أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حٰمٓ‌ ۞

ترجمہ:

حامیم

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

حامیم اس کتاب کو نال کرنا اللہ کی طرف سے ہے، جو بہت غلبہ والا بےحد علم والا ہے گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا، بہت سخت عذاب دینے والا، صاحب فضل ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے (المومن :1-3)

حٰمٓ کا معنی

حٰمٓ کے معنی میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : الٓر، حٰمٓ، ن کا مجموعہ الرحمن ہے۔

حضرت ابن عباس کی دوسری روایت ہے : حٰمٓ سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور یہ اللہ عزوجل کے اسماء میں سے ایک اسم ہے، قتادہ نے کہا : یہ حٰمٓ قرآن مجید کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٥١۔ ٥٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام ابودائود سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

مہلب بن ابی صغرہ اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اگر دشمن تم پر شب خون مارے تو تم یہ کہو : ” حٰمٓ لا ینصرون “ (حٰمٓ اللہ کے دشمنوں کی مدد نہ کی جائے) ۔

(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٥٩٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٨٢، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٤٦٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٤ ص ٤١٤، مسند احمد ج ٤ ص ٦٥، المتقی رقم الحدیث : ١٠٦٣، المستدرک ج ٢ ص ١٠٧)

حٰمٓ سے اللہ کی حمایت کی طرف اشارہ ہے، اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احد میں فرمایا تھا : ” حٰمٓ لا ینصرون “ اللہ کی حمایت کی وجہ سے دشمنوں کی مدد نہیں کی جائے گی، کیونکہ اللہ مؤمنین کا مولی اور مددگار ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں ہے، اس لیے مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ کی عنایت اور حمایت حاصل ہوگی۔

نجم الدین دایہ نے کہا ہے کہ ح اور میم، رحمن کے درمیانی حرف ہیں اور محمد میں بھی ح اور میم درمیانی حرف ہیں۔ سو حٰمٓ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کے اسماء کے درمیانی حرف ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان وہ راز ہے جس تک کسی مقرب فرشتہ کی رسائی ہے نہ کسی نبی مرسل کی۔ (التاویلات النجمیہ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 1