نبی اکرمﷺ کی حضرت علی ؓ کو حضرت عائشہ کے ساتھ تنازعہ کے بارے اگاہی اور نصیحت!!

ازقلم : اسد الطحاوی الحنفی

امام طبرانی اپنی معجم میں ایک روایت بیان کرتے ہیں :

حدثنا زكريا بن يحيى الساجي، ثنا الحسن بن قزعة، ثنا الفضيل بن سليمان، عن محمد بن أبي يحيى الأسلمي، عن أبي أسماء، مولى آل جعفر، عن أبي رافع، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي رضي الله تعالى عنه: «سيكون بينك وبين عائشة رضي الله تعالى عنها أمر» قال: أنا يا رسول الله؟ قال: «نعم» قال: أنا من بين أصحابي؟ قال: «نعم» قال: فأنا أشقاهم؟ قال: «لا، ولكن إذا كان ذلك فارددها إلى مأمنها»

حضرت ابو رافع ؓ فرماتے ہیں : حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا :

آپ اور عائشہ کے درمیان کچھ معاملہ ہوگا ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا یا رسول اللہ! میرے ؟

آپﷺ نے فرمایا ہاں! حضرت علیؓ نے عرض کی : ” میں اپنے ساتھیوں کے درمیان سے ہوں ؟ ”

تو آپﷺ نے فرمایا ہاں! حضرت علی نے عرض کی : ” میں سب سے بڑا بدبخت ہوں گا؟”

آپﷺ نے فرمایا نہیں ! لیکن ایسا معاملہ ہو جائے تو عائشہ کو امن کی جگہ واپس بھیج دینا ۔

[المعجم الكبير برقم: 995]

نتیجہ!!

ایک تو اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت نبی اکرمﷺ نے جس طرح حضرت عائشہ کو اشارہ میں یہ کہا تھا کہ آپؓ کا حضرت علی سے کچھ معاملہ ہوگا ۔۔۔

اور حواب کے مقام پر کتے بھونکنے والی ایک روایت بیان کی جاتی ہے

جسکی سند منقطع ہے

کیونکہ کبیر تابعی قیس بن ابی حازم جنکی پیدائش نبی اکرمﷺ کے دور میں ہوئی تھی ۔ لیکن انہوں نے تصریح نہیں کہ اس مقام پر وہ تھے یا ان تک یہ بات کس زریعہ سے آئی ہے تو درایت کے اعتبار سے اس روایت میں انقطاع ہے

اگر کوئی کہے کہ قیس بن ابی حازم اور حضرت عائشہ کا زمانہ ایک ہے تو انقطاع نہیں ہو سکتا

تو

عرض ہے یہ بھی اصول حدیث سے جہالت کی ایک نشانی ہے کیونکہ خفی علت ہم زمان راویوں میں بھی پائی جا سکتی ہے

خاص کر جب راوی عن کے صیغہ کے بغیر بس ایسے ہی واقعہ بیان کرنا شروع کر دے جبکہ اس واقعہ میں ادراک کا ثبوت نہ ہو کہ بیان کرنے والے تک یہ بات کیسے پہنچی ؟ تو اس بنیاد پر روایت میں انقطاع ہوتا ہے

تو اس روایت کو جن محققین نے صحیح قرار دیا ہے یہ انکی خطاء ہے نیز متقدمین میں محدثین کی اس روایت پر جرح خاص ہے منکر کی ۔

نبی اکرمﷺ نے حضرت علیؓ سے ی فرمایا کہ آپؓ کا حضرت عائشہ سے معاملہ ہوگا اس بات کو سن کر حضرت علی کو اپنے ایمان کی فکر پڑ گئی کہ میں مومنین کی ماں کی مخالفت کرونگا ایسا کیا ہونا ہے مستقبل میں تو انہوں نے اس وجہ سے نبی اکرمﷺ سے اپنے بارے میں گواہی لی کہ میں اس وقت کیا بد نصیبوں میں سے ہونگا تو نبی اکرمﷺ نے اس کا انکار کیا

اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ایسا معاملہ ہو تو حضرت عائشہ کو محفوظ مقام میں واپس بھیج دینا !

اور حضرت عائشہ کو عزت و احترام سے واپس بھجوایا ۔ جبکہ اس میں یہ ثابت ہوا رہا ہے کہ حضرت علی نے با حفاظت انکو واپس بھجوا دیا جیسا کہ حکم رسولﷺ تھا انکو ۔۔۔۔۔

سند کی تحقیق:

۱۔ پہلا راوی : زكريّا بن يحيى بن عبد الرحمن أبو يحيى السّاجيّ البصْريّ الحافظ.

یہ مشہور ثقہ امام ہیں جیسا کہ امام ذھبی انکے بارے لکھتے ہیں :

وكان من الثّقات الأئمة.

[تاريخ الإسلام برقم : 325]

۲۔دوسرا راوی : الحسن بن قزعة بن عبيد مولى بني هاشم،

امام ذھبی انکی توثیق نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قال أبو حاتم: صدوق.

