بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

(ف1)

سورۂ مؤمنون مکیّہ ہے ، اس میں چھ ۶رکوع اور ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور ایک ہزار آٹھ سو چالیس ۱۸۴۰ کلمے اور چار ہزار آٹھ سو دو حرف ہیں ۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)

بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں (ف۲)

(ف2)

ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکِن ہوتے ہیں ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کے حرکات سے باز رہے ۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)

اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے (ف۳)

(ف3)

ہر لہو و باطل سے مُجتنِب رہتے ہیں ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)

اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں (ف۴)

(ف4)

یعنی اس کے پابند ہیں اور مداومت کرتے ہیں ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵)

اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں

اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶)

مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ اُن پر کوئی ملامت نہیں (ف۵)

(ف5)

اپنی بی بیوں اور باندیوں کے ساتھ جائز طریقے پر قربت کرنے میں ۔

فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷)

تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں(ف۶)

(ف6)

کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے ہیں ۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اللہ تعالٰی نے ایک اُمّت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)

اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں(ف۷)

(ف7)

خواہ وہ امانتیں اللہ کی ہوں یا خَلق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے ۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)

اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں (ف۸)

(ف8)

اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰)

یہی لوگ وارث ہیں

الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)

کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ(۱۲)

اور بےشک ہم نے آدمی کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا (ف۹)

(ف9)

مفسِّرین نے فرمایا کہ انسان سے مراد یہاں حضرت آدم ہیں ۔

ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪(۱۳)

پھر اُسے (ف۱۰) پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں (ف۱۱)

(ف10)

یعنی اس کی نسل کو ۔

(ف11)

یعنی رِحم میں ۔

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ(۱۴)

پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر اُن ہڈیوں پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اُٹھان دی (ف۱۲) تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا ہے

(ف12)

یعنی اس میں روح ڈالی ، اس بے جان کو جان دار کیا ، نُطق اور سمع اور بصر عنایت کی ۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَؕ(۱۵)

پھر اُس کے بعد تم ضرور (ف۱۳) مرنے والے ہو

(ف13)

اپنی عمریں پور ی ہونے پر ۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ(۱۶)

پھر تم سب قیامت کے دن (ف۱۴) اُٹھائے جاؤ گے

(ف14)

حساب و جزا کے لئے ۔

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىٕقَ ﳓ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ(۱۷)

اور بےشک ہم نے تمہارے اوپر سات راہیں بنائیں (ف۱۵) اور ہم خلق سے بے خبر نہیں (ف۱۶)

(ف15)

ان سے مراد سات آسمان ہیں جو ملائکہ کے چڑھنے اترنے کے رستے ہیں ۔

(ف16)

سب کے اعمال ، اقوال ، ضمائر کو جانتے ہیں کوئی چیز ہم سے چھپی نہیں ۔

وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ ﳓ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ(۱۸)

اور ہم نے آسمان سے پانی اُتارا (ف۱۷) ایک اندازہ پر (ف۱۸) پھر اُسے زمین میں ٹھہرایا اور بےشک ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں (ف۱۹)

(ف17)

یعنی مِینہ برسایا ۔

(ف18)

جتنا ہمارے علم و حکمت میں خَلق کی حاجتوں کے لئے چاہیٔے ۔

(ف19)

جیسا اپنی قدرت سے نازِل فرمایا ایسا ہی اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کو زائل کر دیں تو بندوں کو چاہیے کہ اس نعمت کی شکر گزاری سے حفاظت کریں ۔

فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍۘ-لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ(۱۹)

تو اُس سے ہم نے تمہارے لئے باغ پیدا کیے کھجوروں اور انگوروں کے تمہارے لیے اُن میں بہت سے میوے ہیں (ف۲۰) اور اُن میں سے کھاتے ہو(ف۲۱)

(ف20)

طرح طرح کے ۔

(ف21)

جاڑے اور گرمی وغیرہ موسموں میں اور عیش کرتے ہو ۔

وَ شَجَرَةً تَخْرُ جُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ(۲۰)

اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طور سینا سے نکلتا ہے(ف۲۲) لے کر اُگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لیے سالن (ف۲۳)

(ف22)

اس درخت سے مراد زیتون ہے ۔

(ف23)

یہ اس میں عجیب صفت ہے کہ وہ تیل بھی ہے کہ منافع اور فوائد تیل کے اس سے حاصل کئے جاتے ہیں ، جلایا بھی جاتا ہے ، دوا کے طریقہ پر بھی کام میں لایا جاتا ہے اور سالن کا بھی کام دیتا ہے کہ تنہا اس سے روٹی کھائی جا سکتی ہے ۔

وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةًؕ-نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ(۲۱)

اور بےشک تمہارے لیے چوپاؤں میں سمجھنے کا مقام ہے ہم تمہیں پلاتے ہیں اس میں سے جو اُن کے پیٹ میں ہے (ف۲۴) اور تمہارے لیے ان میں بہت فائدے ہیں (ف۲۵) اور ان سے تمہاری خوراک ہے (ف۲۶)

(ف24)

یعنی دودھ خوشگوار موافقِ طبع جو لطیف غذا ہوتا ہے ۔

(ف25)

کہ ان کے بال ، کھال ، اُون وغیرہ سے کام لیتے ہو ۔

(ف26)

کہ انہیں ذبح کر کے کھا لیتے ہو ۔

وَ عَلَیْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ۠(۲۲)

اور ان پر (ف۲۷) اور کشتی پر (ف۲۸) سوار کیے جاتے ہو

(ف27)

خشکی میں ۔

(ف28)

دریاؤں میں ۔