أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمَّنۡ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيۡلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا يَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَةَ وَيَرۡجُوۡا رَحۡمَةَ رَبِّهٖ‌ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۞

ترجمہ:

بیشک جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے، آخرت (کے عذاب) سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے (کیا وہ بدعمل کافر کی مثل ہوسکتا ہے ؟ ) آپ کہیے : کیا علم والے اور بےعلم برابر ہیں، صرف عقل والے نصیحت حاصل کرتے ہیں

تہجد کی نماز کے فضائل

الزمر : ٩ میں فرمایا : ” بیشک جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے “۔ اس آیت میں ” قانت “ کا لفظ ہے، قانت کا معنی ہے : جس شخص پر جو اطاعت اور عبادت واجب ہے وہ اس کے لیے قیام کرے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : القنوت کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا، قرآن مجید میں ہے : کل لہ قنتون “ (البقرہ : ١١٦) نیز اس آیت میں ہے ” اناء اللیل “ اس کا معنی ہے : رات کے اوقات، خواہ وہ رات کا اوّل وقت ہو، اوسط وقت ہو یا آخر وقت ہو۔ حدیث میں ہے : حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : افضل الصلوۃ طول القنوت۔ سب سے افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٢١، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ٢٠٢)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز میں قیام کرنا دن کی نماز میں قیام کرنے سے افضل ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں۔

(١) رات کو عبادت کرنا عام لوگوں کی نماز سے مخفی ہوتا ہے، اس لیے رات کی عبادت ریاکاری سے زیادہ دور ہے۔

(٢) اندھیرا لوگوں کو دیکھنے سے مانع ہے اور لوگوں کا محو خواب ہونا اس کے سننے سے مانع ہے اور جب انسان کا دل باہر کے عوارض سے فارغ ہو تو وہ یک سوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوتا ہے۔

(٣) رات کا وقت نیند اور آرام کے لیے ہوتا ہے، انسان طبعی طور پر رات کو سونا چاہتا ہے اور طبعی تقاضوں کو ترک کرکے اللہ کی عبادت کرنا نفس پر زیادہ شاق اور مشکل ہے۔

تہجد کی نماز کے فضائل میں احادیث :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز میں اتنا قیام کرتے تھے کہ آپ کے دونوں پیر سوج گئے تھے، تو حضرت عائشہ نے کہا : یارسول اللہ ! آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے ذنب (بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام) معاف فرمادیئے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا میں اس کو پسند نہ کروں کہ میں اللہ کا شکرگزار بندہ ہوجائوں، پھر جب آپ کا جسم بھاری ہوگیا تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے، پھر رکوع کرتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١١٨، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٠٤٠)

اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ذنب کی نسبت کی گئی ہے اور ذنب کا معنی ہے گناہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں، پھر ذنب کا کیا محمل ہے ؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا متوفی ١٣٤٠ ھ اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” حسنات الابرار سیئات المقربین “ نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گنہ ہیں، وہاں ترک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالانکہ ترک اولیٰ ہرگز گناہ نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٧، دارالعلوم امجدیہ، کراچی)

نیز ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : مکروہ تنز یہی میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، وہ صرف خلافِ اولیٰ ہے، نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان جواز کے لیے قصداً ایسا کیا اور نبی قصداً گناہ کرنے سے معصوم ہوتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٤٥٠۔ ٤٤٩ طبع جدید، رضا فائونڈیشن لاہور، اپریل ١٩٩٦ ء)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز، حضرت دائود (علیہ السلام) کی نماز ہے اور سب سے پسندیدہ روزے حضرت دائود (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے تھے، پھر تہائی رات نماز میں قیام کرتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سوتے تھے (مثلاً اگر چھ گھنٹے کی رات ہو تو تین گھنٹے سوتے تھے، پھر دو گھنٹے نماز پڑھتے تھے، پھر ایک گھنٹہ سوتے تھے۔ عل ہذا القیاس) اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٣١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٥٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٤٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٦٥٣)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرہ رکعت نماز پڑھتے تھے، ان رکعات میں وتر اور سنت فجر شامل ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٣٤)

اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعات نماز پڑھتے، تم ان کے حسن اور طول کو نہ پوچھو، پھر چار رکعات نماز پڑھتے، تم ان کے حسن اور طول کو نہ پوچھو، پھر تین رکعات (نماز وتر) پڑھتے تھے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٤١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٩٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٩٣، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٣١٥٣)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جب سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر یہ پڑھ کر تین گرہیں لگا دیتا ہے : ” تمہاری رات بہت لمبی ہے سو جائو “ جب وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر صبح کو وہ تروتازہ اور خوش گوار حال میں اٹھتا ہے ورنہ سستی کا مارا ہوا نحوست کے ساتھ اٹھتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧

(حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سوتا رہتا ہے اور نماز کے لیے نہیں اٹھتا، آپ نے فرمایا : شیطان اس کے کان میں پیشاب کردیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ١٨٧)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کرلوں، کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣١٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاض (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : اے عبداللہ ! تم فلاں شخص کی مثل نہ ہوجانا، وہ پہلے رات کو نماز میں قیام کرتا تھا، پھر اس نے رات کے قیام کو ترک کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٥٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٤٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٨٤١)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رات میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس بندہ کو مل جائے وہ اس گھڑی میں دنیا اور آخرت کی جس چیز کا بھی سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کردیتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات میں آتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ١٥٤٧)

حضرت بلال (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم رات کی نماز کے قیام کو لازم رکھو، کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کے قیام سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور رات کے قیام گناہوں کو روکتا ہے اور گناہوں کا کفارہ ہے اور جسمانی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٨، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢ ص ٥٠٢)

حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر و بن عبسہ نے کہا : انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت میں اللہ کو یاد کرسکتے ہو تو یاد کرو۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧٩، مسند احمد ج ٤ ص ١١١، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٢٧٧، صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث : ١١٤٧) حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا : یارسول اللہ ! کس وقت کی دعا سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : آدھی رات کو اور فرض نمازوں کے بعد۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو نماز کے لیے اٹھا اور اس نے اپنی بیوی کو جگایا، سھر اس نے نماز پڑھی، اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے، پھر وہ بھی نماز پڑھے اور اگر وہ اٹھنے سے منع کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣٠٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦١٠، مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٠، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١١٤٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٥٦٧، المستدرک ج ١ ص ٣٠٩، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢ ص ٥٠١)

سجدہ کی فضیلت پر دلائل

اس آیت کی ابتداء اللہ تعالیٰ نے عمل سے کی ہے اور اس کی انتہاعلم پر کی ہے، اس میں اس پر متنبہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی علم قابل شمار ہوتا ہے جو عمل کے ساتھ ہو کیونکہ بےعلم شخص بالقوۃ گمراہ ہے، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ جہل کی وجہ سے کسی برے عقیدہ کو یا برے عمل کو اختیار کرے اور بےعمل شخص بالفعل گمراہ ہے۔ پھر اس آیت میں ” قانت “ کا لفظ ذکر فرمایا، جس کا معنی ہے : دوام کے ساتھ اطاعت اور عبادت کرنے والا اور اس میں یہ بتایا ہے کہ عمل اس وقت مفید ہوتا ہے جب وہ دائمی ہو اور ” ساجدوقائما “ کا ذکر فرمایا اور سجدہ کو قیام پر مقدم فرمایا، کیونکہ عبادت کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز کا اعتراف کرنا اور ذلت کو اختیار کرنا اور اقصیٰ غایت تذلل سجدہ میں ہوتا ہے، کیونکہ سجدہ میں انسان اپنے سب سے معزز عضو یعنی سر کو مٹی پر رکھ دیتا ہے۔ نیز عبادت سے مقصود ہے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور سب سے زیادہ اللہ کا قرب سجدہ میں ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

واسجدواقترب (العلق : ١٩) سجدہ کر اور اللہ کے قریب ہوجا سجدہ کی فضیلت میں حسب ذیل احادیث ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس تم (سجدہ میں) بہ کثرت دعا کرو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٨٧٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٣٧)

حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ نے فرمایا : تم اللہ کو بہ کثرت سجدے کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہو تو وہ اس سے تمہارا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور تمہارا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٩۔ ٣٨١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٢٣) حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہتا تھا، میں آپ کے پاس استنجاء اور وضو کے لیے پانی لے کر آیا، آپ نے مجھ سے فرمایا : کوئی سوال کرو، میں نے عرض کیا : میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : کسی اور چیز کا بھی، میں نے کہا : مجھے یہ کافی ہے، آپ نے فرمایا : تم بکثرت سجدے کرکے (اس سوال کو پورا کرنے میں) میری مدد کرو۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٩، سنن ابودائود رقم الحدیث ١٣٢٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤١٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٣٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٧٧)

نماز میں قیام کی فضیلت پر دلائل

سجدہ کے بعد اس آیت میں قیام کا ذکر ہے اور نماز کے ارکان میں قیام کی بھی فضیلت ہے، ہم قیام کی فضیلت میں یہ حدیث ذکر کرچکے ہیں : سب سے افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٦)

نماز میں قیام کی فضیلت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز کے تمام ارکان کی ادائیگی میں سب سے زیادہ مشقت قیام میں ہوتی ہے اور جس عبادت کی ادائیگی میں زیادہ مشقت ہو اس میں زیادہ اجروثواب ہوتا ہے۔ امام المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ میں بیان کرتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا : ای الاعمال افضل فقال احمزھا۔ کون سے عمل میں سب سے زیادہ فضیلت ہے ؟ فرمایا : جس میں سب سے زیادہ مشقت ہو۔ (النہایہ ج ١ ص ٤٢٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

