بغیر تفقہ و سمجھ بوجھ کے کثرت حدیث بیان کرنے پر متقدمین محدثین و فقھا کی مذمت

(بقلم : اسد الطحاوی الحنفی )

فقھاء کرام جو محدث ہونے کے ساتھ تفقہ و معرفت پر گرفت رکھتے تھے یہ لوگ عامی اصحاب الحدث جو غیر فقیہ ہوتے اور فقط روایت یاد کرنا اور بیان کرنا انکا مشغلہ ہوتا تھا یا خود کو بڑا حافظ مشہور کرنا انکی نیت ہوتی تھی

اس فعل کی مذمت کی ہے مجتہدین و فقھاء نے

جیسا کہ امام ابن عبدالبر ایک باب قائم کرتے ہیں :

باب ذكر من ذم الإكثار من الحديث دون التفهم له والتفقه فيه

کہ باب: جس میں بغیر تفقہ و سمجھ بوجھ کے کثرت حدیث (بیان کرنے ) کی مذمت

پھر امام ابن عبدالبر امام ابن شبرمہ کا ایک قو ل نقل کرتے ہیں :

خالد بن عبد الله يقول سمعت ابن شبرمة يقول: «أقلل الرواية تفقه»

روایت حدیث میں کمی کروگے تو تفقہ حاصل ہوگا

حماد بن زيد، قال: قال لي سفيان، «يا أبا إسماعيل، لو كان هذا الحديث خيرا لنقص كما ينقص الخير»

امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں :

حدیث (کثرت سے روایت ) کرنے میں بھلائی ہوتی تو اتنی بہت نہ ہو جاتی کیونکہ بھلائی کم ہی ہوا کرتی ہے

ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

قال أبو عمر: «أما طلب الحديث على ما يطلبه كثير من أهل عصرنا اليوم دون تفقه فيه ولا تدبر لمعانيه فمكروه عند جماعة أهل العلم»

ابن عبدالبر فرماتے ہیں : ہمارے زمانے میں اکثر لوگ علم حدث حاصل تو کرتے ہیں مگر تفقہ و تدبر سے کام نہیں رکھتے

اور یہ علماء کے نزدیک مکروہ و مذموم فعل ہے

اور متقدمین میں فقھا کثرت حدیث کو بغیر تفقہ و سمجھ بوجھ کے بس رٹ کر بیان کرنے کو کتنا برا فعل سمجھتے تھے اسکا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں جو امام ابن عبدالبر نے امام یحییٰ بن معین کےطریق سے امام مغیرہ کا قول نقل کیا ہے

يحيى بن معين يقول: سمعت أبا بكر بن عياش يقول: سمعت مغيرة الضبي يقول: «والله لأنا أشد خوفا منهم مني من الفساق» يعني أصحاب الحديث

امام مغیرہ الضبی فرماتے تھے :

اللہ کی قسم میں تم میں سے زیادہ ڈرتاہوں ان اصحاب الحدیث سے کہ جن میں فساق ہے

یعنی اصحاب الحدیث کا بس بغیر کی تدبر کے کثر ت حدیث کو بیان کرنے کو امام مغیرہ الضبی نے فسق سے تعبیر کیا ہے

امام یحییٰ بن معین سے یہ قول امام الدوری بھی بیان کرتے ہیں :

3064 – سَمِعت يحيى يَقُول حَدثنَا أَبُو بكر بن عَيَّاش قَالَ سَمِعت مُغيرَة يَقُول وَالله لأَنا مِنْكُم أخوف مني من الْفُسَّاق أَصْحَاب الحَدِيث

(التاریخ ابن معین )

امام یحییٰ بن سعید القطان سے امام شعبہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :

يحيى بن سعيد القطان قال: سمعت شعبة يقول: «إن هذا الحديث يصدكم عن ذكر الله وعن الصلاة فهل أنتم منتهون

امام یحییٰ بن سعید القطان امام شعبہ کا یہ قول بیان کرتے تھے :

یہ (کثرت)حدیث تمہیں ذکر الہیٰ اور نماز سے باز رکھتی ہے ۔ کیا تم اس سے باز نہیں آو گے ؟

یہ سن کر بعض اہل علم نے کہا : اگر حدیث نہ ہوتی تو کیا شعبہ ہوتے ؟

اسکو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

قال أبو عمر: إنما عابوا الإكثار خوفا من أن يرتفع التدبر والتفهم، ألا ترى ما حكاه

امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں : کثرت حدیث کی علماء نے اسی خیال سے مذمت کی ہے کہ آدمی غور فکر فہم و تدبر سے ہٹ کر بس روایت کرنے کے فعل میں ہی نہ مشغول ہو جائے

ان اقوالات کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر اس چیز کو بیان کرتے ہیں کہ حدیث کو یاد کر لینا ہی فقط اتنی بڑی خیر نہیں بلکہ اس حدیث کو یاد رکھنے کے ساتھ اس پر غور فکر بھی کیا جائے کہ اس ایک ہی روایت سے کتنے مسائل کا استنباد ہو سکتا ہے

اسکو ثابت کرتے ہوئے امام ابن عبدالبر پھر امام ابی یوسف اور امام ابو حنیفہ کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

1970 – بشر بن الوليد، عن أبي يوسف قال: سألني الأعمش عن مسألة، وأنا وهو لا غير، فأجبته، فقال لي: من أين قلت هذا يا يعقوب؟ فقلت: بالحديث الذي حدثتني أنت، ثم حدثته، فقال لي: «يا يعقوب إني لأحفظ هذا الحديث من قبل أن يجتمع أبواك ما عرفت تأويله إلا الآن» .

امام ابی یوسف فرماتے ہیں کہ امام الاعمش نے مجھ سے ایک مسلہ تنہائی میں پوچھا میں نے اسکا جواب دیا تو امام اعمش خوش ہو کر پوچھا کہ یہ کیسے جواب دیا ؟

میں نے کہا اس روایت سے جو آپ نے مجھے بیان کی تھی تو امام الاعمش فرماتے ہیں اے یعقوب!

واللہ میں اس حدیث کو تب سے جانتا ہوں جب تمہارے والدین کی شادی بھی نہ ہوئی تھی لیکن اس حدیث کا معنی آج (تمہارے وسیلے) سے سمجھ آیا

1971 – وروي نحو هذا أنه جرى بين الأعمش وأبي يوسف وأبي حنيفة فكان من قول الأعمش: «أنتم الأطباء ونحن الصيادلة» ،

پھر امام الاعمش امام ابو حنیفہ (جو کہ علم حدیث میں امام الاعمش کے تلامذہ میں سے تھے) کو فرمایا کرتے تھے

کہ بیشک آپ ابو حنیفہ طبیب ہیں اور ہم دواساز ہیں

یعنی ہم تو حدیث حفظ کر لیتے ہیں لیکن اس حدیث سے ثابت کیا ہوتا ہے یہ علم و فضل ابو حنیفہ میں ہے

(کتاب جامع بیان العلم ابن عبد البر )

تحریر: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی