أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِيۡثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِىَ ‌ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡهُ جُلُوۡدُ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ‌ۚ ثُمَّ تَلِيۡنُ جُلُوۡدُهُمۡ وَقُلُوۡبُهُمۡ اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهۡدِىۡ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ ۞

ترجمہ:

اللہ نے بہترین کلام کو نازل کیا جس کے مضامین ایک جیسے ہیں بار بار دہرائے ہوئے، اس سے ان کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں، یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ جس کو چاہتا ہے اس کی ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے

الزمر : ٢٣ میں فرمایا : ” اللہ نے بہترین کلام کو نازل کیا جس کے مضامین ایک جیسے ہیں، بار بار دہرائے ہوئے۔ “ قرآن مجید کے مضامین فصاحت اور بلاغت میں ایک جیسے ہیں اور حسن اسلوب اور حکمت میں ایک جیسے ہیں اور اس کی آیات باہم ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں، ان میں کوئی تناقض اور اختلاف نہیں ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ آسمانی کتابوں کے اس بات میں مشابہ ہے کہ اس میں بھی احکام شرعیہ ہیں، گزشتہ اقوام کے واقعات ہیں اور غیب کی خبریں ہیں۔ نیز فرمایا : ” اس کے مضامین بار بار دہرائے ہوئے ہیں “ مثلاً احکام شرعیہ کو بابر بار دہرایا گیا ہے، خصوصاً نماز اور زکوٰۃ کے حکم کو، آسمانوں اور زمینوں کے احوال کو بار بار دہرایا گیا ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی توحید پر استدلال کیا گیا ہے، اسی طرح جنت اور دوزخ، لوح اور قلم، ملائکہ اور شیاطین، عرش اور کرسی، وعد اور وعید، امید اور خوف کے مضامین کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔

اس کے بعد فرمایا : ” اس سے ان کے جسموں کے رونگنے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔ “

قرآن مجید سن کر جن کے خوف خدا سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ان کے لیے بشارتیں

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب اللہ کے نیک بندے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں جب وہ قرآن مجید کی آیات کو سنتے ہیں تو ان پر خوف اور ہیبت طاری ہوجاتی ہے، ان کا جسم لرزنے لگتا ہے اور خوف کے غلبہ سے ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ خوف خدا سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سبب ہے۔ حضرت عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب خوف خدا سے کسی بندہ کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح درخت کے بوسیدہ پتے جھڑتے ہیں۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ١٨٢١٧، شعب الایمان رقم الحدیث : ٨٠٤۔ ٨٠٣)

حضرت عباس (رض) سے ایک اور روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ ناگاہ زور سے ہوا چلی تو اس درخت کے بوسیدہ پتے گرگئے اور سرسبز پتے قائم رہے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا، جب خوف خدا سے اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں تو اس کے گناہ ساقط ہوجاتے ہیں اور نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٣٠٤)

قرآن مجید سن کر اظہار وجد کرنے والوں کے متعلق صحابہ کرام اور فقہاء تابعین کی آراء

علامہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ قرآن سن کر اظہار وجد کرنے والوں کے متعلق لکھتے ہیں : حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے بتایا کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا تھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے اور ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے، جس طرح اللہ عتالیٰ نے اس کی صفت بیان فرمائی ہے، حضرت اسماء کو بتایا گیا کہ آج کل ایسے لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو ان میں کوئی شخص بےہوش ہو کر گرجاتا ہے، حضرت اسماء نے کہا : اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔

اور سعید بن عبدالرحمان الحجمی نے کہا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے پاس اہل قرآن میں سے ایک شخص گزرا اور اگر گیا، حضرت ابن عمر نے پوچھا : اس کو کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا : جب اس کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے او یہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو گر جاتا ہے، حضرت ابن عمر نے فرمایا : ہم بھی اللہ سے ڈرتے ہیں لیکن ہم تو نہیں گرتے، پھر آپ نے فرمایا : ان میں سے کسی ایک کے پیٹ میں شیطان داخل ہوجاتا ہے، سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا یہ طریقہ نہیں تھا۔ عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ محمد بن سیرین کے نزدیک ان لوگوں کا ذکر کیا گیا جن کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ بےہوش ہو کر گرجاتے ہیں تو انہوں نے کہا : وہ ہمارے سامنے چھت کے اوپر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھیں، پھر ان کے سامنے اوّل سے لے کر آخر تک قرآن پڑھا جائے، پھر اگر انہوں نے اپنے آپ کو چھت سے گرا دیا تو ہم مان لیں گے۔ ابو عمران الجونی نے بتایا کہ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو وعظ کیا تو ایک آدمی نے اپنی قمیص پھاڑ لی، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ اس قمیص والے سے کہیے کہ میں ان ڈرنے والوں کو پسند نہیں کرتا جو مجھے اپنا دل کھول کردکھاتے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٢٢٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

قرآن مجید سننے سے رقت طاری ہونے کی فضیلت اور مترنم آواز اور سازوں کے ساتھ اشعار سن کر اظہار وجد کرنے کی مذمت

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : نیک اور متقی لوگ جب قرآن مجید سنتے ہیں تو اس میں وعد اور وعید اور تخویف اور تہدید کی آیات پر جب غور کرتے ہیں تو ڈر اور خوف کے غلیہ سے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کی ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم کی امید رکھتے ہیں اور ان کی یہ صفت فجار کی صفات کی حسب ذیل وجوہ سے مخالف ہے :

(١) یہ ابرار قرآن مجید کی آیات سن کر خوف خدا سے لرزتے ہیں اور یہ فجار خوش گلوئی اور سازوں کے ساتھ اشعار سن کر جھومتے ہیں اور وجد کرتے ہیں۔

(٢) جب متقین کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کے معافی سمجھ کر ڈرتے ہیں اور خوف خدا سے روتے ہیں اور ادب کے ساتھ سجدہ میں گرجاتے ہیں جیسا کہ ان آیات میں ہے :

انما المومنون الذین اذ ذکرا اللہ وجلت قلوبھم واذ اتلیت علیھم ایتہ زادتھم ایمانا وعلی ربھم یتوکلون الذین یقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقا ط لھم درجت عندربھم ومغفرۃ وزق کریم (الانفال : ٤۔ ٢)

(کامل) مؤمنین تو صرف وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجاتے تو ان کا ایمان زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ صرف اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں وہ لوگ نماز قائم رکھتے ہیں اور ہم نے جو چیزیں ان کو دی ہیں ان میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں یہی لوگ برحق ہیں، ان ہی کے لیے ان کے رب کے پاس (بلند) درجات ہیں اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے

اور ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو بےپرواہی سے قرآن کو سنتے ہیں اور اس کی آیات میں غور اور فکر نہیں کرتے۔ والذین اذاذکروا بابت ربھم لم یخزو علیھا صنا وعسیانا (الفرقان : ٧٣)

اور جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات کی تلاوت کے جاتی ہے تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر ان پر نہیں کرتے یعنی جب وہ قرآن مجید کی آیات کو سنتے ہیں تو لہو ولعب اور دیگر دنیا کے کاموں میں مشغول ہو کر ان سے اعراض نہیں کرتے، بلکہ کان لگا کر غور سے ان آیات کو سنتے ہیں اور ان کے معانی پر غور و فکر کرکے ان کو سمجھتے ہیں، اسی لیے ان آیات کے تقاضوں پر عمل کرتے ہیں اور پوری بصیرت کے ساتھ ان آیات کو سن کر سجدہ کرتے ہیں اور جاہلوں کی طرح اندھی تقلید میں ان آیات پر سجدہ نہیں کرتے۔

(٣) یہ نیک اور متقی لوگ باادب ہو کر قرآن مجید کی آیات کو سنتے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید کی تلاوت سنتے تھے اور ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم پڑجاتے تھے، وہ قرآن سن کر چیختے چلاتے نہیں تھے اور نہ تکلف سے وجد کرتے تھے بلکہ سکون اور ادب اور خوف خدا سے ان آیات کو سنتے تھے۔ قتادہ نے الزمر : ٢٣ کی تفسیر میں کہا : اس آیت میں اولیاء اللہ کی منقبت ہے کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور ان کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس طرح تعریف نہیں کہ کہ اللہ کی آیات سن کر ان کی عقل جاتی رہتی ہے اور وہ بےہوش ہوجاتے ہیں، یہ اہل بدعت کا طریقہ ہے اور یہ شیطان کی صفت ہے۔ سدی نے کہا : ان متقین کے دل اللہ تعالیٰ کے وعد اور وعید کی طرف نرم پڑجاتے ہیں اور یہی اللہ کی ہدایت ہے، وہ جس کو چاہتا ہے اس کی ہدایت دیتا ہے اور جس کا طریقہ اس کے خلاف ہو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو اللہ نے گمراہ کردیا اور جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٥٦۔ ٥٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 23