ووثقه ابن حبان.

[تاریخ الاسلام برقم:149]

۳۔تیسرا راوی : فضيل بن سُلَيْمان النميري

ان پر امام ابن معین کی جرح ہے لیکن امام ذھبی کہتے ہیں جماعت نے ان سے احتجاج کیا ہے

اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں ان سے احتجاج کیا ہے

قلت: قد احتجّ به الجماعة.

[تاریخ الاسلام برقم ؒ:289]

تو یہ صحیح مسلم کا راوی ہونے کی وجہ سے اور جمہور کی توثیق کی وجہ سے یہ راوی صدوق درجہ سے بالکل کم نہیں

جیسا کہ امام ذھبی انکی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وحديثه في الكتب الستة، وهو صدوق.

کہ اسکی احادیث کتب ستہ میں موجود ہے اور یہ صدوق درجہ کا راوی ہے

[میزان الاعتدال برقم : 6766]

۴۔چوتھا راوی : محمد بن أبي يحيى الأسلمي، المدني، واسم أبي يحيى: سمعان.

قال عبد الله بن أحمد: سألته (يعني أَباه) عن محمد بن أبي يحيى الأسلمي، فقال: ثقة.

وقال أبو داود: سمعت أحمد، قال: محمد بن أبي يحيى، ليس به بأس.

[«سؤالاته» (181) (3317)]

۵۔ پانچواں راوی : أبي أسماء، مولى آل جعفر

امام عجلی نے انکو ثقہ قرار دیا ہے

أبو أسماء مولى عبد الله بن جعفر مدني تابعي ثقة

[الثقات العجلی برقم : 2076]

امام ابن حبان نے انکو الثقات میں درج کیا ہے

أبو أسماء مولى عبد الله بن جعفر يروي عن على وعثمان روى عنه زيد بن الحباب

[الثقات ابن حبان برقم :6337]

امام مسلم کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی ؓ و حضرت عثمان کو دیکھا ہے

ابو أسماء مولى عبد الله بن جعفر رأى عثمان وعلياً روى عنه يعقوب بن خالد

[الكنى والأسماء مسلم بن حجاج ، برقم : 199]

اور امام مالک نے ان سے اپنی موطا میں روایت کیا ہے اس لیے اس راوی کی توثیق کو رد کرنے کے لیے ابن حبان و عجلی کے تساہل کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے

جیسا کہ امام مالک کی ان سے روایت موطا میں موجود ہے

وحدثني عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن يعقوب بن خالد المخزومي، عن أبي أسماء مولى عبد الله بن جعفر أنه أخبره: أنه كان مع عبد الله بن جعفر. الخ۔۔۔

[موطأ الإمام مالك برقم: 165]

اس لیے موطا کے محقق محمد مصطفى الأعظمي نے موطا کے رجال میں اسکا ترجمہ لکھا ہے

أبو أسماء مولى بني جعفر

عن علي، وعثمان، وأبي رافع

وعنه يعقوب بن خالد، وزيد بن الحباب

وثقه ابن حبان

[التذكرة: 89920]

[الموطأ المحقق: محمد مصطفى الأعظمي جلد 6 ، ص 107]

اور موطا کی روایت سے امام طحاوی نے اپنی شرح معانی الاثار میں استدلال بھی کیا ہے

جیسا کہ انہوں نے پہلے اس روایت کو اپنی سند سے بیان کیا

بما حدثنا علي بن شيبة قال: ثنا أبو نعيم قال: ثنا سفيان عن يحيى بن سعيد , عن يعقوب بن خالد , عن أبي أسماء , مولى عبد الله بن جعفر قال: الخ۔۔۔

پھر اس روایت کو مالک بن انس کے طریق سے بھی نقل کیا

حدثنا يونس قال: أنا ابن وهب , أن مالكا حدثه , عن يحيى , فذكر بإسناده مثله اور پھر روایت میں تطبیق پیش کی

[شرح معانی الاثار برقم : 4090]

اسی لیے امام عینی نے ابو اسماء کے بارے تصریح کی ہے کہ ان سے امام طحاوی نے انکی روایت لی ہے

أبو أسماء مولى عبد الله بن جعفر: عن زيد الحباب، ويعقوب بن خالد المخزومى: ذكره ابن حبان فى الثقات من التابعين، روى له أبو جعفر الطحاوى.

[مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار برقم: 2785]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی عند المحدثین ثقہ اور احتجاج بہ راوی ہے

۶۔چھٹا راوی : صحابی رسولﷺ ابو رافع یہ رسولﷺ کے غلام تھے

جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی انکے بارے لکھتے ہیں :

أبو رافع القبطي:

مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال اسمه إبراهيم، ويقال أسلم،

یہ رسولﷺ کے غلام تھے انکا نام ابراہیم تھا اور انکو اسلم کہا جاتا تھا

[الإصابة في تمييز الصحابة، برقم : 9883]

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی