امام شافعی کا امام ابو حنیفہ کی قبر سے تبرک لینا اور البانی صاحب کے اعتراض کا تحقیقی جائزہ

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

امام صیمری اور امام خطیب باسند روایت بیان کرتے ہیں :

خبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال ثنا علي بن ميمون قال سمعت الشافعي يقول إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء الى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت الله الحاجة فما تبعد عني حتى تقضى

علی بن میمون کہتےہیں میں نے امام شافعی سے سنا :

کہ جب تک میں بغداد میں موجود رہا تو فرماتے ہیں میں امام ابو حنیفہ سے برکت لیتا ہوں اور انکی قبر مبارک کی زیارت کرتا ہوں جب کوئی مشکل حاجت پیش آتی تو دو رکعت نماز پڑھ کر انکی قر کے پاس جاتا ہوں

(اخبار ابی حنیفہ للصیمری ، و تاریخ بغداد)

البانی صاحب سلسلہ ضعیفہ میں امام کوثری پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وأما قول الكوثري في مقالاته (ص 381) : وتوسل الإمام الشافعي بأبي حنيفة مذكور في أو ائل ” تاريخ الخطيب ” بسند صحيح فمن مبالغاته بل مغالطاته فإنه يشير بذلك إلى ما أخرجه الخطيب (1 / 123) من

طريق عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال: نبأنا علي بن ميمون قال: سمعت الشافعي يقول: إنى لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم – يعني زائرا – فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره، وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى.

فهذه رواية ضعيفة بل باطلة فإن عمر بن إسحاق بن إبراهيم غير معروف وليس له ذكر في شيء من كتب الرجال، ويحتمل أن يكون هو عمرو – بفتح العين – بن إسحاق بن إبراهيم بن حميد بن السكن أبو محمد التونسى وقد ترجمه الخطيب (12 / 226) وذكر أنه بخاري قدم بغداد حاجا سنة (341) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا فهو مجهول الحال، ويبعد أن يكون هو هذا إذ أن وفاة شيخه علي بن ميمون سنة (247) على أكثر الأقوال، فبين وفاتيهما نحومائة سنة فيبعد أن يكون قد أدركه.

وعلى كل حال فهي رواية ضعيفة لا يقوم على صحتها دليل

البانی صاحب نے امام شافعی کے امام ابوحنیفہ سے قبر سے توسل کے حوالے روایت کی امام کوثری کے حوالے سے تصحیح پر کہتے ہیں کہ اس کو صحیح سند قرار دیکر علامہ کوثری نے مبالغہ کیا ہے اور انکو مغالطہ ہوا ہے یہ تاریخ بغداد میں بھی ہے

لیکن یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع ہے عمر بن اسحاق بن ابراہیم یہ غیر معروف ہے اور کتب رجال میں اسکے بارے کچھ نہیں ملتا ۔

اور احتمال یہ ہے کہ یہ عمرو ہے یعنی عمروبن اسحاق بن ابراہیم بن حمید بن السکن اور امام خطیب نے انکا ترجمہ بیان کیا ہے تاریخ میں اور ذکر کیا کہ یہ یہ بخاری میں ۳۴۱ھ میں آیا اور نہ ہی جرح بیان کی ہے اور نہ ہی تعدیل جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے یہ مجہول الھال ہے ۔ اور یہ بعید ہے کہ

علی بن میمون جو کہ اسکا شیخ ہے اسکی وفات ۲۴۷ھ ہے جیسا کہ اکثر اقوال میں آیا ہے تو اس روایت کا سارا حال یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اور صحیح کی ہونے کی دلیل نہیں

(سلسلہ الضعیفہ البانی )

اہم نکتہ!!!

