أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَلٰكِنۡ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرٌۢ بَصِيۡرٌ ۞

ترجمہ:

اگر اللہ اپنے سب بندوں پر رزق کشادہ کردیتا تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرتے، لیکن اللہ جتنا چاہے ایک اندازے سے رزق نازل فرماتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کی مکمل خبر رکھنے والا، خوب دیکھنے والا ہے

الشوریٰ : ٢٧ میں فرمایا : ” اگر اللہ اپنے سب بندوں پر رزق کشادہ کردیتا تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرتے، لیکن اللہ جتنا چاہے ایک اندازے سے رزق نازل فرماتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کی مکمل خبر رکھنے والا، خوب دیکھنے والا ہے “

الشوریٰ : ٢٧ کا شان نزول

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ کوفہ میں ہر شخص نعمت کے ساتھ صبح کو اٹھتا تھا اور اس کا ادنیٰ درجہ یہ تھا کہ ایک شخص دریائے فرات سے پانی پیتا تھا اور سائے میں بیٹھتا تھا اور گندم کی روٹی کھاتا تھا اور یہ آیت اہل صفہ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ ” ولوبسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض “ (الشوریٰ :27) کیونکہ اہل صفہ نے کہا تھا : کاش ! ہمارے لیے رزق کشادہ ہوتا اور انہوں نے دنیا کی تمنا کی تھی۔ (المستدرک ج ٢ ص ٤٤٥، المستدرک رقم الحدیث : ٣٦٦٣، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٩٨٤٨ )

فقراء مسلمین نے وسعت اور فراخ دستی کی تمنا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان پر رزق فراخ اور کشادہ کردے گا تو یہ سرکشی کریں گے اور ان کے لیے جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے تجاوز کریں گے۔

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس نے فرمایا : ان کی سرکشی یہ ہے کہ یہ ایک گھر ملنے کے بعد دوسرا گھر طلب کریں گے، ایک چوپائے کے بعد دوسرا چوپایا اور ایک سواری کے بعد دوسری سوراری اور ایک لباس کے بعد دوسرا لباس طلب کریں گے۔

ایک قول یہ ہے کہ اگر ان کو کثیر چیزیں مل جائیں تو یہ اکثر کو طلب کریں گے، حدیث میں ہے :

حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کو طلب کرے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٥٠) (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : بہترین رزق وہ ہے جو تمہارے اندر سرکشی پیدا نہ کرے اور نہ تمہیں اللہ کی عبادت سے غافل کرے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٧١٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

آیا ایک سے زائد لباس رکھنا سرکشی اور بغاوت ہے ؟

علامہ قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ایک گھر کے بعد دوسرا گھر، ایک سواری کے بعد دوسری سواری اور ایک لباس کے بعد دوسرا لباس طلب کرنا زمین میں سرکشی اور بغاوت کرنا ہے، اس آیت کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے، خصوصاً یہ کہنا کہ ایک سے زائد لباس رکھنا زمین میں سرکشی اور بغاوت ہے، عقلاً سر شرعاً صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر انسان کے پاس صرف ایک ہی لباس ہو تو اگر وہ ساری عمر اسی لباس کو پہنا رہے تو وہ بہت میلا اور گندا ہوجائے گا اور اس میں جوئیں پڑجائیں گی اور میلے کپروں کو نہ دھونے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور اگر وہ اس کو دھو کر صاف کرے گا تو جب اس کے پاس صرف وہی ایک لباس ہے تو کیا وہ برہنہ ہو کر اپنے کپڑے دھوئے گا اور کپرڑے سوکھنے تک کیا وہ برہنہ بیٹھا رہے گا، حالانکہ برہنہ رہنا شرعاً مذموم ہے، اسی طرح اگر رات کو کپڑا نجس ہوجائے تو اس کو کس طرح پاک کرے گا۔

نیز ایک سے زائد کپڑے رکھنے کے ثبوت میں حسب ذیل احادیث ہیں :

ایک سے زائد لباس رکھنے کے ثبوت میں احادیث

محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اور ان کے باقی کپڑے کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے، انہوں نے اس کپڑے کو اپنی گدی پر باندھا ہوا تھا، ان سے کسی نے کہا : آپ ایک کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ؟ حالانکہ آپ کے پاس اور کپڑے بھی ہیں، حضرت جابر نے کہا : میں نے عمداً ایسا کیا ہے تاکہ تم جیسے احمق کو بھی معلوم ہوجائے کہ ایک کپڑے کے ساتھ بھی نماز ہوجاتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ہمارے کب دو کپڑے ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٠۔ ٣٦١۔ ٣٥٣۔ ٣٥٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٦٢٨ )

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک ریشمی حلہ فروخت ہورہا تھا، انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! آپ یہ حلہ خرید لیتے اور جمعہ کے دن اس کو پہنتے اور جب لوگ آپ سے ملنے کے لیے آتے تو آپ اس کو پہنتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ حلے آئے، تو آپ نے ان میں ایک حلہ حضرت عمر (رض) کو دیا، حضرت عمر نے کہا : یارسول اللہ ! آپ نے مجھے حلہ پہننے کو دیا ہے، حالانکہ آپ اس پہلے عطارد کے حلوں کے متعلق وہ فرما چکے ہیں جو آپ نے فرمایا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے تم کو پہننے کے یہ حلہ نہیں دیا، پھر حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے مکہ میں اپنے ایک مشرک بھائی کو وہ حلہ دے دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٨٨٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٦٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٧٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٨٢، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقمالحدیث : ١٨٦٢ )

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقش ونگار والی چادر اوڑھ کر نماز پڑھی، پھر آپ نے کے بیل بوٹوں کی طرف نظر ڈالی، نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا : ابوجھم کی اس چادر کو لے جائو اور مجھے ان کی سادہ چادر لادو۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٣٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٥٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩١٤، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٩١٦)

امام بخاری ذکر کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کھائو اور پیو اور لباس پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف نہ کرو اور تکبر نہ کرو اور حضرت ابن عباس نے فرمایا : جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو اور اسراف اور تکبر سے بچو۔ (صحیح البخاری کتاب اللباس باب : ١)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس (رض) کی طرف جو یہ روایت منسوب ہے کہ ایک کپڑے کے بعد دوسرے کپڑے کو طلب کرنا اللہ کے احکام سے بغاوت اور سرکشی ہے یہ ان کی طرف غلط منسوب ہے اور رزق میں جو کشادگی بغاوت اور سرکشی کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے پاس مال زیادہ ہو اور وہ اس مال کو اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرے، مثلاً شراب پئے، جوا کھیلے، فلمیں بنائے اور غیر محرم عورتوں سے اور ناجائز ذرائع سے اپنی جنسی تسکین کرے اور زیب وزینت کے قصد سے چالیس پچاس کپڑوں کے جوڑے بنائے اور سال میں دس بارہ جوڑے غریبوں میں تقسیم کردے تو اسراف ہے نہ تکبر ہے، سرکشی اور بغاوت تو بہت دور کی بات ہے، وہ محض جمال اور زیبائش کے قصد سے مستحسن کام ہے اور احادیث میں اس کی تائید ہے جیسا کہ انشاء اللہ ہم ابھی بیان کریں گے۔

زیادہ خرچ کرنے کی تفصیل اور تحقیق

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : زیادہ خرچ کرنے کی تین صورتیں ہیں :

(ا) جو کام شرعاً مذموم ہیں ان میں مال خرچ کرنا، جائز ہے۔

(ب) جو کام شرعاً محمود ہیں ان میں زیادہ مال خرچ کرنا محمود ہے بشرطیکہ اس میں زیادہ خرچ کرنے سے اس سے زیادہ اہم دینی کام متاثر نہ ہو۔

(ج) مباح کاموں میں زیادہ خرچ کرنا، مثلاً نفس کے آرام اور آسائش اور اس کے التذاذ کے لیے خرچ کرنا، اس کی دو قسمیں ہیں :

(١) خرچ کرنے والا اپنے مال اور اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے تو یہ اسراف نہیں ہے۔

(٢) خرچ کرنے والا اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر، اس کی پھر دو قسمیں ہیں : اگر وہ کسی موجود یا متوقع ضرر اور خطرہ کو دور کرنے کے لیے زیادہ خرچ کرتا ہے تو جائز ہے اور اگر دفع ضرر کے بغیر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتا ہے تو جمہور کے نزدیک یہ اسراف ہے اور بعض شافعیہ نے یہ کہا ہے کہ یہ اسراف نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے بدن کے آرام اور آسائش کے حصول کا قصد کرتا ہے اور یہ غرض صحیح ہے اور جب کہ یہ کسی معصیت میں خرچ نہیں ہے تو مباح ہے۔ ابن دقیق العید، قاضی حسین، امام غزالی اور علامہ رافعی نے کہا ہے کہ یہ تبذیر ہے اور ناجائز ہے، محرر میں ہے کہ یہ تبذیر نہیں ہے، علامہ نووی کی بھی یہی رائے ہے اور زیادہ راجح یہ ہے کہ اگر زیادہ خرچ کرنے سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، مثلاً لوگوں سے سوال کرنے کی نوبت نہیں آتی تو پھر زیادہ خرچ کرنا جائز ہے ورنہ ناجائز ہے۔

اپنے تمام مال کو راہ خدا میں صدقہ کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو تنگی اور فقر میں صبر کرسکتا ہو، علامہ باجی مالکی نے لکھا ہے کہ تمام مال کو صدقہ کرنا ممنوع ہے اور دنیاوی مصلحتوں میں زیادہ مال خرچ کرنا مکروہ ہے، البتہ کبھی کبھی زیادہ خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے عیدیا ولیمہ کے موقع پر، اور اس پر اتفاق ہے کہ قدر ضرورت سے زیادہ مکان پر خرچ کرنا مکروہ ہے، اسی طرح آرائش اور زبیائش پر زیادہ خرچ کرنا بھی مکروہ ہے اور مال کو ضائع کرنا گناہ کے کاموں کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ مال کسی ناتجربہ کار کے حوالہ کردینا اور جواہر نفیسہ پر مال خرچ کردینا بھی اس میں داخل ہے۔

علامہ سبکی نے لکھا ہے کہ مال کو ضائع کرنے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر مال خرچ کرنے سے کوئی دینی اور دنیاوی غرض نہ ہو تو اس میں مال خرچ کرنا حرام قطعی ہے اور اگر دینی یا دنیوی غرض ہو اور اس جگہ مال خرچ کرنا معصیت نہ ہو اور خرچ اس کی حیثیت کے مطابق ہو تو یہ قطعاً جائز ہے اور ان دونوں مرتبوں کے درمیان بہت ساری صورتیں ہیں جو کسی ضابطہ کے تحت داخل نہیں ہیں۔ بہرحال معصیت میں خرچ کرنا حرام ہے اور آرام اور آسائش اور نفسانی لذتوں کے حصول کے لیے مال خرچ کرنے میں تفصیل اور اختلاف ہے۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٤٠٩۔ ٤٠٨، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١)

اسراف اور اقتار کا محمل

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما (الفرقان : 67)

وہ لوگ جو خرچ کرتے وقت نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی سے کام لیتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا زیادتی اور کمی کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے

امام رازی نے اس آیت کی تین تفسیریں ذکر کی ہیں :

(١) خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لیا جائے، غلو ہو نہ تقصیر، جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا (بنی اسرائیل :29)

اور اپنا ہاتھ اپنی گردن تک بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ اس کو بالکل کھول دو کہ ملامت زدہ اور درماند بیٹھے رہو

(٢) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، قتادہ اور ضحاک سے منقول ہے کہ اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہ کرنا اقتار ہے، مجاہد نے کہا : اگر پہاڑ کے برابر سونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرے تو اسراف نہیں ہے اور اگر صاع (چارکلوگرام) بھی اللہ کی معصیت میں خرچ کرے تو اسراف ہے۔ حسن بصری نے کہا : کبھی واجب کو ادا نہ کرنا تقتیر ہوتا ہے اور کبھی مستحب کو ادا نہ کرنا بھی تقتیر ہوتا ہے، مثلاً اگر مال دار آدمی اپنے غریب رشتہ داروں کی کفالت نہ کمرے تو یہ بھی تقتیر ہے۔

(٣) دنیا کے عیش اور آسائش میں حد سے گزرنا اسراف ہے، خواہ یہ عیش مال حلال سے ہو پھر بھی مکروہ ہے، کیونکہ یہ تکبر اور اقتار کا سبب ہے۔ اگر کوئی شخص اس قدر زیادہ سیر ہو کر کھائے جس کی وجہ سے عبادت نہ کرسکے تو یہ اسراف ہے اور اگر بقدر ضرورت سے کم کھائے اور یہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی صفت ہے جو لذت کے لیے نہیں کھاتے تھے اور نہ جمال اور زینت کے لیے پہنتے تھے، وہ بس اتنا کھاتے تھے جس سے بھوک دور ہوجاتی اور اس سے ان کو عبادت کرنے کی طاقت حاصل ہوتی اور اتنا لباس پہنتے جو ستر عورت کے لیے کافی ہوتا اور ان کی اور ان کو گرمی اور سردی سے بچا سکتا۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٥٦، دارالفکر، بیروت، ١٣٩٨ ھ)

لذت اور آسائش کے لیے مال خرچ کرنا اسراف نہیں ہے

امام رازی نے جو لکھا ہے کہ صحابہ لذت کے لیے نہیں کھاتے تھے اور جمال اور زینت کے لیے نہیں پہنتے تھے یہ ان بعض صحابہ کا حال ہے جن پر زہد کا غلبہ تھا۔ ورنہ تحقیق یہ ہے کہ صاحب حیثیت کے لیے رزق حلال سے لذیذ کھانے کھانا، قیمتی کپڑے پہننا اور دیگر زیبائش اور آرائش کی اشیاء حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ موجب اجروثواب ہے بشرطیکہ وہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرے اور ان چیزوں کے حصول میں مال خرچ کرنے سے کوئی مالی عبادت فوت ہو نہ کسی کا حق تلف ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

یایھا الذین امنوا کلوا من طیبت مارزقنکم واشکرواللہ۔ (البقرہ : 172)

اے ایمان والوں ! ان پاک چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تم کو دی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔

یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم۔ (المائدہ :87)

اے ایمان والو ! ان پاک چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کردی ہیں۔

قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق۔ (الاعراف :32)

آپ فرمائیے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت پیدا کی ہے اس کو کس نے حرام کیا ہے ؟ اور اللہ کے رزق سے پاک اور لذیذ چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے ؟

امام مسلم اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عن عبداللہ بن مسعود عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر قال رجل ان الرجل یحب ان یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنۃ قال ان اللہ جمیل یحب الجمال اکبر بطرالحق وغمط الناس۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا : ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی اچھی ہو، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حسین اور حسن کو پسند کرتا ہے، تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١)

امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٩٩)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

ثم سال رجل عمر فقال اذا وسع اللہ فاوسعوا۔

ایک شخص نے حضرت عمر سے (دوکپڑے پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق) پوچھا تو حضرت عمر نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں وسعت دی ہے تو وسعت اختیار کرو۔ (صحیح البخاری ج ١ ص ٥٣، مطبوعہ کراچی)

امام ابودائود متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

عن ابی الاحوص عن ابیہ قال اتیت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی ثوب دون فقال الک مال قال نعم قال من ای المال قال قداتانی اللہ من الابل والغنم والخیل والرقیق قال فاذا اتاک اللہ مالا فلیر اثر نعمۃ اللہ علیک وکرامتہ۔

