وَقَالَ رَبُّكُمُ ادۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِىۡ سَيَدۡخُلُوۡنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيۡنَ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 60
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِىۡ سَيَدۡخُلُوۡنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيۡنَ۞
ترجمہ:
اور تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول فرمائوں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت سے جہنم میں داخل ہوں گے
المؤمن : ٦٠ میں دعا کا معروف معنی مراد ہے یا دعا سے عبادت کرنے کا معنی مراد ہے ؟
المومن : ٦٠ میں ارشاد ہے : ” اور تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول فرمائوں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت سے جہنم میں داخل ہوں گے “
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ آیا اس سے مراد دعا ہے یا اس آیت میں دعا سے مراد عبادت ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں دعا سے مراد عبادت ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے :
حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” وقال ربکم ادعونی استجب لکم “ (المومن :60) کی تفسیر میں فرمایا : ہر عبادت دعا میں منحصر ہے اور آپ نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ :) ” بیشک جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت سے دوزخ میں داخل ہوں گے “۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٩٦٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٧٩، سنن ابن ماجہ رقم الحیث : ٣٨٢٨، مسند احمد ج ٤ ص ٢٦٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٠ ص ٢٩٨، رقم الحدیث : ١٨٣٥٢، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٩٠١، کتاب الدعا للطبرانی رقم الحدیث : ٤، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١٠٤١، المستدرک ج ١ ص ٤٩١، حلیۃ الاولیاء ج ٨ ص ١٢٠ )
میں کہتا ہوں کہ اگر دعا سے اس کا معروف معنی مراد لیا جائے تو وہ بھی درست ہے اور اس حدیث کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰ سے دعا کرنا بھی اس کی عبادت کرنا ہے۔
دعا کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت میں حسب ذیل احادیث ہیں :
دعا کی ترغیب اور فضیلت میں احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے فرمایا : میں اپنے بندے کے گمان کے موافق ہوتا ہوں اور جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٠٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٧٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٣)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ کسی چیز کی فضیلت نہیں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٢٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٨٦٧، المستدرک ج ١ ص ٤٩٠)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ پسند ہے کہ اس سے عافیت کا سوال کیا جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پر کوئی مصیبت آئے یا نہ آئے، دعا ہرحال میں تمہیں نفع دیتی ہے سو اے اللہ کے بندو ! دعا کو لازم رکھو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٨، المستدرک ج ١ ص ٤٩٨، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٢٧٨٤)
حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ بہت حیاء فرمانے والا، بہت کریم ہے، جب بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ ان ہاتھوں کو خالی اور ناکام لوٹانے سے حیاء فرماتا ہے۔
(سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٥٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٦٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٧٣، المستدرک ج ١ ص ٤٩٧)
حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تقدیر صرف دعا سے ٹلتی ہے، عمر میں صرف نیکی سے اضافہ وتا ہے اور انسان گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتا ہے۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٧٢، المستدرک ج ١ ص ٤٩٣)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دعا عبادت کا مغز ہے۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٣٧١، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٣٢٠، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا، اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٢٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٢٠٠، مسند احمد ج ٢ ص ٤٤٢، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٦٥٥، المستدرک ج ١ ص ٤٩١، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٣٨٩)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتائوں جو تمہیں تمہارے دشمنوں سے نجات دے اور تمہارے رزق کو زیادہ کرے : تم دن رات اللہ سے دعائیں کیا کرو کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ (مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ١٨١٢)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بندہ اپنے رب عزوجل کے سب سے زیادہ قریب سجدہ میں ہوتا ہے، پس تم (سجدہ میں) بکثرت دعا کیا کرو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٨٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے، جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے : کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اس کو عطا کروں ؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٩٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨، موطا امام مالک رقم الحدیث : ٦١٩، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٦٥٣، مسند احمد ج ٢ ص ٢٦٤، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٤٨٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣١٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦١٥٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١٩)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا : یارسول اللہ ! کس وقت کی دعا سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣٩٤٨ )
دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور قبولیت دعا کی شرائط
اس آیت میں یہ ارشاد ہے : ” اور تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا کو قبول فرمائوں گا “۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ کتنی مرتبہ لوگ دعا کرتے ہیں اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کے قبول ہونے کی چند شرائط ہیں، جب ان شرائط کے مطابق دعا کی جائے تو پھر دعا ضرور قبول ہوتی ہے، وہ شرائط اور ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :
(١) دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس رزق حلال سے ہونا چاہیے، اگر اس کا رزق حرام ہو تو پھر اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ طیب (پاک) ہے، وہ طیب کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ پھر آپ نے فرمایا : ایک آدمی لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال بکھرے ہوئے غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور کہتا ہے : اے میرے رب ! اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہوتا ہے اور اس کا پینا حرام ہوتا ہے اور اس کا لباس حرام ہوتا ہے اور اس کی غذا حرام ہوتی ہے، اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٩٨٩، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٨٨٣٩، مسند احمد ج ٢ ص ٣٢٨، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٧٢٠، الکامل لابن عدی ج ٢ ص ٢٦٤، سنن بیہقی ج ٣ ص ٣٤٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٢٠٢٨ )
(٢) دعا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور حاضر کرکے دعا کرے، قلب غافل سے دعا نہ کرے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اللہ سے اس طرح دعا کرو کہ تمہیں دعا کے قبول ہونے کا یقین ہو، یادرکھو، اللہ اس دل کی دعا قبول نہیں فرماتا جو غافل ہو اور اس کا دھیان لہو ولعب میں ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٧٩، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥١٠٥، الکامل لان عدی ج ٤ ص ١٣٨٠، المستدرک ج ١ ص ٤٩٣، تاریخ بغداد ج ٤ ص ٣٥٦ )
(٣) دعا کرنے والا راحت کے ایام میں بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کو اس سے خوشی ہو کہ اللہ مشکلات اور مصائب میں اس کی دعا قبول کرے اس کو چاہیے کہ وہ آسانی اور راحت کے ایام میں اس سے زیادہ دعا کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٨٢، المستدرک ج ١ ص ٤٤٤ )
(٤) بےنیازی سے دعا نہ کرے، بلکہ اصرار سے اور گڑگڑا کر دعا کرے۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو پورے عزم کے ساتھ دعا کرے اور یہ ہرگز نہ کہے کہ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٣٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦١٨، مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠٠٣، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ١٨٦٠ )
(٥) دعا کے قبول ہونے میں جلدی نہ کرے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت قبول کی جاتی ہے جب وہ دعا کی قبولیت میں جلدی نہ کریں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٨٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥٣ )
(٦) کسی گناہ کے حصول یا رشتہ منقطع کرنے کی دعا نہ کرے۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم میں سے جو شخص بھی اللہ سے دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کا سوال عطا کردیتا ہے یا اس سے کسی مصیبت کو ٹال دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی دعا نہ کرے یا رشتہ منقطع کرنے کی دعا نہ کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٨١، مسند احمد ج ٣ ص ٣٦٠ )
(٧) گڑگڑا کر، عاجزی سے، ڈرتے ہوئے اور مسکین بن کر دعا کرے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو دو رکعت نماز پڑھو اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو، پھر گڑگڑائو، عاجزی کرو، مسکین بنو، پھر اپنے دونوں ہاتھ اللہ عزوجل کی طرف اس طرح اٹھا کر دعا کرو کہ ہتھیلیاں تمہاری طرف ہوں اور کہو : اے میرے رب ! اے میرے رب ! اور جو اس طرح نہیں کرے گا اس کی نماز ناقص ہوگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥، مسند احمد ج ١ ص ٢١١، ج ٤ ص ١٦٧، المعجم الکبیر ج ١٨ ص ٢٩٥، کتاب الدعا رقم الحدیث : ٢١٠)
(٨) دنیا میں کسی مصیبت کے نزول کی دعا نہ کرے۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مسلمان شخص کی عیادت کی، جو چوزے کی طرح بہت کمزور ہوچکا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : کیا تم اللہ سے کوئی دعا یا کوئی سوال کرتے تھے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! میں یہ دعا کرتا تھا کہ اے اللہ ! اگر تو مجھے آخرت میں کوئی سزا دینے والا ہے تو تو مجھے دنیا میں ہی سزا دے دے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سبحان اللہ ! تم اس کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے : اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا، پھر آپ نے اس کے لیے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کو شفا دے دی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٨٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٨٩٢، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ١١٩٠)
(٩) اپنے مسلمان بھائی کے لیے پس پشت دعا کرے تو جو دعا وہ اس مسلمان بھائی کے لیے کرے گا وہ اس کے حق میں بھی قبول ہوجائے گی۔
حضرت، ام الدرداء (رض) بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان شخص اپنے بھائی کے پس پشت اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے : اے اللہ ! اس کو بھی اس کی مثل عطا فرما۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٣٤)
(١٠) دعا کی ابتداء میں اللہ عزوجل کی حمدوثناء کرے تو اس کی دعا رد نہیں کی جاتی۔
حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے یہ کلمات پڑھ کر دعا کی وہ اللہ سے جس چیز کا بھی سوال کرے گا اللہ اس کو وہ عطا فرما دے گا، (وہ پانچ کلمات یہ ہیں :) لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، لا الہ الا اللہ وحدہ لا شر کی لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، لا الہ الا اللہ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ (المعجم الکبیرج ١٩ ص ٣٦١، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٦٣٤، دارالکتب العلمیہ، ١٤٢٠ ھ، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٢٦٤ )
(١١) دعا میں سب سے پہلے اللہ عزوجل کی حمدوثناء کرے، پھر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود شریف پڑھے، پھر اس کے بعد اپنے لیے دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
امام عبدالرزاق بن ہمام متوفی ٢١١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں : جب تم میں سے کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کا ارادہ کرے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمدوثناء کرے جو اس کے شایان شان ہے۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے، پھر دعا کرے تو اس کا قبول ہونا اور کامیاب ہونا زیادہ متوقع ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ج ١٠ ص ٤٤١، طبع قدیم، مصنف عبدالرزاق ج ١٠ ص ٥٢، رقم الحدیث : ١٩٨١٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ، المعجم الکبیررقم الحدیث : ٨٧٨٠، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کو حضرت ابوعبیدہ نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے اور ان کا سماع حضرت ابن مسعو سے ثابت نہیں ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٢٥، میں کہتا ہوں کہ حضرت ابن مسعود سے ان کا سماع ثابت ہے۔ عمدۃ القاری ج ٢ ص ٣٠٣، مصر)
(١٢) دعا کے اوّل اور آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا جائے تو وہ دعا رد نہیں ہوتی۔
حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے فرمایا : دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے اور اس کا کوئی لفظ اوپر نہیں چڑھتا حتی کہ تم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھ لو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٦، جلاء الافہام رقم الحدیث : ٥٠، جامع المسانید والسنن مسند عمر بن الخطاب رقم الحدیث : ١٢٣ )
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر دعا کے اور آسمان کے درمیان حجاب ہوتا ہے حتیٰ کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا جائے اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھ لیا جائے تو وہ حجاب پھٹ جاتا ہے اور دعا قبول ہوجاتی ہے اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود نہ پڑھا جائے تو وہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٦١٤٨، زہر الفردوس ج ٤ ص ٢٣، الکامل لا بن عدی ج ٢ ص ٢٠٤، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٧٢٥، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٠ )
(١٣) روزہ دار، امام عادل اور مظلوم کی دعا رد نہیں کی جاتی۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی، روزہ دار جب روزہ افطار کرتا ہے اور امام عادل اور مظلوم کی دعا، اللہ تعالیٰ ان دعائوں کو بادلوں کے اوپر اٹھا لیتا ہے اور ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رب فرماتا ہے : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! میں تیری ضرور مدد کروں گا، خواہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٢٦۔ ٣٥٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٥٣، مسند احمد ج ٢ ص ٤٤٥، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٩٠١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٤١٩، مسند البزار رقم الحدیث : ٣١١٩، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٥١ )
(١٤) مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے لیے دعا بھی رد نہیں کی جاتی۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں کی دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (١) مظلوم کی دعا (٢) مسافر کی دعا (٣) اور والد کی اپنی اولاد کے لیے دعا۔ (اس حدیث کی سند حسن ہے) (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٦٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٦٢ )
(١٥) جس دعا کے آخر میں آمین کہا جائے اس کی قبولیت پر مہر لگ جاتی ہے۔
حضرت ابوزہیر (رض) بیان کرتے ہیں، کہ ایک رات ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باہر نکلے، ہم ایک شخص کے پاس آئے جو بہت گڑگڑا کر دعا کررہا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر اس کی دعا سننے لگے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس نے دعا پر مہر لگادی تو اس کی قبولیت واجب ہوجائے گی، ایک شخص نے پوچھا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کس چیز سے مہر لگے گی ؟ آپ نے فرمایا : آمین سے، اگر اس نے دعا کو آمین پر ختم کیا تو اس کی قبولیت واجب ہوجائے گی، پھر وہ آدمی چلا گیا جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا، پھر آپ اس شخص کے پاس آئے جو دعا کررہا تھا، پس آپ نے فرمایا : اے فلاں ! دعا کو آمین پر ختم کرو اور بشارت لو۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩٣٨)
(١٦) دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص دعا کرے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتا ہو، قرآن مجید میں ہے :
اجیب دعوۃ الداع اذ دعان فلیستجیبولی۔ (البقرہ :186)
جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو بھی تو چاہیے کہ یہ بھی میرا کہا مانا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سے مستغنی ہے، وہ پھر بھی ہمارا کہا مان لیتا ہے اور ہم اس کے محتاج ہیں، سو ہم کو تو بہت زیادہ اس کا کہا ماننا چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ ہم اس کا کہا مانتے رہتے خواہ وہ ہمارا کہا مانتا یا نہ مانتا، کیونکہ وہ مالک ہے اور ہم مملوک ہیں۔ لیکن یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے کہا : آئو برابر کا سلوک کرلو۔
فاذکرونی اذکرکم۔ (البقرہ :152) تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کرلوں گا۔
واوفوا بعھدی اوف بعھدکم۔ (البقرہ : 40) تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔
اور تم میرا حکم مانوں میں تمہاری دعا قبول کرلوں گا (البقرہ : ١٨٦) اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم خواہ اس کا حکم مانیں یا مانیں اور ہماری دعائیں قبول کرتا رہے، گویا ہم اس کے ساتھ برابر کا سلوک کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔
وما قدروا اللہ حق قدرہ۔ (الانعام : 92) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہ کی جیسی اس کی قدر کرنی چاہیے تھی۔
دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور دعا کی شرائط اور اوقات کے متعلق علماء اور فقہاء کے اقوال
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
سہل بن عبداللہ تستری نے کہا : دعا کی سات شرطیں ہیں (١) گڑگڑانا (٢) خوف (٣) امید (٤) دوام یعنی ہمیشہ دعا کرنا (٥) خشوع (٦) عموم یعنی عموم کے صیغوں سے دعا کرنا (٧) حلال رزق کھانا۔
ابن عطاء نے کہا : دعا کے ارکان ہیں یا پر ہیں اور اسباب ہیں اور اوقات ہیں، اگر دعا اپنے ارکان کے موافق ہو تو وہ قوی ہوتی ہے اور اگر اپنے پروں کے موافق ہو تو آسمان پر اڑ کر پہنچتی ہے، اگر اپنے وقت کے موافق ہو تو کامیاب ہوتی ہے اور اگر اپنے اسباب کے موافق ہو تو ظفریاب ہوتی ہے، دعا کے ارکان یہ ہیں : حضور قلب، تواضع اور انکسار اور خشوع اور اس کے پر صدق ہیں اور اس کا وقت رات کا پچھلا پہر ہے اور اس کا سبب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ وسلام پڑھنا ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ دعا کی چار شرطیں ہیں : (١) تنہائی میں دل کی حفاظت کرنا (٢) لوگوں کے سامنے زبان کی حفاظت کرنا (٣) نظرم کی محارم سے حفاظت کرنا (٤) پیٹ کی لقمہ حرام سے حفاظت کرنا۔
ابراہیم بن ادھم سے پوچھا گیا : کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور ہماری دعا قبول نہیں ہوتی، انہوں نے کہا : کیونکہ تم اللہ کو پہچانتے ہو پھر اس کی اطاعت نہیں کرتے اور تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتے ہو پھر آپ کی اتباع نہیں کرتے اور تم قرآن کریم کو پڑھتے ہو پھر اس پر عمل نہیں کرتے اور تم اللہ کی نعمتیں حاصل کرتے ہو اور ان کا شکر ادا نہیں کرتے اور تمہیں جنت کا علم ہے اور تم اس کو طلب نہیں کرتے اور تمہیں دوزخ کی معرفت ہے اور تم اس سے نہیں بھاگتے اور تم شیطان کو جانتے ہو پھر بھی تم اس سے جنگ کرنے کی بجائے اس کی موافقت کرتے ہو اور تمہیں موت پر یقین ہے پھر بھی تم اس کی تیاری نہیں کرتے اور تم مردوں کو دفن کرتے ہو پھر بھی تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور تم اپنے عیوب کو نظر انداز کرتے ہو اور لوگوں کے عیوب میں مشغول رہتے ہو۔
حضرت علی (رض) نے نوف البکالی سے کہا : اے نوف ! اللہ عزوجل نے حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف یہ وحی کی کہ آپ بنی اسرائیل سے کہئے : میرے گھر میں صرف پاک دل، خائف نظر اور صاف ہاتھوں کے ساتھ داخل ہوں اور جب تک کوئی شخص میری مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرنے سے بری نہ ہو میں اس کی دعا قبول نہیں کرتا اور نوف ! تم شاعر نہ بنو (یعنی جھوٹے، خیالی قصے اور لوگوں کی خوشامد پر مشتمل اشعارکہنے والا، اس سے اللہ اور رسول کی حمد اور نعت اور وعظ و نصیحت کے اشعار مستثنیٰ ہیں) اور نہ گری پڑی چیز کا اعلان کرنے والا اور نہ (ظالم) سپاہی اور نہ (ظالم) ٹیکس وصول کرنے والا اور نہ (ظالم) عشر وصول کرنے والا، کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) رات کی ایک ساعت میں کھڑے ہوئے اور کہا : اس ساعت میں اللہ تعالیٰ ہر بندے کی دعا قبول فرماتا ہے، سوا اس کے جو اعلان کرنے والا ہو یا سپاہی ہو یا ٹیکس وصول کرنے والا ہو یا عشر وصول کرنے والا ہو یا ڈھول بجانے والا ہو یعنی موسیقار۔
موطا امام مالک میں ہے جب تم سے کوئی دعا کرے، تو پورے عزم سے دعا کرے یہ نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے اور اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔ (صحیح البخاری ٦٣٣٨، صحیح مسلم : ٢٦٧٨، موطا امام مالک : ٤٩٤۔ ٤٩٢) ہمارے علماء نے کہا ہے کہ آپ نے جو فرمایا ہے کہ پورے عزم سے سوال کرے اس میں یہ دلیل ہے کہ مومن کو دعا میں خوب کوشش کرنی چاہیے اور اس کو دعا کے قبول ہونے کی امید رکھنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ کریم سے دعا کررہا ہے۔
سفیان بن عیینہ نے کہا : انسان اپنی کسی جائز خواہش کی دعا کرنے سے باز نہ رہے کیونکہ بدترین خلائق ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے حشر تک کی مہلت دے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو ان میں سے ہے جن کو مہلت دی گی ہے اور دعا کے لیے ایسے اوقات اور احوال ہوتے ہیں جن میں دعا قبول ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے اور وہ اوقات یہ ہیں : وقت سحر، وقت افطار، اذان اور اقامت کے درمیان کا وقت، بدھ کے دن ظہر اور عصر کا درمیانی وقت، اضطرار (مجبوری) کا وقت، حالت سفر، حالت مرض، بارش نازل ہونے کا وقت، جہاد کا وقت اور ان تمام اوقات کے متعلق آثار وارد ہیں۔ (ان اوقات میں ساعت جمعہ کو بھی ذکر کرنا چاہیے تھا)
شہر بن حوشب نے روایت کیا ہے کہ حضرت امام الدرداء (رض) نے کہا : اے شہر ! کبھی خوف خدا سے تمہارے رونگٹے کھڑے ہوئے ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں ! انہوں نے کہا : اس وقت اللہ سے دعا کیا کرو کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢ ص ٢٩١۔ ٢٩٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
بعض دعائوں کے قبول نہ ہونے کے متعلق امام رازی کی توجیہ
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : ” تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا “ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم دعا کرتے ہیں اور ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ امام رازی فرماتے ہیں : میرے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ پس ہر وہ شخص جو اللہ سے دعا کرے اور اس کے دل میں پانے مال، اپنے اقتدار، اپنے رشتہ داروں، اپنے دوستوں اور اپنی جدوجہد پر اگر ذرہ برابر بھی اعتماد ہو تو درحقیقت اس نے صرف زبان سے دعا کی ہے اور دل سے اس کا اعتماد ان چیزوں پر ہے جو اللہ غیر ہیں، تو اس شخص نے کسی وقت بھی اللہ سے ایسی دعا نہیں کی جس میں اس کے دل کی توجہ غیر اللہ کی طرف نہ ہو، پس ظاہر یہ ہے کہ انسان کی دعا اسی وقت قبول ہوگی جب اس کا دل غیر اللہ سے بالکلیہ منقطع ہو اور انسان کا دل غیر اللہ سے بالکلیہ اسی وقت منقطع ہوتا ہے جب اس کی موت قریب ہو، کیونکہ اس وقت انسان کو قطعی طور پر اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کو اللہ کے فضل کے سوا کوئی چیز نفع نہیں دے گی، لہٰذا اس قاعدہ کے مطابق جس کو ہم نے ذکر کیا ہے اللہ کے نزدیک انسان کی دعا صرف اسی وقت قبول ہوگی جب اس کی موت قریب ہوگی اور ہم اللہ کے فضل اور احسان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب موت کا وقت قریب ہوگا تو وہ ہمیں ایسی دعا کرنے کی توفیق دے گا جو اخلاص اور گڑگڑانے سے مقرون ہوگی۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر زند گی میں بہت دفعہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو دوسری چیزوں پر بھی اعتماد ہوتا ہے اور اخلاص کے ساتھ ہماری دعا اس وقت ہوگی جب موت قریب ہوگی اور اس وقت ہماری دعا قبول ہوجائے گی۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٢٨۔ ٥٢٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی کے جواب پر مصنف کی نقد ونظر
میرے نزدیک امام رازی کا یہ جواب حسب ذیل وجوہ سے صحیح نہیں ہے :
(١) یہ لازم نہیں ہے کہ انسان اخلاص کے ساتھ اللہ سے صرف اسی وقت دعا کرسکتا ہے جب اس کی موت کا وقت قریب ہو، اگر ایسا ہوتا تو قرآن اور حدیث میں ہم کو صرف اسی وقت دعا کرنے کی ہدایت دی جاتی جس ہماری موت کا وقت قریب ہو۔
(٢) یہ قاعدہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ زندگی میں متعدد بار ایسی صورت پیش آتی ہے کہ جب انسان کے تمام سہارے ختم ہوجاتے ہیں اور وہ اخلاص کے ساتھ اللہ سے دعا کرتا ہے اور اللہ کے سوا اس کی اور کسی کی طرف نظر نہیں ہوتی۔
(٣) قرآن مجید میں ہے :
واذ مس الانسانن ضردعا ربہ منیبا الیہ ثم اذا خولہ نعمہ منہ نسی ماکان یدعوالیہ من قبل۔ (الزمر :8)
اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب سے رجوع کرتے ہوئے دعا کرتا ہے، پھر جب اس کو اللہ اپنے پاس سے نعمت عطا فرمادیات ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے کیا دعا کرتا رہا تھا۔
اس آیت میں انسان کے دعا کرنے اور اس دعا کے قبول کیے جانے کا ذکر ہے اور یہ قرب موت کا وقت نہیں ہے۔
(٤) واذا مس الانسان الضردعا نا لجنبہ اوقاعدا او قائماً فلما کشفنا عنہ ضرہ مرکان لم یدعنا الی ضر مسہ۔ (یونس :12)
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہم کے لیٹے ہوئے بھی پکارتا ہے، بیٹھے ہوئے بھی اور کھڑے ہوئے بھی، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ اس طرح گزر جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کبھی اس تکلیف میں پکارا ہی نہ تھا جو اسے پہنچی تھی۔
اس آیت میں بھی انسان کے دعا کرنے اور اس کے دعا کے قبول ہونے کا ذکر ہے اور یہ بھی قرب موت کے وقت کی دعا نہیں ہے۔
(٥) امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء۔ (النحل :62)
وہ کون ہے جو مجبور کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اس سے مصیبت کو دور کرتا ہے۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ جب کوئی شخص مجبور ہو کر اس سے دعا کرے تو وہ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور وہ قرب موت کا وقت نہیں ہوتا۔
(٦) فاذارکبوافی الفلک دعواللہ مخلصین لہ الدین۔ فلما نجھم الی البراذاھم یشرکون (العنکبوت :65)
اور جب مشرکین کشتیوں میں سوار ہتے ہیں تو اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں، پھر جب اللہ انہیں خشکی کی طرف بچا کرلے آتا ہے تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں
اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ مشرکین بھی اخلاص کے ساتھ دعا کرتے ہیں اور اللہ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور کشتی میں سوار ہونے کا وقت قرب موت کا وقت نہیں ہے۔
(٧) واذمس الناس ضردعوا ربھم منیبین الیہ ثم اذا اذا قھم منہ رحمۃ اذا فریق منھم بربھم یشرکون (الروم :33)
اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس سے دعا کرتے ہیں، پھر جب اللہ ان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھا دیتا ہے تو پھر ان میں سے ایک فریق اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔
اس آیت میں اس بات کا واضح بیان ہے کہ جو انسان بھی تکلیف کے وقت اللہ سے دعا کرے اللہ اس پر رحم فرماتا ہے اور اس میں بھی قرب موت کا وقت نہیں ہے۔
(٨) واذا غشیھم موج کا لظلل دعوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ فلما تجھم الی البر فمنھممقصد وما یجحد بایتنا الا کل خثار کفور
(لقمان :32)
اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں، پھر جب اللہ انہیں خشکی کی طرف بچا کرلے آتا ہے تو ان میں سے بعض اعتدال پر رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں
جب سمندر میں موجوں کے اٹھنے کے وقت مشرکین بھی اللہ سے اخلاص کے ساتھ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرمالیتا ہے اور یہ بھی قرت موت کا وقت نہیں ہوتا، موت اس وقت ان کے قریب ہوتی جب موجوں کے تھپیڑوں سے کشتی ان کے ہاتھ سے نکل جاتی اور وہ صرف لہروں کے رحم و کرم پر ہوتے اور ڈوب رہے ہوتے۔
(٩) واذ امسکم الضرفی البحر ضل من تدعون الا ایاہ فلما نجکم الی البرا عرضتم وکان الانسان کفورا (بنی اسرائیل : 67)
اور جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اللہ کے سوا وہ سب گم ہوجاتے ہیں جن کو تم پکارا کرتے تھے، پھر جب وہ تم کو بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو تم اعراض کرلیتے ہو اور انسان بہت ناشکرا ہے
اس آیت میں بھی یہ بتایا کہ جب مشرک بھی مصیبت کے وقت اخلاص کے ساتھ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمالیتا ہے حالانکہ وہ بھی قرب موت کا وقت نہیں ہوتا۔
(١٠) قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر تدعونہ تضرعا وخفیۃ لئن انجنا من ھذہ لنکونن میں الشکرین
(الانعام :64)
آپ کہیے کہ اللہ ہی تم کو ان اندھیروں سے نجات دیتا ہے اور ہر مصیبت سے نجات دیتا ہے تم پھر بھی شرک کرتے ہو
یعنی مشرکین جب مصائب سے نجات کی دعا کرتے ہیں تو اللہ قبول فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے کے موقع پر ان دس آیتوں میں سے کسی آیت میں بھی قرب موت کا وقت بیان نہیں فرمایا، کسی قسم کی تکلیف ہو، مصیبت ہو، بیماری ہو، کشتیوں میں سوار ہنے کا وقت ہو، موجوں کا سامنا ہو، بحروبر کے اندھیرے ہوں، جس وقت بھی اس سے اخلاص کے ساتھ دعا کی جائے وہ دعا قبول فرمالیتا ہے، خواہ دعا کرنے والا مومن ہو یا مشرک اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اخلاص صرف موت کو سامنے دیکھ کر ہو، کسی بھی وقت اخلاص ہوسکتا ہے اور جب بھی اخلاص کے ساتھ دعا کی جائے گی اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمالے گا، صرف وہ دعا قبول نہیں ہوگی جس میں اخلاص نہ ہو۔
ہم نے پہلے دس آیتوں سے امام رازی کے اس قول کا رد کیا ہے کہ صرف موت کو قریب دیکھ کر جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے، اب ہم صحیح اور صریح احادیث سے اس قول کا رد کرتے ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الا ستعانۃ یلیق۔
(١٢) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ (١) روزہ دار جب روزہ افطار کرتا ہے اور (٢) امام عادل (٣) اور مظلوم کی دعا۔ الحدیث (سنن الترمذی : ٢٥٢٦ )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین آدمیوں کی دعا کے قبول ہونے کا گارنٹی دی ہے اور ان میں سے کسی کی بھی دعا اس وقت نہیں ہے جب موت قریب ہوتی ہے۔
(١٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں کی دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے (١) مظلوم کی دعا (٢) مسافر کی دعا (٣) والد کی اپنی اولاد کے لیے دعا۔ (سنن الترمذی الحدیث : ٢٤٦٢ )
اس حدیث میں بھی یہ قید نہیں ہے کہ جب موت قریب ہو تو ان کی دعا قبول ہوگی بلکہ مطلقاً فرمایا : ان کی دعا قبول ہوگی۔
(١٤) حضرت ابوزبیر (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس دعا کے آخر میں آمین کہا جائے وہ دعا قبول ہوتی ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩٣٨)
اس حدیث میں بھی قرب موت کی قید نہیں ہے۔
(١٥) حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جس دعا کے اوّل اور آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ (سنن ترمذی : ٤٨٦)
ان احادیث سے بھی واضح ہوگیا کہ امام رازی کا یہ کہنا صحیح نہیں و ہے کہ صرف وہی دعا قبول ہوتی ہے جو قرب موت کے وقت کی جائے۔
(١٦) امام رازی نے یہ کہا ہے کہ اخلاص کے ساتھ توبہ اسی وقت ہوسکتی ہے جب موت قریب ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ تلقین کی ہے کہ انسان سے جب گناہ سرزد ہوجائے وہ اسی وقت توبہ کرے۔
والذین اذا فعلوا فاحشۃ اوظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون (آل عمران :135)
اور جب لوگ کوئی بےحیائی کا کام کر گزریں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں، پھر فورات اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخشے گا اور اپنے کاموں پر دانستہ اصرار نہ کیا ہو
(١٧) انما التوۃ علی اللہ للذین یعملون السوء بجھا لۃ ثم یتوبون من قریب فاولئک یتوب اللہ علیھم۔ وکان اللہ علیما حکیما (النساء : 17)
اللہ پر صرف ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرنا ہے، جو ناواقفیت سے کوئی گناہ کرلیں پھر فوراً توبہ کرلیں، پس اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور اللہ بہت علم والا، بےحد حکمت والا ہے۔
امام رازی نے جو قرب موت کے وقت دعا کی تلقین کی ہے وہ ان آیات کے خلاف ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(١٨) وھوالذی یقبل التوۃ عن عبادہ ویعفوا عن السیات (الشوریٰ :25)
وہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔
(١٩) وابی لغفار لمن تاب۔ (طٰہٰ :82)
اور بیشک میں اس کو ضرور بےحد بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے۔
ان آیتوں کا تقاضا ہے کہ بندہ جس وقت بھی توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کو معاف فرما دیتا ہے اور حدیث میں ہے :
(٢٠) حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل رات کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے، حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٥٩، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٩١٤٥ )
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ بندہ دن کے گناہ کی رات آنے سے پہلے توبہ کرلے اور رات کے گناہ کی دن آنے سے پہلے توبہ کرلے اور اگر اس نے بندہ کی توبہ اور اس کی دعا صرف قرب موت کے وقت قبول کرنی ہوتی تو وہ بندوں کو جلد توبہ کرنے کی تلقین کیوں فرماتا جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو توبہ کرنے میں تاخیر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
ولیست التوبۃ للذین یعملون السیات حتیٰ اذاحضر احدھم الموت قال انی تبت الئن۔ (النساء :18)
امام رازی نے جو اس آیت کی تفسیر کی ہے اور بعض دعائوں کے قبول نہ ہونے کا یہ جواب دیا ہے کہ اخلاص سے توبہ صرف قرب موت کے وقت ہوتی ہے اور اسی وقت کی دعا قبول ہوتی ہے اور یہ کہا ہے کہ ہم اللہ کے فضل اور احسان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب موت کا وقت قریب ہوگا تو وہ ہمیں ایسی دعا کرنے کی توفیق دے گا جو اخلاص کے ساتھ ہوگی۔ امام رازی کی یہ تقریر اور تلقین اور ان کی یہ توقع بکثرت آیات اور احادیث کے خلاف ہے اور اللہ ہی صحیح تفسیر کی ہدایت اور توفیق دینے والا ہے۔
ہم نے اس سے پہلے بھی دعا کے موضوع پر لکھا ہے اور اس کے یہ عنوانات ہیں :
اللہ سے دعا کرنے کے متعلق احادیث، ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے متعلق احادیث، فرض نمازوں کے بعد دعا کرنے کے متعلق احادیث، فرض نمازوں کے بعددعا کرنے کے متعلق فقہاء اسلام کی آراء، دعا قبول ہونے کی شرائط اور آداب۔ (بتیان القرآن ج ١ ص ٧٣٦۔ ٧٢٤ )
مانعین دعا کے دلائل، مانعین دعا کے دلائل کے جوابات، دعا قبول نہ ہونے کے فوائد، دعا کی ترغیب اور فضیلت میں احادیث، آہستہ دعا کرنے کے فوائد اور نکات، خارج نماز دعا کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے کے متعلق مذاہب فقہاء، خارج نماز دعا کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے کے متعلق احادیث، ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے متعلق حرف آخر۔ (بتیان القرآن ج ٤ ص ١٨٣۔ ١٦٩ )
دعا کے موضوع پر بتیان القرآن میں جس قدر ابحاث آگئی ہیں شاید کسی اور کتاب میں نہ مل سکیں اور یہ محض اللہ تعالیٰ توفیق اور اس کی تائید ہے، والحمدللہ رب العٰلمین۔
القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 60
ماشاءاللہ۔۔ سبحان اللّہ، اللّہ رب العزت آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ کے اس کام کو قبول فرمائے۔ بہترین انداز میں آپ نے آیات اور احادیث مبارکہ کو ترتیب دے کر کتابت کی ہے۔