أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍؕ ۞

ترجمہ:

اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف فرما دیتا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف فرما دیتا ہے اور تم روئے زمین میں کہیں پر بھی اس کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حامی ہے نہ مددگار (الشوریٰ :30-31)

مؤمنوں کے مصائب کا ان کے لیے کفارہ ذنوب نہ ہونے پر امام رازی کے پیش کردہ دلائل اور ان کے جوابات

جمہور مفسرین اور شارحین حدیث کے نزدیک مؤمنین پر دنیا میں جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں اور ان کی دلیل یہ آیت ہے (الشوریٰ : ٣٠) ، اس کے برخلاف امام رازی کی یہ تحقیق ہے کہ مؤمنین پر دنیا میں جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے ایمان پر استقامت کا امتحان ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک اس آیت کا یہی محمل ہے کیونکہ مصائل تو انبیاء (علیہم السلام) اور مقربین پر بھی آتے ہیں حالانکہ ان کا پہلے کوئی گناہ نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ مؤمنین پر مصائب ان کے امتحان کے لیے آتے ہیں، حدیث میں ہے :

مصعب بن سعد اپنے والدرضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! سب سے زیادہ مصائب میں کون مبتلا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : انبیاء، پھر جو ان کے قریب ہو، پھر جو ان کے قریب ہو، ہر شخص اپنے دین کے اعتبار سے مصائب میں مبتلا ہوتا ہے، اگر وہ اپنے دین میں سخت ہو تو اس پر مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہو تو اس پر مصیبت بھی کم درجہ کی ہوتی ہے، بندہ مسلسل مصائب میں مبتلا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اس حال میں زمین پر چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٢٣، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٢٣٣، مسند احمد ج ١ ص ١٧٢، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٧٨٦، مسند البزار رقم الحدیث : ١١٥٠، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٨٣٠، صحیح ابن احبان رقم الحدیث : ٢٩٠١، مستدرک ج ١ ص ٤١، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣٦٨، سنن بیہقی ج ٣ ص ٣٧٢، شعب الایمان رقم احلدیث : ٩٧٧٥، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٤٣٤، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٣٠٦٩، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ١٠٥٤ )

امام رازی کا اس آیت کو امتحان پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں فرمایا ہے :” اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے “ اس میں یہ تصریح ہے کہ مصائب تمہارے گناہوں کی سزائیں ہیں نہ یہ کہ یہ ایمان پر تمہاری استقامت کا امتحان ہے۔

اور امام رازی نے اس حدیث سے جو استدلال کیا ہے وہ دو وجہوں سے صحیح نہیں ہے :

(١) یہ حدیث ان مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے گناہ کیے ہیں اور جنہوں نے گناہ نہیں کیے، جیسے انبیاء (علیہم السلام) وہ اس حدیث سے خارج ہیں، انبیاء علہیم السلام پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے ہوتے ہیں یا ان کے امتحان کے لیے ہوتے ہیں یا کسی اور حکمت کی وجہ سے آتے ہیں جو ہم سے مخفی ہے۔ اسی طرح بچوں اور مجنونوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ بھی اس حدیث سے خارج ہیں کیونکہ یہ حدیث مکلفین کے لیے ہے اور غیر مکلف ہیں یا بچوں پر مصائب کی وجہ سے ان کے والدین کو اجر ملتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کریں۔

(٢) امام رازی نے بغیر حوالے کے اس حدیث کا صرف ابتدائی حصہ ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے : مصائب کے ساتھ انبیاء مخصوص ہیں، پھر اولیاء، پھر جو ان کے قریب ہو، پھر جو ان کے قریب ہو۔ انہوں نے پوری حدیث ذکر نہیں کی جب کہ اس حدیث کے آخر میں ہے : بندہ مسلسل مصائب میں مبتلا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اس حال میں زمین پر چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ حدیث کے اس آخری حصہ سے معلوم ہوا کہ عام مؤمنین پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں، اگر امام رازی پوری حدیث ذکر کردیتے تو اوّل مرحلہ میں ہی بات صاف ہوجاتی۔

امام رازی کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

الیوم تجزی کل نفس بما کسبت۔ (المومن : 17)

آج ہر نفس کو اس کے کیے ہوئے کاموں کی جزا دی جائے گی۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جزاء اور سزا قیامت کے دن ہوگی، اگر دنیا میں گناہوں پر سزا دی جائے تو دنیا بھی دارجزاء ہوجائے گی ” ملک یوم الدین (الفاتحہ :4) کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جزاء اور سزا قیامت کے دن ہوگی اور دنیا دار اور تکلیف ہے، اگر دنیا میں گناہوں پر سزا دی جائے تو دنیا بھی دارجزا وسزا بن جائے گی اور یہ محال ہے۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ٦٠٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تمام لوگوں کو ان کے تمام گناہوں کی سزا قیامت کے دن دی جائے گی اور کسی شخص کو اس کے کسی گناہ کی سزا دنیا میں نہیں دی جائے گی تو اگر بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی سزا دنیا میں دے کر ان کے گناہوں سے پاک کردیا جائے تو ان میں کون سا استحالہ ہے۔

