أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ‌ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَكۡتُمُ اِيۡمَانَهٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ يَّقُوۡلَ رَبِّىَ اللّٰهُ وَقَدۡ جَآءَكُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّكُمۡ ؕ وَاِنۡ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيۡهِ كَذِبُهٗ ؕ وَاِنۡ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبۡكُمۡ بَعۡضُ الَّذِىۡ يَعِدُكُمۡ ۚ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ كَذَّابٌ ۞

ترجمہ:

فرعون کے متبعین میں سے ایک مرد مومن جو اپنا ایمان مخفی رکھتا تھا، اس نے کہا : کیا تم ایک مرد کو اس لیے قتل کررہے ہو کہ اس نے کہا : میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لاچکا ہے، اگر وہ (بالفرض) جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) سے وہ ڈرارہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ (عذاب) تو تم پر آئے گا، بیشک جو حد سے تجاوز کرنے والا بہت جھوٹا ہو، اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

فرعون کے متبعین میں سے ایک مرد مومن جو اپنا ایمان مخفی رکھتا تھا، اس نے کہا : کیا تم ایک مرد کو اس لیے قتل کررہے ہو کہ اس نے کہا : میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لاچکا ہے، اگر وہ (بالفرض) جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) سے وہ ڈرارہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ (عذاب) تو تم پر آئے گا، بیشک جو حد سے تجاوز کرنے والا بہت جھوٹا ہو، اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا اے میری قوم ! آج تمہاری حکومت ہے کیونکہ تم اس ملک پر غالب ہو، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا ؟ فرعون نے کہا : میں تمہیں وہی (راستہ) دکھا رہا ہوں جو میں خود دیکھ رہا ہوں اور میں تمہیں صرف کامیابی کی راہ دکھا رہا ہوں (المومن : 28-29)

قوم فرعون کے مرد مومن کا تعارف اور اس کی فضیلت اور اس کے ضمن میں حضرت ابوبکر کی فضیلت

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں :

المومن : ٢٨ میں جس مرد مومن کا ذکر ہے، سدی نے کہا : وہ فرعون کا عم زاد تھا، لیکن وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاچکا تھا اور وہ اپنے ایمان کو فرعون اور اس کی قوم سے مخفی رکھتا تھا کیونکہ اس کو اپنی جان کا خطرہ تھا اور یہی وہ شخص تھا جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نجات حاصل کی تھی اور دوسرے مفسرین نے کہا : بلکہ وہ شخص اسرائیلی تھا، وہ اپنے ایمان کو فرعون اور آل فرعون سے مخفی رکھتا تھا۔ امام ابن جریر نے کہا : ان میں راجح قول سدی کا ہے۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٧٤۔ ٧٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام ابواسحق احمد بن ابراہیم اثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر علماء نے کہا : اس مرد مومن کا نام حزیبل تھا، وہب بن منبہ نے کہا : اس کا نام حزیقال تھا، ابن اسحاق نے کہا : اس کا نام خبرل تھا، ابواسحاق نے کہا : اس کا نام حبیب تھا۔ (الکشف والبیان ٨ ص ٢٧٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

یہ شخص ابتداء میں فرعون اور اس کے درباریوں سے اپنے ایمان کو چھپاتا تھا، بعد میں جب ایمان کی حرارت اس کے خون میں چنگاریوں کی طرح گردش کرنے لگی تو اس نے فرعون کے غیظ وغضب کی پرواہ کیے بغیر برملا اپنے ایمان کا اظہار کردیا اور جب وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے تو ان کو منع کیا اور وہ یخص اس حدیث کا مصداق تھا۔

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو ! کسی شخص کو جب حق بات کا علم ہو تو وہ لوگوں کے دبائو اور ان کے خوف کی وجہ سے حق بیان کرنے کو ترک نہ کردے، سنو ! ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے افضل جہاد ہے۔ الحدیث (مسند احمد ج ٣ ص ١٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٧ ص ٤٢٨، رقم الحدیث : ١١٤٣، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ١١٠١، المستدرک ج ٤ ص ٥٠٥، شعب الایمان رقم الحدیث : ٨٢٨٩، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٧٥٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٩١، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٤٠٣٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٠٠، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ١٢٨ )

جس طرح قوم فرعون میں سے ایک مرد مومن نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حمایت کی تھی، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی اسی طرح ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کی تھی، بلکہ حضرت ابوبکر (رض) کی حمایت زیادہ قوی تھی، حدیث میں ہے :

عروہ بن الزبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے دریافت کیا کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، کون سی سخت اذیت پہنچائی تھی ؟ انہوں نے کہا : میں نے ایک دن دیکھا کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے، عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن میں ڈال کر سختی کے ساتھ آپ کا گلا گھوٹنے لگا، اس وقت حضرت ابوبکر (رض) آگئے، انہوں نے اس کو دھکا دیا اور اس کو آپ سے دور کردیا اور یہ کہا : کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کررہے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لاچکا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٧٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٩٠٨، عالم الکتب، بیروت) اس شخص نے کہا : ” اگر وہ (بالفرض) جھوٹا ہوے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہے اور گر وہ سچا ہے تو جس عذاب سے وہ ڈرارہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ (عذاب) تو تم پر آئے گا۔ “

مدعی نبوت کو قتل نہ کرنے پر ایک اعتراض اور امام رازی کی طرف سے اس اعتراض کا جواب

اس آیت پر بہرحال یہ اشکال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرد مومن کا یہ کلام نقل فرمایا ہے کہ اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال صرف اسی پر ہوگا یعنی اس کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس آیت کے بہ موجب اگر کوئی جھوٹا نبی اپنے باطل دین کی تبلیغ کررہا ہو تو اس کو چھوڑ دیا جائے حالانکہ جھوٹے نبی اور زندیق کو قتل کرنا واجب ہے۔

امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : ہم یہ نہیں مانتے کہ اس کے جھوٹ کا ضرر صرف اسی تک محدود رہے گا کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے باطل دین کی دعوت دے گا اور لوگ اس کے باطل دین اور فاسد مذہب کو اپنا لیں گے اور اس سے بہت فتنہ اور فساد ہوگا، اس لیے اس فتنہ کا سدباب کرنے کے لیے علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جو زندیق لوگوں کو اپنے باطل دین کی دعوت دے رہا ہو اس کو قتل کرنا واجب ہے، دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس طرح ہر زندیق اور ہر باطل کو اپنے عقائد باطلہ کی تبلیغ کی اجازت مل جائے گی اور تیسرا اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو پھر کفار سے جہاد بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر ان کا کفر جھوٹ ہے تو ان کے اس جھوٹ کا ضرر صرف ان ہی کو ہوگا، پھر امام رازی نے ان تینوں اشکالوں کا یہ جواب لکھا ہے : اس مرد مومن کے کلام کا معنی یہ ہے کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جھوٹے ہیں تو تم کو ان کے شر کو دور کرنے کے لیے ان کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ تم ان کو تبلیغ کرنے سے روک دو ، پھر ان کو قتل کرنے سے باز رہو، پس اگر یہ جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا ضرر صرف ان ہی تک محدود رہے گا اور اگر یہ سچے ہیں تو تم ان سے نفع حاصل کرو، خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ جھوٹے ہیں تو تمہیں ان کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ تم ان کو ان کے دین کے اظہار سے روک دو اور اس تقریر سے یہ تینوں اعتراض دور ہوجائیں گے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥١٠۔ ٥٠٩، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اعتراض مذکورکا مصنف کی طرف سے جواب

میرے نزدیک اس تقریر سے یہ اعتراض دور نہیں ہوں گے کیونکہ اصل اور قوی اعتراض یہ ہے کہ جھوٹے نبی اور زندیق کو قتل کرنے کے وجوب پر تمام علماء اسلام کا اجماع ہے اور اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹے نبی کو صرف تبلیغ سے روک دیا جائے اس کو قتل نہ کیا جائے، اسی طرح کفار اگر اپنے کفر کی تبلیغ نہ کریں اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو ان کو بھی قتل نہ کیا جائے حالانکہ کفار کے خلاف مطلقاً جہاد کرنا فرض ہے خواہ وہ اپنے کفر کی تبلیغ کریں یا نہ کریں۔

میں نے نہیں دیکھا کہ امام رازی سے پہلے کسی کو یہ اشکال سوجھا ہو اور وہ اس جواب کے درپے ہوا ہو اور میں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی تائید سے یہ کہتا ہوں کہ اس آت میں اس مرد مومن نے مطقاً کسی زندیق، جھوٹے نبی یا کفار اور مخالفین کے لیے یہ حکم اور یہ قاعدہ بیان نہیں کیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ان کو قتل نہ کیا جائے، اگر وہ جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال صرف ان پر ہوگا اور اگر ایسا ہوتا تو قرآن مجید میں کفار اور منافقین سے جہاد کرنے کے متعلق اس قدر آیات کیوں نازل ہوتیں، بلکہ اس مرد مومن نے یہ حکم صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بیان کیا ہے، کیونکہ اس کا یہ ایمان تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور آپ انپنے دعویٰ نبوت میں صادق ہیں، لیکن فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا سمجھتے تھے اور آپ کو قتل کرنے کے درپے تھے تو اس مرد مومن نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جان بچانے کے لیے کہا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بالفرض جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال صرف ان پر ہوگا، ان کو قتل کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر وہ سچے ہیں تو جس عذاب سے وہ ڈرا رہے ہیں ان میں سے سے کچھ نہ کچھ عذاب تو تم پر آئے گا۔ اس مرد مومن کا یہ کلام قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ہے، جن کے بارے میں اس مرد مومن کا یہ ایمان تھا کہ آپ صادق ہیں اور اس کا یہ کلام قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی دعویٰ نبوت کرے اس کو قتل مت کرو، اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو ، اگر وہ اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ہوگا اور اگر وہ سچا ہے تو اس کی، کی ہوئی عذاب کی پیش گوئی ضرورپوری ہوگی۔ پھر اپنے کلام کے آخر میں اس مرد مومن نے کہا : بیشک جو حد سے تجاوز کرنے والا جھوٹا ہو، اللہ اس کو ہدایات نہیں دیتا۔ یعنی اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹے ہوتے اور اپنی حد سے یعنی عام انسان کی حد سے تجاوز کرکے نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس قدر دلائل اور معجزات پیش کرنے کی ہدایت کیوں دیتا ؟ ان کو یدبیضاء اور عصا کیوں عطا فرماتا ؟ ان کی مخالفت کرنے والوں پر جوئوں، مینڈکوں اور خون کیوں نازل فرماتا، اس سے واضح ہوگیا کہ اس مرد مومن کا یہ کلام بالخصوص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق تھا، بالعموم ہر مدی نبوت کے متعلق نہیں تھا کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اس کو قتل نہ کرو، جیسا کہ امام رازی قدس سرہٗ نے خیال فرمایا اور کہا ہے کہ اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ کسی زندیق کو قتل کیا جائے نہ کسی کافر کے خلاف جہاد کیا جائے۔ یہ اعتراض وقت لازم آتے جب اس مرد مومن نے عمومی طور پر قاعدہ کلیہ بیان کیا ہوتا۔

اور قرآن مجید میں جس طرح قضا یا کلیہ ہیں اسی طرح قضا یا شخصیہ بھی ہیں، مثلاً قرآن مجید میں ہے :

ترجی من تشاء منھن وتسوی الیک من تشاء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک۔ (الاحزاب :51)

(ان ازواج میں سے) جس کو چاہیں آپ اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جن ازواج کو آپ پاس سے الگ کرچکے ہیں ان میں سے کسی کو بھی آپ طلب کرلیں تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔

جن مسلمانوں نے ایک سے زیادہ بیویاں رکھی ہیں ان پر واجب ہے کہ ان میں عدل سے تقسیم کریں، ایک دن ایک بیوی کے پاس رہیں تو دوسرے دن دوسری بیوں کے پاس رہیں، ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایک بیوی کو اپنے پاس رکھ لیں اور دوسری کو نہ رکھیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ آپ اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنے ساتھ رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے ساتھ نہ رکھیں اور یہ حکم عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، اب اگر اس آیت سے کوئی شخص یہ نتیجہ نکالے کہ عام مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس بیوی کو چاہے اپنے پاس رکھے اور جس کو چاہے نہ رکھے تو اس کا یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا، جب اس نے ایک سے چار تک متعدد شادیاں کیں ہیں اور متعدد بیویاں رکھی ہیں تو اس کو انہیں باری باری انصاف سے رکھنا ہوگا، اسی طرح اس مرد مومن کا چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان تھا تو اس نے فرعون اور اس کے درباریوں سے کہا : تم ان کو قتل کیوں کرتے ہو ؟ اگر بالفرض وہ جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال صرف ان پر ہوگا اور اس مرد مومن نے ہر مدعی نبوت کے لیے عام حکم نہیں بیان کیا تھا کہ جو شخص بھی نبوت کا دعوٰ کرے اس کو قتل مت کرو، اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال خود اسی پر ہوگا، نیز اس مرد مومن نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صادق اور ہدایت یافتہ ہونے پر یہ دلیل بھی قائم کی تھی کہ :

ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب (المومن : 28) بیشک جو حد سے تجاوز کرنے والا بہت جھوٹا ہو اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا۔

وہ مرد مومن اس جملہ سے یہ بیان کررہا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں، اگر وہ اپنی حد سے تجاوز کرکے نبوت کا دعویٰ کرتے اور دعویٰ نبوت میں جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نہ دیتا اور دلائل و معجزات سے ان کی تائید نہ فرماتا اور اب آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ اس مرد مومن کے کلام میں حکم عام نہیں ہے۔

علامہ نظام الدین قمی نیشا پوری متوفی ٧٢٨ ھ نے امام رازی کے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ ہر حند کو اس مرد مومن کے کلام سے یہ بات نکلتی ہے کہ مدعی نبوت اگر جھوٹا ہو تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کو قتل نہ کیا جائے جب کہ علماء اسلام کا اجماع ہے کہ زندیق کو قتل کرنا واجب ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے احکام اس قدر واضح نہیں تھے جتنے اب واضح ہیں۔ (غرائب القرآن جز ٢٤ ص ٣٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

میں کہتا ہوں کہ اس جواب کا مآل یہ ہے کہ اس مرد مومن کا یہ کہنا صحیح نہیں تھا کہ جھوٹے نبی کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اگر ایسا ہی تھا تو اللہ تعالیٰ اس مرد مومن کے اس کلام کو رد فرما دیتا کیونکہ اگر جھوٹے نبی کو قتل نہ کیا جائے تو ہدایت گمراہی کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرد مومن کے کلام کی تحسین فرمائی ہے اور آل فرعون پر اس کے کلام کے متعدد جملوں کو بطور حجت اور نصیحت پیش فرمایا ہے۔ لہٰذا امام رازی کا جواب صحیح تھا نہ علامہ نیشاپوری کا جواب صحیح ہے، صحیح جواب وہی ہے جو ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی تائید سے لکھا ہے۔ والحمد للہ رب العٰلمین

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش گوئی کے بعض حصہ کے پورا نہ ہونے پر اعتراض کا جواب

اس مرد مومن نے کہا : ” اگر یہ سچے ہوئے تو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں اس میں سے کچھ نہ کچھ (عذاب) تو تم پر آئے گا “۔

اس پر یہ اعتراض ہے کہ ایسا تو کاہنوں کی پیش گوئیوں میں ہوتا ہے کہ ان کی پیش گوئی میں سے کچھ نہ کچھ پورا ہوجاتا ہے، سچے نبی کی تو یہ شان ہے کہ وہ جو کچھ کہے وہ پورا کا پورا ہوجاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دنیا کے عذاب سے بھی ڈرایا تھا اور آخرت کے عذاب سے بھی ڈرایا تھا، سو دنیا میں ان کی پیش گوئی کا ایک حصہ پورا ہوا اور فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں غرق کردیا اور ان کی پیش گوئی کا دوسرا حصہ آخرت میں پورا ہوگا جب ان کو دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس لیے دنیا میں تو بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش گوئی کا ایک حصہ ہی پورا ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 28