تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(۶۱)

بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں بُرج بنائے (ف۱۱۲) اور ان میں چراغ رکھا (ف۱۱۳) اور چمکتا چاند

(ف112)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ بروج سے کواکبِ سبعہ سیّارہ کے منازل مراد ہیں جن کی تعداد بارہ۱۲ ہے (۱) حمل (۲) ثور (۳) جوزہ (۴) سرطان (۵) اسد (۶) سنبلہ (۷) میزان (۸) عقرب (۹) قوس (۱۰) جدی (۱۱) دلو (۱۲) حوت ۔

(ف113)

چراغ سے یہاں آفتاب مراد ہے ۔

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا(۶۲)

اور وہی ہے جس نے رات اور دن کی بدلی رکھی (ف۱۱۴) اس کے لیے جو دھیان کرنا چاہے یا شکر کا ارادہ کرے

(ف114)

کہ ان میں ایک کے بعد دوسرا آتا ہے اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے کہ جس کا عمل رات یا دن میں سے کسی ایک میں قضا ہو جائے تو دوسرے میں ادا کرے ایسا ہی فرمایا حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اور رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا اور قائم مقام ہونا اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کی دلیل ہے ۔

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)

اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں (ف۱۱۵) اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں (ف۱۱۶) تو کہتے ہیں بس سلام(ف۱۱۷)

(ف115)

اطمینان و وقار کے ساتھ متواضعانہ شان سے نہ کہ متکبِّرانہ طریقہ پر ، جُوتے کھٹکھٹاتے ، پاؤں زور سے مارتے ، اتراتے کہ یہ متکبِّرین کی شان ہے اور شرع نے اس کو منع فرمایا ۔

(ف116)

اور کوئی ناگوار کلمہ یا بےہودہ یا خلافِ ادب و تہذیب بات کہتے ہیں ۔

(ف117)

یہ سلامِ متارکت ہے یعنی جاہلوں کے ساتھ مجادلہ کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا یہ معنٰی ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔ حسن بصری نے فرمایا کہ یہ تو ان بندوں کے دن کا حال ہے اور ان کی رات کا بیان آگے آتا ہے ، مراد یہ ہے کہ ان کی مجلسی زندگی اور خَلق کے ساتھ معاملہ ایسا پاکیزہ ہے اور ان کی خلوت کی زندگانی اور حق کے ساتھ رابطہ یہ ہے جو آگے بیان فرمایا جاتا ہے ۔

وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)

اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں (ف۱۱۸)

(ف118)

یعنی نماز اور عبادت میں شب بیداری کرتے ہیں اور رات اپنے ربّ کی عبادت میں گزارتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالٰی اپنے کرم سے تھوڑی عبادت والوں کو بھی شب بیداری کا ثواب عطا فرماتا ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ جس کسی نے بعدِ عشاء دو رکعت یا زیادہ نفل پڑھے وہ شب بیداری کرنے والوں میں داخل ہے ۔ مسلم شریف میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے جس نے عشا ء کی نماز بجماعت ادا کی اس نے نصف شب کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے فجر بھی باجماعت ادا کی وہ تمام شب کے عبادت کرنے والے کی مثل ہے ۔

وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ(۶۵)

اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہم سے پھیر دے جہنم کا عذاب بےشک اس کا عذاب گلے کا غُل(پھندا) ہے (ف۱۱۹)

(ف119)

یعنی لازم جُدا نہ ہونے والا ۔ اس آیت میں ان بندوں کی شب بیداری اور عبادت کا ذکر فرمانے کے بعد ان کی اس دعا کا بیان کیا اس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ وہ باوجود کثرتِ عبادت کے اللہ تعالٰی کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے حضور تضرُّع کرتے ہیں ۔

اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(۶۶)

بےشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)

اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں (ف۱۲۰) اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں (ف۱۲۱)

(ف120)

اسراف معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ ایک بزرگ نے کہا کہ اسراف میں بھلائی نہیں ، دوسرے بزرگ نے کہا نیکی میں اسراف ہی نہیں اور تنگی کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے مقرر کئے ہوئے حقوق کے ادا کرنے میں کمی کرے یہی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا ۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اس نے اِقتار کیا یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا اس نے اسراف کیا یہاں ان بندوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جاتا ہے کہ وہ اسراف و اِقتار کے دونوں مذموم طریقوں سے بچتے ہیں ۔

(ف121)

عبدالملک بن مروان نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اپنی بیٹی بیاہتے وقت خرچ کا حال دریافت کیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نیکی دو بدیوں کے درمیان ہے اس سے مراد یہ تھی کہ خرچ میں اعتدال نیکی ہے اور وہ اسراف و اقتار کے درمیان ہے جو دونوں بدیاں ہیں اس سے عبدالملک نے پہچان لیا کہ وہ اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ مفسِّرین کا قول ہے کہ اس آیت میں جن حضرات کا ذکر ہے وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحابِ کبار ہیں جو نہ لذت و تنعُّم کے لئے کھاتے ، نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے ، بھوک روکنا ، ستر چھپانا ، سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا اتنا ان کا مقصد تھا ۔

وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸)

اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے (ف۱۲۲) اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی (ف۱۲۳) ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے (ف۱۲۴) اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا

(ف122)

شرک سے بری اور بیزار ہیں ۔

(ف123)

اور اس کا خون مباح نہ کیا جیسے کہ مؤمن و معاہد اس کو ۔

(ف124)

صالحین سے ان کبائر کی نفی فرمانے میں کُفّار پر تعریض ہے جو ان بدیوں میں گرفتار تھے ۔

یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ(۶۹)

بڑھایا جائے گا اُس پر عذاب قیامت کے دن (ف۱۲۵) اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا

(ف125)

یعنی وہ شرک کے عذاب میں بھی گرفتار ہو گا اور ان معاصی کا عذاب اس عذاب پر اور زیادہ کیا جائے گا ۔

اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۷۰)

مگر جو توبہ کرے (ف۱۲۶) اور ایمان لائے(ف۱۲۷)اور اچھا کام کرے(ف۱۲۸)تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا (ف۱۲۹) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے

(ف126)

شرک و کبائر سے ۔

(ف127)

سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ۔

(ف128)

یعنی بعدِ توبہ نیکی اختیار کرے ۔

(ف129)

یعنی بدی کرنے کے بعد نیکی کی توفیق دے کر یا یہ معنٰی کہ بدیوں کو توبہ سے مٹا دے گا اور ان کی جگہ ایمان و طاعت وغیرہ نیکیاں ثبت فرمائے گا ۔ (مدارک) مسلم کی حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت ایک شخص حاضر کیا جائے گا ملائکہ بحکمِ الٰہی اس کے صغیرہ گناہ ایک ایک کر کے اس کو یاد دلاتے جائیں گے وہ اقرار کرتا جائے گا اور اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے ڈرتا ہوگا اس کے بعد کہا جائے گا کہ ہر ایک بدی کے عوض تجھ کو نیکی دی گئی ، یہ بیان فرماتے ہوئے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالٰی کی بندہ نوازی اور اس کی شانِ کرم پر خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سرور سے تبسّم کے آثار نمایاں ہوئے ۔

وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(۷۱)

اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیے تھی

وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)

اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے(ف۱۳۰)اورجب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں (ف۱۳۱)

(ف130)

اور جھوٹوں کی مجلس سے علیٰحدہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ مخالطت نہیں کرتے ۔

(ف131)

اور اپنے کو لہو و باطل سے ملوث نہیں ہونے دیتے ایسی مجالس سے اعراض کرتے ہیں ۔

وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا(۷۳)

اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد د لائی جائیں تو ان پر (ف۱۳۲) بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے (ف۱۳۳)

(ف132)

بہ طریقِ تغافُل ۔

(ف133)

کہ نہ سوچیں نہ سمجھیں بلکہ بگوشِ ہوش سنتے ہیں اور بچشمِ بصیرت دیکھتے ہیں اور اس نصیحت سے پند پذیر ہوتے ہیں نفع اٹھاتے ہیں اور ان آیتوں پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں ۔

وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴)

اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دے ہماری بیبیوں اورہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک (ف۱۳۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (ف۱۳۵)

(ف134)

یعنی فرحت و سرور ۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں بی بیاں اور اولاد نیک صالح متقی عطا فرما کہ ان کے حُسنِ عمل اور ان کی اطاعتِ خدا و رسول دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ۔

(ف135)

یعنی ہمیں ایسا پرہیزگار اور ایسا عابد و خدا پرست بنا کہ ہم پرہیزگاروں کی پیشوائی کے قابل ہوں اور وہ دینی امور میں ہماری اقتدا کریں ۔

مسئلہ : بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ آدمی کو دینی پیشوائی اور سرداری کی رغبت و طلب چاہیئے ان آیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے صالحین بندوں کے اوصاف ذکر فرمائے اس کے بعد ان کی جزا ذکر فرمائی جاتی ہے ۔

اُولٰٓىٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ(۷۵)

ان کو جنت کا سب سے اونچا بالاخانہ انعام ملے گا بدلہ ان کے صبر کا اور وہاں مجرے(دعا وآداب) اور سلام کے ساتھ اُن کی پیشوائی ہوگی (ف۱۳۶)

(ف136)

ملائکہ تحِیت و تسلیم کے ساتھ ان کی تکریم کریں گے یا اللہ عزوجل ان کی طرف سلام بھیجے گا ۔

خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(۷۶)

ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا ہی اچھی ٹھہرنے اوربسنے کی جگہ

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْۚ-فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠(۷۷)

تم فرماؤ (ف۱۳۷) تمہاری کچھ قدر نہیں میرے رب کے یہاں اگر تم اسے نہ پوجو تو تم نے تو جھٹلایا (ف۱۳۸) تو اب ہوگا وہ عذاب کہ لپٹ رہے گا (ف۱۳۹)

(ف137)

اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ مکہ سے کہ ۔

(ف138)

میرے رسول اور میری کتاب کو ۔

(ف139)

یعنی عذابِ دائم و ہلاکِ لازم ۔