اسود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے کہا : یارسول اللہ ! لوگ دو عبادتیں (حج اور عمرہ) کرکے واپس جائیں گے اور میں ایک عبادت (صرف حج) کرکے واپس جائوں گی، آپ نے فرمایا : تم انتظار کرو، پس جب تم حیض سے پاک ہوجائو تو تنعیم کی طرف جانا، پھر احرام باندھنا، پھر فلاں مقام پر آکر ہم سے مل جانا، لیکن تمہارا عمرہ بہ قدر خرچ بہ قدر مشقت ہوگا ( یعنی، جس قدر عمرہ میں تمہارا خرچ ہوگا یا جس قدر اس میں مشقت ہوگی تم کو اس قدر اجر ملے گا) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧٨٧، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٢٣) ایک اور حدیث میں ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا :

ان لک من الاجر قدر نصبک ونفقتک۔ بیشک تم کو بہ قدر مشقت اور بہ قدر خرچ اجر ملے گا۔ (سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٢٧٠٣، المستدرک ج ١ ص ٤٧١، طبع قدیم، المستدرک رقم الحدیث : ١٧٣٣ طبع جدید)

اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ لیلۃ القدر میں نماز پڑھنے میں مشقت کم ہوتی ہے اور اجر زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح مسجد حرام میں نماز پڑھنے میں مشقت کم ہوتی ہے اور اجر زیادہ ہوتا ہے، اس لیے یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جس عبادت میں مشقت زیادہ ہو اس میں اجر زیادہ ملتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ لیلۃ القدر اور کعبہ میں جو اجر زیادہ ملتا ہے وہ نفس عبادت کی وجہ سے نہیں ملتا بلکہ لیلۃ القدر اور کعبہ کی خصوصیت کی وجہ سے اجر زیادہ ملتا ہے، لہٰذا یہ قاعدہ علیہ ہی ہے کہ جس عبادت میں زیادہ مشقت ہو اس میں اجر زیادہ ملتا ہے۔ علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٢٥٥ ھ لکھتے ہیں : توضیح میں مذکور ہے کہ ہر نیک کام میں جس قدر زیادہ خرچ ہو یا جس قدر زیادہ مشقت ہو اس میں اس قدر زیادہ اجر ملتا ہے، اسی لیے امام شافعی اور امام مالک نے کہا ہے کہ سوار ہو کر حج کرنا مستحب ہے، اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیتیں ہیں۔

الذین امنوا وھا جروا وجاھدوا فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم لا اعظم درجۃ عنداللہ۔ (التوبہ : ٢٠) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا، ان کا جرجہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے۔

ان کا درجہ دوسرے مؤمنوں سے اس لیے بہت بڑا ہے کہ انہوں جہاد کے لیے اپنا مال خرچ کیا اور اپنے نفس پر مشقت برداشت کرکے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کے متعلق فرمایا :

انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب۔ (الزمر : ١٠) صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر دیا جائے گا صبر کرنے والوں کو بھی بےحساب اجراسی وجہ سے دیا جائے گا کہ باقی عبادات کی بہ نسبت صبر کرنے میں زیادہ مشقت ہے، اسی طرح جو شخص زیادہ دور سے سفر کرکے حج یا عمرہ کے لیے جائے گا یا زیادہ دور چل کر نماز پڑھنے جائے گا اس کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ مشقت ہوگی۔ (عمدۃ القاری ج ١٠ ص ١٧٦۔ ١٧٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

اور میں کہتا ہوں کہ چونکہ نماز کے باقی ارکان کی بہ نسبت قیام میں زیادہ مشقت ہے اس لیے باقی ارکان کی بہ نسبت قیام میں زیادہ فضیلت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں سجدہ اور قیام کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ صاحب الفردوس نے حضرت عثمان بن عفان سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ افضل عبادت وہ ہے جس میں سب سے زیادہ خفت اور آسانی ہو، تو میں کہوں گا : یہ غلط ہے، اصل میں اس حدیث میں عبادت کی جگہ عیادت کا لفظ ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٦ ص ٢٩٨، کشف الخفاء ج ١ ص ١٥٥)

اور عیادت میں اصل یہ ہے کہ بہت تخفیف کے ساتھ عیادت کی جائے اور مریض کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھا جائے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے زیادہ اجر اس عیادت میں ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ تخفیف ہو اور تعزیت ایک مرتبہ کی جائے۔ (شعب الایمان ج ٦ ص ٥٤٢، رقم الحدیث : ٩٢١٩) سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے افضل عیادت وہ ہے جس میں عیادت کرنے والا مریض کے پاس سے جلدی اٹھ کر کھڑا ہو۔ (شعب الایمان ج ٦ ص ٥٤٣، رقم الحدیث : ٩٢٢١)

امام ابوالعالیہ بیان کرتے ہیں کہ غالب القطان ان کی عیادت کرنے کے لیے آئے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر جانے کے لیے کھڑے ہوگئے تو ابو العالیہ نے کہا : عرب کس قدر عمدہ عیادت کرتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے، کیونکہ کبھی مریض کو کوئی کام ہوتا ہے اور وہ پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی وجہ سے حیاء کرتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٢٢٤ )

