مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

امام احمد رضا قادری کی دو حیثیت

1-اعلی حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ حضرت علامہ مفتی نقی علی خاں علیہ الرحمۃ والرضوان کے فرزند ارجمند اور خاندان رضویہ کے مورث اعلی ہیں۔اس اعتبار ان کی زمین وجائیداد اور مال واموال کے وارث ان کی آل واولاد ہوگی۔ان کے اموال متروکہ میں اہل سنت وجماعت کے دیگر افراد کا کوئی حصہ نہیں۔

2-امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ حضور اقدس تاجدار دوجہاں علیہ التحیۃ والثنا نے انہیں اپنے مذہب مہذب کا قائد ورہنما مقرر فرمایا۔اللہ ورسول(عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)نے انھیں مذہب اسلام کا مجدد بنایا۔منصب تجدید کا رتبہ عطا فرمایا۔اس اعتبار سے ہر سنی صحیح العقیدہ کا ان سے تعلق یکساں اور برابر ہے۔

ان کی علمی میراث میں سب کا حق مساوی ہے۔ان کی تعلیمات کو ماننے والے ہر شخص کو حق ہے کہ وہ کہے کہ وہ مسلک اعلی حضرت پر ہے۔ان کا ذکر خیر کرے۔عرس منائے۔ان کی کتابیں پڑھے,شائع کرے۔ان کی سیرت وسوانح لکھے۔

کیا اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے کوئی سجادہ نشیں کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو ان کی کتابیں پڑھنے سے منع کر سکتے ہیں۔کسی کو ان کا عرس منانے,ان کی سیرت وسوانح لکھنے سے منع کر سکتے ہیں۔ہرگز نہیں,لیکن ان کے اموال متروکہ کو کوئی سنی طلب کرے تو یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔اموال متروکہ کا تعلق پہلی حیثیت سے ہے۔

اگر کسی سنی صحیح العقیدہ کے بارے میں کوئی کہے کہ وہ اعلی حضرت کا نام کیوں لیتا ہے تو یہ درست نہیں۔در حقیقت ایسے سوالات اٹھانے سے لوگ اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے بھی دور ہو جائیں گے,پھر ان کی تعلیمات سے بھی دور ہو جائیں گے,حالاں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے زیادہ سے زیادہ قریب کیا جائے,تاکہ لوگوں کا ایمان وعقیدہ محفوظ رہ سکے۔

بالفرض کسی کے اندر بدعقیدگی پیدا ہو گئی ہو تو وہی طرز عمل اختیار کریں جو علمائے اہل سنت وجماعت نے خلیل بجنوری کے ساتھ اختیار فرمایا کہ پہلے افہام وتفہیم کی کوشش ہوئی۔جب معاملہ حل نہ ہو سکا تو اس کا شرعی حکم تحریری طور پر بیان کر دیا گیا۔عوام وخواص کو اس سے مطلع کر دیا گیا۔تمام برادان اہل سنت نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:30:جون 2021