أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوا لِرَبِّهِمۡ وَاَقَامُوۡا الصَّلٰوةَۖ وَاَمۡرُهُمۡ شُوۡرٰى بَيۡنَهُمۡۖ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

اور وہ لوگ جو اپنے رب کے حکم کو قبول کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور وہ لوگ جو اپنے رب کے حکم کو قبول کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف جب کوئی بغاوت کرے تو وہ صرف بدلہ لیتے ہیں اور بُرائی کا بدلہ اسی کی مثل بُرائی ہے، پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا (الشوریٰ :38-40)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب مطلق ہیں

مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایمان لانے کی دعوت دی تو انہوں نے اس دعوت کو صمیم قلب کے ساتھ قبول کرلیا، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس آیت میں تو یہ فرمایا ہے کہ ” وہ اپنے رب کے حکم کو قبول کرتے ہیں “ اور اس کا شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو قبول کیا، اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت ہے، قرآن مجید میں ہے :

من یطع الرسول فقد اطاء اللہ۔ (النساء :80)

جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔

نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے نائب مطلق ہیں، آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا اللہ سے بیعت کرنا ہے، آپ کا خریدنا اللہ کا خریدنا ہے، آپ کو دھوکا دینا اللہ کو دھوکا دینا ہے اور آپ کو ایذاء پہنچانا اللہ کو ایذاء پہنچانا ہے، اسی طرح آپ کے حکم سے ایمان لانا، اللہ کے حکم سے ایمان لانا ہے۔

نماز نہ پڑھنے پر وعید

نیز اس آیت میں فرمایا ہے :” اور نماز قائم کرتے ہیں “ اس سے مراد پانچ نمازیں اور جو شخص بھی دن اور رات میں پانچ نمازوں کے اوقات کو پائے گا اس پر ان پانچ نمازوں کا پڑھنا فرض ہے، نمازوں کی فرضیت کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس چیز کا بندے سے سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے، اگر اس کی نماز صحیح ہو تو وہ کامیاب اور کامران ہوجائے گا اور اگر اس کی نماز فاسد ہو تو وہ ناکام اور نامراد ہوگا اور اگر اس کے فرض میں کوئی کمی ہو تو رب تبارک وتعالیٰ فرمائے گا : دیکھو میرے بندہ کا کوئی نفل ہے تو اس کے فرض میں جو کمی ہوگی اس کو نفل سے مکمل کیا جائے گا، پھر باقی عمل بھی اسی طرح ہوں گے۔

(سنن الترمذی الحدیث : ٤١٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٦٣۔ ٤٦٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٢٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٨٦٤، مسند احمد ج ٢ ص ٢٩٠، مسند احمد ج ٢ ص ٤٢٥، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٤ ص ١٤٦، المستدرک ج ٢ ص ٢٦٢ )

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندے اور اس کے شرک اور کفر کے درمیان فرق نماز کو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٧٨، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ١٥٧١)

مکحول حضرت ام ایمن (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمداً نماز کو ترک نہ کرو، کیونکہ جس نے عمداً نماز کو ترک کیا اس سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ بری ہوگیا۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٤٢١ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤٥ ص ٣٥٧ رقم الحدیث : ٢٧٣٦٤، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ، سنن بیہقی ج ٧ ص ٣٠٤، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٣٤، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ مکحول اور ام ایمن کے درمیان انقطاع ہے)

حضرت معاذ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دس باتوں کی وصیت کی ہے، آپ نے فرمایا :

اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، خواہ تم کو قتل کیا جائے یا آگ میں جلایا جائے۔

(٢) اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو خواہ وہ تم کو یہ حکم دیں کہ تم اپنے اہل اور مال سے نکل جائو

(٣) اور فرض نماز کو عمداً ترک نہ کرو، کیونکہ جس نے فرض نماز کو عمداً ترک کیا اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا

(٤) اور شراب ہرگز نہ پیو کیونکہ شراب نوشی ہر بیماری کی اصل ہے

(٥) اور معصیت سے بچو کیونکہ معصیت سے اللہ عزوجل کی ناراضگی حلال ہوجاتی ہے

(٦) اور میدان جہاد سے پیٹھ موڑ کر نہ بھاگو خواہ لوگ ہلاک ہوجائیں

(٧) اور جب لوگوں پر طاعون آئے اور تم ان میں ہو تو ثابت قدم رہو

(٨) اور اپنی اولاد پر اپنی کمائی سے خرچ کرو

(٩) اور ان کو ادب سکھانے کے لیے لاٹھی سے نہ مارو

(١٠) اور ان کو اللہ کی نافرمانی کرنے سے ڈرائو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٣٨ طبع قدیم، مسنداحمد ج ٣٦ ص ٣٩٣۔ ٣٩٢، رقم الحدیث : ٢٢٠٧٥، المعجم الکبیر ج ٢٠، رقم الحدیث : ١٥٦، مسند الشامیین رقم الحدیث : ٢٢٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٧١، صحیح ابن حبان رقمالحدیث : ٥٢٤، المستدرک ج ١ ص ٥٤، ج ٤ ص ٢٤٤، شعب الایمان رقم الحدیث : ٨٠٢٧، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اور حضرت معاذ کے درمیان انقطاع ہے)

شوریٰ کا معنی

نیز الشوریٰ : ٣٨ میں فرمایا ہے : ” اور ان کے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں، اس آیت میں ” شوری “ کا لفظ ہے، علامہ راغب اصفہانی الشوریٰ کے معنی میں لکھتے ہیں :

تشاور، مشاورت اور مشوریٰ کا معنی ہے : کوئی شخص کسی معاملہ میں دوسرے کی طرف رجوع کرے تو وہ اس معاملہ میں غور کرکے اپنی رائے بیان کرے اور جس معاملہ میں غور کیا جائے اس کو شوریٰ کہتے ہیں۔ (المفردات ج ١ ص ٣٥٦، مکتبہ نزار مصطفی، بیروت، ١٤١٨ ھ)

مشورہ کرنے کے متعلق احادیث

مشورہ کرنے کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

استشار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الاساری یوم بدر۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢٤٣ )

جنگ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں کے متعلق مشورہ طلب کیا۔

قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذا استشار احدکم اخاہ فلیشر علیہ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٤٧ )

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے مشورہ طلب کرے تو وہ اس کو مشورہ دے۔

قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المنشار مرتمن۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس سے کسی بات کا مشورہ طلب کیا گیا ہو تو وہ اس بات کا امین ہے۔

(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥١٢٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٣٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٤٥، مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٤)

سعد بن ابی طلحہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے جمعہ کے دن خطبہ دیا اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کا ذکر کیا اور کہا : میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک مرغ نے مجھ پر تین مرتبہ ٹھونگیں ماریں اور میں نے اس کی صرف یہ تعبیر لی ہے کہ میری اجل قریب آگئی ہے اور بیشک کچھ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا جانشین مقرر کروں اور بیشک اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضائع کرنے والا نہیں ہے اور نہ اپنی خلافت کو اور نہ اس شریعت کو جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھیجا ہے، اگر میری اجل جلد آگئی تو خلافت ان چھ اصحاب کے مشورہ سے منعقد ہوگی جن سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی وفات کے وقت راضی تھے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٧، مسند احمد ج ١ ص ٤٨۔ ٤٧ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین لوگ ہوں اور خوش حال لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے چل رہے ہوں تو تمہارے لیے زمین کے اوپر کا حصہ اس کے نچلے حصہ سے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام تم میں سے بدترین لوگ ہوں اور تمہارے خوش حال لوگ بخیل ہوں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کی طرف مفوض ہوں تو زمین کے نیچے کا حصہ تمہارے لیے زمین کے اوپر کے حصہ سے بہتر ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٦٦ )

الشوریٰ : ٣٨ کا شان نزول

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں چار قول ہیں :

١) نقاش نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ میں آمد سے پہلے انصار جب کوئی کام کرتے تھے تو باہم مشورہ کرتے تھے، پھر مشورہ کے بعد اس کام کو کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کام کی تحسین فرمائی۔

