سلطان بایزید اور پڑوسی

ایک رات حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ ایک لمحہ بھی آنکھ نہ لگا سکے سوتے بھی تو کیسے رات بھر ساتھ والے مکان سے ایک بچے کی رونے کی مسلسل آواز آرہی تھی ایک تو رونا اور وہ بھی بچے کا رونا، رقیق القلب لوگوں کے لئے تو سوہا ن ِروح ہو تا ہے خدا خدا کرکے صبح ہوئی توسلطان با یزید بسطامی یہودی پڑوسی کے دروازے پر کھڑے دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے۔ اندر سے آواز آئی کہ گھر میں کو ئی مرد موجود نہیں سلطان نے اپنا تعارف کرا یا اور خیریت دریافت کی، یہودی کی بیوی نے بتایا کہ میرا شوہر کئی ماہ کے سفر پر گیا ہو ا ہے اس عرصے میں میرے یہاں ولادت ہوئی ہے رات بھر وہی بچہ روتا رہا۔ سلطان نے بچے کے رونے کی وجہ دریافت کی تو عورت نے بتایاکہ گھر میں اندھیرا رہتا ہے میںپردہ نشین عورت ہوں اور میرا حال یہ ہے کہ غریبی نے گھیر رکھا ہے۔ نہ کوئی تیل لانے والاہے نہ تیل منگانے کے لئے پیسے تھوڑا بہت پیسہ جو میرے شوہر نے جاتے وقت رکھ دیا تھا اسی پر گزاراہے۔

فجر کی اذان ہو چکی تھی، عورت کا جواب سن کر حضرت سلطان بایزید مسجد چلے گئے اس دن سے ایسا لگا جیسے کہ عورت کے گھر میں بہار آگئی ہو ضرورت کی ہر چیز سلطان با یزید کے گھر سے پہونچنے لگی، شام ہوتی تو اللہ کا وہ ولی جسے دنیا آج تک سلطان العارفین کے نام جانتی اور مانتی ہے ہاتھ میں تیل کی کپی لئے یہودی کے دروازے پر کھڑا رہتا کہ کہیں اس کا مکان تاریک نہ ہوجائے اور اس کا بچہ اندھیرے میں کہیں رونے نہ لگے۔ کئی مہینے یہ سلسلہ چلتا رہا حتّی کہ یہودی پڑوسی سفر سے واپس آگیا۔ وہ سوچتا آیا تھا کہ گھر میںتو بہت تکلیف ہوئی ہوگی،لیکن جب اس کی بیوی نے بتا یا کہ تکلیف اٹھانے کی نوبت نہ آئی اور سلطان اور ان کے گھر والے مسلسل اس کی اور اس کے بچے کی دیکھ بھال کرتے رہے تو یہودی بہت خوش ہوا،شکریہ ادا کرنے سلطان کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا ’’ میرے عزیز ! شکریہ کی ضرورت نہیں میں نے تو اپنا فرض ادا کیا اگر میں یہ نہ کرتا تو سخت گنہگا ر ہوتا کیونکہ ہمارے دین میں پڑوسی کے بڑے حقوق ہیں۔ یہودی نے سلطان بایزید کا ہاتھ تھام کر عرض کیا ’ ’ حضور ! مجھے بھی اسی دین کی چادر میں چھپالو اور اسی کا کلمہ پڑھادو جس کی غلامی کے سبب آج تم اس بلند مرتبہ پر فائز ہو۔

میرے پیارے آقا ﷺکے پیارے دیوانو!فروغِ اسلام میں مذکورہ کردار کا بے پناہ ہاتھ ہے۔ سلطان العارفین نے تو یہودی پڑوسی کے ساتھ یہ سلوک کئے لیکن ہم مسلمان پڑوسی بلکہ رشتہ دار پڑوسی کے ساتھ بھی ایسا نہیں کر تے۔ ایسے میں بتائو لوگ کہاں سے اسلام کی عظمت کوتسلیم کریں گے۔ آج بزرگوں کے کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے، ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی ضرورت ہے اور پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کی ضرورت ہے۔ سچ کہا ہے کہ کسی شاعر نے ؎

نہ کتابوں سے نہ کالج کے در سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

اللہ عزوجل ہم سب کو پڑوسیوں کیساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ

٭٭٭