👈👈👈 سیدنا امیر البحر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک فیاض حکمران کی پیش گوئی

ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر

ــــــ ۱ ــــــ

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللهِ r: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ۲ خَلِيفَةٌ يَقْسِمُ۳ الْمَالَ وَلَا يَعُدُّهُ». وَعَنْهُ فِي لَفْظٍ عَنِ النَّبِيِّ r قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا، وَلَا يَعُدُّهُ عَدًّا»۴. وَجَاءَ فِي طَرِيقٍ عَنْهُ أَنَّ رَسُولُ اللهِ r قَالَ: «مِنْ خُلَفَائِكُمْ خَلِيفَةٌ يَحْثُو الْمَالَ حَثْيًا، لَا يَعُدُّهُ عَدَدًا»۵.

ابو سعید خدری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں۱ ایک حکمران ہوگا جو مال کو بغیر گنے لوگوں میں تقسیم کرے گا۔۲ ابو سعید ہی سے ایک طریق میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے بعد ایک ایسا حکمران ہوگا جو (لوگوں کو) خوب مال عطا کرے گا، اُس کی گنتی تک نہیں کرے گا۔ اور ایک طریق میں اُنھی سے آپ کے یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: تمھارے حکمرانوں میں سے ایک حکمران ایسا ہوگا جو (لوگوں کو) خوب بھر بھر کر مال دے گا، اُس کو شمار تک نہیں کرے گا۔


۱۔اصل میں لفظ ’الزَّمَان‘ آیا ہے۔ اِس پر الف لام عہد کا ہے، یعنی میرے زمانے کے آخر میں۔ آگے ’يَكُونُ بَعْدِي ‘ کے الفاظ میں اِس کی وضاحت ہوگئی ہے۔ نبی ﷺ کا یہ زمانہ درحقیقت آپ کے صحابہ کا زمانہ تھا، جس کے آخر میں معاویہ بن ابی سفیان مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔

۲۔ یہ غالباً سیدنا معاویہ ہی کی طرف اشارہ ہے،جن کی فیاضی کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔

متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن صحيح مسلم، رقم ۲۹۱۴سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۶۴۰۔ مسند احمد، رقم ۱۱۰۱۲، ۱۱۳۳۹، ۱۱۴۵۶، ۱۱۵۸۱، ۱۴۵۶۷۔صحيح مسلم، رقم ۲۹۱۴۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم ۱۲۱۶، ۱۲۹۴۔ مستدرك حاكم، رقم ۸۴۰۱۔

۲۔مستدرك حاكم، رقم ۸۴۰۱ میں یہاں ’آخِرِ الزَّمَانِ‘ ’’آخری زمانے‘‘ کے بجاے’آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ‘ ’’ اِس گروہ کے آخری دور‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۳ ۔مسند احمد، رقم ۱۱۰۱۲ میں یہاں ’يَقْسِمُ‘ کے بجاے ’يُعْطِي‘ کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔

۴ ۔مسند احمد، رقم۱۱۴۵۶۔

۵ ۔صحيح مسلم، رقم۲۹۱۴۔

ــــــ ۲ ــــــ

عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: ۱ كُنَّا عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ فَقَالَ: يُوشِكُ أَهْلُ الْعِرَاقِ أَنْ لَا يُجْبَى إِلَيْهِمْ قَفِيزٌ وَلَا دِرْهَمٌ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ ذَاكَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الْعَجَمِ، يَمْنَعُونَ ذَاكَ، ثُمَّ قَالَ: يُوشِكُ أَهْلُ الشَّأْمِ أَنْ لَا يُجْبَى إِلَيْهِمْ دِينَارٌ وَلَا مُدْيٌ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ ذَاكَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الرُّومِ [يَمْنَعُونَ ذَاكَ،۲ ] ثُمَّ سَكَتَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ r: «يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا، لَا يَعُدُّهُ عَدَدًا».

ابو نضرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبد اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اُنھوں نے کہا: وہ وقت قریب ہے کہ اہل عراق کے پاس کوئی قفیر(پیمانہ) آئے گا، نہ کوئی درہم ۔ہم نے پوچھا: ایسا کہاں سے ہوگا؟اُنھوں نےکہا:عجم کی طرف سے، وہ اِس کو روک لیں گے۔پھر کہا: عنقریب اہل شام کے پاس کوئی دینار آئے گا، نہ کوئی مدی (پیمانہ)۔ہم نے پوچھا: ایسا کہاں سے ہوگا؟ اُنھوں نےکہا:روم کی جانب سے، وہ اِس کو روک لیں گے۔۱ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُنھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اِس امت کے آخری زمانے میں ۲ ایک حکمران ہوگا جو (لوگوں کو) خوب مال عطا کرے گا، اُس کو شمار تک نہیں کرے گا۔


ا۔ یہ اُس صورت حال کی طرف اشارہ ہے ، جب سیدنا علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جنگ وجدال کے بعد سے فتوحات کا سلسلہ بالکل رک گیا تھااور نئے علاقوں سے کوئی محاصل حکومت کے مراکز میں نہیں پہنچ رہےتھے۔

۲۔ یعنی دورِ صحابہ کے آخر میں۔لفظ ’أمة‘ سے یہاں وہی مراد ہیں۔نبی ﷺ کے صحابہ کی جماعت کے لیے یہ لفظ قرآن وحدیث، دونوں میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو: البقرہ ۲: ۱۴۳،آل عمران ۳: ۱۱۰۔

متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاً صحيح مسلم، رقم ۲۹۱۳ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۴۴۰۶۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۱۳۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۶۸۲۔مستدرک حاکم، رقم ۸۴۰۰۔ السنن الواردة فی الفتن،دانی، رقم ۵۶۹۔ البعث والنشور، بیہقی، رقم ۴۷۔

۲ ۔مسند احمد، رقم ۱۴۴۰۶۔

المصادر والمراجع

ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1409ه). المصنف في الأحاديث والآثار. ط1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.

ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1414ه/1993م). الصحيح. ط2. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406ﻫ/1986م). تقريب التهذيب. ط1. تحقيق: محمد عوامة. سوريا: دار الرشيد.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404ﻫ/1984م). تهذيب التهذيب. ط1. بيروت: دار الفكر.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (2002م). لسان الميزان. ط1. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. د.م: دار البشائر الإسلامية.

أبو يعلى أحمد بن علي التميمي الموصلي. (1404ه/1984م). المسند. ط1. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1421هـ/2001م). المسند. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بيروت: مؤسسة الرسالة.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1436هـ/2015م). البعث والنشور. ط1. تحقيق: أبو عاصم الشوامي الأثري. الرياض: مكتبة دار الحجاز للنشر والتوزيع.

الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله النيسابوري. (1411ه/1990م). المستدرك على الصحيحين. ط1. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية.

الداني أبو عمرو عثمان بن سعيد. (1416م). السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها. ط1. تحقيق: د. رضاء الله بن محمد إدريس المباركفوري. الرياض: دار العاصمة.

الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1405ﻫ/1985م). سير أعلام النبلاء. ط3. تحقيق: مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرنؤوط. د.م: مؤسسة الرسالة.

الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1413ﻫ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تحقيق: محمد عوامة أحمد محمد نمر الخطيب. جدة: دار القبلة للثقافة الإسلامية-مؤسسة علوم القرآن.

المزي أبو الحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمٰن. (1400ه/1980م). تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق : د. بشار عواد معروف. بيروت: مؤسسة الرسالة.

مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

موسى شاهين لاشين. (1423هـ/2002م). فتح المنعم شرح صحيح مسلم. ط1. القاهرة: دار الشروق.