مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

تکفیر دیابنہ اور علمائے عرب وعجم

بعض لوگوں کے بارے میں یہ خبر موصول ہوئی کہ وہ اشخاص اربعہ کو کافر نہیں مانتے ہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ جمہور علمائے اہل سنت وجماعت ان کے ساتھ ہیں,کیوں کہ علمائے عرب صرف قادیانی کو کافر مانتے ہیں۔مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کو وہ کافر نہیں مانتے۔صرف برصغیر کے علمائے اہل سنت ہی مسلک دیوبند کے عناصر اربعہ کو کافر مانتے ہیں۔

اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے مختصر تحریر حاضر خدمت ہے۔اس کی تفصیل بھی ہم نے”البرکات”میں متعدد مقامات پر رقم کی ہے۔اگر غلط فہمی کے سبب یہ نظریہ کسی نے بنایا ہے تو غور وفکر کر کے اپنے عقائد کی تصحیح کر لے۔اگر محض الزام خصم کے لئے ایسا کہتے ہیں تو اللہ تعالی توفیق حسن عطا فرمائے:آمین

جس پر کفر کلامی کا صحیح حکم عائد ہو,اس کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے,خواہ اس کی موت پر صدیاں گزر جائیں,جیسے عہد ماضی کے مدعیان نبوت کو آج بھی کافر ماننے کا حکم ہے۔اگر لا علمی کے سبب کوئی کسی مدعی نبوت کو مسلمان سمجھے تو وہ لاعلمی کی حالت میں معذور ہے۔کفر کا علم ظنی اور علم یقینی ہونے کے بعد انکار کرے تو حکم شرعی نافذ ہو گا۔

جن علمائے عرب کو تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کو علمائے عرب وعجم نے توہین خدا ورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)اور انکار ختم نبوت کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد کیا تھا,اس علم یقینی کے باوجود وہ اشخاص اربعہ کو مومن مانتے ہیں تو وہ انہی کی طرح کافر ہیں۔”من شک فی کفرہ فقد کفر”کا حکم نافذ ہو گا۔

پہلی جنگ عظیم(1914-1918)میں شکست کے سبب عرب سے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔اتحادی قوتوں نے ملک عرب کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا۔نجد وحجاز پر وہابیوں کو مسلط کر دیا۔اس حصے کا نام سعودیہ عربیہ رکھا گیا۔

چوں کہ بھارت کے دیابنہ بھی وہابی تھے,یعنی مقلد وہابی۔ہم مذہب ہونے کے سبب دیوبندیوں کو سعودی حکومت نے سہولت دی۔مالی تعاون بھی فراہم کیا۔عرب ممالک میں دیوبندیوں کی آمد ورفت جاری رہی۔

دیابنہ بھی اہل رفض کی طرح تقیہ باز واقع ہوئے ہیں۔وہابیوں کے پاس کہتے کہ ہم وہابی ہیں اور سنیوں کے پاس کہتے کہ ہم سنی ہیں۔حنفی اور قادری وچشتی ہیں۔انجام کار عرب ممالک کے سنی علما نے یہی سمجھا کہ دیوبندی لوگ اہل سنت وجماعت ہیں۔

بھارت(غیر منقسم انڈیا)کے سنی حضرات یعنی امام احمد رضا قادری کے متبعین کو دیوبندیوں نے عرب وعجم ہر جگہ قبر پجوا اور بدعتی جماعت کے طور پر متعارف کرایا,پس نا آشنا لوگ یہی سمجھنے لگے کہ دیوبندی لوگ اہل سنت وجماعت ہیں اور بریلوی طبقہ ایک بدعتی اور قبر پرست جماعت ہے۔

دیوبندیوں کے روابط عربی ممالک سے مضبوط ہوتے گئے۔وہ عرب میں جا کر درس وتدریس کرتے رہے۔بہت سے عربی علما دیوبندیوں کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ایسے مضبوط روابط کے سبب اگر کوئی انہیں کہتا ہے کہ دیوبندی جماعت فرقہ وہابیہ کا ایک طبقہ ہے تو انہیں شک ہوتا ہے۔دیابنہ کو اہل عرب فرقہ وہابیہ کی ایک جماعت نہیں مانتے,بلکہ لا علمی کے سبب سنی مانتے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل عرب کے سنی علما کے روابط امام احمد رضا قادری سے تھے۔تکفیر قادیانی وتکفیر اشخاص اربعہ کے حکم کی تصدیق وتائید علمائے حرمین طیبین نے فرمائی تھی,لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے سبب عرب میں وہابی فکر کو قوت مل گئی۔جیسے سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے سبب بھارت میں وہابیت کے فروغ کی راہ پیدا ہوئی,ورنہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کے معاصر علمائے کرام نے وہابیت کو دفن کر دیا تھا۔

سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آج تک ہمارے روابط علمائے عرب سے مضبوط نہ ہو سکے۔اب چند سالوں سے متعددحساس علمائے اہل سنت علمائے عرب کو حقائق سے آشنا کر رہے ہیں,لیکن دیابنہ کی کثیر تعداد عرب میں موجود ہے اور ان کے مضبوط روابط علمائے عرب سے ہیں,اس لئے یہ کام سست رفتاری کا شکار ہے۔اللہ تعالی ان علمائے اہل سنت کو ہمت وحوصلہ اور تبلیغ دین کے وسائل عطا فرمائے:آمین

علمائے عرب اور احکام شرعیہ

1-اگر اشخاص اربعہ کے عقائد کفریہ اور ان پر عائد شدہ کفر کلامی کا حکم بتانے کے باوجود کسی عربی عالم کو ظن یا یقین حاصل نہ ہو سکا,بلکہ وہ شک میں مبتلا رہے تو شک کی حالت میں اگر وہ اشخاص اربعہ کو مومن کہتے ہیں تو ان پر حکم شرع عائد نہیں ہو گا۔علم ظنی اور علم یقینی کے وقت حکم شرعی عائد ہوتا ہے۔

2-اگر کسی عربی عالم کو اشخاص اربعہ کے عقائد کفریہ اور ان پر عائد شدہ کفر کلامی کےحکم کا ظنی علم حاصل ہو گیا,اس کے باوجود وہ اشخاص اربعہ کو مومن مانتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔جیسے ضروری دینی کا علم ظنی ہونے پر اگر کوئی اس کا انکار کرے تو بدعتی ہے۔اس صورت میں منکر پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہو گا۔

3-اگر کسی عربی عالم کو اشخاص اربعہ کے کفریہ عقائد اور ان پر عائد شدہ کفر کلامی کے حکم کا یقینی علم حاصل ہو گیا۔کسی قسم کا احتمال وشبہہ بھی نہیں,اس کے باوجود وہ اشخاص اربعہ کو مومن مانتا ہے تو وہ کافر کلامی ہے۔

جب یہ تیسرا طبقہ اسلام سے خارج ہے تو اس کی عدم تکفیر کا اعتبار نہیں۔یہ جمہور علما میں شامل نہیں۔

دوسرا طبقہ گرچہ من کل الوجوہ اسلام سے خارج نہیں,لیکن اسی تکفیر کے انکار کے سبب بدعتی قرار پایا تو اس امر میں اس کا بھی اعتبار نہیں ہو گا۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:02:جون 2021