یعنی البانی صاحب نے امام کوثری کی تصحیح کو غلط ثابت کیا اور یہ کہا کہ سند میں عمر بن اسحاق ابن ابراہیم غیر معروف ہے اور احتمال ہے (کیونکہ تاریخ بغداد کے نسخاجات میں بہت غلطیاں تھیں اور مناقب صیمری کے نسخے بھی اغلاط کافی زیادہ تھیں ) کہ یہ راوی عمرو بن اسحاق بن ابراہیم السکنی ہے جو کہ بغداد میں آیا تھا

اور امام خطیب لکھتے ہیں یہ 341ھ میں آیا تھا

امام خطیب کی اس بات کو دلیل بنا کر البانی صاحب کہتے ہیں کہ لیکن اسکا شیخ علی بن میمون جو کہ 247ھ میں ہوئی ہے تو بیچ میں وقفہ ہے کافی زیادہ تو بقول البانی صاحب عمرو بن اسحاق اور علی بن میمون کی وفات کے بیچ کم از کم 100 سال کا وقفہ بنتا ہے اور عمرو بن اسحاق ہے بھی مجہول الحال ۔۔۔

چونکہ البانی صاحب اسکی تاریخ وفات اور توثیق پر مطلع نہیں تو انکا یہاں اشکال وارد تھا معلوم نہیں کہ انکے بیچ وقفہ ۱۰۰سال سے کہیں زیادہ ہو وفات کا

البانی صاحب نے عمرو بن اسحاق کو مجہول الحال قرار دیا ہے انکی خطاء ہے کیونکہ وہ صدوق راوی ہے

عمرو بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق :

جیسا کہ امام سمعانیؒ انکے بارے فرماتے ہیں :

وهو أبو الحسن عمرو بن إسحاق بن إبراهيم بن أحمد بن السكن الأسدي السكنى البخاري، محدث عصره وشيخ العرب ببلده ومن أكثر الناس تفقدا لأهل العلم، سمع ببخارى أبا على صالح بن محمد البغدادي جزرة وأبا هارون سهل بن شاذويه الحافظ، وبمرو أبا يزيد محمد بن يحيى بن خالد الميرماهانى وأبا عبد الرحمن عبد الله بن محمود السعدي، وببغداد أبا بكر عبد الله بن أبى داود السجستاني وأبا القاسم عبد الله بن محمد البغوي، وبالكوفة عبد الله ابن زيدان البجلي وأقرانهم،

سمع منه الحاكم أبو عبد الله الحافظ وذكره في تاريخ نيسابور وقال: ورد نيسابور سنة إحدى وأربعين وثلاثمائة وحججت أنا في تلك السنة فرأيت له في الطريق مروءة ظاهرة وقبولا تاما في العلم والأخذ عنه، وتوفى سنة أربع وأربعين وثلاثمائة

یہ او حسن عمر بن اسحاق بن ابراہیم السکن الاسدی السکنی البخاری ہیں یہ محدث العصر تھے اور شیخ العرب تھے اور بہت سے لوگوں نے ان سے علم لیا ، اور بخاری کے مقام پر انہوں نے علی بن صالح ، اور جزرہ میں ابو ھارون اور یزید بن یحیییٰ اور عبد الرحمن سے سنا اور بغداد میں ابو بکر عبداللہ بن داود سجستانی اور کوفہ کے مقام پر عبداللہ بن زیدان الجبلی وغیرہ سے سنا ہے

اور ان سے سننے والوں میں امام ابو عبداللہ الحاکم وغیرہ ہیں انہوں نے اپنی تاریخ نیشاپور میں 341ھ کے حالات میں وارد کرتے ہوئے کہا:

کہ اسی سال میں انکے ساتھ حج کا سفر کیاتو اسکو ظاھرا اخلاق و انسانیت والا اور علم میں مقبول اور استفادہ کے قابل پایا اور اسکی وفات ہوئی ہے سنہ 344 بجری میں

اور یہ 344ھ میں فوت ہوئے

(الانساب للسمعانی جلد ۷، ص ۱۶۴)

تو جنکے بارے امام حاکم یہ کہیں کہ

اور امام حاکم نے انکو اپنی مستدرک میں بھی لائے ہیں اور ان سے مروی روایات کی تصحیح کی ہے اور امام ذھبی نے بھی موافقت کی ہے

  • حدثنا عمرو بن إسحاق بن إبراهيم السكني البخاري، بنيسابور، ثنا أبو علي صالح بن محمد بن حبيب الحافظ، الخ۔۔۔

    هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه “

    [التعليق – من تلخيص الذهبي] 3172 – على شرط البخاري ومسلم

    (المستدرک للحاکم وتعلیق الذھبی)

تو اتنی تفصیل کے بعد تو یہ راوی صدوق درجے سے ہر زگر نیچے نہیں گرتا جتنی مداح و علم میں پختگی کا ذکر امام سمعانی اور امام حاکم نے کیا ہے

نوٹ : امام حاکم راویان کی توثیق میں متساہل نہیں البتہ روایات کی تصحیح میں متساہل ہیں اور انکا یہ تساہل فقط مستدرک تک محدود ہے

اب چونکہ امام حاکم انکے تلامذہ میں سے تھے اور انہوں نے تصریح یہ بھی کر دی کہ انکی وفات 344ھ میں ہوئی

اور انکے شیخ علی بن میمون جنکی وفات پر امام ابن حجر نے اکثر کا قول 247ھ بیان کیا ہے

  • “س ق علي بن ميمون

    قال أبو حاتم ثقة وقال النسائي لا بأس به وذكره بن حبان في الثقات وقال مات سنة 45 وقال أبو علي الحراني مات سنة ست وأربعين ومائتين وقال غيره مات سنة “47”

    (تہذیب التہذیب ابن حجر )

یعنی علی بن میمون 247ھ میں فوت ہوا اور اسکا شاگرد عمرو بن ابراہیم کی عمر اس وقت 5سال اگر رکھیں (نوٹ: محدثین کے نزدیک سماع کی عمر کم سے کم ۵ سال ہوتی ہے) تو عمرو بن اسحاق اور علی بن میمون کی وفات کے درمیان 97 سال کا فرق رہتا ہے یعنی عمرو کی عمر اگر 5 سال رکھیں تو عمرو کی عمر 102 سال بنتی ہے تو کیا 102 سال عمر رجال کی نہیں ہوتی کیا ؟ امام طبرانی 100 سال تک رہے ہیں اور دیگر بھی کئیوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں سماع تو پھر بھی ثابت ہوتا ہے

اور پھر علی بن میمون کے اور تلامذہ بھی موجود ہیں جنکی وفات 320ہجری اور اسکے اکے آس پاس ہوتی رہی ہے ۔

تو عمرو بن اسحاق جنکی وفات 344ھ میں ہوئی تو ان سے سماع کیسے ناممکنات میں آ سکتا ہے

جیسا کہ

علی بن میمون کا ایک شاگرد

الحسين بن محمد بن مودود، أبو عروبة بن أبي معشر الحراني السلمي الحافظ. [المتوفى: 318 هـ]

اور دوسرا شاگرد جسکی وفات درج ذیل ہے

الحسن بن أحمد بن إبراهيم بن فيل الأسدي، أبو طاهر البالسي [الوفاة: 320 هـ]

تو جو علت البانی صاحب نے راوی کا تعین کر کے کی (جیسا کہ انکے پاس نسخاجات تھے اور کلمی نسخوں میں راوی کے نام کی تصحیح کرنا آسان ہوتا ہے) اور اسی طبقے میں عمرو بن اسحاق ہی یہ راوی ہے جسکا تعین البانی صاحب نے کیا تھا

لیکن ہم نے انکے راوی کو مجہول ہونے کی علت کو رفع کر دیا ہے

اور

انکاسماع پر جو اعتراض کیا تھا اسکو بھی رفع کر دیا ہے کہ عمرو بن اسحاق کی عمر 102 سال رکھیں تو اصول حدیث کے مطابق سماع ثابت ہوتا ہے اور 102 سال عمر ہونا کوئی مشکل بات نہیں کافی رجال ایسے ہیں

اور اگر عمرو بن اسحاق کو 10 سال میں سماع مانیں 107 سال عمر بنتی ہے تو بھی مسلہ نہیں لیکن کم سے کم 102 سال میں سماع ثابت ہوتا ہے جب انہوں نے خود تصریح کر رکھی ہے ثنا علی بن میمون ۔۔۔۔۔

تو پس امام کوثری کا اس روایت کی تصحیح کرنا کوئی ایسی غلطی نہیں تھی جس پر البانی صاحب نے اس روایت کو ضعیف سے باطل بنادیاتھا نیز امام ابن حجر ہیثمی نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی