قول کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

1) قولِ صوری

2) قول ضروری

قول صوری سے مراد وہ قول ہوتا ہے جو قائل نے مخاطب کو صراحتاً کہا ہوتا ہے۔

جبکہ قول ضروری صراحتاً نہیں کہا گیا ہوتا بلکہ وہ قائل کے کسی عموم کے تحت آ رہا ہوتا ہے۔

قول صوری کی مثال ملاحظہ کیجیے:

زید نے اپنے شاگرد سے کہا کہ تم خالد کی تعظیم کرنی کرنی ہے۔

قول ضروری کی مثال:

زید نے عمومی طور پر اپنے شاگردوں سے کہا کہ تم نے کسی فاسق کی تعظیم نہیں کرنی۔

اب جب قول صوری اور قولِ ضروری میں ٹکراؤ آ جائے تو ہر طرح قولِ ضروری کو ہی ترجیح ہو گی۔

اوپر والی مثال ہی لیجیے کہ قول صوری میں زید کی تعظیم کا کہا گیا اور قول ضروری میں فاسق کی تعظیم سے منع کیا گیا ، اب قائل کے ان اقوال کے کچھ عرصے بعد زید فاسق ہو گیا۔ تو اب قائل کے قولِ صوری اور قولِ ضروری میں ٹکراؤ پیدا ہو چکا ہے لہذا قولِ ضروری کو ترجیح دیتے ہوئے زید کی تعظیم سے اجتناب کیا جائے گا۔

اب اس پوری تفصیل کو سمجھنے کے بعد آپ کے لیے اس مسئلہ کو سمجھنا آسان ہو گا کہ صاحبین یا دیگر مشائخ کے اقوال پر بعض اوقات عمل کیا جاتا ہے اور امام اعظم کے قول کو ترک کیا جاتا ہے تو یہاں ایسا نہیں ہوتا کہ حنفی امام اعظم کے قول پر فتویٰ نہیں دے رہا یا اس پر عمل نہیں کر رہا بلکہ یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے کہ امام صاحب کا ایک قول قولِ صوری ہوتا ہے اور ایک قول قولِ ضروری جو کہ حالاتِ زمانہ کے اعتبار سے ہوتا ہے ، تو صاحبین یا دیگر حنفی مشائخ کے قول پر عمل در حقیقت امام صاحب کے قولِ ضروری پر ہی عمل ہوتا ہے۔ اور فقهاء کے اس قول ” فتویٰ ہمیشہ قولِ امام پر ہی ہو گا ” کا بھی یہی مآل ہے۔ لہذا اسباب ستہ کی رعایت کی بنا پر جو بعض اوقات امام اعظم رحمه الله کے قول سے عدول کیا جاتا ہے وہ در حقیقت عدول نہیں بلکہ آپ کے قولِ ضروری پر عمل ہوتا ہے اور حنفی کا فتویٰ ہمیشہ قولِ امام اور حنفی کا عمل ہمیشہ قولِ امام پر ہی ہوتا ہے۔

( امام اہلسنت رحمه الله کے رسالے اجلی الاعلام بان الفتوی علی قول الامام میں موجود ایک افادے کی تلخیص کرنے کی سعی کی ہے)

✍️ غلام رضا

03-06-2021ء