فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا صَرۡصَرًا فِىۡۤ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّـنُذِيۡقَهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ؕ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَخۡزٰى وَهُمۡ لَا يُنۡصَرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا صَرۡصَرًا فِىۡۤ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّـنُذِيۡقَهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ؕ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَخۡزٰى وَهُمۡ لَا يُنۡصَرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
سو ہم نے (ان کے) منحوس دنوں میں ان پر خوفناک آواز والی آندھی بھیجی تاکہ ہم انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزا چکھائیں اور آخرت کا عذاب زیاد رسوا کرنے والا ہے اور ان کی (بالکل) مدد نہیں جائے گی
تفسیر:
ریح صرصر کا معنی
حٰم ٓ السجدۃ : ١٦ میں فرمایا : ” سو ہم نے (ان کے) منحوس دنوں میں ان پر خوفناک آواز والی آندھی بھیجی تاکہ ہم انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزا چکھائیں اور آخرت کا عذاب زیاد رسوا کرنے والا ہے اور ان کی (بالکل) مدد نہیں جائے گی “
چونکہ قوم عاد نے ناحق تکبر کیا اور اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور اپنی ہٹ دھرمی سے بالکل رجوع نہیں کیا اور ایسے امور تھے جو نزول عذاب کا موجب تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر خوفناک آواز والی آندھی کا عذاب بھیجا۔
اس آیت میں ریح صرصر کے الفاظ ہیں، ریح کا معنی ہے : ہوا یا آندھی اور صر صر کے معنی میں تفصیل ہے : اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جب بہت تیز آندھی چلتی ہے تو کانوں میں صرصر کی آواز آتی ہے۔
اس لیے اس کا معنی ہے : خوفناک آواز والی آندھی، ایک قول یہ ہے کہ لفظ ” صرۃ “ سے ماخوذ ہے اور صرۃ کا معنی ہے : چیخنا، اس لیے اس کا معنی ہے : ایسی آندھی جس سے زبردست چیخ کی آواز سنائی دیتی ہو، اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ صر صر کا لفظ ” صر “ سے ماخوذ ہے اور صر کا معنی ہے : سخت سردی اور ٹھنڈک یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت زیادہ سرد اور ٹھنڈی ہوا بھیجی اور ان یخ بستہ ہوائوں نے ہر چیز کو منجمد کردیا۔ ہر چیز سے زندگی کی حرارت زائل ہوگئی اور ہر چیز خاکستر ہوگئی، ہوائوں کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
قوم عاد پر آندھی کا عذاب بھیجنے کے متعلق احادیث
حضرت ابن عباس (رض) بیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری صبا سے مدد کی گئی ہے اور قوم عاد کو دبو سے ہلاک کردیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٠، جامع المسانید مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣٧٠)
جو ہوا مشرق سے مغرف کی طرف چلے اس کو بادصبا کہتے ہیں اور جو ہوا مغرب سے مشرق کی طرف چلے اس کو بادوبور کہتے ہیں۔ غزوہ ٔ خندق میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باد صبا سے مدد کی گئی تھی، جب شوال ٥ ھ میں قریش کی متعدد جماعتوں اور یہودیوں نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا تھا، اس وقت مشرق کی طرف سے بہت زور کی آندھی آئی، جس سے کفار کے خیمے اکھڑ گئے، ان کی دیگچیاں اوندھی ہوگئیں اور ریت اور کنکروں کے تھپیڑوں سے ان کے چہرے خراب ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ ان کو اپنی ہلاکت نظر آنے لگی، سب سے پہلے ابوسفیان واپسی کے لیے اپنی سواری پر سوار ہوا، پھر پورا لشکر وہاں سے کوچ کر گیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کی مدد تھی اور اس آندھی نے قوم کو ہلاک کردیا تھا، قوم عاد پر آندھی کا عذاب اس لیے بھیجا تھا کہ اس قوم کو اپنے لمبے قدوقامت، عظیم جسم اور زیادہ قوت پر بہت غرور تھا اور ان کا یہ گمان تھا کہ جب جسم اتنا مضبوط اور قوی ہو تو وہ اپنی جگہ قائم اور ثابت رہتا ہے اور اس کو کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی، اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر سخت آندھی بھیجی اور وہ ہوا کے تندوتیز تھپیڑوں سے تنکوں کی طرح ادھر سے ادھر گر رہے تھے اور آندھی کی تاب نہ لاکر یونہی زمین پر اوندھے پڑے پڑے مرگئے، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جانب سے آندھی آتے ہوئے دیکھتے تو آپ خوف زدہ ہوجاتے اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے، حدیث میں ہے :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب تیز آندھی آتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کرتے : اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی خیر کا اور جو کچھ اس میں ہے اس کی خیر کا سوال کرتا ہو اور جس چیز کو یہ ہوا لائی ہے اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور میں اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے اور جس چیز کو یہ لائی ہے اس کے سر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور جب آسمان پر بارش کے آثار ہوتے تو آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا، آپ کبھی گھر کے اندر آتے، کبھی گھر سے باہر جاتے اور جب بارش ہونے لگتی تو آپ کی یہ کیفیت ختم ہوجاتی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : میں اس لیے خوف زدہ ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ جب قوم عاد نے آسمان پر گردوغبار دیکھا تو کہا تھا :
فلما راوہ عارضا مستقبل اودینھم قالوا ھذا عارض ممطرنا بل ھوما استعجلتم بہ ریح فیھا عذاب الیم
(الا حقاف :24)
جب قوم عاد نے اپنی وادیوں کی طرف بادلوں کو امنڈتے ہوئے دیکھا تو کہتے لگا : یہ بادل ہم پر برسنے والا نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ وہ عذاب ہے جس کو تم جلد طلب کررہے تھے، یہ آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے
اور ایک روایت میں ہے کہ جب آپ بارش کو دیکھتے تو فرماتے : یہ اللہ کی رحمت ہے۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٩٩، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٠٦)
اطلاقات قرآن میں ریح اور ریاح کا معنوی فرق اور اس پر بحث ونظر
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کبھی ریح (سخت آندھی) آتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوزانوں بیٹھ کر یہ دعا کرتے :
اے اللہ ! اس ریح کو رحمت بنا دے اور اس کو عذاب نہ بنا، اسے اللہ ! اس کو ریاح بنادے، اس کر ریح نہ بنا، حضرت ابن عباس نے کہا : اللہ کی کتاب میں ہے :
انا ارسلنا علیھم ریحا صر صرا۔ (القمر :19)
بے شک ہم نے ان پر خوفناک آواز والی آندھی بھیج دی۔
اور فرمایا :
وارسلنا الریح لو افح فانزلنا من السماء ماء۔ (الحجر :22)
اور ہم نے برسانے والی بوجھل ہوائیں بھیجیں پس ہم نے آسمان سے پانی برسایا۔
و من ایتہ ان یرسل الریح مبشرت۔ (الروم :46)
اللہ کی نشانیوں میں سے خوشخبری دینے والی ہوائوں کو بھیجنا ہے۔
(مسند الشافعی ج ١ ص ١٧٥، رقم الحدیث : ٥٠٢، مسند اویعلیٰ رقم الحدیث : ٢٤٥٦، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٥٣٣، المطالب العالیہ رقم الحدیث : ١١٥٣٣، اس کی سند میں العاء بن راشد مجہول ہے، اس نے اس حدیث کو ابراہیم ابن ابی یحییٰ ، اسلمی سے روایت کیا ہے اور وہ متہم ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے) ۔
علامہ ابو عبداللہ فضل اللہ بن الصدر السعید، الحسن التورپشتی المتوفی ٦٦١ ھ لکھتے ہیں :
علامہ خطابی نے کہا ہے کہ ریاح (ہوائیں) جب کثیر ہوں تو وہ بادلوں کو کھینچ لیتی ہیں اور پھر زیادہ بارش ہوتی ہے اور اس سے غلہ اور پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں اور جب ریاح (ہوائیں) زیادہ نہ ہو تو ایک ریح (ہوا) ہوتی ہے اور وہ بانجھ ہوتی ہے، عرب کہتے ہیں کہ بادل کو صرف ریاح ہی بوجھل کرتی ہیں اور میں نے دیکھا کہ امام طحاوی نے ابوعبید سے روایت کیا ہے کہ ہم نے قرآن مجید میں ریح اور ریاح کے لفظ کا تتبع کیا تو جب ریح کی جمع ریاح کا لفظ ہو تو وہ رحمت کے معنی میں ہوتا ہے اور جب یہ لفظ واحد ہو یعنی ریح تو یہ عذاب کے معنی میں ہوتا ت ہے اور ہمارے نزدیک اس قاعدہ کی بنیاد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا ہے کہ اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح بنانا، ریح نہ بنانا۔
اس کے بعد امام طحاوی نے کہا کہ ابو عبید نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ ضعیف ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث صحیحہ میں اس قاعدہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف قرآن مجید میں ریح کا لفظ رحمت والی ہوا کے معنی میں بھی ہے :
ھوالذی یسیرکم فی البر والبحر حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم بریح طیبۃ۔ (یونس :22)
وہی اللہ ہے جو تم کو خشکی اور سمندر میں سفر کراتا ہے، حتیٰ کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور ان کشتوں کو رحمت والی ہوا لے کر چلتی ہے۔
اور حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ریح (ہوا) کو بُرا نہ کہو، پس جب تم کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو دعا کرو : اے اللہ ! ہم تجھ سے اس ریح (آندھی) کی خیر کا سوال کرتے ہیں اور اس چیز کی خیر کا سوال کرتے ہیں جس کا تو نے حکم دیا ہے اور ہم اس ریح کے شر سے اور جس چیز کا تو نے حکم دیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٢٢، مسند احمد ج ٥ ص ١٢٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٥ ص ٧٥، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٩٣٤، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی رقم الحدیث : ٢٩٩)
اور حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہے کہ جب تیز ریح (آندھی) آتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کرتے : اے اللہ ! میں اس کی خیر کا تجھ سے سوال کرتا ہوں اور جس چیزکو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس کی خیر کا تجھ سے سوال کرتا ہوں اور میں اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں الور جس چیز کو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٩٩، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٠٦)
امام ابوجعفر طحاوی متوفی ٣٢١ ھ فرماتے ہیں : ہم نے جو قرآن مجید کی آیت پیش کی ہے (یونس :22) اور دیگر احادیث صحیحہ جو بیان کی ہیں ان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث ثابتہ میں ریح اور ریاح کا ایسا فرق نہیں ہے کہ ریح کا لفظ عذاب کے ساتھ خاص ہو اور ریاح کا لفظ رحمت کے ساتھ خاص ہو بلکہ قرآن مجید اور احادیث ثابتہ میں ریح کا لفظ جس طرح عذاب کے لیے آیا ہے اسی طرح ریح کا لفظ رحمت کے لیے بھی آیا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) کی جس حیدث سے ریح اور ریاح میں فرق پر استدلال کیا گیا ہے اس کی سند ضعیف ہے۔
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ امام ابوجعفر نے جو یہ فرمایا ہے کہ ریح اور ریاح میں یہ فرق نہیں ہے کہ ریح عذاب کے ساتھ خاص ہوا ریاح رحمت کے ساتھ خاص ہو یہ بالکل بجا اور برحق ہے کہ ہم حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث کو رد کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور اس حدیث کی سند کے ضعیف ہونے کے باوجود یہ حدیث ساقط الاعتبار نہیں ہے، اس کی تاویل ممکن ہے اور اس کا معنی صحیح ہے۔
حضرت ابن عباس کی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا ہے : اے اللہ ! اس ریح کو رحمت بنادے اور اس کو عذاب نہ بنا اور اے اللہ ! اس کو ریاح بنادے اور اس کو ریح نہ بنا۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے ہلاکت سے نجات کی دعا کی ہے، کیونکہ اگر یہ ریح ہلاک کرنے والی ہے تو اس کے بعد ادھر ادھر سے اور ہوائیں نہیں چلیں گی اور اگر یہ ہوا ہلاک کرنے والی نہیں ہے تو اس کے بعد شمال اور جنوب سے اور ادھر اور ادھر سے اور ہوائیں آتی رہیں گی تو گویا کہ آپ نے یوں فرمایا : اے اللہ ! ہمیں اس ریح سے ہلاک نہ کردینا کہ اس کے بعد اور کسی طرف سے ہوا نہ چلے بلکہ ہمیں زندگی میں توبہ کرنے اور اپنی طرف رجوع کرنے کی مہلت اور توفیق دینا اور اس ریح کے بعد ہم پر ریاح کثیر اہ ہر طرف سے ہوائیں چلائے رکھنا۔ (کتاب المسیر فی شرح مصابیح السنۃ ١ ص ٣٦٢۔ ٣٦١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤٢٢ ھ)
” ایام نحسات “ کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ” سو ہم نے (ان کے) منحوس دنوں میں ان پر خوف ناک آواز والی آندھی بھیجی۔ “
اس آیت میں ” ایام نحسات “ کے الفاظ ہیں یعنی ان کو منحوس ایام، منحوس کا معنی ہے : بےبرکت، اس کے حسب ذیل تفسیریں ہیں۔
امام فخر الدین محمد بن عمررازی شاعفی متوفی ٦٠٦ لکھتے ہیں :
نجومیوں نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ بعض ایام منحوس ہوتے ہیں اور بعض ایام مبارک ہوتے ہیں اور متکلمین نے اس استدلال کا یہ جواب دیا ہے کہ ” ایام نحسات “ کا معنی یہ ہے کہ وہ گرد و غبار والے ایام تھے اور بکثرت خاک اور معنی اڑنے کی وجہ سے کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی، نیز ” ایام نحسات “ کا یہ معنی بھی ہے کہ ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ہلاک کردیا تھا تو ان کے حق میں یہ ایام منحوس ثابت ہوئے نجومیوں نے کہا : منحوس کا معنی لغت میں نامبارک اور بےبرکت ہے کیونکہ اس کے مقابلہ میں سعد کا لفظ ہے اور سعد کا معنی مبارک ہے اور متکلمین کے دوسرے جواب پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس نے منحوس دنوں میں ان پر عذاب نازل کیا، یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ ان پر ان دنوں میں عذاب ہوا اس لیے وہ دن منحوس ہوگئے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٥٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :
ایام نحسات (منحوس دنوں میں) کی تفسیر میں چاراقوال ہیں :
(١) مجاہد اور قتادہ نے کہا : یہ ایام منحوس اور بےبرکت تھے، ایک بدتھ سے لے کر دوسرے بدھ تک ان پر عذاب آتارہا تھا، قرآن مجید میں ہے :
واما عاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیۃ سخرھا علیھم سبع لیال واثمنیۃ ایام حسوما فتری القوم فیھا صرعی کا نھم اعجار نخل خاویۃ (الحاقۃ : 6-7)
اور رہی قوم عاد تو اس کی سرکش اور بےقابو خوف ناک آواز والی آندھی سے ہلاک کردیا گیا جس آندھی کو اللہ تعالیٰ نے ان پر لگاتار سات راتیں اور آٹھ دنوں تک مسلط رکھا، پس آپ اس قوم کو دیکھتے ہیں وہ زمین پر اس طرح گرے ہوئے تھے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں (یعنی بےجان)
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہر قوم کو بدھ کے دن عذاب دیا گیا تھا۔
(٢) نقاش نے کہا : نحسات سے مراد ہے باردات، یعنی وہ موسم سرما کے سخت سرد ایام تھے اور سخت سردی کی وجہ سے وہ منجمد اور خاکستر ہوگئے تھے اور نحسات کا معروف معنی جو بےبرکت ہے وہ مراد نہیں ہے۔
(٣) حضرت ابن عباس (رض) اور عطیہ نے کہا : ایام نحسات سے مراد ہے ” ایام متتابعات “ یعنی ان ایام میں مسلسل ان پر آندھی کا عذاب آتا رہا، جیسا کہ لحاقۃ : ٧ میں فرمایا ہے : ” ثمانیۃ ایام حسوما “ حسوما کا معنی متواتر ہے اور نحسات کا معروف معنی مراد نہیں ہے، حافظ ابن کثیر نے بھی اس کی یہی تاویل کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٠٣)
(٤) ایام نحسات سے مراد ہے کہ ان ایام میں بہت زیادہ گردوغبار اڑرہا تھا اور دیکھنے والوں کو کچھ نظر نہیں آتا تھا اور اس سے نحاست کا معروف معنی مراد نہیں ہے کہ وہ ایام منحوس اور بےبرکت تھے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٧٥۔ ١٧٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بعض ایام کے منحوس ہونے کے ثبوت میں احادیث
ایام کے منحوس اور مبارک ہونے کے سلسلہ میں احادیث اور آثار مختلف ہیں، پہلے ہم وہ احادیث پیش کررہے ہیں جن کا تقاضا ہے کہ بعض ایام منحوس ہوتے ہیں۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بدھ کے دن میں دائمی نحوست ہے۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٤٢٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٨٩٩٧، اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے، اس کی سند میں ایک راوی ہے اور ابراہیم بن ابی حیہ الیسع بن الاشعث، حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا : یہ متروک ہے۔ لسان المیز ان ج ١ ص ٥٢، میزان الاعتدال ج ١ ص ٢٩ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے بدھ کے دن یا ہفتہ کے دن فصد لگوائی، پھر اس نے اپنے جسم میں برض کے داغ دیکھے تو وہ صرف اپنے نفس کو ملامت کرے۔ (المستدرک ج ٤ ص ٤٠٩، السنن الکبری اللبیہقی ج ٩ ص ٣٤١، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٣٢٨، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠١١٥، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٨١١٦)
حافظ ذہبی نے کہا ہے کہ اس کی سند میں سلیمان ہے اور وہ متروک الحدیث ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے جمعرات کے دن فصد لگوائی اور بیمار ہوگیا تو وہ مرجائے گا۔ (علامہ سیوطی نے اس حدیث کو ضعف کی رمز کی ہے)
(الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٣٢٩، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠١١٧، کنز العمال، رقم الحدیث : ٢٨١١٧)
کبسہ بنت ابیبکرہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : منگل کا دن خون بہنے کا دن ہے اور اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں خون نہیں رکتا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٨٦٢، السنن البکری ج ٩ ص ٣٤٠ )
حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہفتہ کا دن مکر اور دھوکہ کا دن ہے اور اتوار کاشت کاری اور تعمیرات کا دن ہے اور پیر سفر اور طلب رزق کا دن ہے اور منگل لوہے کے کام کا دن ہے اور بدھ کے دن میں چیزیں جانے کا دن ہے، چیزیں ملنے کا دن نہیں ہے اور جمعرات کا دن سلطان کے پاس جانے اور ضروریات طلب کرنے کا دن ہے اور جمعہ کا دن خطبہ اور نکاح کا دن ہے۔ (اس حدیث کی سند میں ایک راوی یحییٰ بن العلاء ہے اور وہ متروک الحدیث ہے، سو یہ حدیث ضعیف ہے) (انفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٨٩٩٦، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٦١٢، المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٣٤٤٦ )
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نہار منہ فصد لگوانا زیادہ بہتر ہے، اس سے عقل تیز ہوتی ہے اور قوت حفظ زیادہ ہوتی ہے، پس جو شخص فصد لگوائے وہ اللہ کا نام لے کر جمعرات کے دن فصد لگوارئے اور جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے دن فصد لگوانے سے احتراز کرو اور پیر اور منگل کے دن فصد لگوائو اور بدھ کے دن فصد لگوانے سے احتراز کرو، کیونکہ یہی دن ہے جس میں حضرت ایوب (علیہ السلام) مرض میں مبتلا ہوئے تھے اور جکذام اور برص کی ابتداء جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات سے ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٨٨، جاع المساندی والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٢١٧٠، اس حدیث کی سند میں ایک ضعیف راوی ہے اور وہ عثمان بن عبدالرحمان الطرمی ہے، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٩٣٨، الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٢٧٨١، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٧٨٥، الکامل لابن عدی ج ٢ ص ٣٠٨)
یہ وہ احادیث ہیں جن میں بعض ایام میں کسی کام کا موجب نقصان یا موجب مرض ہونا بیان فرمایا ہے اور اب ہم وہ احادیث بیان کررہے ہیں جن میں بعض ایام میں کسی کام کو موجب شفا فرمایا ہے۔
بعض ایام کے مبارک ہونے کا ثبوت میں احادیث
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نہار منہ فصد لگوانا زیادہ بہتر ہے اور اس میں شفاء اور برکت ہے اور یہ عقل اور قوت حفظ کو زیادہ کرتی ہے پس اللہ کی برکت سے جمعرات کے دن فصد لگوائو اور بدھ، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے دن فصد لگوانے سے احتراز کرو اور پیر اور منگل کے دن فصد لگوائو، کیونکہ یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو مرض سے صحت عطا فرمائی اور بدھ کے دن ان کو مرض میں مبتلا فرمایا تھا، کیونکہ جزام اور برص کی ابتداء بدھ کے دن یا بدھ کی رات کو ہوتی ہے۔
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٨٧، المستدرک ج ٤ ص ٤٠٩، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٢١٧٠)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ہفتہ کے دن ناخن کاٹے اس سے بیماری نکل جائے گی اور اس میں شفاء داخل ہوگی اور جس نے اتوار کے دن ناخن کاٹے اس سے فقرو فاقہ نکل جائے گا اور تونگری داخل ہوگی اور جس نے پیر کے دن ناخن کاٹے اس سے جنون نکل جائے گا اور صحت داخل ہوگی اور جس نے منگل کے دن ناخن کاٹے اس سے مرض نکل جائے گا اور شفا داخل ہوگی اور جس نے بدھ کے دن ناخن کاٹے اس سے وسوسہ اور خوف نکل جائے گا اور امن اور اشفا داخل ہوگی اور جس نے جمعرات کے دن ناخن کاٹے اس سے جذام نکل جائے گا اور عافیت داخل ہوئی اور جن نے جمعہ کے دن ناخن کاٹے اس میں رحمت داخل ہوگی اور گناہ نکل جائیں گے۔ (اس حدیث کو امام دیلمی نے سند ضعیف کے ساتھ روایت کیا ہے، کشف الخفاء ج ٢ ص ٣٩٧)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے مہینہ کی سترہ اور انیس اور اکیس تاریخ کو فصد لگوائی اس کو ہر بیماری سے شفا حاصل ہوگی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٨٦١، المستدرک ج ٤ ص ٢١٠، السنن الکبری للبہیقی ج ٩ ص ٣٤٠، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٣٢٦، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠١١٤، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٨١١١٤)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اتوار کے دن فصد لگوانا شفا ہے۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٢٧٧٨، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٧٨٧، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٨١١٢)
بعض ایام کی نحوست کے ثبوت میں پیش کی گئی احادیث کی تحقیق
علامہ شمس الدین عبدالرئوف المناوی المتوفی ١٠٣١ ھ لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے : جس نے بدھ کے دن یا ہفتہ کے دن فصد لگوائی اور اس کے جسم میں برص کے داغ ہوگئے وہ صرف اپنے نفس کو ملامت کرے۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٥٩٠٥)
ایمام دیلمی نے ابو جعفر نیشا پوری سے روایت کیا ہے کہ میں نے ایک دن کہا : یہ حدیث صحیح نہیں ہے اور میں نے بدھ کے دن فصد لگوائی تو مجھ کو برص ہوگیا، مجھے خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت ہوئی تو میں نے آپ سے اس کی شکایت کی، آپ نے فرمایا : میری حدیث کی اہانت کرنے سے احتراز کیا کرو۔ اس حدیث کی بناء پر امام احمد نے ہفتہ اور بدھ کے دن فصد لگوانے کو مکروہ کہا ہے۔
امام حاکم نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاظ ذہبی نے اس حدیث کو تلخیص میں رک کردیا ہے کہ اس کی سند میں سلیمان بن رقم متروک الحدیث ہے، مہذب میں لکھا ہے کہ سلیمان ضعیف راوی ہے، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیا ہے، امام ابن حبان نے کہا : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث نہیں ہے۔
نیز ایک اور حدیث میں ہے : جس نے جمعرات کے دن فصد لگوائی اور وہ بیمار ہوگیا تو وہ مرجائے گا۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٣٢٩) علامہ مناوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : حافظ ابن حجر نے ان تمام احادیث کو ذکر کرنے کے بعد کہا : ان احادیث میں سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے حنبل بن اسحاق نے کا کہ امام احمد کا خون جس دن اور جس وقت بھی جوش میں آتاوہ فصد لگوالیتے تھے۔ (فیض القدیر ج ١١ ص ٥٥٩١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی المتوفی ١١٦٢ ھ لکھتے ہیں :
جس شخص نے کسی چیز سے بدفالی نکالی اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کو ترک کردیا اور جس کا توکل کم ہوگیا اسی کو اس کے تصرفات میں نحوست ضرردے گی، علامہ مناوی نے کہا : حاصل یہ ہے کہ جو شخص بدفالی کی وجہ سے بدھ کے دن فصد لگوانے کو ترک کرے گا اور نجومیوں پر اعتقاد رکھے گا تو یہ بہت شدید حرام ہے، کیونکہ تمام ایام اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور کوئی چیز اپنی ذات سے نفع اور ضرر نہیں پہنچاتی اور جس کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی چیز کسی چیز میں اثر نہیں کرتی، اس پر کسی بدشگونی کا کوئی اشر نہیں ہوتا۔ (کشف الخفاء ج ١ ص ١٤۔ ١٣، مکتبۃ الغزالی، دمشق)
بعض دنوں کے منحوس ہونے کے متعلق مصنف کی تحقیق
نجومی اور بعض غیر محقق علماء یہ کہتے ہیں کہ بعض دن نامبارک اور منحوس ہوتے ہیں، ہم اس کی تحقیق کرتے ہوئے پہلے نحس کا معنی بیان کریں گے، پھر قرآن مجید سے یہ بیان کریں گے کہ کسی چیز کو منحوس اور نامبارک اعتقاد کرنا کفار اور جاہلیت کا طریقہ ہے، پھر اس کے عدم جواز پر احادیث پیش کریں گے اور فقہاء اسلام کی عبارات پیش کریں گے اور حٰم ٓ السجدۃ : ١٥ میں ایام نحسات کے جس لفظ سے نجومیوں نے بعض ایام کے منحوس ہونے پر استدلال کیا ہے اس کا محمل ہم بیان کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان کا جواب بھی ہم ذکر کرچکے ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ بلیق۔
منحوس کا معنی
امام خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ١٧٥ ھ نے لکھا ہے : نحس خلاف سعد کو کہتے ہیں، یعنی بےبرکت چیز۔
(کتاب العین ج ٣ ص ١٧٦٥، قم ایران، ١٤١٤ ھ)
علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری المتوفی ٣٩٨ ھ نے لکھا ہے : نحس، سعد کی ضد ہے یعنی نامبارک۔
(الصحاح ج ٣ ص ٩٨١، دارالعلم، بیروت، ١٤٠٤ ھ)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
نحسات کا معنی ہے : مشومات، یعنی وہ چیزیں جن سے بُرا شگون لیا جائے، ایک قول ہے : سخت ٹھنڈی چیزیں، نحس کی اصل یہ ہے کہ آسمان کے کنارے سرخ ہوجائیں، جیسے بغیر دھوئیں کے آگ کے شعلے ہوں، پھر یہ لفظ نحوست اور بدشگونی کے لیے ضرب المثل ہوگیا۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٢٧، مکبتہ نزار مصطفی، بیروت، ١٤١٨ ھ)
علامہ محمد بن ابی بکررازی متوفی ٦٦٠ ھ نے لکھا ہے : نحس کا معنی ہے سعد کی ضد، یعنی نامبارک۔
(مختار الصحاح ص ٣٧٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ نے لکھا ہے : نحسات کا معنی ہے : مشئومات، یعنی جن چیزوں سے بُرا شگون لیا جائے۔ (نشر ادب الحوزۃ، ایران، ١٤٠٥ ھ)
علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں : نحسات کا معنی ہے : مشئومات یعنی نامبارک اور برے شگون والی چیزیں۔ (مجمع بحارالانوار جز ٤ ص ٦٨٩، مکبتہ دارالایمان، مدینہ منورہ، ١٤١٥ ھ)
نحوست اور بدشگونی کے رد میں قرآن مجید کی آیات
ہم نے متعدد کتب لغت کے خوالوں سے بیان کیا ہے کہ منحوس کا معنی ہے : مشئوم اور مشئوم اس چیز کو کہتے ہیں جس سے بدشگونی لی جائے، عربی میں اس کو طیرۃ، طائر اور تطیر کہتے ہیں اور قرآن مجید نے تطیر کا رد فرمایا ہے :
حضرت صالح (علیہ السلام) کے متعلق ان کی قوم ثمود نے کہا :
قالو اطیرنا بک وبمن معک قال طیئرکم عند اللہ بل انتم قوم تفتنون (النحل :47)
ثمود نے کہا : ہم آپ سے اور آپ کے اصحاب سے بدشگونی لے رہے ہیں، صالح نے کہا : تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ فتنہ پرور ہو
ثمود کا مطلب تھا : آپ کی نحوست سے ہم پر قحط آگیا اور آپ کے آنے کے بعد ہم پر قحط آگیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا کہ تمہاری بدشگونی کا سبب اللہ کے پاس ہے، یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کی مزعومہ نحوست کی وجہ سے تم پر قحط نہیں آیا، بلکہ تمہاری اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تم پر قحط آیا ہے۔
ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین ونقص من الثمرات لعلھم یذکرون فاذا جاء تھم الحسنۃ قالوا لنا ھذہ وان تصبھم سیئۃ یطیروا بموسیٰ ومن معہ الا انما طبرھم عنداللہ ولکن اکثرھم لا یعلمون (الاعراف : 130-131)
اور ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پھلوں کی کم پیداوار میں مبتلا کیا تاکہ وہ نصیحت قبول کریں پس جب ان کے پاس خوش حالی اور زرخیزی آتی تو کہتے : یہ ہماری محنت کا ثمرہ ہے اور جب ان پر بدحالی آتی تو وہ اس کو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی نحوست قرار دیتے، سنو ان کی نحوست کا سبب اللہ ہی کے پس ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے
یعنی ان کی بدحالی اور تنگ دستی کا سبب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مزعومہ نحوست نہیں ہے۔ بلکہ ان کا کفر اور فسق ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کرنا ہے۔
قالوا انا تطیرنا بکم لئن لم تنتھوا لنرجمنکم ولیمسسکم منا عذاب الیم قالوا ائرکم معکم ابن ذکر تم بل انتم قوم مشرفون
(یٰسین :18-19)
اہل انطاکیہ نے رسولوں سے کہا : ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہم سے درد ناک سزا پہنچے گی رسولوں نے کہا : تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہے، کیا تم نصیحت کیے جانے کو نحوست کہتے ہو، بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو
ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان سے بارش کو روک دیا تھا جس کو اہل انطاکیہ نے رسولوں کی نحوست کہا، رسولوں نے بتایا کہ تمہاری بدحالی تمہارے کفر کی وجہ سے ہے، جو تمہارے ساتھ ہے۔
ان آیات میں نحوست اور بدشگونی کے لیے تطیر اور طائر کا لفظ آیا ہے، اس کا مادہ طیر ہے جس کا معنی اڑنا، عرب جب کسی کام کا یا سفر کا اردہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے، اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اس سے وہ نیک شگون لیتے تھے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہوجاتے اور اگر وہ بائیں جانب اڑتا تو اس سے وہ بدشگونی مراد لیتے اور اس کام سے رک جاتے، نیک شگون کو وہ تفاء ل کہتے تھے اور بدشگون اور نحوست کو وہ تطیر، طائر اور تشاءم کہتے تھے، اسلام میں کسی چیز سے بدشگونی لینا یا کسی چیز کو منحوس قرار دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ کسی چیز کو منحوس کہنا کفار اور جاہلیت کا طریقہ ہے، جیسا کہ مذکور الصدر احادیث سے واضح ہوگیا اور اسلام میں کسی دن کو یا کسی چیز کو منحوس قرار دینا جائز نہیں ہے، جیسا کہ عنقریب احادیث سے واضح ہوگا۔
نحوست اور بدشگونی کے رد میں احادیث اور ان کی شروح کی عبارات
امام محمد بن اسماعیل بخاری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
لا عدو ولا طیرۃ ولا ھامۃ ہولا صفر۔
کوئی مرض خود بہ خود متعدی نہیں ہوتا اور نہ بدشگونی اور نحوست کی کوئی تاثیر ہے اور نہ الو کی نحوست کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کے مہینہ کے آگے پیچھے کرنے کا کوئی فائدہ ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٧٥٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٢٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩١١)
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
عرت یہ سمجھتے تھے کہ ایک شخص بیمار ہو تو خود بہ خود اس سے بیماری دوسرے شخص کو لگ جاتی ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کوئی مرض خود بہ خود متعدی نہیں ہوتا اور آپ نے فرمایا : طیرہ کی کوئی تاثیر نہیں ہے، عرب جب پرندہ اڑاتے یا ہرن بھگاتے تو اگر وہ دائیں جانب اڑتا بھاگتا تو اس کو سوانح کہتے تھے اور اگر بائیں جانب اڑتا یا بھاگتا تو اس کو ابوارح کہتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے اور اپنے مقصود کی طرف نہیں جاتے تھے، شریعت اسلام نے اس کی نفی کی، اس کو باطل قرار دیا اور اس سے منع فرمایا اور یہ بتایا کہ کسی نفع کو حاصل کرنے میں یا کسی ضرر کو دور کرنے میں اس عزعوم نحوست کے خلاف کرنے کی کوئی تاثیر نہیں ہے اور آپ نے فرمایا : اور نہ الو کی نحوست کی کوئی تاثیر ہے، کیونکہ عرب والے الو کو منحوس کہتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے تھے اور عرب والے صفر کے مہینے کو بھی منحوس سمجھتے تھے اور محرم کو صفر تک مؤخر کردیتے تھے اور محرم کو صفر قرار دیتے تھے، اسلام نے اس کو باطل کردیا۔ (عمدۃ القاری ج ٢١ ص ٣٦٨، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
نیز امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
لا عدوی ولا طیرۃ ویعجبنی الفال الصالح الکلمۃ الحسنۃ۔
نہ کوئی مرض خود متعدی ہوتا ہے اور نہ بدشگونی کی کوئی تاثر ہے اور مجھے اچھی فال پسند ہے اور وہ نیک الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٧٥٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩١٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥٣٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٦١٥، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٩٦١، جامع المسانید والسنن رقم الحدیث : ٢٤٧٨)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ہر طیرہ (بدشگونی) میں کوئی خیر نہیں ہے اور نیک فال میں خیر ہوتی ہے، جب کوئی شخص کوئی اچھی بات سن کر اس سے مستقبل میں کوئی بات نکالے تو وہ فال ہے، طیرہ اور فال میں فرق یہ ہے کہ فال ایک خبر ہے جو غیب سے حاصل ہوتی ہے اور طیرہ میں کسی پرندے یا جانور کی حرکت ہوتی ہے اور اس میں کسی چیز کا بیان نہیں ہوتا، ایک اور فرق یہ ہے کہ فال میں اللہ کے ساتھ حسن ظن ہوتا ہے اور طیرہ میں بُرا گمان ہوتا ہے، اس لیے وہ مکروہ (تحریمی) ہے۔ علامہ نووی نے کہا ہے کہ فال عام ہے خیر اور شر دونوں میں مستعمل ہے اور طیرہ کا استعمال صفر بدشگونی میں ہوتا ہے اور شریعت میں فال خوشی کے لیے ہے اور طیرہ رنج اور افسوس کے لیے ہے۔
علامہ ابن ابطال نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ نیک اور اچھی بات کو سن کر خوش ہوتے ہیں جیسا کہ وہ صاف پانی اور خوشگوار منظر کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، سنن ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام سے جاتے تو آپ یہ سننا پسند کرتے تھے کہ کوئی شخص کہے : یا نجیح یا راشد (اے کامیاب ! اے ہدایت یافتہ ! ) اور اس سے آپ کامیابی کی فال نکالتے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦١٦)
اور امام ابودائود نے سند حسن کے ساتھ حضرت ریدہ سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیتے تھے اور جب آپ کسی عامل کو بھیجتے تو اس سے اس کا نام پوچھتے، اگر آپ کو اس کا نام اچھا لگتا تو آپ خوش ہوتے اور اگر آپ کو اس کا نام ناپسند ہوتا تو آپ کے چہرے سے ناگواری ظاہر ہوتی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩٢٠ )
امام بیہقی نے شعب الایمان میں حلیمی سے روایت کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے : زمانہ جاہلیت میں عرب جی کسی کام کے لیے روانہ ہوتے، اس وقت کسی پرندے کو دھکیلا جاتا تو وہ اس سے بُرا شگون لیتے، اسی طرح وہ کوئے کی آواز سے اور ہرن کے گزرنے سے بھی بُرا شگون لیتے تھے اور ان چیزوں کو منحوس قرار دیتے تھے اور ان سب کو وہ تطیر کہتے تھے اور عجم میں یہ رواج تھا کہ جب وہ کسی کام کے لیے جاتے اور اس وقت بچہ استاذ کے پاس پڑھنے کے لیے جارہا ہوتا تو اس کو وہ نحوست سمجھتے اور اگر وہ استاذ کے پاس سے آرہا ہوتا تو اس کو مبارک سمجھتے، بدشگونی لینا اس وقت منع ہے جب انسان اس بدشگونی کو موثر جانے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے مدبر ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے لیکن اس کو تجربہ سے معلوم ہے کہ اس کے کام کے وقت اگر فلاں چیز پیش آجائے تو کام نہیں ہوتا (مثلاً اگر سفر کے وقت بلی راستہ کاٹ جائے تو سفر ناکام رہتا ہے) پس اگر ایسے مواقع پر وہ اپنے کام کو ترک کردے (اور سفر پر نہ جائے) تو یہ مکروہ ہے اور اگر ایسے موقع پر وہ اللہ تعالیٰ سے خیر کا سوال کرے اور شر سے پناہ طلب کرے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کام کر کر گزرے، پھر خواہ اس کے دل میں یہ خیال آتا رہے کہ اب چونکہ وہ چیز پیش آگئی ہے لہٰذا کام نہیں ہوگا تو اس سے اس کو ضرر نہیں ہوگا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا، (یعنی بلی کا راستہ کاٹنے کی وجہ سے سفر پر نہ جائے تو وہ عذاب کا مستحق ہوگا کیونکہ اس نے نحوست اور بدشگونی کو موثر جانا) اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کی نحوست کے اعتقاد کی وجہ سے اس کو وہ متوقع ضرر پیش آجاتا ہے جیسا کہ اکثر جاہلوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے اور یہ دراصل اس کو نحوست کی اعتقاد کی وجہ سے اللہ کی طرف سے سزا ملتی ہے۔ علامہ حلیمی نے کہا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیک فال اس لیے پسند تھی کہ بد فالی اور بدشگونی میں بغیر کسی تحقیقی سبب کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی ہے اور نیک فال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن ہے (مثلاً وہ تجارت کرنے جارہا ہے، کوئی شخص اس سے ملنے آیا، پوچھا : آپ کا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا : نافع، تو وہ اس سے یہ فال نکالے کہ اللہ اس کو اس تجارت میں نفع دے گا) اور مومن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھے۔
علامہ طیبی نے کہا ہے : کہ نیک فال کی اجازت دینے اور بدشگونی سے منع کرنے کا معنی یہ ہے کہ اگر ایک شخص کوئی چیز دیکھے اور اس سے یہ نیک گمان کرے کہ اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کا مقصود حاصل ہوجائے گا تو اس کو وہ کام کرلینا چاہیے اور اگر اس نے کوئی ایسی چیز دیکھی جس کو دیکھ کر اس کے دل میں خیال آئے کہ اس کو دیکھنے یا اس کے سامنے آجانے کی وجہ سے وہ ناکام ہوجائے گا تو اس کو اس بدگمانی کو قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے مقصود کے لیے جانا چاہیے اور اگر اس نے اس چیز کو نحوست کے اعتقاد کو قبول کرلیا اور اپنے مقصود پر جانے سے رک گیا تو یہی وہ بدفالی اور بدشگونی ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (الکاشف عن حقائق السنن للطیمی ج ٨ ص ٣١٤۔ ٣١٣) (فتح الباری ج ١١ ص ٣٧٦، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام ابودائود سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا : الطیرہ شرک ہے (یعنی بدشگونی اور نحوست کا اعتقاد شرک ہے) حضرت ابن مسعود نے فرمایا : ہم میں سے ہر شخص بدشگونی کے اعتقاد میں مبتلا ہے، لیکن اللہ اس کی وجہ سے توکل لے جاتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٥٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٦١٤، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی ١٠١٤ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو شرک اس وجہ سے فرمایا ہے کہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ جب بدشگونی کے تقاضے پر عمل کریں گے تو ان کو نفع حاصل ہوگا اور ان سے ضرور دور ہوگا، تو گویا انہوں نے اس کو اللہ کے ساتھ شریک کرلیا اور یہ شرک خفی ہے، شارح نے کہا : یعنی جس نے یہ اعتقاد رکھا کہ اللہ کے سوا کوئی چیز بالذات نفع پہنچاتی ہے یا ضرر پہنچاتی ہے تو اس نے شرک جلی کیا، علامہ طیبی نے کہا : اس کو شرک اس لیے فرمایا کہ ان کا اعتقاد تھا کہ جس چیز کو وہ منحوس سمجھتے ہیں وہ نقصان دینے میں سبب موثر ہے اور فی نفسہٖ اسباب کو موثر جاننا شرک خقف ہے تو جب اس کے ساتھ بد عقیدگی اور جہالت بھی شامل ہوجائے تو وہ شرک کیوں نہ ہوگی۔ (شرح الطیبی ج ٩ ص ٣٢٠) (مرقات ج ٨ ص ٣٤٩، مکتبہ حقانیہ، پشاور)
حضرت قبیصہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : العیافۃ اور الطرق اور الطیرۃ جبت سے ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٥٠٢، مسنداحمد ج ٣ ص ٤٧٧ طبع قدیم، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩٠٧، موارد الظلمآن رقم الحدیث : ١٤٢٦ )
علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیمی المتوفی ٧٤٣ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
العیافو کا معنی ہے : پرندے کو اڑانے یا بھگانے کی کوشش کرنا تاکہ دیکھا جائے کہ وہ دائیں طرف جاتا ہے یا بائیں طرف اور پھر اس سے نیک یا بدفال نکالی جائے، الطرق کا معنی ہے : رمل، یعنی لکیریں ڈال کر زائچہ کھینچنا اور اس سے غیب کی بات معلوم کرنا اور الطیرۃ کا معنی ہے : نحوست اور بدشگونی کا اعتقاد رکھنا اور جبت کا معنی ہے : جادو اور کہانت کا عمل کرنا، یا غیر اللہ کی عبادت کرنا۔ خلاصہ یہ ہے کہ الطیرۃ یعنی بدشگونی کا عمل کرنا غیر اللہ کی عبادت کے قبیل سے ہے، یا شرک ہے اور اس کی تائید سنن ابودائود کی اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا : الطیرۃ شرک ہے۔ (الکاشف عن حقائق السنن ج ٨ ص ٣١٩۔ ٣١٨ ادارۃ القرآن، کراچی، ١٤١٣ ھ)
علامہ السحن التورپشتی متوفی ٦٦١ ھ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ افعال کاہنوں کے افعال سے ہیں (یعنی حرام ہیں) ۔ (کتاب المیسر فی شرح مصابیح السنۃ ج ٣ ص ١٠١٣، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤٢٢ ھ)
نحوست ور بدشگونی کے رد میں دیگر احادیث یہ ہیں :
امام احمد بن حنبل متوفشی ٢٤١ ھ سند حسن کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی چیز کو منحوس سمجھنے یا بدشگونی کی وجہ سے کسی کام سے رک گیا اس نے شرک کیا، مسلمانوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! اس کا کفارہ کیا ہے ؟ فرمایا : یہ دعا کرے : اے اللہ ! تیری خیر کے سوا اور کوئی خبر نہیں اور تیری تقدیر کے سوا اور کوئی تقدیر ہیں ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٠ طبع قدیم، مسند احمد ج ١١ ص ٦٢٣، رقم الحدیث : ٧٠٤٥، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٠٤٦، مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٠٥)
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ روایت کرتے ہیں :
عروہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے الطیرۃ (منحوس چیز) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ان میں اچھی چیز نیک فال ہے اور وہ مسلمان کو کسی کام سے لوٹاتی نہیں ہے، پھر جب تم کوئی منحوس چیز دیکھو تو یہ دعا کرو :
اللھم لا یاتی بالحسنات الاانت ولا یدفع السیات الا انت ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
اے اللہ ! صرف تو ہی اچھائیوں کو لانے والا ہے اور صرف تو ہی برائیوں کو دور کرنے والا ہے، گناہ سے پھرنا اور نیکی کی طاقت صرف اللہ کی مدد سے حاصل ہوگی۔ (الجامع الشعب الایمان رقم الحدیث : ١١٢٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩١٩، السنن الکبریٰ ج ٨ ص ١٣٩ خ، مصنف عبدالرزاق ج ١٠ ص ٤٠٦)
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کہانت کا عمل کیا، یا فال کا تیر نکالا یا بدشگونی کی وجہ سے سفر پر نہیں گیا وہ قیامت کے دن جنت کے درجات کو نہیں دیکھ سکتے گا۔
(الجامع لشعب الایمان ج ٢ ص ٤٠٢، رقم الحدیث : ١١٣٤)
عورت، گھوڑے اور مکان میں نحوست کی روایت کے جوابات
نحوست اور بدشگونی کی بحث میں یہ حدیث بھی قابل غور ہے، امام محمد بن اسماعیل متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شوم (نحوست) صرف تین چیزوں میں ہے : گھوڑے میں، عورت میں اور مکان میں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٥٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩٢٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٢٤ )
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٥٨٢ ھ لکھتے ہیں :
اس حدیث کا صحیح معنی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الطیرۃ (بدشگونی اور نحوست) کی بالکلیہ نفی فرمادی ہے اور آپ کا جو ارشاد ہے : شوم (نحوست) صرف تین چیزوں میں ہے اس ارشاد میں آپ نے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی حکایت کی ہے کیونکہ ان کا یہ اعتقاد تھا کہ نحوست ان تین چیزوں میں ہے اور اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اعتقاد میں بھی نحوست ان تین چیزوں میں ہے۔
حضرت عائشہ (رض) نحوست کی بالکلیہ نفی کرتی تھیں۔ امام طحاوی نے اپنی سند کے ساتھ ابو احسان سے روایت کیا ہے کہ بنو عامر کے دو آدمی حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئے اور بتایا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نحوست، عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں ہے، حضرت عائشہ (رض) یہ سن کر سخت غصہ ہوئیں، لگتا تھا کہ آپ کا ایک ٹکڑا زمین پر گرے گا اور ایک آسمان پر، پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات بالکل نہیں فرمائی، حضرت عائشہ (رض) نے بتایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا یہ قول نقل فرمایا ہے، آپ نے فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ ان چیزوں کو منحوس جانتے ہیں، یہ بات آپ نے اپنی طرف سے نہیں فرمائی۔ (شرح مشکل الآثار ج ١ ص ٢٣٣، رقم الحدیث : ٧٩٥، مسند احمد ج ٦ ص ٢٤٠، المستدرک ج ٢ ص ٤٧٩) امام ابن عبدالبر نے بھی اس روایت کا ذکر فرمایا ہے، اس روایت کے آخر میں ہے : پھر حضرت عائشہ (رض) نے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا :
ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نتراھا ان ذلک علی اللہ یسیر۔ (الحدید :22)
ہر وہ مصیبت جو دنیا میں آتی ہے تا تمہاری جانوں میں، اس سے پہلے کہ ہم اس مصیبت کو پیدا کریں وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ کام اللہ پر بہت آسان ہے۔
حضرت عائشہ (رض) کا مطلب یہ ہے کہ انسان پر جو مصائب آتے ہیں، بیماریاں آتی ہیں اور مقاصد میں ناکامی ہوتی ہے یا سفر میں نامرادی ہوتی ہے ان سب کا تعلق انسان کی تقدیر سے ہے اور ازل میں اللہ تعالیٰ کو ان سب چیزوں کا علم تھا، کسی چیز کی نحوست یا بدشگونی کی وجہ سے اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی۔
ابوحسان کی اس روایت کی یحییٰ بن معین اور امام ابن حبان نے توثیق کی ہے اور ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے بشمول امام بخاری، سب نے ابوحسان کی روایات سے استدلال کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی اس روایت کو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : یہ جھوٹ ہے، یہ آپ نے تغلیظاً فرمایا ہے۔
اس روایت کا دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ نے جو فرمایا تھا کہ نحوست تین چیزوں میں ہے، یہ آپ نے ابتداء اسلام میں زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اعتقاد کی خبر دی تھی۔ پھر جب صریح قرآن اور سنت ثابتہ نے نحوست کا رد کردیا تو اس حدیث سے جو حکم مستنبط ہوتا تھا وہ منسوخ ہوگیا نیز یہ حدیث خبر واحد ہے اور اخبار، احادباب عقائد میں حجت نہیں ہیں اور نحوست کا صحیح ہونے کا تعلق عقیدہ ہے۔
اس روایت کا تیسرا جواب یہ ہے کہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر عورت اور ہر گھوڑا اور ہر گھر منحوس ہوتا ہے، اس سے مراد بعض عورتیں، عض گھوڑے اور بعض گھر ہیں اور بعض عورتیں بدخلق، حریص، ناشکری یا بانجھ ہوتی ہیں، یہ عورتوں کی نحوست ہے اور بعض گھوڑے سرکش اور اکھڑ ہوتے ہیں، وہ اپنی پشت پر کسی کو سوار نہیں ہونے دیتے، یہ گھوڑوں کی نحوست ہے اور بعض مکان تنگ اور غیر ہوا دار ہوتے ہیں یا ان مکانوں کے پڑوسی بداخلاق اور بےدین ہوتے ہیں، یہ گھروں کی نحوست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض عورتوں، بعض گھوڑوں اور بعض مکانوں میں یہ عیوب اور نقائص ہوتے ہیں اور یہی ان کی نحوست ہے۔ اس نحوست سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان چیزوں کو دیکھنے سے انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آجائے گی۔ نیز امام ترمذی نے حضرت حکیم بن معاویہ (رض) سے اس حدیث کو بھی روایت کیا کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
لا شوم وقد یکون الیمن فی الدار والعمراۃ والفرس۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٤، ج ٤ ص ٥١٥، دارالجیل، بیروت، ١٩٩٨ ء)
کوئی نحوست نہیں ہے اور کبھی مکان میں، عورت میں اور گھوڑے میں برکت بھی ہوتی ہے۔
اس حدیث سے ہمارے اس جواب کی تائید ہوتی ہے کہ آپ نے بعض عورتوں کے متعلق نحوست (بہ معنی نقص اور عیب) کی خبر دی ہے نہ کہ کل عورتوں کے بارے میں۔
اس روایت کا چوتھا جواب درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :
حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر کسی چیز میں (نحوست) ہوتی تو عورت، گھوڑے اور مکان میں ہوتی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٥٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٢٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٩٤)
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی اور جب ان چیزوں میں نحوست نہیں ہے تو پھر کسی چیز میں نحوست نہیں ہے اور شئوم اور طیرہ (نحوست اور بدشگونی) دونوں ایک چیز ہیں اور بدشگونی شرک ہے کیونکہ امام ابودائود نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا : الطیرہ (بدشگونی) شرک ہے، رہا یہ کہ اس پر کیا دلیل ہے کہ شوم اور طیرہ واحد ہیں، تو اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے اگر کسی چیز میں شوم ہو تو گھوڑے، مسکن اور عورت میں ہوگی۔ (صحیح مسلم کتاب السلام رقم الحدیث : ١١٩، رقم بلاتکرار : ٢٢٢٦۔ ٢٢٢٥) اور امام طحاوی کی روایت میں ہے کوئی مرض (فی نفسہٖ ) متعدی نہیں ہوتا اور نہ کوئی طیرہ ہے، اگر کسی چیز میں طیرہ ہو تو عورت، گھوڑے اور مکان میں ہوگی۔
ایک حدیث میں ان تین چیزوں کے لیے شوم کا ثبوت ہے اور دوسری حدیث میں طیرہ کا ثبوت ہے پس ضروری ہوا کہ ان دونوں سے مراد واجد ہو۔ (عمدۃ الاری ج ١٤ ص ٢١٣۔ ٢١١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
نحوست اور بدشگونی کے مبحث میں خلاصہ کلام
نجومیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ بعض ایام اپنی ذات میں منحوس ہوتے ہیں اور بعض ایام اپنی ذات میں مبارک ہوتے ہیں، کیونکہ زمانہ کے اجزاء اپنی ذات میں مساوی ہیں، بعض ایام بعض لوگوں کے اعتبار سے منحوس ہوتے ہیں اور وہی ایام دوسرے لوگوں کے اعتبار سے مبارک ہوتے ہیں، مثلاً بدھ کے دن کسی شخص کو بار بار کوئی خوشی یا نعمت حاصل ہو تو وہ کہے گا : میرے لیے یہ مبارک دن ہے، جب بھی بدھ کا دن آتا ہے مجھے کوئی نعمت ملتی ہے اور کوئی خوشی حاصل ہوتی ہے اور دوسرے شخص کو بدھ کے دن بار بار کسی نقصان یا کسی مصیبت کا سامنا ہو تو وہ کہے گا : میرے لیے بدھ کا دن منحوس ہے، جب بھی یہ دن آتا ہے میرا کوئی نقصان ہوجاتا ہے یا میرے ہاں کوئی مرگ ہوجاتی ہے۔ حالانکہ فی نفسہٖ اس دن میں کچھ نہیں ہے، ایک شخص کے لیے اللہ نے اس دن میں خوشیاں مقدر کردیں اور دوسرے کے لیے اس دن میں غم مقدر کردیئے، پس بعض ایام میں غم اور خوشی کا حاصل ہونا تقدیر کے اعتبار سے ہے، اس میں دنوں کی خصوصیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔
اور دنوں کو منحوس قرار دینا قرآن مجید کی متعدد آیات کے خلاف ہے، بعض آیات ہم نے پہلے ذکر کی ہیں اور بعض آیات اب ذکر کررہے ہیں، جو لوگ بعض دنوں کو منحوس کہتے ہیں وہ ان دنوں میں کام کرنے کو باعث ضرر اور ان دنوں میں کام نہ کرنے کو باعث نفع سمجھتے ہیں، حالانکہ نفع اور ضرر پہنچانے کا مالک صرف اللہ عزوجل ہے، قرآن مجید میں ہے۔
قل لا املک لنفسی ضرائو لا نفعا الا ماشاء اللہ۔ (یونس :49)
آپ کہیے میں اپنی ذات کے لیے کسی ضرر اور نفع کا مالک نہیں مگر جتنا اللہ چاہے۔
نیز جب انسان بعض دنوں کو منحوس قرار دے کر ان دنوں میں کسی کام کو ترک کردے تو اس کا اللہ پر توکل نہیں رہے گا، حالانکہ مومن کو صرف اللہ پر توکل کرنا چاہیے، قرآن مجید میں ہے :
وعلی اللہ فلیتوکل المومنون۔ (التوبہ :51)
اور مؤمنوں کو صرف اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔
علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز شامی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :
علامہ حامد آفندی سے سوال کیا گیا : کیا بعض دن اور راتیں منحوس یا مبارک ہوتی ہیں جو سفر اور دیگر کام کی صلاحیت نہیں رکھتیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شخص یہ سوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اعراض کیا جائے اور اس کو جاہل اور بیوقوف قرار دیا جائے، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور حضرت علی (رض) سے جو اس سلسلہ میں روایت منقول ہے وہ جھوٹ اور باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں پس ایسے عقیدے سے احتراز کرنا چاہیے۔ (العقود الدریہ تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ ج ٢ ص ٣٦٧، المکتبہ الحبیبہ، کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ سے سوال کیا گیا :
جو شخص فال کھولتا ہو، لوگوں کو کہتا ہو، تمہارا کام ہوجائے گا یا نہ ہوگا، یہ کام تمہارے واسطے اچھا ہوگا یا بُرا ہوگا یا اس میں نفع ہوگا یا نقصان، اس کی امامت جائز ہے یا نہیں ؟
اعلیٰ حضرت اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
الر یہ احکام قطع و یقین کے ساتھ لگاتا ہو جب تو وہ مسلمان ہی نہیں، اس کی تصدیق کرنے والے کو صحیح حدیث میں فرمایا : ” فقد کفر بمانزل علی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی اور اگر یقین نہیں کرتا جب بھی عام طور پر جو فال دیکھنا رائج ہے معصیت سے خالی نہیں، ایسے شخص کی امامت ناجائز۔
(فتاویٰ رضویہ ج ١٠ حصہ ٢ ص ١١٩، مکتبہ رضویہ، کراچی، ١٤١٢ ھ)
صدر الشریعہ مولانا امجد علی متوفی ١٣٧٦ ھ لکھتے ہیں :
ابودائود نے عروہ بن عامر سے مرسلاً روایت کی، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بدشگونی کا ذکر ہوا، حضور نے فرمایا : فال اچھی چیز ہے اور بُرا شگون کسی مسلمان کو واپس نہ کرے یعنی کہیں جارہا تھا اور بُرا شگون ہوا تو واپس نہ آئے، چلا جائے، جب کوئی شخص ایسی چیز دیکھے جو ناپسند ہے یعنی بُرا شگون پائے تو یہ کہے : اللھم لا یاتی بالحسنات الانت ولا یدفع السیئات الاانت ولا حول ولا قوۃ الا باللہ (بہارشریف حصہ ١٦ ص ٨٥، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)
حٰم ٓ السجدۃ : ١٦ میں ” اشام نحسات “ کا لفظ وارد ہے اور اس لفظ سے نجومی یہ استدلال کرتے ہیں کہ بعض ایام منحوس ہوتے ہیں اور میں نے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں سے سنا ہے کہ فلاں دن کپڑا نہیں سلوانا چاہیے اور فلاں دن سفر نہیں کرنا چاہیے اور فلاں دن علاج نہیں کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ، اس لیے میری خواہش تھی کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھو سو اس آیت کی تفسیر میں یہ موقع آیا اور میں نے اس پر بسط سے لکھا : والحمد للہ رب العٰلمین۔
میرے عزیز محترم علامہ صاحبزادہ حبیب الرحمان محبوبی زید حبھم علمھم نے مجھے بریڈ فورڈ سے ایک مکتوب لکھ کر بتایا کہ حضرت مجدد الف ثانی (رح) کا بھی یہی نظریہ ہے کہ کئی دن منحوس نہیں ہوتا۔
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ العزیز کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے :
سورة حٰم ٓ السجدۃ : ١٦ میں جو ” ایام نحسات “ کا لفظ وارد ہے یہ گذشتہ امتوں کی بہ نسبت ہے اور فقیر کا عمل بھی یہی ہے، وہ کسی دن کو دوسرے دن پر ترجیح نہیں دیتا جب تک کہ شارع (علیہ السلام) سے اس کی ترجیح معلوم نہ ہو جیسا کہ جمعہ اور رمضان وغیرہ ہیں۔ (مکتوب ٢٥٦، دفتر اوّل حصہ چہارم ص ٦٧، دارالمعرفۃ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 16