اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ

وَ عَلیٰ آلِکَ وَ اَصْحَابِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ﷺ

تلاوت قرآن کی فضیلت

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز سے افضل ہے۔ قرآن پاک کو دیگر کلام پر اسی طرح برتری ہے جیسے خدائے تعالیٰ کو مخلوق پر۔ جو شخص قرآن پاک کی تعظیم کرتا ہے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرتا ہے اور جو قرآن پاک کی تعظیم نہیں کرتا وہ یقینا اللہ تعالیٰ کو کوئی حیثیت نہیں دیتا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرآن کی عزت وتوقیر اولاد کے لئے والد کی عزت وتوقیر کی طرح ہے۔ قرآن ایساشفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت قبول ہو گی اور ایسا مخالف ہے جس کی مخالفت سنی جائے گی۔ جو شخص قرآن کو اپنے آگے کرے گا قرآن اسے جنت میں لے جائے گا اور جو اسے پس پشت ڈالے گا اسے جہنم میں پہنچا دے گا۔ حاملین قرآن کو اللہ کی رحمت گھیرے ہوئے ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیںاور کلام الٰہی کی تعلیم حاصل کرنے والوں سے جو عداوت ودشمنی کرتا ہے۔ وہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ سے عداوت رکھتا ہے۔ اور جو ان سے دوستی کرتا ہے و ہ یقیناً اللہ تعالیٰ سے دوستی رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اے کتابُ اللہ کو اپنے پاس رکھنے والو!اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی کتاب کی تعظیم کے لئے دعوت دے رہا ہے۔ تم اس کی دعوت پر لبّیک کہووہ تم سے مزید محبت فرمائے گا اور تم کو اپنی مخلوق میں مقبول و محبوب بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن سننے والے سے دنیا کی برائی دور فرماتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرنے والے سے آخرت کی مصیبت رفع فرماتا ہے اور یقینا کتابُ اللہ کی ایک آیت سننے والے کی جزا ایک پہاڑ سونے سے بھی بہتر ہے۔ اور کتاب اللہ کی ایک آیت تلاوت کرنے والے کا اجر زیر آسمان کی ہرچیز سے بہتر ہے اور بلاشبہ قرآن میں ایک سورت ہے جسے اللہ تعالیٰ کے یہاں ’’عظیم‘‘ کہا جاتا ہے۔صاحب سورت (اس کا حافظ اور اس کی نگہداشت اور اس کے مطابق عمل کرنے والے )کو ’’شریف‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ سورت قیامت کے دن صاحب سورت کے لئے قبیلۂ ربیعہ و مُضَرْ کے افراد سے زیادہ لوگوں کے حق میں شفاعت کرے گی اور یہ سورۂ یٰسٓ ہے۔

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو!قرآن مقدس کی تعظیم کرو اور اس کی تلاوت کرو انشاء اللہ دنیا وآخرت میں کامیابی نصیب ہوگی۔

تلاوت کے آداب

تلاوت کرنے والا قبلہ رو سر جھکا کر ادب اور وقار کے ساتھ استاد کے سامنے بیٹھنے کی طرح بیٹھ کر تلاوت کرے۔ مسجد میں نماز کے اندر کھڑے ہو کر قرآن پڑھنے میں سب سے زیادہ ثواب ہے۔ بستر پر لیٹ کر حفظ سے قرآن پڑھنے میں بھی ثواب ہے مگر کم، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے’’اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَا ماً وَّ قُعُوْداً وَّعَلٰی جُنُوْ بِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ‘‘

وہ جو اللہ تعالیٰ کو کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلوئوں پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں۔ (آل عمران؍ ۱۹۱،کنز الایمان)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! اس آیۂ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تینوں حالتوں میں ذکر کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے مگر کھڑے ہوکر ذکر کرنے والوں کو سب پر مقدم کیا ہے۔ پھر بیٹھ کر اور پھر سوکر ذکر کرنے والوں کا تذکرہ کیا ہے۔

٭ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا جو شخص نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھتا ہے اس کے لئے ہر حرف پر سو نیکیاں ہیں اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے لئے ہر حرف پر پچاس نیکیاں ہیں۔ اور جو شخص نماز کے باہر باوضو پڑھتا ہے اس کے لئے پچیس نیکیا ں ہیںاور جو شخص بغیر وضو پڑھتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں ہیں۔ قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا حفظ سے تلاوت کرنے سے افضل ہے۔ا س لئے کہ قرآن کا اٹھا نا، چھونا اور اس کا دیکھنا یہ سب عبادت ہے۔

قرآن دیکھ کر پڑھنے کے فضائل اپنے مقام پر آئیں گے۔ یہاں صرف دو روایتوں پر اکتفا ء کیا جارہا ہے۔

دو ہزار درجہ

طبرانی نے ’’معجم‘‘میں اوربیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘میں حضرت اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قرآن پاک حفظ سے پڑھنا ایک ہزار درجہ رکھتا ہے، اور دیکھ کر پڑھنا دوہزار کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا وہی درجہ رکھتا ہے جو فضیلت فرض کو نفل پر حاصل ہے‘‘۔

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو!کھڑے رہ کر بیٹھ کر بلکہ ہمیشہ اپنے رب عزوجل کے کلام کو پڑھتے رہو۔

تلاوت کی مقدار

تلاوت کس مقدار میں کرنا چاہئے، صحابۂ کرام اور اسلاف عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا طریقہ اس میں مختلف رہاہے۔ بعض حضرات رات دن میں ایک ختم تلاوت کرتے، بعض دو ختم اور بعض تین ختم تک تلاوت کرتے اور بعض ایک ماہ میں ایک ختم تلاوت کرتے۔ لیکن عام لوگوںکے لئے تین دن سے کم میں ختم کرنا خلاف اولیٰ ہے۔حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔ ’’لَمْ یَفْقَہْ مَنْ قَرَاَ القُرْآن فِی اَقَلِّ مِنْ ثَلٰثٍ‘‘ جس نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کی اس نے اس کو سمجھا نہیں ۔اس حدیث کا مصداق یہی ہے کہ عام طور پر ذہن کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ تین دن سے کم میں پڑھنے والا قرآن سمجھ نہ سکے گا۔ اسی کو حضور ﷺ نے بیان فرمایا گویا اس میں عام حال کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن خاصانِ خدا، اولیاء اللہ کی شان نرالی ہے وہ حضرات قرآنِ عظیم کم سے کم وقت میں یوں ختم فرماتے ہیں کہ آیت پوری صحت کے ساتھ ادا بھی کرتے اور خوب سمجھتے اور دل میں محفوظ بھی رکھ لیتے ہیں جیسا کہ مروی ہے کہ کہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ ہر رات ایک قرآن مجید ختم فرماتے اور مسائلِ شرعیہ کا بھی ان آیتوں سے استنباط فرماتے۔ یہ ان کی کرامت ہے۔ بعض حضرات دس دن میں ختم کرتے اور بعض سات دن میں اکثر صحابہ اور اسلاف کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اس پر عمل رہا ہے۔

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو!کم از کم قرآن مقدس کو ہفتہ میں ایک بار تو ضرور ختم کرلیا کریں۔ ان شاء اللہ قلب کو اطمینان نصیب ہوگا۔

حصوں میں تلاوت کرنا

جو ہفتہ مں ایک بار ختم کرسکے وہ قرآن مقدس سات حصوں میں تقسیم کرے۔یہی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت ہے۔

مروی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جمعہ کی شب میں ’’سورۂ بقرہ‘‘سے شروع کرکے ’’سورۂ مائدہ‘‘تک پڑھتے اور سنیچر کی شب میں’’سورۂ انعام‘‘ سے’’سورہ ٔ ھود‘‘ تک اور اتوارکی شب میں ’’سورۂ یوسف‘‘سے’’سورۂ مریم‘‘ تک اور پیر کی شب میں ’’سورۂطٰٓہ‘‘ سے ’’سورۂ قصص‘‘ تک اور منگل کی شب میں ’’سورۂ عنکبوت‘‘ سے ’’سورۂ صٓ‘‘ تک۔ اور بدھ کی شب میں ’’سورۂ تنزیل‘‘سے ’’سورۂ رحمٰن‘‘تک اور جمعرات کی شب میں ’’سورۂ واقعہ‘‘ سے ’’سورۂ ناس‘‘تک اس طرح قرآن ختم کردیتے۔

