مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

جن کی روحیں طیبہ میں گشت لگاتی ہیں

اہل سنت وجماعت کی روحیں ہمہ دم دربار اعظم میں جاروب کشی کرتی رہتی ہیں۔ان کے قلوب جلوہ گاہ پیمبر ہیں(علیہ الصلوۃ والسلام)۔ان کے اذہان وعقول میں عشق مصطفوی کے پاکیزہ تصورات اور محبت نبوی کے مقدس تخیلات ہیں۔

اللہ تعالی نے اہل سنت وجماعت کی فطرت میں عشق محمدی ودیعت فرما دی ہے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کے معلم مذہب مجدد صدی چہاردہم علیہ الرحمۃ والرضوان بھی ہر روز وشب اپنی قوم کو حرم مصطفوی کی جانب متوجہ کرتے رہے ہیں۔

اگر کسی سنی صحیح العقیدہ کو کہہ دیا جائے کہ آپ کو اپنے دوستوں سے زیادہ محبت صاحب ملت بیضا حبیب کبریا خلیفۂ خدا علیہ التحیۃ والثنا سے کرنی ہے اور ان کی بہ نسبت اپنے دوستوں سے کم محبت کرنی ہے,یعنی کثیر وقلیل کا فرق ملحوظ رکھنا ہے,تب یقینا ہر سنی یہی جواب دے گا کہ یقینا میں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔

بلا شبہہ آپ اپنے پیارے رسول علیہ الصلوۃ والسلام ہی سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ہم سب کے رسول ونبی حضور اقدس سیدنا وسندنا ومولانا محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللہ اخوانا)(صحیح البخاری)

ترجمہ:بدگمانی سے بچو,اس لئے کہ بدگمانی سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔(کسی کے احوال کی)ٹوہ میں نہ رہو۔(کسی کی)جاسوسی نہ کرو۔(کسی کا)سودا نہ بگاڑو۔(آپس میں)حسد نہ کرو۔(آپس میں)بغض نہ رکھو۔(ایک دوسرے کی)غیبت نہ کرو,اور اللہ کے بندے(آپس میں)بھائی بن کر رہو-

منقوشہ بالا ایک ہی حدیث شریف پر عمل کر لیا جائے تو ان شاء اللہ تعالی بہت سے معاملات حل ہو جائیں۔

عوام ایل سنت”بہارشریعت” سولہواں حصہ پڑھیں۔اس میں اسلامی اخلاق وآداب مرقوم ہیں۔وہ حصہ”اسلامی اخلاق وآداب”کے نام سے بھی مطبوع ہے۔اس میں لکھے ہوئے اخلاق وآداب پر عمل کریں۔جو سنی صحیح العقیدہ نہیں ہیں,ان سے ضرور دور رہیں۔بدمذہبوں سے میل جول,دوستی ومحبت,ان کے ساتھ نشست وبرخاست,خورد ونوش,شادی بیاہ,سلام کلام سب کچھ بند کریں۔جملہ تعلقات وروابط منقطع کر لیں۔اس کے برعکس نہ کریں کہ بدمذہبوں سے دوستی اور سنیوں سے دشمنی۔

محققین ومناظرین کے پاس کسی سے احتراز کے دلائل ہوں گے۔دلائل احتراز اور احتراز کے سبب پیدا ہونے والے مفاسد کا تقابلی جائزہ لیں۔

چند مفاسد مندرجہ ذیل ہیں۔

1-عیب جوئی اور بدگوئی کا رواج وفیشن۔

2-تکفیر دیابنہ پر قیل وقال۔

3-نیم رافضیت کی جانب میلان۔

4-تکفیر دہلوی پر کف لسان کے سبب قیل وقال۔

5-عوام الناس کا سنی صحیح العقیدہ کو غیر سنی سمجھنا۔

6-بعض کلامی فتاوی میں اختلاف-

عہد ماقبل میں ایسا نہیں تھا۔اب ایسا کیوں ہوا؟بس اسی پر غور وفکر کیا جائے۔کسی کی تردید وتغلیط کرنا مشکل نہیں۔کسی کو راہ حق کی طرف لانا کیسے ہے؟اس پر غور کیا جائے۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:03:جولائی 2021