حديثا من حديث أبي نعيم، وجعل على رأس كل عشرة منها حديثا ليس من حديثه، ثم جاءوا إلى أبي نعيم، فدقوا عليه الباب، فخرج، فجلس على دكان طين حذاء بابه، وأخذ أحمد بن حنبل فأجلسه عن يمينه، وأخذ يحيى بن معين فأجلسه عن يساره، ثم جلست أسفل الدكان، فأخرج يحيى بن معين الطبق، فقرأ عليه عشرة أحاديث، وأبو نعيم ساكت، ثم قرأ الحادي عشر، فقال له أبو نعيم: ليس من حديثي اضرب عليه، ثم قرأ العشر الثاني، وأبو نعيم ساكت، فقرأ الحديث الثاني، فقال أبو نعيم: ليس من حديثي، فاضرب عليه، ثم قرأ العشر الثالث، وقرأ الحديث الثالث، فتغير أبو نعيم، وانقلبت عيناه، ثم أقبل على يحيى بن معين، فقال له: أما هذا، وذراع أحمد في يده، فأورع من أن يعمل مثل هذا، وأما هذا يريدني، فأقل من أن يفعل مثل هذا، ولكن هذا من فعلك يا فاعل، ثم أخرج رجله فرفس يحيى بن معين، فرمى به من الدكان، وقام فدخل داره، فقال أحمد ليحيى: ألم أمنعك من الرجل، وأقل لك: إنه ثبت، قال: والله لرفسته إلي أحب إلي من سفري.

امام احمد بن منصور رمادی کہتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل کی خدمت گزاری میں میں امام عبد الرزاق صنعانی کے پاس پہنچے واپسی پر جب ہم کوفہ کے قریب پہنچے تو امام یحییٰ بن معین نے امام احمد بن حنبل سے کہا :

” میں ابو نعیم فضل بن دکین کی جانچ پڑتال کرنا چاہتا ہوں”

تو امام احمد نے کہا اسے ثقہ ہی پاو گے

تو امام یحییٰ بن معین نے کہا ” میں تو ضرور اب انکو ازماوگا”

(نوٹ: امام ابن معین اور امام احمد کی لنگوٹیا یاری تھی تو ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد پکڑ لیتے تھے شغل کے لیے )

چناچہ انہوں (ابن معین) نے ایک صفحہ لیا اور اس پر امام ابو نعیم کے مجمعہ احادیث میں سے ۳۰ روایات لکھیں اور ہر ۱۰ احادیث کے بعد ایک ایسی حدیث بھی لکھ دی جو انکی احادیث میں سے نہیں تھی ۔ پھر انکی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ (ابو نعیم) باہر تشریف لائے اپنے جبوترے پر بیٹھ گئے

امام ابن معین نے صفحہ نکالا اور ۱۰ احادیث انکے سامنے بیان کر کے گیارھویں حدیث بیان کی تو انہوں ( ابو نعیم) نے فرمایا یہ میری حدیث نہیں ہے اسے نکال دو

پھر اگلی ۱۰ احادیث بیان کی تو امام ابو نعیم خاموش رہے جب گیارھویں حدیث بیان کی تو پھر ابو نعیم نے کہا یہ حدیث میری نہیں ہے اسے نکال دو

پھر آخری ۱۰ احادیث پڑھ کر گیارھویں حدیث بھی پڑھی تو ابو نعیم غصہ ہو گئے (وہ ابن معین کی نیت جان چکے تھے )

اور امام احمد بن حنبل کا ہاتھ پکڑ لیا امام ابو نعیم نے اور امام ابن معین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا :

یہ ابن حنبل ایسا کرنے سے بہت زیادہ محتاط ہے اور پرہیزگار بھی (کہ ہم کو جانچے) اور احمد بن منصور یں ایسا کرنے کی صاحیت نہیں (کیونکہ وہ تم جیسا حافظ الحدیث نہیں )

تو یہ کام (یعنی یہ منصوبہ ) تمہارا ہی ہے

:) :)

پھر ابو نعیم گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنا پاوں امام یحییٰ بن معین کے سینے پر مارا جس سے وہ گر پڑے

امام احمد بن حنبل نے امام یحییٰ بن معین سے کہا

”میں نہ کہتا تھا کہ یہ بہت ثقہ اور قوی حافظہ کے مالک ہیں

امام یحییٰ بن معین (نے مٹی جھاڑتے ہوئے) فرمایا

اللہ کی سم انکا مجھے لات مارنا مجھے اپنے سفر سے زیادہ محبوب ہے

(سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۰ ، ص ۱۴۸)

اس واقعہ کو امام خطیب نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے جسکی سند حسن ہے

قرأت على علي بن أبي علي البصري، عن علي بن الحسن الجراحي، قال: حدثنا أحمد بن محمد بن الجراح أبو عبد الله، قال: سمعت أحمد بن منصور الرمادي، الخ۔۔۔۔

(تاریخ بغداد ، جلد ۱۴ ، ص ۲۰۷)

اس واقعہ سے درجہ ذیل نکات ثابت ہوتے ہیں

۱۔ متقدمین میں امام یحییٰ بن معین متعنت و متشدد اس وجہ سے تھے کہ جب تک وہ خود کسی راوی سے مل کر اسکا حال نہ جان لیتے اس وقت تک وہ کسی کی گواہی نہیں مانتے تھے جیسا کہ ابن حنبل پر بھی یقین نہیں کیا

۲۔ متقدمین میں رجال کے حافظہ کو پرکھنے کا ایک یہ زریعہ بھی ہوتا تھا کہ اسکی مجلس میں بیٹھ کر اسکی روایت سن کر پھر اسی پر دہرائی جائے اور اس میں احادیث مکس کر دی جائے اگر تو شیخ اپنی روایت کی پہچان رکھتا ہوگا تو حافظہ ٹھیک ورنہ ضعف کی نشانی ہے

۳۔ امام احمد بن حنبل امام ابو نعیم کی علمی جلالت سے پہلے ہی واقف تھے لیکن انکے دوست نے انکی بات نہ مانی اور لات کھانی پڑی

۴۔ امام یحییٰ بن معین جنکا سکہ ہر طرف پھیلا ہوا تھا لیکن اپنے شیخ ابو نعیم کی لات کھا کر بھی اس ادا کو اپنے سفر سے بھی زیادہ محبوب کیا یہ انکی عاجزی کی نشانی ہے

۵۔ اس سے معلوم ہوا کہ ناقدین اور حافظ الحدیث نے کتنی احتیاط سے قول رسولﷺ کی حفاظت کی

اور آخری نکتہ یہ ہے کہ : امام ابو نعیم (تسی چنگی نئ کتی ساڈے امام نال :)

دعاگو: اسد الطحاوی