مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

قیادت کے لوازمات وشرائط

قیادت کے لئے متعدد اوصاف لازم ہیں۔ان میں اہم ترین علم,ہمت اور تدبیر ہے۔

1-دنیا کی حکومتوں کے پاس جاسوسی نظام ہوتا ہے,جس کے ذریعہ وہ اپنے موافقین و مخالفین کے خفیہ راز پر مطلع ہوتی ہیں اور ان معلومات کے مطابق پلاننگ تیار کرتی ہیں۔جنگوں میں بھی جاسوسی نظام ہوتا تھا اور آج بھی ہے۔اسی کے مطابق لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔

2-قائد کا جرأت مند ہونا بھی لازم ہے۔بزدل قائد خود بھی شکست کھا جائے گا اور اپنی قوم کو بھی رسوا کرے گا۔

3-تدبیر کے بغیر کامیابی مخدوش ہے۔دشمن کی چالوں کو تدبیر کے ذریعہ ناکام کیا جاتا ہے۔

حالیہ کئی سالوں سے دنیا بھر میں سوچی سمجھی سازش کے تحت پیغمبر اسلام حضور اقدس علیہ التحیۃ والثنا کی بے ادبی و گستاخی کی جا رہی ہے۔

بھارت کے حالات بھی سب کی نظروں کے سامنے ہیں۔گزشتہ سال بنگلور میں نوین نامی کسی بدبخت وشقی نے فیس بک پر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی توہین کی۔اس کے رد عمل کے طور پر11:اگست 2020 کی شام کو ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور لوگ توہین رسول کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔اسی درمیان بعض لوگوں نے کچھ توڑ پھوڑ کی۔پولیس نے فائرنگ کر دیا۔دو یا تین مسلمان شہید ہو گئے۔ایک سو دس مسلمانوں کو حراست میں لے لیا گیا اور جس مجرم نے گستاخی کی تھی,وہ آزاد گھوم رہا تھا۔

یعنی ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی توہین بھی کی جائے اور گردنیں بھی ہماری ہی کٹیں اور گستاخ و مجرم کھلے سانڈ کی طرح ڈکارتا پھرے۔عجب بات ہے۔

مسجد بھی ہماری توڑی جائے اور قتل و غارت گری بھی ہماری ہی ہو اور مجرم آوارہ کتوں کی طرح گشت لگاتا رہے۔

ہمارا ہی گھر چھین لیا جائے اور کشت و خون بھی ہمارا ہی ہو اور مجرم بے فکر ہو کر یہاں وہاں گھومتا رہے۔یہ بڑا عجب ہے۔

اگر کوئی کہے کہ ہم گردن کٹوانے تیار ہیں تو در اصل ایسے نفوس قدسیہ عشق مصطفوی میں مغلوب الحال ہو چکے ہیں۔ان کی ہمت و جرآت پر لاکھوں سلام۔کسی نے تو خموشی توڑی۔

اب اصحاب تدبیر آگے بڑھیں اور بتائیں کہ ایسی غلط حرکتوں کو ختم کیسے کیا جائے۔ مجرموں کو ایسی سزا دلوائی جائے کہ دوبارہ کوئی گستاخی و بے ادبی کی جرأت نہ کر سکے۔

اگر ہمارے رسول علیہ التحیۃ والثنا کی بے ادبی بھی ہو اور گردنیں بھی ہماری ہی کٹیں,تب تو دشمنوں کو بہت خوشی ہو گی کہ ہم مسلمانوں کے پیغمبر پر حملے بھی کرتے ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوتا,بلکہ مسلمان خوشی سے اپنی گردنیں کٹواتے ہیں,پھر مخالفین روزانہ بے ادبی کریں گے,کیوں کہ ان کو کسی طرح کی سزا ہی نہیں ہوتی۔

مجرم کو سزا دلوانے کی بجائے اپنی گردنیں کٹوانے کا نظریہ عقل و نقل کے خلاف ہے اور دنیاوی قوانین کے بھی خلاف ہے۔مجرم کو سزا دلوائی جائے اور اپنی جانوں کا تحفظ کیا جائے۔

اپنی گردنیں کٹوانے سے جرم بڑھے گا اور مجرم کو سزا دلوانے سے جرم کا خاتمہ ہو گا۔جوش میں ہوش کھونا بیکار ہے۔

جمہوری ممالک میں جرم کی سزا کورٹ سے دلوائی جاتی ہے۔

سابق پرائم منسٹر اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو کورٹ نے سزا کا حکم دیا۔ملک کا وزیر اعظم بھی خود سے کسی کو سزا نہیں دے سکتا۔اسے بھی مجرم کو کورٹ میں پیش کرنا ہو گا اور جج کے سامنے مدعی بن کر حاضر ہونا پڑے گا,یا پھر پرائم منسٹر کا وکیل حاضر ہو گا۔

جب بھی کوئی جرم سامنے آئے تو مضبوطی کے ساتھ کورٹ میں کیس لڑیں۔پبلک کانفرنس کریں اور عوام و خواص کے جذبات کو بیدار رکھیں۔

اغیار اس لئے ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ وہ مضبوط ہو چکے ہیں۔حکومت کے محکمہ جات میں ان کے پروردہ لوگ مسند نشیں ہیں۔

حکمت و تدبیر سے کام لیں۔اپنے لوگوں کو بھی حکومت کے اہم شعبہ جات میں داخل و شامل کرنے کی کوشش کریں۔

گزشتہ سال بنگلور میں گستاخی کی گئی تو چند مسلمان شہید ہوگئے اور اسی سال جمشید پور میں بھی پتل سنگھ نامی ایک بدنصیب عورت نے گستاخی کی تھی۔تنظیم اہل سنت کے ذمہ داروں نے کئی ماہ تک کورٹ میں کاروائی کی۔پولیس کے اعلی افسران سے ملاقات کی۔انجام کار اس بدطینت کو جیل جانا پڑا۔

کورٹ کی کاروائی نہ کریں۔محض بیان جاری کریں اوراحتجاج کریں تو مجرم کو سزا ہونا مشکل ہے۔

حالیہ چند سالوں سے یہ مشاہدہ ہو ریا ہے کہ جب مسلمان احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو پولیس کچھ بہانہ کر کے فائرنگ کرتی ہے اور چند لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔

ممکن ہے کہ مخالفین کے اشارہ پر کچھ شرپسند عناصر احتجاج میں شریک ہو کر توڑ پھوڑ کرتے ہوں اور پھر پولیس کو کاروائی کا موقع مل جاتا ہو۔

کسان آندولن کئی ماہ سے جاری ہے۔آج تک پولیس فائرنگ سے کسی کی موت کی خبر نہیں ملی۔

واضح رہے کہ کبھی گردن کٹوانا شہادت ہے اور کبھی گردن کٹوانا خود کشی ہے۔اس کی تفصیل جان کر ہی کوئی نعرہ لگائیں۔

قائد کے لئے علم و معرفت,جرأت وہمت اور تدبیر و حکمت ضروری ہے۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:18:اپریل 2021