ابوالاحوص کیوالد (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں : میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں معمولی کپڑوں میں گیا، آپ نے فرمایا : تمہارے پاس مال ہے ؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام دیئے ہیں، آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے تم کو مال دیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور کرامت کا اثر تم پر دکھائی دینا چاہیے۔

(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٦٣، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٢٣٩)

امام ترمذی روایت کرتے ہیں : عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اللہ یحب ان یری اثر نعمتہ علی عبدہ۔

عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے رویت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنے کو پسند کرتا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨١٩، مسند احمد ج ٢ ص ١٨١)

امام ابودائود روایت کرتے ہیں :

عن جابر بن عبداللہ قال اتانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرای رجلا شعثا قدتفرق شعرہ فقال اما کان ھذا یجدہ مالیسکن بہ شعرہ ورای رجلا اخر علیہ ثیاب وسخہ فقال اما کان ھذا یجد ما یغسل بہ ثوبہ۔

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : کیا اس شخص کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے اپنے بالوں کو ٹھیک کرسکے، ایک اور شخص کو آپ نے دیکھا جس نے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : کیا اس کو ایسی چیز دستیاب نہیں جس سے اپنے کپڑے دھوسکے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٦٢، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٢٣٣، جامع المسانید والسنن مسند جابر ابن عبداللہ رقم الحدیث : ١٦٥٠ )

ہم نے قرآن مجید کی آیات اور احادیث صحیحہ سے یہ واضح کردیا ہے کہ رزق حلال سے لذیذ کھانے کھانا اور قیمتی کپڑے پہننا بھی مستحسن اور مستحب ہے بشرطیکہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اور مستحقین کے حقوق ادا کیے جائیں۔ باقی امام رازی نے جو یہ لکھا ہے کہ صحابہ لذت کے لیے نہیں کھاتے تھے اور زینت کے لیے کپڑے نہیں پہنتے تھے تو ہوسکتا ہے کہ یہ ان بعض صحابہ کا حال ہو جن پر زہد کا غلبہ تھا ورنہ عام صحابہ کرام سے یہ کیسے متصور ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی ان آیات اور صریح احادیث سے صرف نظر کرلیتے ؟ اور اگر کسی شخص کو یہ وہم ہو کہ بھوک مٹانا اور شرم گاہ چھپانا تو ضروری ہے اس لیے بھوک مٹانے کے لیے کھانا اور ستر پوشی کے لیے پہننا تو اجر وثواب کا بعث ہوگا لیکن لذت کے لیے اچھے کھانے کھانا اور زیبائش کے لیے قیمتی کپڑے پہننا کس طرح اجروثواب کا موجب ہوگا ؟ کیونکہ مقصود مق حیات کو برقرار رکھنا ہے حصول لذت تو مقصود نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رزق حلال سے کھانے کی لذت حاصل کرنا اور حلال مال سے زیبائش حاصل کرنا اس لیے موجب اجروثواب ہے کہ اگر اس لذت کو حرام مال سے حاصل کیا جاتا تو اس پر ندہ اخروی سزا کا مستحق ہوتا، سو اگر بندہ اس لذت کو حلال مال سے حاصل کرے گا تو اخروی اجروثواب کا مستحق ہوگا اور اس کی دلیل اس حدیث میں ہے :

امام مسلم اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوذر (رض) سے روایت کرتے ہیں :

قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفی بضع احدکم صدقۃ قالوا یارسول اللہ ایاتی احدنا شھوتہ ویکون لہ فیھا اجر قال اراء یتم لو وضعھا فیحرام اکان علیہ وزرفکذلک اذا وضعھا فی الحلال کان لہ اجر۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کا جماع کرنا بھی صدقہ ہے، صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم میں سے کوئی شخص اگر شہوت پوری کرنے کے لیے جماع کرے تو کیا پھر بھی اس کا ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : یہ بتائو کہا گر وہ حرام طریقے سے اپنی شہوت پوری کرتا تو اس کو گناہ ہوتا ؟ سو اگر وہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کرے گا تو اس کا جر ملے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٠٦)