خلاصہ یہ ہے کہ عیادت اور تعزیت آسان اور خفیف طریقہ سے کرنی چاہیے اور عبادت کرنے میں جتنی مشقت ہوگی اتنا زیادہ اجر ہوگا اور نماز کے قیام میں چونکہ زیادہ مشقت ہوتی ہے اس لیے اس میں زیادہ اجر ہوتا ہے اور سجدہ میں ہرچند کی مشقت زیادہ نہیں ہوتی لیکن اس میں چونکہ تواضع اور لذلل زیادہ ہے اس لیے اس میں بھی زیادہ اجر ہوتا ہے، اس وجہ سے اس آیت میں سجدہ اور قیام کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں فرمایا ہے : ” بیشک جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے “ پس سجدہ اور قیام میں رات گزارنے والوں کے مصداق کون ہیں ؟ اس سلسلہ میں حسب ذیل اقوال ہیں۔

سجدہ اور قیام میں رات گزارنے والوں کے مصادیق

اما عبدالرحمان بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : اس سے مراد حضرت عثمان بن عفان (رض) ہیں۔ حضرت ابن عمر نے یہ اس لیے فرمایا کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) رات کو بکثرت نماز پڑھا کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے حتیٰ کہ وہ ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختم کرلیتے تھے، حضرت ابوعبیدہ (رض) نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٤٨، رقم الحدیث : ١٨٣٧٨، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ) علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے اس سلسلہ میں حسب ذیل اقوال بیان کیے ہیں :

(١) یحییٰ بن سلام نے کہا : اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

(٢) ضحاک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر (رض) ہے۔

(٣) حضرت ابن عمر نے کہا : اس سے مراد حضرت عثمان عفان (رض) ہیں۔

(٤) الکلی نے کہا : اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر، حضرت صہیب، حضرت ابوذر اور حضرت ابن مسعود (رض) ہیں۔

(٥) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے مصداق کو متعین نہیں فرمایا، سو جو شخص بھی اپنی راتیں سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے، وہ اس آیت کا مصداق ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١١٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت) حسب ذیل آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مقرب بندوں کا ذکر فرمایا ہے جن کی راتیں سجدے اور قیام میں گزرتی ہیں : وعبادالرحمن الذین یمسون علی الارض ھونا واذاخاطبھم الجھلون قالوا سلما والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاما والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جھنم ان عذابھا کان غراما (الفرقان : ٦٥۔ ٦٣ )

اور رحمن کے (مقرب) بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ کلام کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں : سلام ! اور جو لوگ اپنے رب کے لیے سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں اور وہ لوگ یہ دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم سے جہنم کا عذاب دور رکھنا، کیونکہ اس کا عذاب چمٹنے والا ہے اسی طرح زمر : ٩ میں بھی فرمایا ہے : ” بیشک جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے، آخرت (کے عذاب) سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے (کیا وہ بدعمل کافر کی مثل ہوسکتا ہے ؟ ) “۔

ان آیتوں میں ان جاہل صوفیاء کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ عذاب کے خوف سے عبادت کرنا یا جنت کی امید سے عبادت کرنا مذموم ہے، اللہ کی عبادت صرف اللہ کے لیے کرنی چاہیے، بیشک اعلیٰ مرتبہ یہی ہے کہ صرف اللہ کی رضا کے لیے عبادت کی جائے، لیکن دوزخ کے ڈر سے اور جنت کی طلب کے لیے بھی عبادت کرنا صحیح ہے، انبیاء علہیم السلام اور صالحین نے دوز، سے پناہ اور جنت کی طلب کے لیے دعائیں کی ہیں، جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے اور یہ جاہل صوفیاء ان کی گردراہ کو بھی نہیں پہنچتے، حافظ سیوطی نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے :

طلب ثواب کے لیے عبادت کرنے کا جواز اور طلب رضا کے لیے عبادت کرنے کا افضل ہونا

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک نوجون کے پاس اس وقت گئے جب وہ مرض الموت میں تھا، آپ نے اس سے پوچھا : تم کیا محسوس کرتے ہو ؟ اس نے کہا : یارسول اللہ : اللہ کی قسم ! میں اللہ سے (بخشش کی) امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس بندہ کے دل میں بھی یہ کیفیات مجتمع ہوں گی اللہ اس کو وہ عطا کردے گا جس کی اسے امید ہے اور اس چیز سے اس کو محفوظ رکھے گا جس سے وہ ڈررہا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٨٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦١، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٦٢، حلیۃ الاولیاء ج ٦ ص ٢٩٢)

ہم گنہگار لوگوں کے لیے اس حدیث میں بہت اطمینان اور سکون ہے۔ علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : اس آیت میں ان لوگوں کا رد ہے جو عذاب کے خوف اور بخشش کی امید سے عبادت کرنے کی مذمت کرتے ہیں اور وہ امام رازی ہیں۔ (روح المعانی جز ٢٣ ص ٣٦٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ) میں کہتا ہوں : یہ امام رازی پر بہتان ہے، امام رازی نے ایسا کہیں نہیں لکھا، اس آیت کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں : جب انسان اللہ تعالیٰ کی دائمی عبادت کرتا ہے تو پہلے اس پر اللہ تعالیٰ کی صفت قہر منکشف ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا : ” وھوبحذر الاخرۃ “ اور وہ آخرت سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد اس پر مقام رحمت منکشف ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ویرجو رحمۃ ربہ “ اور وہ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے، پھر اس پر دیگر علوم منکشف ہوتے ہیں جیسا کہ فرمایا : ” ھل یبستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون “۔ کیا علم والے اور بےعلم برابر ہیں ؟ نیز لکھتے ہیں : مقام خوف میں فرمایا : وہ بندہ آخرت سے ڈرتا ہے اور خوف کی اس بندہ کی طرف نسبت کی اور امید کے مقام میں فرمایا : اور وہ بندہ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے اور امید کی نسبت اپنے رب کی طرف کی، اس میں یہ دلیل ہے کہ خوف کی بہ نسبت امید کا درجہ اللہ تعالیٰ کی جناب کے زیادہ لائق ہے اور زیادہ کامل ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٢٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

غور فرمائیے ! کہاں امام رازی کی تفسیر کے یہ عارفانہ نکات اور کہاں علامہ آلوسی کا بےسروپا بہتان۔ ہاں ! اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ عبادت کا مستحق نہیں ہے اور وہ صرف جنت کی طلب اور دوزخ سے نجات کے لیے عبادت کرے اور وہ اللہ کی رضا کا طالب نہ ہو تو اس کا یہ عقیدہ کفریہ ہے اور ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہوتا۔ امام رازی فرماتے ہیں : اہل تحقیق نے کہا ہے کہ عبادت کے تین درجات ہیں :

(١) بندہ صرف ثواب کی طمع اور عذاب سے نجات کے لیے عبادت کرے اور یہ درجہ بہت گرا ہوا ہے کیونکہ اب حقیقت میں اس کا معبود طلب ثواب اور طلب نجات ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کو اس مطلبو کے لیے وسیلہ بنایا ہے اور جو مخلوق کے احوال کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کو وسیلہ بنائے وہ بہت خسیس ہے۔

(٢) بندہ اللہ کی عبادت سے مشرف ہونے کے لیے عبادت کرے، یہ عبادت کا پہلے درجہ سے بلند درجہ ہے، تاہم یہ بھی کامل نہیں ہے، کیونکہ اس کا مقصود اللہ کی طرف نسبت کو حاصل کرنا ہے اور یہ نسبت اللہ تعالیٰ کی غیر ہے۔ سو اس کا مقصود اللہ تعالیٰ نہیں، اللہ تعالیٰ کا غیر ہے۔

(٣) بندہ اللہ تعالیٰ کی اس لیے عبادت کرے کہ وہ عبادت کا مسحتق ہے اور خالق اور مالک ہے اور وہ بندہ اس کا عبد اور مملوک ہے اور معبود ہونا ہیبت اور غلبہ کا تقاضا کرتا ہے اور عبد ہونا عجز اور ذلت کا تقاضا کرتا ہے اور جو شخص اس قصد سے اللہ کی عبادت کرے گا اس کی عبادت، عبادت کا سب سے اشرف اور افضل مرتبہ ہے۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ٢١٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ہم اپنی اس تفسیر میں کئی جگہ پر لکھ چکے ہیں کہ عبادت کا سب سے افضل مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اس لیے اللہ کی عبادت کرے کہ اللہ نے اسکو عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اور بندگی کا یہی تقاضا ہے کہ بندہ اللہ کے حکم کی اطاعت کرے اور دسورا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا کے حصول اور اس کے دیدار کی طلب کے لیے عبادت کرے، قرآن مجید میں ہے۔ ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ۔ (البقرہ : ٢٠٧) اور بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کی طلب کے لیے اپنی جان کو فروخت کردیا۔ اور عبادت کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ جنت کی طلب اور دوزخ سے نجات کے لیے عبادت کرے، مگر محض جنت اور دوزخ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جنت کی طلب کرنے اور دوزخ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السموت والارض لا اعدت للمتقین (آل عمران : ١٣٣)

اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو جس کی پہنائی آسمان اور زمین ہیں، جس کو متقین کے لیے تیار کیا گیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ اوسط جنت اور اعلیٰ جنت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٢٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٨٤٠٠) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کرتے تھے۔ اللھم انی اعوذبک من الکس والھرم والمغرم والماثم اللھم انی اعوذبک من عذاب النار وفتنۃ النار۔ الحدیث

اے اللہ ! میں سستی اور بڑھاپے اور قرض اور گناہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اے اللہ ! میں دوزخ کے عذاب اور دوزخ کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٧٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٨٨٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٠٨، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٣٥٦) عبادت کے ان تین مراتب کی جس طرح ہم نے تفصیل اور تحقیق کی ہے شاید کہ قارئین کو اور کسی کتاب میں نہ مل سکے، ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔ (الجمعۃ : ٤) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” آپ کہیے : کیا علم والے اور بےعلم برابر ہیں “ ہم اس آیت کی تفسیر میں علم کی تعریف ذکر کریں گے اور علم کی فضیلت میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث کو پیش کریں گے۔

حکماء اور متکلمین کی اصطلاح میں علم کی تعریف

حکماء کے نزدیک علم کی مشہور تعریف یہ ہے : حصول صورۃ الشیء فی العقل۔ کسی شے کی صورت کا عقل میں حاصل ہونا۔ یہ تعریف وہم، شک، ظن، جہل مرکب، تقلید اور یقین کو شامل ہے۔ متکلمین کے نزدیک علم کی مشہور تعریف یہ ہے : ھو صفۃ یتجلی بھا المذکور لمن قامتھی بہ۔ عالم کے ذہن میں کسی چیز کا انکشاف، علم ہے۔ اس تعریف کا خلاصہ یہ ہے کہ علم انکشاف ذہنی کا نام ہے، یہ انکشاف تام اور غیر مشتبہ ہونا چاہیے، اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ علم مقولہ کیف سے ہے یا مقولہ اضافت سے یا مقولہ انفعال سے، زیادہ صحیح یہ ہے کہ علم مقولہ کیف سے ہے، کیونکہ علم کیفیت نفسانیہ کا نام ہے۔ علم کی یہ دونوں تعریفیں ذوی العقول کے ساتھ خاص ہیں اور حیوانات کے اور اکات پر حقیقتاً علم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علم کا اطلاق علوم مدونہ پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً نحو اور فقہ وغیرہ پر، اسی طرح مسائل مخصوصہ پر بھی علم کا اطلاق کیا جاتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا نحو کا یا فقہ کا علم ہے، یعنی اس شخص کو نحو یا فقہ کے مسائل کا علم ہے اور کبھی علم کا اطلاق ملکہ استحضار پر کیا جاتا ہے یعنی کسی شخص کو مثلاً فقہ کے مسائل کی بکثرت تکرار سے ایسی مہارت ہوجائے کہ جب بھی اس سے فقہ کا کوئی سوا کیا جائے وہ اس کا جواب دے سکے تو اس کی اس مہارت (مکلہ، پختہ صلاحیت) کو علم سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں شخص فقہ کا عالم ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ١ ص ٦٦۔ ٦٥، مطبوعہ مصر، ١٣١١ ھ)

محدثین کی اصطلاح میں علم کی تعریف

ملا عی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : علم، مومن کے قلب میں ایک نور ہے جو فانوس نبوت کے چراغ سے مستفاد ہوتا ہے، یہ علم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال، افعال اور احوال کے ادراک کا نام ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، افعال اور اس کے احکام کی ہدایت حاصل ہوتی ہے، اگر یہ علم کسی بشر کے واسطے سے حاصل ہو تو کسبی ہے اور اگر بلاواسطہ حاصل ہو تو علم لدنی ہے۔ علم لدنی کی تین قسمیں ہیں : وحی، الہام اور فراست، وحی کا لغوی معنی ہے : سرعت سے اشارہ کرنا اور اصطلاحی معنی ہے : وہ کلام الٰہی جو نبی کے دل میں حاصل ہو جس کلام کے الفاظ اور معانی کا حضرت جبرائیل کے واسطے سے نبی پر نزول ہو، وہ کلام الٰہی یعنی قرآن مجید ہے اور جس کلام کے صرف معانی کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نزول ہو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معنیٰ کو اپنے الفاظ کے ساتھ تعبیر فرمائیں، وہ حدیث نبوی ہے، الہام کا لغوی معنیٰ ابلاغ ہے اور اصطلاح میں وہ علم حق ہے جس کا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر القاء کرتا ہے اور ان کو امور غیبیہ پر مطلع فرماتا ہے اور فراست وہ علم ہے جس میں ظاہری صورت کو دیکھ کر امور غیبیہ منکشف ہوتے ہیں، الہام میں ظاہری صورت کا واسطہ نہیں ہوتا، بلاواسطہ کشف ہوتا ہے اور فراست میں ظاہری صورتوں کا واسطہ ہوتا ہے اور الہام اور وحی میں یہ فرق ہے کہ الہام وحی کے تابع ہے اور وحی الہام کے تابع نہیں (نیز وحی سے حاصل ہونے والا علم قطعی ہے اور الہام سے حاصل ہونے والا علم ظنی ہے۔ سعیدی غفرلہٗ ) علم یقین دلائل سے حاصل ہوتا ہے، عین الیقین مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے اور حق الیقین تجرد سے واصل ہونے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ (مرقاتج ١ ص ٢٦٤، ملتان، ١٣٩٠ ھ)

