فَسَتَذۡكُرُوۡنَ مَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡؕ وَاُفَوِّضُ اَمۡرِىۡۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 44
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَسَتَذۡكُرُوۡنَ مَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡؕ وَاُفَوِّضُ اَمۡرِىۡۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ۞
ترجمہ:
پس عنقریب تم ان باتوں کو یاد کرو گے جو میں تم سے کرتا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بیشک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے
تفسیر:
تفویض کا معنیٰ
المومن : ٤٤ میں ارشاد ہے : ” پس عنقریب تم ان باتوں کو یاد کرو گے جو میں تم سے کرتا ہوں اور میں میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بیشک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے “ یعنی جب تم آخرت میں دوزخ کے عذاب کو دیکھو گے تو اس وقت تم ایک دوسرے سے میری کہی ہوئی باتوں کا ذکر کرو گے اور اس وقت تم میری نصیحتوں کو یاد کرو گے لیکن اس وقت اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اس آیت میں مرد مومن کے اس قول کا ذکر ہے : ” میں نے اپنے معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف مفوض کردیا۔ “ مفوض کا لفظ تفویض سے بنا ہے، اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے سامنے اپنے اردہ کو معطل کردینا اور کامل تفویض یہ ہے کہ کسی کام کے نفع اور ضرر میں اپنی قدرت کو ملحوظ رکھنا نہ کسی اور مخلوق کی قدرت کا خیال کرتا اور بعض علماء نے کہا کہ قضاء وقدر کے سامنے سر تسلیم خم کرنا دینا تفویض ہے۔ اور فرمایا : ” بیشک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے “ یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے اور جو شخص مصائب میں اس کی پناہ طلب کرے اس کی مدد فرماتا ہے۔ تفویض کا جس طرح یہ معنی ہے کہ اپنے معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے اسی طرح تفویض کا یہ بھی معنی ہے کہ دوسروں کے معاملات کے انجام اور عاقبت کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر کوئی شخص بُرا کام کررہا ہے تو اس کو حتی الوسع برائی سے روکنے کی کوشش کی جائے، اگر وہ پھر بھی بُرائی سے باز نہیں آتا تو اس سے یہ نہ کہے کہ اللہ تمہیں دوزخ میں ڈال دے گا اور تم کو عذاب دے گا بلکہ اس کی عاقبت اور انجام کو اللہ پر چھوڑ دے، اللہ کے ساتھ کیا کرے گا وہ خود ہی جانتا ہے، بندہ اپنی عاقبت کو اور اس کی عاقبت کو اللہ کی طرف مفوض کردے، اس معنی میں یہ حدیث ہے : ضمضم بن جوس الیمامی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : اے یمامی ! کسی شخص سے یہ ہرگز نہ کہنا کہ اللہ کی قسم ! تجھے اللہ نہیں بخشے گا اور نہ یہ کہنا کہ اللہ تجھے کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا، میں نے کہا : اے ابوہریرہ ! ہمارا ایک ساتھی جب اپنے بھائی پر غضب ناک ہوتا ہے تو اس سے یہ کہتا ہے، حضرت ابوہریرہ نے کہا : تم نہ کہنا، کیونکہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بنو اسرائیل میں دو شخص تھے، ان میں سے ایک عبادت میں بہت کوشش کرتا تھا اور دوسرا اپنے نفس پر بہت زیادتی کرتا تھا، عبادت میں کوشش کرنے والا اپنے بھائی کو ہمیشہ گناہوں پر ملامت کرتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ تم گناہ کم کیا کرو اور وہ کہتا تھا کہ تم مجھے میرے رب کے ساتھ چھوڑ دو ، کیا تم میرے نگہبان مقرر کیے گئے ہو ؟ ایک دن اس عبادت گزار نے اپنے بھائی کو ایک گناہ کرتے ہوئے دیکھا جو اس کے نزدیک بہت بڑا گناہ تھا، اس نے اپنے بھائی سے کہا تم پر افسوس ہے، گناہ کم کرو، اس کے بھائی نے کہا : مجھے میرے رب کے ساتھ چھوڑ دو ، کیا تم میرے ذمہ دار ہو ؟ اس عبادت گزارنے کہا : اللہ کی قسم ! تجھے اللہ نہیں بخشے گا، یا کہا : اللہ تجھے کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا، پھر اللہ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جس نے دونوں کی روحوں کو قبض کرلیا، وہ دونوں رب العٰلمین کے سامنے حاضر ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اس عابد سے فرمایا : کیا تجھ کو میرے فیصلہ کا علم تھا یا میرے قبضہ اور تصرف میں جو کچھ ہے تو اس پر قادر تھا اور اس گناہ گار سے فرمایا : جا میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجا اور اس دوسرے شخص کے متعلق فرمایا : اس کو دوزخ میں لے جائو، حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس عابد نے ایسی بات کہی تھی جس سے اس نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کرلی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩٠١، مسند احمد ج ٢ ص ٢٢٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٤ ص ٤٧۔ ٤٦، رقم الحدیث : ٨٢٩٢، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٧ ھ، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٧١٢، شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٦٨٩)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 44