اس حدیث کو امام احمد نے بھی متعدد اسانید کے ساتھ حضرت ابوذر (رض) سے روایات کیا ہے۔ (مسنداحمد ج ٥ ص ١٦٨ )

خلاصہ یہ ہے کہ رزق حلال سے لذیذ کھانے کھانا، قیمتی لباس پہننا، خوبصورت مکان بنانا اور دیگر زیب وزینت اور آرام اور آسائش کی چیزیں حاصل کرنا صاحب حیثیت کے لیے نہ صرف جائز ہے بلکہ اجروثواب کا موجب ہے بشرطیکہ ان لذتوں کے حصول کی وجہ سے کسی مالی عبادت میں حرج ہو اور نہ کسی حق دار کا حق تلف ہو اور ان نعمتوں پر وہ شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔

مال و دولت کی تقسیم میں مساوات کی خرابیاں

اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ رزق اور مال و دولت میں مساوی ہوتے تو نہ کوئی مزدور ہوتا نہ مستری ہوتا، نہ کوئی کاریگر ہوتا نہ انجینئر ہوتا، انسان کے جسم کے تمام اعضاء مساوی نہیں ہیں، ایک آنکھ کی جو قدروقیمت ہے وہ ایک انگلی کی نہیں ہے، سر کی جو قدروقیمت ہے وہ ایک ہاتھ یا پیر کی نہیں ہے، خون شریانوں میں ہوتا ہے اور پیشاب مثانہ میں ہوتا ہے، اگر اس کا الٹ ہوجائے اور کسی کا خون مثانہ میں پہنچ جائے اور پیشاب شریانوں میں چلا جائے تو جسم کا نظام فاسد ہوجائے گا تو جس طرح انسان کے اعضاء میں درجات کے اعتبار سے فرق ہے اسی طرح انسانوں کے طبقات میں فرق ہے، جس طرح ایک کار یا ایک جہاز کے تمام پرزے ایک درجہ کے نہیں ہوتے اسی طرح انسانوں کے تمام طبقات بھی ایک درجے کے نہیں ہیں اور سب انسانوں کے پاس برابر کا رزق ہوتا تو معیشت، کارخانے اور کاروبار معطل ہوجاتے۔

اس کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ اگر ہمیشہ بارش ہوتی رہتی تو لوگ دعا نہ کرتے، اس لیے کبھی بارش نہیں ہوتی تاکہ لوگ دعا کریں اور کبھی بارش ہوجاتی ہے تاکہ لوگ شکر کریں۔

مال کی زیادتی کی خرابیاں

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما ہوئے، ہم بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے، آپ نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا خوف ہے کہ تم پر دنیا کی خوش حالی اور اس کی زیب وزینت کھول دی جائے گی، ایک شخص نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا اچھائی بُرائی کا سبب بن جائے گی ؟ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے، اس لیے اس شخص نے کہا گیا : تم نے ایسی کیا بات کہی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے بات نہیں کررہے، پھر ہم کو ایسا لگا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہورہی ہے، پھر آپ نے پسینہ صاف کیا، پھر آپ نے پوچھا کہ وہ سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اور گویا کہ آپ نے اس سائل کی تعریف کی، پھر آپ نے فرمایا کہ اچھائی بُرائی کا سبب نہیں بنتی، لیکن موسم بہار میں ایسی گھاس بھی اگتی ہے جو جان لیوا ہوتی ہے، البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے جو خوب چرتا ہے، پھر جب اس کی دونوں کو کھیں بھر جاتی ہے تو وہ دھوپ میں جاکر لید یا پیشاب کرتا ہے اور پھر چرنا شروع کردیتا ہے، اسی طرح یہ مال و دولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے اور مسلمان کا وہ مال کس قدر عمدہ ہے جو مسکین، یتیم اور مسافر کو دیا جائے یا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص مال کو ناحق طریقہ سے لے گا وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا رہتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٦٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٥٢ )

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں : ایک مثال اس شخص کی ہے جو حد سے زیادہ دنیا جمع کرتا ہے اور اس مال کا حق ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری مثال اس شخص کی ہے جو اعتدال کے ساتھ مال دنیا جمع کرتا ہے۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ موسم بہار میں اسی گھاس بھی اگتی ہے جو جان لیوا ہوتی ہے یہ اس شخص کی مثال ہے جو ناحق طریقہ سے مال جمع کرتا ہے کیونکہ موسم بہار میں خشک گھاس کی تاثیر گرم ہوتی ہے، مویشی اس کو کثرت سے کھاتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے پیٹ پھول جاتے ہیں اور جب ان کا کھانا اعتدال سے تجاوز کرجاتا ہے تو ان کی انتڑیاں پھٹ جاتی ہیں اور وہ مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں، اسی طرح جو شخص ناحق مال دنیا جمع کرتا ہے اور حق دار کو اس کا حق نہیں دیتا تو وہ آخرت میں ہلاک ہوجاتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے۔

اس کے بعد فرمایا : البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے جو خوب چرتا ہے الخ، یہ اعتدال سے دنیا جمع کرنے والے کی مثال ہے کیونکہ سربز گھاس فصل بہار کی خشک گھاس کی طرح نہیں ہے، یہ وہ سبزہ ہے جس کو فصل پکنے کے بعد مویشی کھاتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مثال اس شخص کو دی ہے جو اعتدال سے دنیا جمع کرتا ہے اور اس کو حرص اس بات پر برانگیختہ نہیں کرتی کہ وہ ناحق مال جمع کرے، اس لیے وہ ناحق مال جمع کرنے والے کے وبال سے نجات یافتہ ہے، جیسے سبزہ کھانے والے مویشی نجات یافتہ ہیں۔ (عمدۃ القاری ج ٩ ص ٥٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

بعض لوگوں کو امیر اور بعض لوگوں کو فقیر بنانے کی مصلحتیں

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

ہر چند کو اللہ سبحانہ پر لوگوں کی صلاح اور منفعت کے لیے افعال کرنا واجب نہیں ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے افعال حکمتوں اور مصلحتوں سے خالی نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے متعلق یہ علم ہوتا ہے کہ اگر اس پر دنیا کشادہ کردی گئی تو اس کے اعمال فاسد ہوجائیں گے۔ اس لیے اس کی مصلحت اس میں ہے کہ اس پر رزق تنگ کردیا جائے، پس کسی شخص پر رزق تنگ کرنا اس کی توہین نہیں ہے اور کسی پر رزق کشادہ کرنا اس کی فضیلت نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں پر رزق کشادہ کردیا، حالانکہ اس کو علم تھا کہ وہ اس مال کو ناجائز کاموں میں صرف کریں گے اور اگر وہ اس کے خلاف کرتا تو وہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور یہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی مشیت کی طرف مفوض ہیں اور یہ الترام نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فعل میں بندوں کی مصلحت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ مالک علی الاطلاق ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ اپنے کسی فعل پر جواب دہ نہیں ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : جس شخص نے میرے ولی کی اہانت کی اس نے مجھ سے اعلان جنگ کردیا اور میں اپنے اولیاء کی مدد میں سب سے زیادہ جلدی کرتا ہوں اور میں ان کی خاطر اس طرح غضب ناک ہوتا ہوں جس طرح شیر غضب ناک ہوتا ہے اور میں جو کام کرنے والا ہوں اس میں کبھی اتنی تاخیر نہیں کرتا جتنی تاخیر اپنے بندہ مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں، وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے رنجیدہ کرنے کو ناپسند کرتا ہوں، حالانکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور بندہ مومن میرا سب سے زیادہ قرب فرائض کی ادائیگی سے حاصل کرتا ہے اور بندہ مومن نوافل سے میرا مزید قرب حاصل کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان، آنکھ، زبان اور ہاتھ ہوجاتا ہوں اور اس کا مؤیدہوجاتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں اور بیشک میرے مومن بندوں میں کچھ وہ ہیں جو مجھ سے عبادت کے دوازہ کے کھولنے کا سوال کرتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اگر میں اس کے لیے عبادت کا وہ دوازہ کھول دوں تو اس میں فخر اور تکبر پیدا ہوگا اور اس کی وہ عبادت بھی ضائع ہوجائے گی اور بیشک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں جن کی صلاح اور فلاح صرف غناء اور خوش حالی سے ہوسکتی ہے، اگر میں ان کو فقیر بنادوں تو فقر ان کے حال کو فاسد کردے گا اور بیشک میرے مومن بندوں میں سے بعض وہ ہیں کہ ان کی صلاح اور فلاں صرف فقر میں ہے، اگر میں ان کو غنی کردوں تو غناء اور خوش حالی ان کے حال کو فاسد کردے گی اور میں اپنے بندوں کو تدبیر کرتا رہتا ہوں کیونکہ مجھے ان کے دلوں کا علم ہے، بیشک میں علیم (و) خبیر ہوں۔ پھر حضرت انس نے کہا : اے اللہ ! بیشک میں تیرے ان مومن بندوں میں سے ہوں جن کی صلاح اور فلاح صرف غناء اور خوشحالی میں ہے۔ (رسائل ابن ابی الدنیا ج ٤، رسالۃ الاولیاء رقم الحدیث : ١ مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، بیروت، ١٤١٤ ھ، کنزالعمال رقم الحدیث : ١١٦٠، جامع العلوم والحکم لابن رجب الحسنبلی ص ٣٣٨، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٥۔ ٤، صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٥)