(٢) جو چیز مشورہ سے طے ہوجائے وہ اتفاق سے اس پر عمل کرتے تھے اور اس سے اختلاف نہیں کرتے تھے، حسن بصری نے کہا : جو لوگ کسی کام میں مشورہ کرتے ہیں وہ اس کام میں ہدایت پر پہنچ جاتے ہیں۔

(٣) الضحاک نے کہا : جب انصار کو یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظہور ہوگیا ہے اور نقباء ان کے پاس آگئے ہیں، حتیٰ کہ وہ اس پر متفق ہوگئے کہ وہ حضرت ابوایوب انصارف (رض) کے مکان میں جمع ہو کر آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی نصرت کریں گے۔

(٤) ان کو جو مہم درپیش ہوتی تھی وہ اس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور نیک کام میں کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٠٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کا باہمی مشاورت سے اہم کاموں کو انجام دینا

اللہ تعالیٰ نے انصار کی اس بات پر مدح فرمائی کہ وہ باہمی مشورہ سے کام کرتے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دینی اور دنیاوی امور میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے، دینی امور کی مثال یہ ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کے بعد اذان کا طریقہ مقرر فرمایا اور دنیاوی امور کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جنگ بدر میں قیدیوں کے متعلق اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، آیا ان کو قتل کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور جنگ احد میں مشورہ کیا کہ شہر کے اندر رہ کر کفار سے مقابلہ کیا جائے یا شہر سے باہر نکل کر ان کا مقابلہ کیا جائے، حضرت عائشہ (رض) پر جب منافقین نے تہمت لگائی تو آپ نے ان کے متعلق اپنے اصحاب سے مشورہ کیا۔ البتہ احکام شرعیہ میں آپ کسی سے مشورہ نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق آپ جس چیز کو چاہیے فرض یا واجب یا حرام یا مکروہ قرار دیتے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صحابہ کرام باہمی مشورہ سے کتاب اور سنت سے احکام مستنبط کرتے تھے اور سب سے پہلا کام جو انہوں نے باہمی مشورہ سے کیا وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ مقرر کرنا تھا۔

حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم اس شخص کو اپنے دنیاوی معاملات میں امام بنانے پر کیوں نہ راضی ہوں جس کو ہمارے دینی معاملات میں امام بنانے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوگئے تھے۔

اسی طرح حضرت اسامہ (رض) کے زیر کمان لشکر بھیجنے میں انہوں نے مشورہ کیا اور مانعین زکوٰۃ اور مرتدین سے قتال کرنے میں انہوں نے مشورہ کیا اور تمام اصحاب نے بحث وتمحیص کے بعد حضرت ابوبکر کی رائے سے اتفاق کرلیا، اسی طرح قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے کے متعلق انہوں نے مشورہ کیا اور حضرت عمر کی رائے سے حضرت ابوبکر متفق ہوگئے اور خمر (انگور کی شراب) کی حد بھی باہمی مشورہ سے اسی (٨٠) کوڑے طے کی گئی اور حضرت علی (رض) کی رائے سے سب نے اتفاق کرلیا، پھر پر آن مجید کی سات لغات پر پڑھنے کی اجزت تھی اور ناواقف نو مسلم ایک دوسرے کی قرأت پر اعتراض کرتے تھے، پھر حضرت عذیفہ بن یمان (رض) کے مشورہ سے قرآن مجید کو صرف لغت قریش پر بای رکھا گیا اور باقی تمام لغات کو ختم کردیا گیا۔

اس کے بعد فرمایا : ” اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں، یعنی زکوٰۃ اور صدقات ادا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ دی ہوئی چیزوں میں سے صدقہ کرنا صرف مال سے صدقہ کرنے میں منحصر نہیں ہے، بلکہ ہر نیکی صدقہ ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نیک کام صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٢١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٠٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٧٠) خلاصہ یہ ہے کہ جس مال کو خرچ کرنے میں یا جس بات کو کہنے میں یا جس کام کو کرنے میں اللہ تعالیٰ کی رضا معلوم ہو اس کام کو کرنا صدقہ ہے، لہٰذا مقربین کا لوگوں کے دلوں میں معرفت کے انوار کو پہنچانا بھی صدقہ ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 38