دوران تلاوت رونا

تلاوت کے ساتھ رونا مستحب ہے۔ حضور انے فرمایاہے کہ تم قرآن کی تلاوت کرو اور اس کے ساتھ رویا کرو اگر نہ روسکو تو رونے جیسا انداز اختیار کرلیا کرو۔

(ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ‘‘وہ اہل ایمان روتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ (بنی اسرائیل، ترجمہ کنزالایمان)

بخاری اور مسلم شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تاجدار کائنات ﷺ کی بارگاہ میں قرات کررہے تھے اس وقت حضور ﷺ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ (بخاری ومسلم)

پروردگار عزوجل اپنے پیارے محبوب ﷺ کے صدقے ہمیں تلاوت قرآن پاک میں رونے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم۔

حقوق آیات کا لحاظ رکھنا

سجدہ کی آیت آئے تو تلاوت کرنے والا سجدہ کرے۔ رحمت عالم ﷺ نے فرمایاجب ابن آدم آیت سجدہ پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا الگ ہوجاتا ہے اور ہائے ہلاکت کہتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ کہتا ہے ہائے میری ہلاکت، ابن آدم کوسجدہ کا حکم دیا گیا وہ سجدہ ریز ہوگیا اور اس کو جنت مل گئی۔ مجھے سجدہ کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا اس لئے میرے حصے میں جہنم ہے۔ (الترغیب والترہیب)

چودہ سجدے !

(۱)سورۂ اعراف (۲)سورۂ رعد(۳)سورۂ نحل(۴)سورۂ بنی اسرائیل(۵)سورۂ مریم (۶)سورۂ حج (۷)سورۂ فرقان (۸)سورۂ الٓم تنزیل (۹)سورۂ صٓ (۱۰)سورۂ نمل (۱۱)سورۂ حٓمٓ السجدہ (۱۲)سورۂ نجم(۱۳)سورۂ انشقاق (۱۴)سورۂ اقرا

آیت سجدہ پڑھتے یا سنتے ہی فورا سجدہ کرلے اگر کوئی چیز مانع ہوتو اس وقت صرف یہ آیت ’’سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ‘‘ پڑھ لے اور بعد میں جب بھی موقع ملے فوراً سجدہ کرلے۔

سجدہ کیسے کرے

یہ وہ سجدہ ہے جو آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے واجب ہو جاتا ہے اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتاہوا سجدے میں جائے اور کم سے کم تین مرتبہ ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ کہے پھر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا ہوا کھڑا ہو جائے۔

سجدہ کب کرے

سجدۂ تلاوت کے لئے تکبیرِ تحریمہ کے سوا وہ تمام شرائط ہیں جو نماز کے لئے ہیں۔ مثلاً طہارت، استقبالِ قبلہ، نیت، وقت، سترِ عورت وغیرہ۔

مسئلہ: اگر آیتِ سجدہ نماز ہی میں تلاوت کی گئی تو سجدۂ تلاوت فوراً نماز ہی میں کرنا واجب ہے۔

سجدہ کب نہ کرے

طلوعِ آفتاب یعنی سورج نکلنے کے وقت، غروبِ آفتاب یعنی سورج ڈوبنے کے وقت اور نصف النہار یعنی زوال کے وقت سجدۂ تلاوت کرنا جائز نہیں۔ اس وقت اگر کسی کی تلاوت کے دوران آیتِ سجدہ آجائے تو ان اوقات کے گزرنے کے بعد سجدہ ادا کرے۔

تلاوت کی ابتدا

تلاوت کی ابتدا ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘سے کرے۔ اور اس کے بعد ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘بھی مستحب ہے۔

تعوذ کب پڑھے؟

’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ترجمہ:اللہ کی پناہ چاہتاہوں شیطان مردود سے۔

قرآن عظیم کی تلاوت سے پہلے چو نکہ استعاذہ (اعوذباللہ الخ)کا حکم ہے جیسا کہ ارشاد ہوباری تعالیٰ ہے ’’ اِذَا قَرَاتَ الْقُرٰانَ فاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَجِیْمِ‘‘ یعنی جب تم قرآن پڑھو تو پناہ مانگو اللہ کی شیطان مردود سے۔ اسی لئے قرآن پاک کی ابتداء سے پہلے ’’اعوذباللہ‘‘ پڑھنے کا حکم ہے،اس کے پڑھ لینے سے اللہ تعالیٰ کا حفظ وامان حاصل ہوتا ہے اور شیطانی مکر وکید سے نجات مل جاتی ہے۔ جسے شیطانی وسوسے زیادہ آتے ہوں اسے چاہئے کہ اس کا کثرت سے ورد کرے۔

فضائل تعوذ

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو حضور قلب کے ساتھ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ پڑھے تو رب تعالیٰ اس کے اور شیطان کے درمیان تین سو پردے حائل کردیتا ہے۔ (تفسیر نعیمی)

اور ’’ بستان التفاسیر ‘‘ میں ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا :جو شخص روزانہ دس بار ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ پڑھ لیاکرے حق تعالیٰ اس پر ایک فرشتہ مقرر کردیتا ہے جو کہ اس کو شیطان سے بچاتا ہے۔ (بحوالہ تفسیر نعیمی)

اورحدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص پر غصہ بہت وارد تھا اور منھ سے جاگ نکل رہے تھے ،حضور ا نے فرمایا اگر یہ شخص ’’اَعُوْذُبِاللّٰہِ‘‘ پڑھ لے تو اس کی یہ حالت دور ہوجائے۔ (ایضاً)

مسائلِ تعوذ

مسئلہ: تلاوت سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ پڑھنا سنت ہے۔

مسئلہ: جب کوئی شاگرد استاذ سے قرآن عظیم یا کوئی دوسری کتاب پڑھتا ہو تو اس کے لئے’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘آہستہ پڑھنا سنت نہیں ۔ (شامی)

مسئلہ: نماز میں امام اور منفرد کے لئے ثناء سے فارغ ہوکر ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ آہستہ پڑھنا سنت ہے۔ (شامی)

مسئلہ: شیطان چونکہ اللہ ورسول اور اہل ایمان کا دشمن ہے اس لئے اس سے بیزاری کا اظہار کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔

مسئلہ: عزازیل کا نام لینا بھی قرآن نے گوارہ نہیں کیا بلکہ شیطان،رجیم ،ملعون وغیرہا القاب بد سے ذکر کیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ خدا ورسول کے دشمن کی اہانت علی الاعلان جائز ودرست اور تعلیم قرآن کے مطابق ہے۔

تلاوت کیسے ختم کریں۔۔۔۔۔۔؟

تلاوت سے فارغ ہوتے وقت ان کلمات کو ادا کرنا بہتر ہے’’صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ وَبَلَّغَنَا رَسُوْلُہٗ الکَرِیْمُ اَللّٰھُمَّ انْفَعْنَا بِہٖ وَبَارِکْ لَنَا فِیْہِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الحَیَّ القَیُّوْمَ‘‘ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول ا نے ہم تک اسے پہنچایا۔اے اللہ عزوجل!ہمیں اس سے نفع دے اور ہمارے لئے اس میں برکت دے۔ تمام حمد وثنا اللہ عزوجل کے لئے، جو سارے عالم کا رب ہے اور میں اللہ عزوجل حیّ وقیوم سے مغفرت کا سوال کرتا ہوں۔

نماز میں تلاوت

اتنی آواز سے تلاوت کرنا کہ خود سن سکے واجب ہے۔ سِرّی نمازوں یعنی ظہر و عصر میں بھی اسطرح پڑھنا واجب ہے کہ صرف خود سن سکے اور اگر اس طرح نہ پڑھے گا تو نماز صحیح نہ ہوگی اور جہری نمازوں یعنی مغرب، عشا اور فجر میں اتنی آواز میں تلاوت کرنا مستحب ہے کہ اپنے علاوہ بھی کوئی سن سکے۔ اور اگرنماز باجماعت ادا کی جا رہی ہو تو امام پر ان نمازوں میں اتنی آواز سے پڑھنا کہ پہلی صف کے چند مقتدی امام کی قرأت کو سن لیں یہ واجب ہے۔

خوش آوازی سے تلاوت

حضور تاجدار کائنات فخر موجودات انے فرمایا’’زَیِّنُوْا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ‘‘ تم اپنی (اچھی) آواز سے قرآن کو مزین کرو۔

مروی ہے کہ سرکار ﷺ ایک شب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتظار فرما رہے تھے کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تاخیر سے حاضر ہوئیں۔ حضورﷺ نے دریافت کیا کیسے تاخیر ہوئی؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺمیں قرأت سن رہی تھی، میں نے اس سے اچھی آواز نہیں سنی۔ تاجدار کائنات ﷺ اٹھ کر تشریف لے گئے اور اس شخص سے بہت دیر تک سنتے رہے پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ ابو حذیفہ کے مولیٰ سالم ہیں۔اللہ تعالیٰ کی حمد وستائش ہے کہ جس نے میری امت میں ایسے شخص کو بھی پیدا فرمایا ہے۔

اسی طرح رحمت عالم ﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بار قرأت سنی تو فرمایا کہ ان کو آلِ دائود کی کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے۔(بخاری ومسلم)

جب حضرت موسیٰ رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کے یہ تعریفی کلمات پہنچے تو انہوں نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ سرکار ﷺسن رہے ہیں تو میں اور حسین وجمیل آواز میں پڑھتا۔ (احیاء العلوم)

معمولی سمجھنے والے کو تنبیہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ قَرَاَ القُرْاٰنَ ثُمَّ رَاٰی اَنَّ اَحَدًا اُوْتِیَ اَفْضَلَ مِمَّا اُوْتِیَ فَقَدِ اسْتَصْغَرَ مَا اَعْظَمَہٗ اللّٰہُ تَعَالیٰ‘‘جس نے قرآن پڑھا پھر اس نے یہ سمجھا کہ اس کو جو ثواب ملا ہے اس سے بڑھ کر کسی کو ثواب مل سکتا ہے تو اس نے یقینا اس کو معمولی سمجھا جس کو اللہ تعالیٰ نے عظیم کیا ہے۔ (اللہ اکبر) (طبرانی)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو !تلاوتِ قرآن کا اتنا زبردست ثواب ہے کہ تلاوت کرنے والے نے اگر یہ سمجھا کہ اس کے جیسا ثواب کسی اور عبادت پر ملا تو اس نے اسے معمولی سمجھا جس کو اللہ تعالیٰ نے عظیم کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت عظیم ترین عبادت ہے۔

اور اس حدیث میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ تلاوت قرآن کے اجر وثواب کو ہر گز ہرگز کوئی معمولی نہ سمجھے اللہ تعالیٰ نے اس کا زبردست ثواب مقرر فرمایا ہے۔پرور دگار اپنے پیارے محبوب ا کے صدقہ وطفیل ہمیں تلاوتِ قرآن کے ثوابِ عظیم سے مالا مال فرمائے اور ہمیں قرآن مقدس کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم۔

قرآن کا انعام

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا’’یَجِیُٔ صَاحِبُ القُرْاٰنِ یَوْمَ القِیَامَۃِ فَیَقُوْلُ القُرْاٰنُ یَا رَبِّ حَلَّہٗ فَیُلْبَسُ تَاجَ الکَرَامَۃِ ثُمَّ یَقُوْلُ یَارَبِّ زِدْہٗ فَیُلْبَسُ حُلَّۃُالکَرَامَۃِ ثُمَّ یَقُوْلُ یَارَبِّ اِرْضَ عَنْہُ فَیُقَالُ لَہٗ اِقْرَأ وَارْقِ وَیَزْدَادُ بِکُلِّ اٰیَۃٍ حَسَنَۃٌ‘‘یعنی قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والا قیامت کے دن آئے گا قرآن کہے گا اے پروردگاراسے آراستہ فرمادے۔ چنانچہ اسے عزت وشرف کا تاج پہنایا جائیگا۔ پھر وہ کہے گا اے پروردگار اسے اور نوازدے اس کے بعد اسے عزت وشرف کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا اے رب اس سے راضی ہوجا۔ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا۔ پھرقرآنِ مقدس کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا تم قرآن پڑھتے جائو اور بلندی پر چڑھتے جائو۔ یہاں تک کہ وہ ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ بڑھتا چلا جائے گا۔ (ترمذی)

روز قیامت قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والوںکو یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ قرآن کی سفارش سے ان کو عزت وشرف کے تاج اور اعزاز کے لباس سے آراستہ کیا جائے گا۔ اور انہیں حکم دیا جائے گا کہ جنت کے بلند درجوں میں چڑھتے چلے جائیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ بلند ہوں گے۔

مومن اور منافق کی تلاوت کا فرق

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا’’مَثَلُ المُؤمِنِ الَّذِیْ یَقْرَاُ القُرْاٰنَ کَمَثَلِ الاُ تْرُجَّۃِ رِیْحُھَا طَیِّبٌ وَّطُعْمُھَا طَیِّبٌ وَّمَثَلُ المُؤمِنِ الَّذِیْ لاَیَقْرَاُ القُرْآنَ کَمَثَلِ التَّمْرَۃِ لاَرِیْحَ لَھَا وَطُعْمُھَا حُلْوٌوَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِیْ یَقْرَاُ القُرْآنَ کَمَثَلِ الرَّیْحَانَۃِ رِیْحُھَا طَیِّبٌ وَّطُعْمُھَا مُرٌّ وَّمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِیْ لاَ یَقْرَاُ القُرْآنَ کَمَثَلِ الحَنْظَلَۃِ لَیْسَ لَھَا رِیْحٌ وَّطُعْمُھَا مُرٌّ‘‘

یعنی اس مومن کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اُتْرُجَّہ ْکی طرح ہے جس کی خوشبو پاکیزہ اور مزہ عمدہ ہوتا ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا کھجور کی طرح ہے جس کی کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور مزہ شیریں ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو پاکیزہ اور مزہ تلخ ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا حنظل (اِندرائن)کی طرح ہے جس میں خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا مزہ بھی تلخ ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو ! اُتْرجَّہ ایک بہت ہی عمدہ قسم کا میوہ ہوتا ہے اس حدیث میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والے مومن کو اترجہ کی طرح بتایا گیا ہے۔ علامہ عینی رحمۃاللہ علیہ اس کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ تمام ممالک کے پھلوں میں سب سے بہتر اور عمدہ پھل ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں یہ پسندیدہ اوصاف کا جامع ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ مثلاً یہ بڑا اور خوبصورت ہوتا ہے، چھونے میں نرم اور ملائم، رنگ باعث کشش کہ دیکھنے والے خوش ہو جائیں، کھانے سے پہلے طبیعت اس کی خواہش مند ہوتی ہے۔ کھانے والے کو کھانے کی لذت سے محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ عمدہ خوشبو، معدہ کی نرمی اور ہضم کی قوت دیتا ہے بہ یک وقت یہ میوہ چارحواس دیکھنے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے کے فائدے دیتا ہے اس کے علاوہ اس کی تاثیراتی خصوصیات اور فوائد طب کی کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔(عمدۃالقاری)

اُمَّت کو بشارت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشا د فرمایا ’’اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَرَأَطٰہٰ وَیٰٓس قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰ تِ وَالاَرْضَ بِاَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا سَمِعَتِ المَلٰئِکَۃُ القُرْاٰ نَ قَالَتْ طُوْبیٰ لِاُمَّۃٍ یُّنَزَّلُ ھٰذَا عَلَیْھَا وَطُوْبیٰ لِاَجْوَافٍ تَحْمِلُ ھٰذَا وَطُوْبیٰ لِاَلْسِنَۃٍ تَتَکَلَّمُ بِھٰذَا‘‘ ترجمہ:بلاشبہ اللہ عز وجل نے آسمان وزمین کو پیدا کرنے سے ایک ہزار سال پہلے سورۂ ’’طٰہٰ و یٰسٓ‘‘ پڑھی۔ جب فرشتوں نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا اس امت کو بشارت ہو جس پر قرآن نازل ہوگا اور ان سینوں کے لئے خیر وخوبی ہو جواسے اپنے اندر محفوظ کریںگے اور ان زبانوں کے لئے خوشخبری ہو جن سے قرآنی الفاظ ادا ہوں گے۔ (احیاء العلوم)

حضرت علامہ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے قرآن پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسی نے اسے ظاہر فرمایا اور اس کی تلاوت کا ثواب بیان فرمایا۔ اس حدیث سے جہاں قرآن پاک کی عظمت ثابت ہوتی ہے وہیں امتِ محمدیہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ فرشتوں نے آسمان و زمین کی تخلیق سے ایک ہزار سال پہلے اس قرآن کی حامل امت کو مبارکباد پیش کی اور حافظِ قرآن کو بشارت دی اور جن زبانوں سے قرآنی الفاظ نکلتے ہیںانہیں بھی خوشخبری دی۔

سُبْحَانَ اللّٰہ ! کتنا احسان ہے تاجدار مدینہ ﷺ کا کہ ان کے صدقے میں قرآن ملا اور ان کے صدقے میں رحمٰن ملااور فرشتے بھی سرکارﷺ کے صدقے میں اس امت پر رشک کرتے ہیں۔

نور کا تاج

حضرت بُریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو قرآن پڑھے گا اس کی تعلیم حاصل کرے گا اور اسکے مطابق عمل کرے گا اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک نور کا تاج پہنایا جاے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی کی طرح ہوگی اور اسکے والدین کو دو ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جن کی قیمت ساری دنیا نہ ہوسکے گی تو وہ دونوں کہیں گے ہمیں کیوں پہنا یا تو کہا جائے گا تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے۔ (الترغیب والترتیب)

کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین جن کی اولاد قرآن مقدّس پڑ ھتی اور اسکے مطابق عمل کرتی ہے جس کی وجہ سے انہیں قیامت کے دن یہ عظیم الشان اعزاز ملے گا۔

چودہویں کا چاند

طبرانی نے بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایاجو اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم دے اور وہ اس میں غورو فکر کریں اللہ تعالیٰ ان کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ اور جو اپنی اولاد کو چند آیتوں کی تعلیم دیں گے اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن چودہویں کے چاند کی شکل میں اٹھائے گا اور ان کی اولاد سے کہا جائے گا پڑھو۔ چنانچہ جیسے جیسے وہ آیت پڑھے گی اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ بلند فرمائے گا اور وہ وہاں تک پہو نچیں گے جہاں تک قرآن کا حصہ ان کا ساتھ دے گا۔ (جمع الفوائد)

میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! جن کی اولاد قرآن کی تعلیم حاصل کرتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے ان کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ وہ تاج اگر دنیا میں نمودار ہوجائے تو ہماری آنکھیں اس کی تاب نہ لاسکیں۔ اور ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جو قیمت میں پوری دنیا سے بڑھ کر ہوںگے اور ان کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ اور وہ کل قیامت کے دن چودہویں کے چاند کی شکل میں اٹھا ئے جائیں گے اور ہرآیت کے ساتھ ان کے درجے بلند ہوںگے۔

۔۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

لیکن یہاں تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی اولاد اس عظیم سعادت سے محروم رہی وہ خود بھی اس بڑے اعزاز سے محروم ہوں گے۔ (اللہ کی پناہ)وہ ماں باپ غور فرمائیں جو دنیاوی مال کے حصول کے لئے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم سے ہٹا کر دوسری راہوں پر لگا دیتے ہیں۔ وہ خود بھی اس محرومی کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی اولاد کی محرومی کے ذمہ دار بھی بنتے ہیں۔

دعوتِ فکر!

بخاری شریف کی روایت میں ہے۔’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ‘‘ یعنیتم میں کا ہر شخص ذمہ دار ہے اور جن کی ذمہ داری ان کے سر ہے ان کے بارے میں ان سے سوال ہوگا۔ لہٰذا ہر شخص پر اپنی اولاد کی تعلیم واصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم اور علوم دینیہ کی طرف متوجہ کیا قیامت کے دن ان کے سروںپر نور کا تاج بھی ہوگا اور وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہو جائیں گے اور جن لوگوں نے اپنی اولاد کو غلط راہوں پر لگایا بظاہر ان کو بہت ساری دولت توحاصل ہوگئی، دنیاوی اعزاز ات بھی مل گئے لیکن ان میں اگر اسلامی تعلیمات کی روح باقی نہ رہی اور وہ بے راہ روی کے شکار ہوگئے تو اس کا خمیازہ خود اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی بھگتنا ہوگا۔

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! یہ احادیث طیبہ ہم سب کو دعوتِ فکر دے رہی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو وقتی خوشی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں یا دائمی سعادت کے راستہ پر چلاتے ہیں؟

قبر کا ساتھی

بزاز کی روایت ہے کہ قرآن کا پڑھنے والا جب انتقال کرجاتا ہے اور اس کے اہل خانہ تجہیز وتکفین میں مصروف ہوتے ہیں اس وقت قرآن حسین وجمیل شکل میں آتا ہے اور اس قرآن پڑھنے والے کے سر کے پاس اس وقت تک کھڑا رہتاہے جب تک وہ کفن میں لپیٹ نہ دیا جائے پھر جب وہ کفن میں لپیٹ دیا جاتا ہے تو قرآن کفن کے قریب اس کے سینے پر ہوتا ہے پھر جب اس کو قبر کے اندر رکھ دیا جاتا ہے اور مٹی ڈال دی جاتی ہے اور اس سے اس کے خویش واقارب رخصت ہوجاتے ہیں۔تو اس کے پاس منکر نکیر آتے ہیں اور اس کو قبر میں بٹھاتے ہیں اتنے میں قرآن آتا ہے اور اس میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ وہ دونوں فرشتے قرآن سے کہتے ہیںہٹو تا کہ ہم اس سے سوال کریں۔ تو قرآن کہتا ہے کہ رب کعبہ کی قسم یہ نہیں ہوسکتا۔ بلا شبہ یہ میرا ساتھی اور دوست ہے اور اس کی حمایت وحفاظت سے کسی حال میں باز نہیں آسکتا (اس کی پوری حمایت کرتا رہوں گا)اگر تمہیں کسی اور چیز کا حکم دیا گیا ہے تو تم اس حکم کی تعمیل کے لئے جائو اور میری جگہ چھوڑ دو کیونکہ میں جب تک اسے جنت میں داخل نہ کرلوں گا اس سے رخصت نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد قرآن اپنے ساتھی کی طرف دیکھے گا، اور کہے گا کہ میں قرآن ہو ں جسے تم آواز یا بلا آواز پڑھتے تھے۔ (مسند بزاز)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! قرآن کی جس نے کماحقہٗ قدر کی، اس سے شغف رکھا، اسکا مطالعہ کیا، اس کی تلاوت کی اور اخلاص کے ساتھ عمل کیا تو انشاء اللہ قرآن یقینا اس کاحمایتی اور سفارشی ہوگا۔ لیکن اگر قرآن پڑھنے والے میں یہ باتیں نہ رہیں تو قرآن ان کے خلاف جنگ کرے گا۔ اللہ اکبر! جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ ’’اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ‘‘قرآن تیرے موافق یا تیرے خلاف حجت ثابت ہوگا۔ (مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ)

یعنی جس نے قرآن کے حقوق ادا نہ کئے قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے خلاف جنگ کرے گا۔ العیاذ باللہ!

شفاعت قبول ہوگی

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا ’’الصِّیَامُ وَالقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَقُوْلُ الصِّیَامُ رَبِّ اِنِّی مَنَعْتُہٗ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ بِالنَّھَارِ فََشَفِّعْنِی فِیْہِ وَیَقُوْلُ القُرْآنُ رَبِّ مَنَعْتُہٗ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِی فِیْہِ فَیَشْفَعَانِ‘‘یعنی روزہ اور قرآن بندے کے لئے شفاعت کریں گے روزہ کہے گا اے میرے رب، میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روک رکھا تھا اس لئے اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اور قرآن کہے گا اے میرے پروردگار، میں نے اس کو رات میں نیند سے روک رکھا تھا اس لئے اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (الترغیب والترہیب)

میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! قیامت کا دن کتنا ہولناک ہوگا۔ اس کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص نفسی نفسی پکار رہا ہوگا۔ ایسے نازک وقت میں دوقسم کے لوگوں کے لئے دوعبادتوں کی شفاعت قبول ہو گی (۱)روزہ کی شفاعت روزہ دار کے لئے (۲)قرآنِ پاک کی شفاعت تلاوت کرنے والے کے لئے۔

رات کی تنہائی

دربار الٰہی جس کا حال دنیاوی دربار جیسا نہ ہوگا۔ بلکہ’’المُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ‘‘ اقتدارو بادشاہی اس دن صرف اللہ ہی کی ہوگی، کوئی بغیر اجازت دم مارنے والا نہ ہوگا۔ ایسے دربار میں روزہ دار کے لئے روزہ عرض کرے گا۔ اے رب میں نے اس کے لئے دن میں کھانے پینے وغیرہ پر پابندی لگا رکھی تھی اور وہ خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا پابند رہا اس لئے اسے بخش دے اور جنت میں ٹھکانہ مرحمت فرما دے۔اسی طرح قرآن، تلاوت کرنے والے کے لئے بارگاہ الٰہی میں عرض کرے گا اے میرے رب، میں نے رات کی میٹھی نیند سے اسے بیدار رکھا،یہ راتوں کو جاگ کر میری تلاوت میں مشغول رہتا تھا، اس لئے اس سے درگزر فرما اور جنت الفردوس میں اس کا ٹھکانہ بنا۔ تاجدار کائنات ا فرماتے ہیں دونوں کی شفاعت قبول ہوگی اور وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ اس حدیثِ مبارکہ میں دو عظیم عبادتوں کا تذکرہ فرمایا گیا، خصوصا رات کی تنہائی میں تلاوتِ قرآن سے بندہ کے جنت کا مستحق ہونے کا مژدۂ جانفزا سنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں عبادتوں کی پابندی کر کے شفاعت کے مستحق ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم۔

قرآن دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عثمان بن عبد اللہ بن اَوس ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ سرکارِ کون و مکاں ﷺ نے ارشاد فرمایا’’قِرَائَۃُ الرَّجُلِ القُرْآنَ فِی غَیْرِ المُصْحَفِ اَلْفُ دَرَجَۃٍ وَّقِرَائَتُہٗ فِی المُصْحَفِ تَضْعُفُ عَلٰی ذٰلِکَ اِلیٰ اَلْفَیْ دَرَجَۃٍ‘‘یعنی کسی شخص کا قرآن بغیر دیکھے پڑھنا ایک ہزار درجہ رکھتا ہے اور اس کا قرآن دیکھ کر پڑھنا اس سے بڑھ کر دوہزار تک پہونچ جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ)

قرآن دیکھ کر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہے۔ علامہ طیبی علیہ رحمۃ الباری اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ قرآن کا دیکھنا، اس کا اٹھانا، اس کا چھونا،قرآن پر غور وفکر کا موقع فراہم ہونا اور اس کے معنیٰ ومفہوم کا سمجھنا ان سب کی وجہ سے اس کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے۔(مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ)

دلوں کا علاج

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا ’’اِنَّ ھٰذِہِ القُلُوْبَ تَصْدَاُ کَمَا یَصْدَأُالحَدِیْدُاِذَا اَصَابَہٗ المَائُ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا وَمَا جِلاَئُھَا قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ المَوْتِ وَتِلَاوَۃِ القُرْآنِ‘‘(مشکوٰۃ)

بیشک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے جب اسے پانی لگ جائے۔ عرض کیا گیا ان کی صفائی کس طرح ہوتی ہے۔ فرمایا موت کا کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔ قرآن حکیم میں ہے’’کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ‘‘ان کے دلوں پر ان کے کرتوتوں نے زنگ چڑھادی ہے۔ (کنز الایمان)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! جب دل خواہشات میں ڈوب جاتے ہیں اور طرح طرح کے گناہ کرنے لگتے ہیں اور وہ اللہ عزوجل کی یاد سے غافل ہوجاتے ہیں اور اپنا مقصد زندگی فراموش کرجاتے ہیں تو ان کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ ان پر تہہ بہ تہہ زنگ چڑھ جاتا ہے اور یہ زنگ پورے جسم کے فساد کا سبب بن جاتا ہے۔جیسا کہ تاجدار کائنات ا نے ایک دوسری حدیث مبارکہ میں فرمایا

’’جسم میں ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہوتا ہے تو پورا جسم درست ہوتا ہے۔ سن لو یہ ٹکڑا دل ہے‘‘ ایک اور موقع پر سرکار ﷺ نے فرمایا ’’بلا شبہ مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ توبہ واستغفار کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو اس کا دل قلعی کی طرح صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ گناہ اور زیادہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھ جاتا ہے۔ اس حد تک کہ اس کا دل اس سے ڈھک جاتا ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’’ران‘‘کہاہے۔ (ترمذی)

اسی لئے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس زنگ کا علاج اور اس کی صفائی کی دوا دریافت کی کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اگر دل زنگ آلود ہوں گے تو ان میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات اور انوار کا عکس کیسے آسکے گا۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہا ان دلوں کی صفائی کیسے ہوگی۔ سرکارا نے فرمایا موت کو خوب خوب یاد کرنے سے ہوگی۔

میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! موت ایک خاموش واعظ ہے۔ ہر قدم اور ہر موڑ پر رشد واصلاح کا درس دیتی ہے، پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی تلقین کرتی ہے غلط روی اور خواہشات نفسانی میں گرفتار ہونے سے روکتی ہے۔ دوسری مشہور حدیث مبارکہ میں حضور انے فرمایا۔ ’’اَکْثِرُوْاذِکْرَھَادِمِ اللَّذَّاتِ‘‘تم لذتوں کو ختم کردینے والی موت کو خوب یادکرو۔ (مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’اَلَّذِیْ خَلَقَ المَوْتَ وَالحَیَاتَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً‘‘(سورۂ ملک)وہ ذات جس نے موت وزندگی پیدا کی تا کہ تمہیں آزمائے کہ کون عمل میں بہتر ہے۔ (کنز الایمان)

اس کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے ’’تم میں کا کون موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے‘‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خالق کائنات نے موت وزندگی اس لئے پیدا کی کہ تم سے امتحان لے کہ تم میں سے کون لوگ موت کو زیادہ یاد کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے اچھے عمل کرتے ہیں اور برے عمل سے بچتے ہیں۔

دل کی صفائی

حضور ﷺ  نے دل کی صفائی کے لئے دوسری دوا تلاوت قرآن تجویز فرمائی۔ اس میں کیا شبہ کہ قرآن بولتا ہوا واعظ ہے۔ قرآن کا ہر لفظ صحیح راستے پر چلنے اور غلط روی سے باز رہنے کا سبق دیتا ہے۔ ہر جگہ قرآن اچھائیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتاہے۔ دوسرے موقعہ پر سرکار مدینہانے فرمایامیں نے تم میں دو(مانع) منع کرنے والی چیزوں کو چھوڑا ایک بولنے والی اور ایک خاموش رہ کر منع کرنے والی۔ بولنے والی چیز قرآن ہے اور خاموشی سے آگاہی دینے والی چیزموت ہے۔ یہی دونوں ایسے واعظ ہیں کہ ایک چپ چاپ رہ کر وعظ کہتا ہے دوسرا اپنے ہرہر لفظ سے درس ونصیحت پیش کرتا ہے اور انہیں دونوں سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے اور پھر دل صاف و شفاف ہوتا ہے یہی دونوں انسان کے دل کو صاف وشفاف نکھرا ہوا آئینہ بنا سکتے ہیں تاکہ مومن کے دل میں انوار ورتجلیات الٰہی کا عکس اتر سکے۔

سفارش قبول ہوگی

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ کا ارشاد ہے’’اَلْقُرْآنُ شَافِعٌ مُّشَفَّعٌ وَّمَاحِلٌ مُّصَدِّقٌ مَّنْ جَعَلَہٗ اِمَامَہٗ قَادَہٗ اِلَی الجَنَّۃِ وَمَنْ جَعَلَہٗ خَلْفَ ظَھْرِھٖ سَاقَہٗ اِلَی النَّارِ‘‘یعنی قرآن شفاعت کرنے والا ہے اس کی شفاعت قبول ہوگی۔ اور مخالفت بھی کرنے والا ہے اس کی مخالفت بھی قبول ہوگی۔ جو شخص اسے اپنا پیشوا بنائے گا اس کو وہ جنت میں لے جائیگا۔ اور جو اسے پس پشت ڈالے گا اس کو وہ جہنم میں پہونچا ئے گا۔ (الترغیب والترہیب)

قرآن کی کما حقہٗ جس نے قدر کی اس کے آداب ملحوظ رکھے عمل کے میدان میں اس نے اس کو اپنا راہبر بنایا اور اس کی تعلیمات واحکام پر پوری طور پر عمل پیرا ہوا ایسے شخص کی قرآن شفاعت کرے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے قرآن سے بے اعتنائی برتی اسے پس پشت ڈال دیا، اس سے کوئی تعلق نہ رکھا، نہ اس کی تلاوت سے کوئی دلچسپی رکھی، نہ اس کی تعلیمات واحکام پر عمل کیا ایسے شخص کو قرآن جہنم رسید کرے گا جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا کہ قرآن بندے کے حق میں جنگ کرے گا یا اس کے خلاف معرکہ آرا ہوگا۔

ایک حدیث مبارکہ میں فرمایاگیا ’’جسے اللہ تعالیٰ نے حفظ قرآن کی نعمت عطا فرمائی پھر اس نے یہ خیال کیاکہ کسی کو اس سے بہتر کوئی چیز ملی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی سب سے بہتر نعمت کے بارے میں غلط خیال قائم کیا‘‘ (کنز العمال)

زمین کھا نہیں سکتی

ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا کہ جب حافظ قرآن مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دیتا ہے کہ تو اس کے گوشت (پوست) نہ کھانا۔ زمین عرض کرتی ہے میرے معبود! میں اس کا گوشت کیسے کھا سکتی ہوں جبکہ اس کے سینے میں تیرا کلام موجود ہے۔(کنز العمال)

ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا گیاقرآن کے حفاظ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں جو ان سے دشمنی کرے گا وہ گویا اللہ عزوجل سے دشمنی کرے گا۔ اور جو ان سے دوستی کریگا وہ گویا اللہ تعالیٰ سے دوستی گرے گا۔ (کنز العمال)

۔۔۔۔۔۔۔۔ مشک کی طرح

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا’’تَعَلَّمُوْا القُرْآنَ فَاقْرَؤُہُ فَاِنَّ مَثَلَ القُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَ فَقَرَاَ وَقَامَ بِہٖ کَمَثَلِ جَرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْکًا تَفُوْحُ رِیْحُہٗ کُلَّ مَکَانٍ وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَہٗ فَرَقَدَ وَھُوَ فِی جَوْفِہٖ کَمَثَلِ جَرَابٍ اَوْکَیٰ عَلٰی مِسْکٍ‘‘ (مشکوۃ)

یعنی لوگو! تم قرآن کی تعلیم حاصل کرو اور اس کو پڑھو اس لئے کہ قرآن کی مثال اس شخص کے لئے جو اس کی تعلیم حاصل کرتا ہے پھر اسے پڑھتا ہے اور اس کا اہتمام کرتا ہے اس تھیلی کی سی ہے جو مشک سے بھری ہوئی ہو جس کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی ہو۔ اور اس شخص کی مثال جو اس کی تعلیم حاصل کرتا ہے پھر اس سے غافل ہوکر سوجاتا ہے اس طرح کہ قرآن اس کے سینے میں ہوتا ہے اس تھیلی کی طرح ہے جس کی مشک (تھیلی کے منہ) کو بند کردیا گیا ہو۔

جو شخص قرآن کا علم حاصل کرتا ہے پھر اس کی تلاوت کرتا ہے اور رات کی نماز تہجد وغیرہ میں اسے پڑھتا ہے ایسے قرآن کی مثال ایک ایسے مشک سے بھری ہوئی تھیلی کی سی ہے جس کی خوشبو ہر طرف ہوتی ہے۔ اور اس شخص کی مثال جو اس کی تعلیم حاصل کرتا ہے پھر غافل ہوکر رات کو سوتا ہے اور قرآن اس کے سینے میں محفوظ ہوتا ہے مشک کی اس تھیلی کی طرح ہے جس کا منہ بند کر دیا گیا۔

اچھی آواز اور قرآن

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا ’’اَللّٰہُ اَشَدُّ اُذْناً لِلرَّجُلِ الحَسَنِ الصَّوْتِ بِالقُرْآنِ مِنْ صَاحِبِ القِیْنَۃِ اِلیٰ قِیْنَتِہٖ‘‘ (ابن ماجہ)

یعنی یقینا اللہ تعالیٰ اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والے سے جس توجہ والتفات سے سنتا ہے۔ گانے والی لونڈی سے اس کا مالک کیا اس توجہ سے (غناء) سنتا ہوگا۔

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! لونڈی کا مالک لونڈی سے جائز قسم کا غناء سن سکتا ہے چونکہ غناء کی آواز کی طرف میلان فطری ہوتا ہے۔ اس لئے لونڈی کا آقا پوری یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف متؤجہ ہوکرغناء سنتا ہے اس حدیث مبارک میں فرمایا گیا کہ لونڈی کا مالک جس طرح پوری تؤجہ کے ساتھ لونڈی کا غنا ء سنتا ہے اس سے کہیں زیادہ تؤجہ سے خوش آوازی کے ساتھ قرآن پڑھنے والے کی طرف اللہ تعالیٰ متوجہ ہوکر سنتا ہے۔

یہی اچھی آواز ہے

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’اِنَّ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالقُرْآنِ الَّذِیْ اِذَا سَمِعْتُمُوْہٗ یَقْرَأُحَسِبْتُمُوْہٗ یَخْشَی اللّٰہَ‘‘یعنی بلا شبہ لوگوں میں سب سے اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والا وہ شخص ہے جس سے تم جب پڑھتے سنو تو تم یہ خیال کرو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر رہاہے۔ (التر غیب والترہیب)

قاری کی قرأت سے اللہ تعالیٰ کاخوف اور اس کی خشیت ظاہر ہو یہی خوش آوازی کا صحیح معیار ہے۔ حضرت ابن طائوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اسے پوچھا گیا سب سے اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والاکون ہے؟۔حضور ﷺ نے فرمایا’’اَلَّذِیْ اِذَا سَمِعْتُمُوْہُ رَاَیْتُمُوْہٗ خَشِیَ اللّٰہَ‘‘ وہ شخص کہ جب اس سے (قرآن ) سنو تو خیال ہوکہ وہ اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے۔

امام غزالی علیہ الرحمہ نے احیاء العلوم میں یہ حدیث روایت کی ہے’’لاَیُسْمِعُ القُرْآنَ اَحَدٌ اَشْھیٰ مِمَّنْ یَّخْشَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ‘‘یعنی کسی سے بھی اتنا عمدہ قرآن نہیں سنا جاسکتا جتنا اس شخص سے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔ (عمدۃ القاری)

دارمی کی روایت ہے حضرت طائوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے سوال کیا گیا سب سے اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والا کون؟ اور قرأت (ترتیل وتجوید) میں سب سے اچھا کون ہے؟تاجدار کائنات انے فرمایا ’’مَنْ اِذَا سَمِعْتَہٗ یَقْرَأُ رَأَیْتَ اَنَّہٗ یَخْشَی اللّٰہَ‘‘ وہ شخص ہے کہ جب تم اس کو قرآن پڑھتے سنو تو تمہارا خیال ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر رہاہے۔

………… غم کا اثر

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے ’’اِنَّ ھٰذَا القُرْآنَ نُزِّلَ بِحُزْنٍ فَاِذَا قَرَأْتُمُوْہُ فَابْکُوْا فَاِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکُوْا وَتَغَنَّوْہُ فَمَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘یعنی یقینا یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا۔ اس لئے جب تم قرآن پڑھو تو رویا کرو اگر تم نہ روسکو تو رونے کی کوشش ہی کرو۔ اور تم اسے خوش آوازی سے پڑھو کیونکہ جو قرآن خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابن ماجہ)

قرآن اس طرح پڑھنا چایئے کہ آواز سے سوز ودرد اور حزن وغم ظاہر ہو اور دوران تلاوت رونا بھی چاہئے۔ اگر تلاوت کرنے والے میں اتنی رقت پیدا نہ ہو کہ وہ روسکے تو رونے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آبدیدہ ہونا چاہئے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا ’’قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَھُوْ عَلَی المِنْبَرِ اِقْرَأ عَلَیَّ القُرْآنَ قُلْتُ أَ اَقْرَأُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ اُنْزِلَ قَالَ اِنِّی اُحِبُّ اَنْ اَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِیْ فَقَرَأْتُ سُوْرَۃً النِّسَائِ حَتیٰ اَتَیْتُ اِلیٰ ھٰذِہِ الآیَۃِ ’’فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلاَئِ شَھِیْداً‘‘قَالَ حَسْبُکَ الاٰنَ فَالْتَفَتُّ اِلَیْہِ فَاِذَا عَیْنَاہٗ تَذْرُفَانِ‘‘یعنی مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا جب آپ منبر پر تشریف فرماتھے مجھے قرآن سنائو !میں نے عرض کیا، کیا میں آپ کو قرآن سنائوں جب کہ قرآن آپ ہی پر نازل ہوا ہے۔ حضور انے فرمایا کسی اور ہی سے سننا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے سورئہ نساء پڑھنی شروع کی جب میں اس آیت تک پہونچا’’تو کیا حال ہوگا جب ہم ہر قوم سے ایک گواہ لائیں گے اور ہم آپ کواے نبی (ﷺ)ان لوگوں پر گواہ بنائیںگے‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا بس اتنا ہی کافی ہے میں نے حضورﷺ کی طرف نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں۔ (بخاری شریف)