کشادگی رزق کی وجہ سے سرکشی کی وجوہات

رزق میں کشادگی کی حسب ذیل وجوہ سے طغیان اور سرکشی کا سبب ہے۔

(١) اگر اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو رزق میں مشاوی کردیتا تو بعض لوگ دوسروں کے محتاج نہ ہوتے اور اس سے اس جہان کا کاروبار چل نہیں سکتا تھا اور تجارت، صنعت وحرفت، کارخانے، تعمیرات اور افواج وغیرہ کا نظام جاری نہ رہ سکتا۔

(٢) اگر سب لوگ سرمایہ دار ہوتے تو زکوٰۃ، صدقہ اور فطرہ لینے والا کوئی نہ ہوتا اور لوگ دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدارس دینیہ کی طرف رجوع نہ کرتے، کیونکہ زیادہ تر علم دین حاصل کرنے والے فقراء ہوتے ہیں۔

(٣) انسان فی نفسہٖ اپنی طبیعت کے لحاظ سے متکبر ہے، پس جب وہ غناء اور خوشحالی کو پائے گا تو اپنی خلقت اصلیہ کے تقاضے کی طرف لوٹ جائے گا اور فخر اور تکبر کرے گا اور جب وہ تنگ دستی اور فقروفاقہ میں مبتلا ہوگا تو اس میں تواضع اور انکسار پیدا ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تواضع کی طرف رجوع کرے گا۔

اگر کو ئش شخص یہ اعتراض کرے کہ پھر چاہیے تھا کہ سب لوگ مفلس اور فقیر ہوتے تاکہ سب لوگ متواضع ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرتے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی وہ عبادات نہ ہوسکتیں جو مال و دولت پر موقوف ہیں، مثلاً پھر لوگ حج اور عمرہ نہ کرسکتے، قربانی نہ کرسکتے، زکوٰۃ، صدقات، خیرات اور فطرہ وغیرہ نہ ادا کرسکتے اور نصف ایمان صبر ہے اور نصف ایمان شکر ہے، تنگ دست لوگ مال نہ ہونے پر صبر کرتے ہیں اور خوش حال لوگ مال ہونے کی وجہ سے شکر کرتے ہیں، پس حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں میں فقر وفاقہ رکھتا اور کچھ لوگوں میں مال و دولت رکھتا۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 27