نیز امام رازی فرماتے ہیں :

دنیا میں مصائب صدیق پر بھی آتے ہیں اور زندیق پر بھی، اس لیے مصائب کے نزول کو گناہوں کا کفارہ قرار دینا محال ہے، ورنہ لازم آئے گا کہ کافروں اور زندیقوں پر بھی مصائب کا نزول ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ کافروں اور زندیقوں پر مصائب کا نزول ان کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہوگا، جس طرح آخرت میں بعض گنہگار مسلمانوں کو پاک کرنے کے لیے عارضی طور پر دوزخ میں ڈالا جائے گا سو دوزخ کا عذاب مؤـمنوں کے لیے گناہوں سے تطبہیر کا باعث ہوگا اور کافروں کے لیے یہی عذاب تطہیر کا نہیں بلکہ توہین کا باعث ہوگا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مؤمنوں کے لیے دنیا میں مصائب کا نزول ان کے گناہوں کا کفارہ ہوگا، اس کے ثبوت میں تو بہت احادیث ہیں، کافروں اور زندیقوں کے لیے مصائب ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں اس کے ثبوت میں کون سی احادیث ہیں ؟

ہر چند کہ امام رازی نے یہ تصریح نہیں کی کہ ان کا یہ مختار ہے، بلکہ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ بغض لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے کہ مصائب کفارہ ہوتے ہیں، پھر ان کی طرف سے اس نظریہ پر دلائل قائم کیے اور ان دلائل کا جواب نہیں دیا اور یہ لکھا کہ مصائب کا کفارہ ہونا محال ہے، اس لیے ہم نے ان تمام دلائل کے جوابات ذکر کیے اور ان دلائل کا جواب نہیں دیا اور یہ لکھا کہ مصائب کا کفارہ ہونا محال ہے، اس لیے ہم نے ان تمام دلائل کے جوابات ذکر کیے تاکہ امام رازی کے پیش کردہ دلائل سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہی نظریہ برحق ہے، اب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی تائید سے ان احادیث کو پیش کررہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مؤمنین پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔

مؤمنوں کے مصائب کا ان کے لیے کفارہ ذنوب ہونے کے ثبوت میں احادیث اور آثار

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٦٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان پر جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے، حتیٰ کہ اس کانٹے سے جو اس کو چبھتا ہے۔ امام مسلم روایت میں بیماری اور غم کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٧٢، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٤٨٨، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١١٣٥)

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے، خواہ وہ تھکاوٹ ہو یا مرض ہو یا فکر ہو یا غم ہو یا اذیت ہو یا پریشانی ہو یا اس کو کوئی کانٹا چبھا ہو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢۔ ٥٦٤١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٧٣، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٩٦٦ )

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت علی (رض) نے کہا : کیا میں تم کو اس آیت کی خبر دوں جو اللہ کی کتاب میں سب سے افضل ہے، ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” ما اصبکم من مصیبۃ فیما کسبت ایدیکم “ الآیۃ (الشوریٰ :30) کی تفسیر میں یہ بتایا : اے علی ! تم پر جو بیماری آتی ہے یا کوئی سزا ملتی ہے، یا دنیا میں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ کریم ہے کہ وہ تم کو دوبارہ پھر آخرت میں سزا دے اور اللہ تعالیٰ نے جس گناہ کو دنیا میں معاف فرما دیا تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ حلیم ہے کہ وہ معاف کرنے کے بعد دوبارہ سزا دے۔ (مسنداحمد ج ١ ص ٨٥ طبع قدیم، مسند احمدج ٢ ص ٧٨، رقم الحدیث : ٦٤٩، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، مسند ایویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٠٨۔ ٤٥٣، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مومن کو اس کے جسم میں جو بھی ایذاء پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

(مسند احمدج ٤ ص ٩٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٨ ص ١٠٧، رقم الحدیث : ١٦٨٩٩، المعجم الکبیر ج ١٩، رقم الحدیث : ٨٤١، مجمع الزوائدج ٢ ص ٣٠١، حافظ الہیثمی نے کہا : نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندے کے گناہ زیادہ ہوں اور اس کے ایسے اعمال نہ ہو جن سے اس کے گناہوں کا کفارہ ہوسکے تو اللہ عزوجل اس کو غم میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ غم اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔ (مسند احمدج ٦ ص ١٥٧ طبع قدیم، مسنداحمد ج ٤٢ ص ١٣٤، رقم الحدیث : ٢٥٢٣٧، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٢٦٠، حافظ الہیثمی نے کہا : امام احمد اور ابزار کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٩٢، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٧٩٨)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ روایت کرتے ہیں :

حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین (رض) کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے کہا : میرا یہی گمان ہے کہ بیماری میرے کسی گناہ کے سبب سے ہے اور جن گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے وہ بہت ہیں اور پھر یہ آیت تلاوت کی : ” وما اصابکم من مصیبۃ فیما کسبت ایدیکم “ (الشوریٰ :30) (الجامع لشعب الایمان ج ١٢ ص ٢٥٣، رقم الحدیث : ٩٣٥٦، ابن ابی الدنیا، المرض والکفارات رقم الحدیث : ١٤٩، المستدرک ج ٢ ص ٤٤٦۔ ٦٦٥، الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٥٥ )

ربیع بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے کہا : کتاب اللہ میں ایک آیت ہے جس نے مجھ کو غم زدہ کردیا، انہوں نے پوچھا : وہ کون سی آیت ہے ؟ میں نے کہا : وہ یہ ہے :

من یعمل سوء ایجزبہ۔ (النساء : 123)

جس شخص نے کوئی بُرا کام کیا اس کو اس کی سزا دی جائے گی۔

انہوں نے کہا : میں تم کو فقیہ سمجھتا تھا، بیشک مومن پر جو مصیبت بھی آتی ہے خواہ اس کا قدم پھسلے یا اس کو کوئی پریشانی ہو یا اسے کسی لکڑی سے خراش آئے، وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کے سبب آتی ہے اور جن گناہوں کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف فرما دیتا ہے ان کی تعداد بہت زیاد ہے۔

قتادہ نے ” وما اصابکم من مصیبۃ “ الاٰیہ کی تفسیر میں کہا : ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ ابن آدم کو جب بھی کسی لکڑی سے خراش آئے یا اس کا قدم پھسلے یا اس کو کوئی پریشانی ہو تو وہ اس کے کسی گناہ کے سبب سے ہوتی ہے اور جن گناہوں کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف فرما دیتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

(الجامع لشعب الایمان ١٢ ص ٢٥٤۔ ٢٥٣، رقم الحدیث : ٩٣٥٧، ابن ابی الدنیا، المرض والکفارات رقم الحدیث : ٢٢٨، کتاب الزہد للوکیع رقم الحدیث : ٩٣، اس حدیث کی سند متصلاً ضعیف اور مرسلاً ثقہ ہے)

حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ایک فاحشہ عورت تھی، اس کے پاس سے ایک مرد گزرا، اس نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا، اس عورت نے کہا کہ چھوڑو، بیشک اللہ تعالیٰ شرک کو لے گیا اور اسلام کو لے آیا، اس شخص نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور پیٹھ موڑ کر چل دیا اور مڑر اس کو دیکھتا رہا حتیٰ کہ اس کا چہرہ دیوار سے ٹکڑا گیا، پھر اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا : تم وہ بندے ہو جس کے ساتھ اللہ نے خیر کا ارادہ کیا ہے اور بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کے گناہ کی سزا جلدی دیتا ہے اور جب وہ کسی بندے کے ساتھ شرکا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہ کو قائم رکھتا ہے، حتیٰ کے قیامت کے دن اس کو اس کی پوری سزا دیتا ہے۔ (اجمامع لشعب الایمان ج ١٢ ص ٢٥٥۔ ٢٥٤، رقم الحدیث : ٩٣٥٩، صحیح ابن حبان ج ٤ ص ٢٥٠۔ ٢٤٩، الاسماء والصفات ص ٩ (رض) ١٩٧، اس حدیث کی سند حسن ہے)

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :

فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ (الزلزال :7-8)

پس جس شخص نے رائی کے دانے کے برابر نیکی کی وہ اس کی جزاء پائے گا اور جس شخص نے رائی کے دانے کے برابر بُرائی کی وہ اس کی سزا پائے گا

تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کھانا کھا رہے تھے، وہ رک گئے، انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! میں نے اچھا یا بُرا جو کام بھی کیا ہے میں اس کا صلہ ضرور پائوں گا، آپ نے فرمایا : تم نے رائی کے دانے کے برابر جو بُرائی کی ہے تم نے اس کی سزا پالی ہے اور تم نے جو بھی نیکی کی ہے تم نے اس کو ذخیرہ کرلیا ہے حتیٰ کہ تم کو وہ قیامت کے دن دی جائے گی، ابوادریس نے کہا : اس کا مصداق اللہ کی کتاب میں یہ آیت ہے : ” وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر “ (الشوریٰ :30)

خلاصہ بحث

ان کثیر احادیث اور آثار سے واضح ہوگیا کہ عام بندہ مومن پر دنیا میں جو مصائب آتے ہیں وہ اس گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں، البتہ انبیاء (علیہم السلام) پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے درجات میں ترقی کے لیے ہوتے ہیں اور صالحین پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے امتحان کے لیے ہوتے ہیں اور دیوانوں اور بچوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کے والدین کے لیے اجروثواب کا باعث ہیں بشرطیکہ وہ صبر کریں اور کافروں اور زندیقوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کی توہین کے لیے ہوتے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 30