میر ے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! جب حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآن پڑھنے کا حکم دیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی کہ حضور ﷺ پر قرآن اترا ہے۔ حضور اہی پڑھنے کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ حکمت حکیم کی زبان پرجاری ہوتو زیادہ شریں ہوتی ہے اور حبیب کا کلام حبیب کی زبان پر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن واحادیث پڑھانے کے سلسلہ میں اسلاف کرام کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن وحدیث خود پڑھتے اور شاگردوں سے سنتے اور وہ ان کو تیزی کے ساتھ محفوظ کرتے۔

لیکن سرکارﷺ اس وقت سننے کے خواہش میں تھے۔ اس لئے فرمایا کہ میں کسی اور ہی سے سننا چاہتا ہوں۔اس کی وجہیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ جِن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن سننا بھی سنت رسول اہوجائے۔ گویا قرآن پڑھنا بھی عبادت اور سننا بھی عبادت بن جائے۔اس لئے بعض کا کہنا ہے کہ سننا پڑھنے سے افضل ہے۔ حضرت علامہ مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوگا جب سننا تعلیم دینے کے لئے کامل ترین انداز میں ہو۔اسی سے متاخرین نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ قرآن وحدیث شاگردوں سے سنتے ہیں۔ (مرقاۃ)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ تعمیلِ حکم کے لئے میں نے سورئہ نساء پڑھنی شروع کی جب آیت کریمہ ’’فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلاَئِ شَھِیْداً‘‘میں نے پڑھی اس وقت کا عالم کیا ہوگا۔ جب ہم ہر قوم سے ایک گواہ اس قوم کے نبی کو لائیں گے۔ اور انبیاء کے لئے آپ کو گواہ بنائیں گے۔ پچھلے انبیاء کرام اپنی قوموں کے کفر وطغیان باطل عقائد اور بد اعمالی کے خلاف جب اللہ تعالیٰ کے حضور گواہی دیں گے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان انبیاء کی گواہی پر مہر تصدیق ثبت کریں گے۔

آیت کریمہ کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ روز قیمت ہر نبی اپنی اپنی قوم کے حق میں یا ان کے خلاف گواہ ہوں گے۔ جب امت محمدیہ پچھلی قوموں کے خلاف گواہی دے گی اس وقت حضور ااپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے۔ اور ان کی گواہی کی توثیق کریں گے۔ (اشعۃ اللمعات)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب میں آیت کریمہ تک پہونچا سرکارﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ اور فرمایابس کرو،اتناہی کافی ہے۔ اس لئے کہ میں اس آیت پر غور وفکر کررہا ہوں، آنکھیں بے قابوہوتی جارہی ہیں،قرآن سننے کا میرا حال نہیں رہ گیا۔ جب حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورﷺ کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو تاجدار کائناتﷺ آبدیدہ تھے۔ اللہ اکبر!

میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! ہمیں بھی آرائے سنت کی نیت سے رونا چاہئے اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والوں جیسی آواز کر لینی چاہئے کہ اس پر اللہ رب العزت اجر عطا فرمائے گا۔

ویران گھر

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا ’’اِنَّ الَّذِیْ لَیْسَ فِی جَوْفِہٖ شَیْئٌ مِّنَ القُرْآنِ کَالْبَیْتِ الخَرِبِ‘‘ بلا شبہ وہ شخص جس کے سینے میںقرآن کا کوئی حصہ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے۔ (ترمذی)

جو دل قرآن سے خالی ہے وہ ایک ویرانہ ہے۔ حضرت علامہ ملا علی قاری اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیںکہ دلوں کی آبادی ایمان اور تلاوت قرآن سے ہوتی ہے اور باطن کی زینت حق اور صحیح عقائد اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور وفکر کرنے سے ہوتی ہے اور جب یہ باتیں نہ ہوں گی تو دل ویرانے میں ہوں گے۔ (مرقاۃ)

جن گھروں میں انسان آباد نہیں رہتے وہ گھر جنوں اور شیطانوں کا بسیرا بن جاتے ہیں گویاحدیث شریف میں یہ لطیف اشارہ بھی ہے کہ جن دلوں میں قرآن نہیں ان پر شیطانوں کا دَور، دَورہ ہوجاتا ہے۔ جس سینے میں قرآن ہوتا ہے وہ آباد وآراستہ ہوتا ہے۔ اور جب دل قرآن سے خالی ہوتا ہے تو وہ ویران گھر کی طرح ہوجاتا ہے۔

بَلائیں دور ہوں گی

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو گھر قرآن سے خالی ہے وہ سب سے خالی گھر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ ’’اِنَّ اَصْفَرَ البُیُوْتِ بَیْتٌ لَیْسَ فِیْہِ شَیئٌ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ‘‘یقینا گھروں میں سب سے خالی گھر وہ ہے جس میں اللہ عزوجل کی کتاب کا کوئی حصہ نہیں۔

جس گھر میں قرآن نہیں اور نہ ہی اس میں کسی اور طرح قرآن کی تلاوت ہوتی ہے وہ دنیا کے گھروں میں سب سے خالی گھر ہے امام غزالی علیہ الرحمہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں بلا شبہ وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے وہ اہل خانہ کے ساتھ وسیع ہوجاتا ہے اس کی خیر وبرکت بڑھ جاتی ہے، اس میں فرشتے آتے اور شیطان نکل بھاگتے ہیں۔ اور وہ گھر جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہیں ہوتی وہ اہل خانہ کے ساتھ تنگ ہوجاتا ہے، اس کی خیروبرکت کم ہوجاتی ہے اور اس سے فرشتے چلے جاتے ہیں اور اس میں شیطان آجاتے ہیں۔ (احیاء العلوم)

قرآن سے غفلت کا نتیجہ

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار مدینہﷺ نے فرمایا ’’تَعَاھَدُوْا القُرْآنَ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَھُوَ اَشَدَّ تَفَصِّیًا مِّنَ الِابِلِ فِی عِقْلِھَا‘‘ ترجمہ۔ تم قرآن سے تعلق رکھو اس کو مستقل پڑھتے رہو۔اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے یقینا قرآن پیروں میں بندھن لگے ہوئے اونٹوں سے نکل بھاگنے میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ (مسلم شریف)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! قرآن ذہنوںسے بہت تیز نکل جاتا ہے۔اسی مفہوم کو ایک مؤثر مثال کے ذریعہ سمجھا یا گیا ہے کہ جن اونٹوں کے پائوں رسی سے بندھے ہو ں انہیں اگر تھوڑی مہلت مل جائے تو کتنی تیزی سے کسی طرف نکل بھاگتے ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی ذہنوں سے بہت تیزی سے نکلتا ہے۔ اس لئے تم اس سے برابر تعلق رکھو،اس کو مسلسل اور مستقل پڑھتے رہو،اس سے ہمیشہ وابستگی اور ربط باقی رکھو ورنہ جہاں تعلق ٹوٹا وہ ذہن سے نکلا۔ حافظ قرآن اس حدیث کو آسانی سے سمجھتے ہیں اس کا توہم آپ بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ لہٰذا بلا ناغہ تلاوتِ قرآن کی پابندی کرتے رہنا چاہئے تاکہ قرآنِ پاک ہمیشہ کے لئے دلوں میں محفوظ رہے۔

فضائل سورۂ فاتحہ

حضرت ابو سعید بن معلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا اور نبیٔ کریم ﷺ نے مجھے بلایا میں نے جواب نہیں دیا (جب نماز سے فارغ ہوا)حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ارشاد فرمایاکہ کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے:اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلْرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ‘‘ اللہ ورسول کے پاس حاضر ہوجائو جب وہ تمہیں بلائیں۔ پھر فرمایا مسجد سے باہر جانے سے پہلے قرآن میں جو سب سے بڑی سورت ہے وہ بتادوں گا اور حضور نے میرا ہاتھ پکڑلیا ۔جب نکنے کا ارادہ ہوا میں نے عرض کی حضور نے یہ فرمایا تھا کہ مسجد سے باہر جانے سے پہلے قرآن کی سب سے بڑی سورت کی تعلیم کروں گا فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لَلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے ملا ہے۔

اورترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نماز میں تم کس طرح پڑھتے ہو انہوں نے اُم القرآن یعنی سورئہ فاتحہ کو پڑھا ۔حضور نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے نہ اس کے مثل توریت میں کوئی سورت اتاری گئی ،نہ انجیل میں،نہ زبور میں ،نہ قرآن میں،وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے ملا ۔

سورئہ فاتحہ ہر بیماری سے شفا ہے ۔ (دارمی بہیقی)

صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی کہتے ہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اوپر سے ایک آواز آئی انہوں نے سر اٹھایا اور یہ کہا کہ آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا ایک فرشتہ اترا جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا تھا اس نے سلام کیا اور یہ کہا کہ حضور کو بشارت ہو کہ دونور حضور کو دیئے گئے اور حضور سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے وہ دونور یہ ہیں سورئہ فاتحہ اور سورئہ بقرہ کا خاتمہ جو حروف آپ پڑھیں گے وہ دیا جائے گا۔

فضائل سورۂ بقرہ

صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے گھروں کو مقابر نہ بنائو ،شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورئہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے سناکہ قرآن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے اصحاب کے لئے شفیع ہو کر آئے گا دوچمکدار سورتیں سورئہ بقرہ اور آل عمران کو پڑھو ،کہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی گویا دوابر ہیں یا دو سائبان ہیں یا صف بستہ پرندوں کی دو جماعتیں وہ دونوں اپنے اصحاب کی طرف سے جھگڑا کریں گی یعنی ان کی شفاعت کریںگی سورئہ بقرہ کو پڑھو کہ اس کا لینا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے اور اہل باطل اس کی استطاعت نہیں رکھتے ۔

فضائل آیت الکرسی

صحیح مسلم میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو المنذر (یہ حضرت ابی بن کعب کی کنیت ہے) تمہارے پاس قرآن کی سب سے بڑی آیت کونسی ہے میں نے کہا :اللہ عزوجل ورسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا اے ابو المنذر تمہیں معلوم ہے کہ قرآن کی کونسی آیت تمہارے پاس سب سے بڑی ہے میں نے عرض کی اَللّٰہُ لاَاِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ(یعنی آیت الکرسی)حضور انے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایاابو المنذر تم کو علم مبارک ہو۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ رمضان یعنی صدقۂ فطر کی حفاظت مجھے سپرد فرمائی تھی ۔ایک آنے والا آیا اور غلہ بھرنے لگا ۔میں نے اسے پکڑ لیا اور یہ کہا کہ تجھے حضور کی خدمت میں پیش کروں گا ۔کہنے لگا میں محتاج عیالدار ہوں ،سخت حاجت مند ہوں۔ میں نے اسے چھوڑدیا۔ جب صبح ہوئی حضور ﷺ نے فرمایا ابو ہریرہ تمہارا رات کا قیدی کیا ہوا ؟۔میں نے عرض کی یارسول اللہ !اس نے شدید حاجت اور عیال کی شکایت کی مجھے رحم آگیا ،چھوڑدیا ۔ارشاد فرمایا وہ تم سے جھوٹ بولا اور وہ پھر آئے گا۔میں نے سمجھ لیا کہ وہ پھر آئے گا کیوں کہ حضور نے فرمادیا ہے۔میں اس کے انتظار میں تھا وہ آیا اور غلہ بھرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور یہ کہا میں تجھے رسول اللہﷺ کے پاس پیش کروںگا اس نے کہا مجھے چھوڑدو میں محتاج عیال دار ہوں اب نہیں آئوں گا ۔مجھے رحم آگیا اسے چھوڑ دیا ۔صبح ہوئی تو حضور نے فرمایا:ابو ہریرہ تمہارا قیدی کیا ہوا ۔میں نے عرض کی اس نے حاجت شدیدہ اور عیال داری کی شکایت کی مجھے رحم آیا اسے چھوڑدیا۔حضور نے فرمایا وہ تم سے جھوٹ بولا وہ پھر آئے گا۔میں اس کے انتظار میں تھا وہ آیا اور غلہ بھرنے لگا میں نے پکڑا اور کہا تجھے حضور ﷺ کے پاس پیش کروںگا تین مرتبہ ہوچکا ہے تو کہتا ہے نہیں آئے گا پھر آتا ہے اس نے کہا مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایسے کلمات سکھاتا ہوں جس سے اللہ تم کو نفع دے گا جب تم بچھونے پر جائوآیۃ الکرسی ’’اَللّٰہُ لاَاِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ آخر آیت تک پڑھ لو صبح تک اللہ کی طرف سے تم پر نگہبان ہوگا اور شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا ۔میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی حضور ﷺ نے فرمایاتمہارا قیدی کیا ہوا میں نے عرض کی اس نے کہا چند کلمات تم کو سکھاتا ہو ں اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے نفع دے گا ،حضور ﷺ نے فرمایا یہ بات اس نے سچ کہی اور وہ بڑا جھوٹا ہے۔اور تمہیں معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا مخاطب کون ہے میں نے عرض کی نہیں ۔حضور نے فرمایا کہ وہ شیطان ہے۔

سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں

صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورئہ بقرہ کی آخری دو آیتیں جو شخص رات میں پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔ سورئہ بقرہ کی آخری دوآیتیں اللہ تعالیٰ کے اس خزانہ میں سے ہیں جو عرش کے نیچے ہے اللہ نے مجھے یہ دو آیتیں دیں انہیں سیکھو اور اپنی عورتوں کو سکھائو کہ وہ رحمت ہے اور اللہ سے نزدیکی اور دعا ہیں۔ (دارمی)

سورۂ کہف کی فضیلت

صحیح مسلم میں حضرت ابو دائود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورئہ کہف کی پہلی دس آیتیں جو شخص یاد کرے وہ دجال سے محفوظ رہے گا۔جو شخص سورئہ کہف جمعہ کے دن پڑھے گا اس کے لئے دو جمعہ کے مابین نور روشن ہوگا ۔

سورۂ یٰٓسٓ کی فضیلت

ہر چیز کے لئے دل ہے اور قرآن کا دل یٰسٓ ہے جس نے یٰسٓ پڑھی دس مرتبہ قرآن پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لئے لکھے گا۔ (ترمذی ودارمی)

اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کرنے سے ہزار برس پہلے طٰہٰ و یٰسٓپڑھا جب فرشتوں نے سنا یہ کہا :مبارک ہو اس امت کے لئے جس پر یہ اتارا جائے اور مبارک ہو ان جوفوں کے لئے جو اس کے حامل ہو ںاور مبارک ہو ان زبانوں کے لئے جو اس کو پڑھیں۔ (دارمی)

جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ’’یٰسٓ‘‘ پڑھے گا اس کے اگلے گناہوں کی مغفرت ہوجائے گی لہٰذا اس کو اپنے مردوں کے پاس پڑھو ۔ (بیہقی)

سورۂ حٰمٓ اور سورۂ المومن

جو شخص سورۂ’’ حٰم‘‘ اور سورۂ ’’المومن‘‘ کو ’’اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ‘‘ تک اور آیۃ الکرسی صبح کو پڑھ لے گا شام تک محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے گا صبح تک محفوظ رہے گا ۔

سورۂ دخان کی فضیلت

جو شخص ’’حٰم الدخان‘‘شب جمعہ میں پڑھے گا اس کی مغفرت ہوجائے گی۔ (ترمذی)

سورۂ اخلاص کے فضائل

جو ایک دن میں دوسو مرتبہ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھے گا اس کے پچاس برس کے گناہ مٹادئے جائیں گے مگر یہ کہ اس پر دَین ہو۔ (ترمذی ودرامی)

جو شخص سوتے وقت بچھونے پر داہنی کروٹ لیٹ کر سو مرتبہ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھے قیامت کے دن رب تعالیٰ اس سے فرمائے گا اے میرے بندے! اپنی داہنی جانب جنت میں چلا جا۔ (ترمذی)

نبیٔ کریم ﷺ نے ایک شخص کو’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھتے سنا فرمایا کہ جنت واجب ہوگئی۔ (امام مالک ،ترمذی)