وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ(۶۹)

اور ان پر پڑھو خبر ابراہیم کی (ف۷۴)

(ف74)

یعنی مشرکین پر ۔

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ(۷۰)

جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو (ف۷۵)

(ف75)

حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ لوگ بُت پرست ہیں باوجود اس کے آپ کا سوال فرمانا اس لئے تھا تاکہ انہیں دکھا دیں کہ جن چیزوں کو وہ لوگ پوجتے ہیں وہ کسی طرح اس کے مستحق نہیں ۔

قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ(۷۱)

بولے ہم بُتوں کو پوجتے ہیں پھر ان کے سامنے آسن مارے(پوجا کے لئے جم کر بیٹھے) رہتے ہیں

قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ(۷۲)

فرمایا کیا وہ تمہاری سُنتے ہیں جب تم پکارو

اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ(۷۳)

یا تمہارا کچھ بھلا برا کرتے ہیں (ف۷۶)

(ف76)

جب یہ کچھ نہیں تو انہیں تم نے معبود کس طرح قرار دیا ۔

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ(۷۴)

بولے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا

قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ(۷۵)

فرمایا تو کیا دیکھتے ہو جنہیں پوج رہے ہو

اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٘ۖ(۷۶)

تم اور تمہارے اگلے باپ دادا (ف۷۷)

(ف77)

کہ نہ یہ علم رکھتے ہیں نہ قدرت ، نہ کچھ سنتے ہیں نہ کوئی نفع یا ضَررپہنچا سکتے ہیں ۔

فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۷۷)

بےشک وہ سب میرے دشمن ہیں (ف۷۸) مگر پروردگار ِعالم (ف۷۹)

(ف78)

میں ان کا پوجا جانا گوارا نہیں کر سکتا ۔

(ف79)

میرا ربّ ہے ، میرا کارساز ہے ، میں اس کی عبادت کرتا ہوں ، وہ مستحقِ عبادت ہے اس کے اوصاف یہ ہیں ۔

الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ(۷۸)

وہ جس نے مجھے پیدا کیا (ف۸۰) تو وہ مجھے راہ دے گا (ف۸۱)

(ف80)

نِیست سے ہست فرمایا اور اپنی طاعت کے لئے بنایا ۔

(ف81)

آدابِ خِلّت کی جیسی کہ سابق میں ہدایت فرما چکا ہے مصالح دنیا و دین کی ۔

وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ(۷۹)

اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (ف۸۲)

(ف82)

اور میرا روزی دینے والا ہے ۔

وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِﭪ(۸۰)

اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شِفا دیتا ہے (ف۸۳)

(ف83)

میرے امراض دور کرتا ہے ۔ ابنِ عطا نے کہا معنٰی یہ ہیں کہ جب میں خَلق کی دید سے بیمار ہوتا ہوں تو مشاہدۂ حق سے مجھے شفا عطا فرماتا ہے ۔

وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ(۸۱)

اور وہ مجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا (ف۸۴)

(ف84)

موت اور حیات اس کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔

وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ(۸۲)

اور وہ جس کی مجھے آس لگی ہے کہ میری خطائیں قیامت کے دن بخشے گا (ف۸۵)

(ف85)

انبیاء معصوم ہیں ، گناہ ان سے صادر نہیں ہوتے ، ان کا استغفار اپنے ربّ کے حضور تواضع ہے اور اُمّت کے لئے طلبِ مغفرت کی تعلیم ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ان صفاتِ الٰہیہ کو بیان کرنا اپنی قوم پر اقامتِ حجّت ہے کہ معبود وہی ہو سکتا ہے جس کے یہ صفات ہوں ۔

رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ(۸۳)

اے میرے رب مجھے حکم عطا کر (ف۸۶) اور مجھے اُن سے ملادے جو تیرے قربِ خاص کے سزاوار ہیں (ف۸۷)

(ف86)

حکم سے یا علم مراد ہے یا حکمت یا نُبوّت ۔

(ف87)

یعنی انبیاء علیہم السلام اور آپ کی یہ دعا مستجاب ہوئی چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَاِنَّہ، فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔

وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۸۴)

اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں (ف۸۸)

(ف88)

یعنی ان اُمّتوں میں جو میرے بعد آئیں چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کو یہ عطا فرمایا کہ تمام اہلِ ادیان ان سے مَحبت رکھتے ہیں اور ان کی ثنا کرتے ہیں ۔

وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ(۸۵)

اور مجھے ان میں کر جو چین کے باغوں کے وارث ہیں(ف۸۹)

(ف89)

جنہیں تو جنّت عطا فرمائے گا ۔

وَ اغْفِرْ لِاَبِیْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَۙ(۸۶)

اور میرے باپ کو بخش دے (ف۹۰) بےشک وہ گمراہ ہے

(ف90)

توبہ و ایمان عطا فرما کر اور یہ دعا آپ نے اس لئے فرمائی کہ وقتِ مفارقت آپ کے والد نے آپ سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا جب ظاہر ہو گیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے اس کا وعدہ جھوٹا تھا تو آپ اس سے بیزار ہو گئے جیسا کہ سور ۂ براءت میں ہے مَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ، اَنَّہ، عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۔

وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ(۸۷)

اور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن سب اُٹھائے جائیں گے (ف۹۱)

(ف91)

یعنی روزِ قیامت ۔

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸)

جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے

اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹)

مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر (ف۹۲)

(ف92)

جو شرک کُفر و نفاق سے پاک ہو اس کو اس کا مال بھی نفع دے گا جو راہِ خدا میں خرچ کیا ہو اور اولاد بھی جو صالح ہو جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب آدمی مرتا ہے اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں سوا تین کے ایک صدقۂ جاریہ دوسرا وہ مال جس سے وہ لوگ نفع اٹھائیں تیسری نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے ۔

وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۹۰)

اور قریب لائی جائے گی جنت پرہیزگاروں کے لیے(ف۹۳)

(ف93)

کہ اس کو دیکھیں گے ۔

وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَۙ(۹۱)

اور ظاہر کی جائے گی دوزخ گمراہوں کے لیے

وَ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ(۹۲)

اور اُن سے کہا جائے گا (ف۹۴) کہاں ہیں وہ جن کو تم پوجتے تھے

(ف94)

بطریقِ زجر و تو بیخ کے ان کے شرک و کُفر پر ۔

مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-هَلْ یَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ یَنْتَصِرُوْنَؕ(۹۳)

اللہ کے سوا کیا وہ تمہاری مدد کریں گے (ف۹۵) یا بدلہ لیں گے

(ف95)

عذابِ الٰہی سے بچا کر ۔

فَكُبْكِبُوْا فِیْهَا هُمْ وَ الْغَاوٗنَۙ(۹۴)

تو اوندھا دئیے گئے جہنم میں وہ اور سب گمراہ (ف۹۶)

(ف96)

یعنی بُت اور ان کے پُجاری سب اوندھے کر کے جہنّم میں ڈال دیئے جائیں گے ۔

وَ جُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَؕ(۹۵)

اور ابلیس کے لشکر سارے(ف۹۷)

(ف97)

یعنی اس کے اِتّباع کرنے والے جِن ہوں یا انسان ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ ابلیس کے لشکروں سے اس کی ذُرِّیَّت مراد ہے ۔

قَالُوْا وَ هُمْ فِیْهَا یَخْتَصِمُوْنَۙ(۹۶)

کہیں گے اور وہ اس میں باہم جھگڑتے ہوں گے

تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ(۹۷)

خدا کی قسم بےشک ہم کُھلی گمراہی میں تھے

اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۹۸)

جب کہ تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔

وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ(۹۹)

اور ہمیں نہ بہکایا مگر مجرموں نے (ف۹۸)

(ف98)

جنہوں نے بُت پرستی کی دعوت دی یا وہ پہلے لوگ جن کا ہم نے اِتّباع کیا یا ابلیس اور اس کی ذُرِّیَّت نے ۔

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ(۱۰۰)

تو اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں (ف۹۹)

(ف99)

جیسے کہ مؤمنین کے لئے انبیاء اور اولیاء اور ملائکہ اور مؤمنین شفاعت کرنے والے ہیں ۔

وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ(۱۰۱)

اور نہ کوئی غم خوار دوست (ف۱۰۰)

(ف100)

جو کام آئے ۔ یہ بات کُفّار اس وقت کہیں گے جب دیکھیں گے کہ انبیاء اور اولیاء اور ملائکہ اور صالحین ایمان داروں کی شفاعت کر رہے ہیں اور ان کی دوستیاں کام آرہی ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جنّتی کہے گا میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے اور وہ دوست گناہوں کی وجہ سے جہنّم میں ہو گا اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ اس کے دوست کو نکالو اور جنّت میں داخل کرو تو جو لوگ جہنّم میں باقی رہ جائیں گے وہ یہ کہیں گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں ہے اور نہ کوئی غم خوار دوست ۔ حسن رحمۃ اللہ تعالٰی نے فرمایا ایماندار دوست بڑھاؤ کیونکہ وہ روزِ قیامت شفاعت کریں گے ۔

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۰۲)

تو کسی طرح ہمیں پھر جانا ہوتا (ف۱۰۱) کہ ہم مسلمان ہوتے

(ف101)

دنیا میں ۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۰۳)

بےشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں بہت ایمان والے نہ تھے

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۰۴)

اور بےشک تمہارا رب وہی عزت والا مہربان ہے