علم دین کی تفصیل

(١) اللہ عزوجل کی معرفت کا علم، اس کو علم الاصل کہتے ہیں۔

(٢) اللہ عزوجل کی طرف سے نازل شدہ چیزوں کا علم، اس میں علم نبوت اور علم احکام اللہ بھی داخل ہے۔

(٣) کتاب وسنت کی نصوص اور ان کے معانی کا علم، اس میں مراتب نصوص، ناسخ اور منسوخ، اجتہاد، قیاس، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کا علم اور ان کے اتفاق اور اختلاف کا علم بھی داخل ہے۔

(٤) جن علوم سے کتاب وسنت کی معرفت اور احکام شرعیہ کا علم ممکن ہو، اس میں لغت عرب، نحو، صرف اور محاورات عرب کی معرفت داخل ہے۔

جوشخص علم دین کے حصول کا ارادہ کرے اور وہ اہل عرب سے نہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ پہلے عربی زبان اور اس کے قواعد کا علم حاصل کرے اور اس میں مہارت پیدا کرے، پھر قرآن مجید کے علم کو حاصل کرے اور بغیر احادیث کی معرفت کے قرآن مجید کے معانی کی وضاحت ممکن نہیں ہے اور احادیث کا علم، آثار صحابہ کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور آثار صحابہ کی معرفت کے لیے تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کا علم حاصل ہوجائے تو پھر اجتہاد کرے اور مقدمین کے مختلف اقوال میں غور کرے اور جو قول اس کے نزدیک دلائل سے راجح ہو اس کو اختیار کرے اور جو نئے مسائل پیدا ہوں ان کا قیاس کے ذریعہ حل تلاش کرے۔ (شعب الایمان ج ٢ ص ٣٥١ )

علم کی فضیلت میں قرآن مجید کی آیات

شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو لا والملئکۃ واولوا العلم قائما بالقسط۔ (آل عمران : ١٨) اللہ نے گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور فرشتوں اور علم والوں نے (یہ گواہی دی) اور آں حالیکہ وہ قائم بالعدل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی شہادت کا ذکر کیا، پھر فرشتوں کی شہادت کا اور پھر اہل علم کی شہادت کا اور یہ اہل علم کی بڑی عزت افزائی ہے۔ یرفع اللہ الذین امنوا منکم لا والذین اوتوالعلم درجت۔ (المجادلہ : ١١) تم میں سے جو کامل ایمان والے اور علم والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنت میں عام مسلمانوں کی بہ نسبت علماء سات سو درجہ بلند ہوں گے۔ (احیاء العلوم وقوت القلوب)

قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون۔ (الزمر : ٩) آپ فرما دیجئے : کیا جو لوگ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے برابر ہیں ؟

انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا۔ (فاطر : ٢٨) اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں۔

قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتب (الرعد : ٤٣ )

آپ فرما دیجئے : میرے اور تمہارے درمیان کافی گواہ، اللہ ہے اور وہ جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے

وتلک الامثال نضربھا للناس ج وما یعقلھا الا العلمون (العنکبوت : ٤٩) اور یہ مثالیں جن کو ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں ان کو صرف علم والے سمجھتے ہیں ولوردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم۔ (النساء : ٨٣) اور اگر وہ اس کو رسول اور صاحبان امر کی طرف لوٹا دیتے تو اس (کی مصلحت) کو وہ لوگ جان لیتے جو ان میں سے استنباط کرسکتے ہیں۔ بل ھوایت بینت فی صدور الذین اوتو العلم۔ (العنکبوت : ٤٩) بلکہ یہ ان لوگوں کے سینہ میں روشن آیتیں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔ وانزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ وعلمک ما لم تکن تعلم ط وکان فضل اللہ علیک عظیما (النساء : ١١٣)

اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی اور جن چیزوں کا آپ کو (پہلے) علم نہیں تھا ان کو علم دے دیا، اور (یہ) آپ پر اللہ کا عظیم فضل ہے وقل رب زدنی علما (طٰہٰ : ١١٤) اور دعا کیجئے کہ اے میرے رب ! میرے علم کو زیادہ فرما

علم کی فضیلت میں احادیث

حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے (یہ حدیث حضرت ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣٧، مسند احمد ج ١ ص ٣٠٦، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٣١، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٧٨٧، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٣٢، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٩١٤)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص علم ڈھونڈنے کے لیے کسی راستہ پر چلا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی طرف راستہ کو آسان کردیتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٤٦) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ واپس آنے تک اللہ کی راہ میں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٤٧، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٨٠، حلیۃ الاولیاء ج ١٠ ص ٢٩٠، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ١٤٧٤)

حضرت سنجرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص علم کی طلب کے لیے نکلا تو اس کا نکلنا اس کے پچھلے گناہوں کے لیے کفارہ ہوجاتا ہے۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٤٨، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٥٦٧، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦٦١٦)

حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ جو شخص علم کی طلب میں کسی راستہ پر گیا اللہ جنت کے راستوں کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے اور فرشتے طالبعلم کی رضا کے لیے اپنے پر جھکاتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق طالب علم کی مغفرت کے لیے دعا کرتی ہے، حتیٰ کہ پانی میں مچھلیاں بھی، اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے، وہ علم کا وارث بناتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے عظیم حصہ کو حاصل کیا۔

(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٦٤٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨٢، مسند احمد ج ٥ ص ١١٩٦)

حضرت انس بن مالک انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طالب کی رضا کو طلب کرنے کے لیے فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ (تاریخ دمشق ج ٧ ص ١٣، رقم الحدیث : ١٧٧٦، جمع الجوامع ج ٥ ص ١١٧، رقم الحدیث : ١٣٨٨٣، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٨٧٢٥، اتحاف السادۃ المتقین ج ٢ ص ٩٦)

امام ابن الاثیر الجزری المتوفی ٠٦ ھ لکھتے ہیں : فرشتوں کے پر جھکانے یا پر بچھانے کا معنی یہ ہے کہ وہ طالب علم کی تعظیم اور توقیر کرتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنا اڑنا موقوف کرکے طالب علم کے ساتھ رہنے کو اختیار کرتے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ وہ اپنے پروں پر طالب جہاں جانا چاہے اس کو اٹھا کرلے جاتے ہیں یعنی اس کی مدد کرتے ہیں۔ (جامع الاصول ج ٨ ص ٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علم کی تین قسمیں ہیں، اس کے ماسوا زائد ہیں (١) آیت محکمہ (٢) سنت محکمہ (٣) یا فریضہ عادلہ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٨٨٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٤، جامع الاصول رقم الحدیث : ٥٨٢٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٥٩٧)

آیت محکمہ سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کی ان آیات کا علم ہو جن میں کوئی اشتباہ یا اختلاف نہ ہو اور وہ منسوخ نہ ہوں اور سنت قائمہ سے مراد یہ ہے کہ وہ احادیث صحیحہ جن کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو اور فرائض عادلہ سے مراد ہے، اس کو احکام شرعیہ کا علم ہو، خلاصہ یہ ہے کہ عالم وہ شخص ہے جس کو قرآن مجید، احادیث اور فقہ کا علم ہو اور جب اس سے دین کی کسی چیز کے متعلق سوال کیا جائے توہ وہ قرآن مجید، کتب احادیث اور کتب فقہ سے اس کو بتاسکے۔ کثیر بن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر عمل کو لوگ ترک کرچکے تھے اس کو بھی اس کے بعد لوگوں کے اس پر عمل کرنے کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے کسی گمراہ کام والی بدعت کو ایجاد کیا جس سے اللہ اور اس کا رسول ناراض ہو، اس کو اس کے بعد لوگوں کے اس پر عمل کرنے کا گناہ ہوگا اور لوگوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٩)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک فقیہ (احکام شرعیہ کا عالم) شیطان پر ایک ہزار عابدوں کی بہ نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٢، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٠٩٩، الکامل لابن عدب ج ٣ ص ١٠٠٤، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣٢٠٢)

حضرت ابوالدرداء (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت ستاروں پر ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨٢، مسند احمد ج ٥ ص ١٩٦، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٣٤٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٦٤١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٨)

حضرت ابوامامہ باہلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو شخصوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم تھا، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹیاں بھی اپنے بلوں میں اور حتیٰ کہ مچھلیاں بھی پانی میں نیکی کی تعلیم دینے والے پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں (اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے اور باقی رحمت کی دعا کرتے ہیں) ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨٥، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٩١١)

حسان بن سنان بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : طالب علم، جاہلوں کے درمیان اس طرح ہے جس طرح زندہ مردوں کے درمیان ہو۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٣٨٨٢، کنز العمال رقم الحدیث : ٢٨٧٢٦)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای : طالب علم، طالب رحمت ہے، طالب علم، اسلام کارکن ہے، اس کو نبیوں کے ساتھ اجر دیا جائے گا۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٣٨٨٤، کنز العمال رقم الحدیث : ٢٨٨٣٤۔ ٨٧٢٩)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے لیے علم کو طلب کرنے والا، اللہ کے نزدیک مجاہد فی سبیل اللہ سے افضل ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٣٨٨٥)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل کا علم، اس نے کہا : یارسول اللہ ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل کا علم، اس نے کہا : یارسول اللہ ! میں آپ سے عمل کے متعلق سوال کررہا ہوں اور آپ مجھے علم کی خبر دے رہے ہیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کم عمل علم کے ساتھ نفع دیتا ہے اور زیادہ عمل جہل کے ساتھ نفع نہیں دیتا۔ (جامع بیان العلم، فضلہ رقم الحدیث : ٢١٤، دارابن الجوزیہ، ریاض، ١٤١٩ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 9