وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثۡلُهَاۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 40
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثۡلُهَاۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور بُرائی کا بدلہ اسی کی مثل بُرائی ہے، پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا
قرض خواہ اپنا حق مقروض کی لاعلمی میں بھی لے سکتا ہے
الشوریٰ : ٤٠ میں فرمایا :” اور بُرائی کا بدلہ اسی کی مثل بُرائی ہے، پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا “
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ظالموں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں : ایک وہ قسم ہے جو اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کا بدلہ نہیں لیتی، اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے : اور وہ غضب کے وقت معاف کردیتے ہیں۔ (الشوریٰ :37) اور دوسری قسم وہ ہے جو اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کا بدلہ لیتی ہے، لیکن ان پر یہ پابندی ہے کہ وہ صرف اتنا بدلہ لیں جتنا ان پر ظلم کیا گیا ہے، بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہ کریں، فرمایا : اور بُرائی کا بدلہ اسی کی مثل بُرائی ہے۔ (الشوریٰ :40) مقاتل وغیرہ نے کہا ہے کہ بدلہ لینا اس صورت پر محمول ہے جب کسی شخص پر حملہ کرکے اس کو زخمی کردیا جائے یا اس کو بُرا کہا جائے یا گالی دی جائے۔
ان آیات سے یہ مسئلہ مستنط کیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کا دوسرے شخص پر حق واجب ہو اور وہ اس کا حق اس کو نہ دے رہا ہو تو اس کے مال سے وہ اپنا حق لے سکتا ہے، مثلاً کوئی مالک اپنے نوکر کو تنخواہ نہ دے رہا ہو یا مزدوری کی اجرت نہ دے رہا ہو، یا کسی نے اس کا مال غصب کرلیا ہو یا خیانت کی ہو یا چوری کی ہو یا ڈاکہ ڈالا ہو، یا بیوی کو اس کا شوہر خرچ نہ دے رہا ہو یا اس کا مہر نہ دے رہا ہو یا مقروض اس کا قرض واپس نہ کررہا ہو تو حق دار کے لیے جائز ہے کہ وہ بقدر حق اس کے مال سے اتنی مقدار جس طرح بھی لے سکتا ہو وصول کرنے اور ان کے موقف کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ھندبن عتبہ (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ابوسفیان بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے لیے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو، سو اس صورت کے کہ میں خفیہ طور پر اس کے مال سے لے لوں اور اس کو پتا نہ چلے، آپ نے فرمایا : تم اس کے مال سے اتنی مقدار لے لو جو تمہارے لیے اور تمہاری اولاد کے لیے دستور کے مطابق کافی ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٦٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٥٣٢، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٤٣٤، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٢١٧)
اس کے بعد فرمایا : پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے “ اس آیت کے پہلے جز میں ظلم کا بدلہ لینے کے جواز کو بیان فرمایا، بشرطیکہ بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے اور اس آیت کے دوسرے جز میں ظلم کا بدلہ نہ لینے اور معاف کرنے کی ترغیب دی ہے، ہم پہلے ظلم کا بدلہ لینے کے جواز کے متعلق احادیث بیان کریں گے، پھر ظلم کو معاف کرنے کے متعلق احادیث بیان کریں گے۔
بدلہ لینے کے جواب میں احادیث
ابن عون بیان کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور اس وقت ہمارے پاس حضرت زینب بنت جحش (رض) بھی تھیں، اس وقت آپ اپنے ہاتھ سے کوئی کام کررہے تھے، میں نے آپ کو اشارہ سے بتایا کہ اس وقت حضرت زینب بھی موجود ہیں، آپ اس کام سے رک گئے اور حضرت زینب (رض) حضرت عائشہ (رض) کو سخت اور ناگوار باتیں کہنے لگیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو منع فرمایا لیکن وہ سخت باتیں کہنے سے نہیں رکیں، تب آپ نے مجھ سے فرمایا : تم بھی ان کی سخت باتوں کا جواب دو ، پھر میں نے ان کو جواب دیا تو میں ان پر غالب آگئی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٨٩٨)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے دو گروہ تھے، ایک گروہ میں حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت صفیہ اور حضرت سودہ (رض) تھیں اور دوسرے گروہ میں حضرت ام سلمہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری ازواج تھیں اور مسلمانوں کو معلوم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ محبت حضرت عائشہ (رض) سے تھی۔ پس مسلمانوں میں سے جب کوئی آپ کو کوئی ہدیہ پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا حتیٰ کہ جب حضرت عائشہ کی باری آتی اور آپ ان کے گھر جاتے تو وہ آپ کو ہدیہ پیش کرتا، پھر حضرت ام سلمہ کے گروہ نے حضرت ام سلمہ سے کہا : آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہیں کہ آپ لوگوں سے فرمائیں : جس نے مجھے کوئی ہدیہ دینا ہو تو وہ مجھے وہ ہدایہ دے دیا کرے خواہ میں کسی زوجہ کے گھر ہوں۔ حضرت ام سلمہ نے آپ سے یہ بات کی تو آپ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا، جب ان ازواج نے حضرت ام سلمہ سے پوچھا کہ آپ نے کیا فرمایا ؟ تو حضرت ام سلمہ نے کہا : آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، انہوں نے کہا : آپ دوبارہ حضور سے بات کریں، حضرت ام سلمہ نے دوبارہ بات کی، آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے آپ کے جواب کے متعلق پوچھا، حضرت ام سلمہ نے بتایا : آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا، ازواج نے کہا : آپ سہ بارہ بات کریں حتیٰ کہ وہ آپ کو جواب دیں، جب حضرت ام سلمہ نے سہ بارہ بات کی تو آپ نے فرمایا : مجھے عائشہ کے معاملہ میں اذیت نہ دو ، کیونکہ عائشہ کے علاوہ کسی زوجہ کے بستر پر میرے پاس وحی نہیں آتی، حضرت ام سلمہ نے کہا : میں آپ کو اذیت دینے کے عمل سے اللہ سے توبہ کرتی ہوں، پھر ان ازواج نے حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا، پس انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلاکر کہا : آپ کی زاواج آپ کو قسم دیتی ہیں کہ آپ حضرت ابوبکر کی بیٹی کے معاملہ میں عدل کریں، آپ نے حضرت فاطمہ (رض) سے فرمایا : اے میری بیٹی ! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے میں محبت کرتا ہوں ؟ حضرت سیدہ فاطمہ نے کہا : کیوں نہیں، پھر حضرت سیدہ نے ان زواج کے پاس جا کر بتادیا، انہوں نے کہا : آپ دوبارہ جائیں، حضرت سیدہ نے دوبارہ جانے سے انکار کردیا، پھر ازواج نے حضرت زینب بن جحش (رض) کو بلایا، وہ آپ کے پاس گئیں اور سخت کلام کیا اور کہا کہ آپ کی ازواج آپ کو قسم دیتی ہے کہ آپ حضرت ابوبکر کی بیٹی کے معاملہ میں انصاف کریں، ان کی آواز بلند ہوگئی، حتیٰ کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو بھی بُرا کہا، اس وقت حضرت عائشہ بیٹھی ہوئی تھیں اور حضرت زینب ان کو سخت سست کہہ رہی تھیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کی طرف دیکھا کہ آیا وہ کوئی جواب دیتی ہیں، پھر حضرت عائشہ (رض) نے جواب دینے شروع کیے، حتیٰ کہ حضرت زینب کو لاجواب اور ساکت کردیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کی طرف دیکھ کر فرمایا : یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٨١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٤٤، مسند احمد ج ٦ ص ١٣٠ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤١ ص ٤٥٢۔ ٤٥١، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ، مسند احمد ج ٢ ص ٨٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤١ ص ١٢٤۔ ١٢٣، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٧٨٨)
بدلہ نہ لینے اور معاف کردینے کے متعلق احادیث
حضرت ابوالیسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سائے میں رکھے گا۔ (صحیح مسلم : کتاب الزہد، رقم الحدیث : ٧٤، رقم الحدیث بلاتکرار : ٣٠٠٦، الرقم المسلسل : ٧٣٧٧)
حضرت علی بن الحسین زین العابدین (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا کہ اہل فضل کھڑے ہوجائیں، پھر کچھ لوگ کھڑے ہوں گے، ان سے کہا جائے گا کہ جنت کی طرف چلے جائو، راستہ میں ان کو فرشتے ملیں گے اور کہیں گے : تم کہاں جارہے ہو ؟ وہ کہیں گے، جنت کی طرف، فرشتے کہیں گے : حساب سے پہلے ؟ وہ کہیں گے : ہاں، فرشتے پوچھیں گے : تم کون ہو ؟ کہیں گے : ہم اہل فضل ہیں، فرشتے پوچھے گے : تمہاری کیا فضیلت ہے ؟ وہ کہیں گے : جب کوئی ہم سے جاہلانہ بات کرتا تو ہم بردباری سے کام لتے اور جب کوئی ہم پر ظلم کرتا تو ہم معاف کردیتے اور جب کوئی ہمارے ساتھ زیادتی کرتا تو ہم معاف کردیتے ہیں۔ فرشتے کہیں گے : تم جنت میں داخل ہوجائو، نیک کام کرنے والوں کے لیے کیا خوب اجر ہے، پھر ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کھڑے ہوجائیں، پھر کچھ لوگ کھڑے ہوں گے۔ ان سے کہا جائے گا کہ جنت کی طرف چلے جائو، ان کو راستہ میں فرشتے ملیں گے، ان سے بھی اسی طرح مکالمہ ہوگا، وہ کہیں گے : ہم اہل صبر ہیں، فرشتے پوچھیں گے : تم نے کس چیز پر صبر کیا ؟ وہ کہیں گے : ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی مشقت پر صبر کیا اور ہم صبر کرکے اللہ کی معصیت سے بچے، فرشتے کہیں گے : تم جنت میں داخل ہوجائو، نیک عمل کرنے والوں کا کیا خوب اجر ہے، پھر ایک منادی ندا کرے گا کہ اللہ کے گھر کے پڑوسی کھڑے ہوجائیں، پھر کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور وہ بہت کم ہوں گے، ان سے کہا جائے گا : جنت کی طرف چلو، راستہ میں ان کو فرشتے ملیں گے، ان سے اسی طرح کا مکالمہ ہوگا، فرشتے پوچھیں گے : تم کس سبب سے اللہ کے پڑوسی بنے ؟ وہ کہیں گے : ہم اللہ عزوجل کی رضا کے لیے لوگوں سے ملتے تھے، ہم اللہ کی رضا کے لیے مجلس میں شر کی ہوتے تھے اور ہم اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے تھے، فرشتے کہیں گے : تم جنت میں داخل ہوجائو، پس نیک عمل کرنے والوں کا کیا خوب اجر ہے۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ١٤٠۔ ١٣٩، دارالکتاب العربی، بیروت، ١٤٠٧ ھ، حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ١٦٤۔ ١٦٣، رقم الحدیث : ٣٥٦١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ ہرچند کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے مگر فضائل اعمال کے لیے کافی ہے۔ )
حضرت معاذ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اپنے غضب کے تقاضوں کو پورا کرنے پر قادر تھا اور اس نے اپنے غصہ کو پی لیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کے سامنے اس کو بلا کر فرمائے گا کہ وہ جس حور کو چاہیے اختیار کرلے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٧٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٠٢١، مساوی الاخلاق للخرالطی رقم الحدیث : ٣٣٧، حلیۃ الاولیاء ج ٨ ص ٤٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٨٦، مسند احمدج ٣ ص ١٤٣٨، المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ١٨٩۔ ١٨٨، رقم الحدیث : ٤١٦۔ ٤١٥، السنن الکبریٰ ج ٨ ص ١٦١، اس حدیث کی سند صحیح ہے، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٥٠ )
حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص غصہ ضبط کرکے اس کا گھونٹ پیتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس گھونٹ سے بڑھ کر کوئی گھونٹ پسند نہیں ہے، یا جو شخص مصیبت کے وقت صبر کا گھونٹ پیتا ہے اور اللہ کے خوف سے جس شخص کی آنکھ سے آنسو کا قطر گرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں ہے یا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کی راہ میں گرتا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٢٨٩، الزہدلابن المبارک الحدیث : ٦٧٢، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٥٥ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : باوقار لوگوں کی لغزشوں کو معاف کردو۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٧٥، مسند احمد ج ٦ ص ١٨١، الادب المفردر قم الحدیث : ١٦٧، مسند ابو یعلیٰ ج ٨ ص ٢٦٣، حلیۃ الاولیاء ٩ ص ٤٣، الکامل لا بن عدی ج ٥ ص ١٩٤٥، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٣٥٦٥ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کی لغزش کو معاف کیا قیامت کے دن اللہ اس کی لغزش کو معاف کردے گا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٤٦٠، مسنداحمد ج ٢ ص ٢٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٩٩، المستدرک ج ٢ ص ٤٥، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٥٧ )
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اپنی زبان پر قابو رکھا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرے گا اور جس نے اپنے غصہ کو روکا، قیامت کے دن اللہ اس سے اپنے عذاب کو روک لے گا اور جس نے اللہ کے سامنے اپنے عذر کو پیش کیا اللہ اس کے عذر کو قبول کرلے گا۔ (تاریخ بغدادج ٥ ص ٣٠٨، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٥٨، اس حدیث کی سند حسن ہے)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قیامت کے دن) ایک منادی دوبارہ ندا کرے گا : جس شخص کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ جنت میں داخل ہوجائے، تو جس شخص نے اپنے بھائی کو معاف کردیا ہوگا وہ اٹھ کھڑا ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ “ جس نے معاف کردیا اور اصلاح کی اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے۔ (الشوریٰ : ٤٠) (الضعفاء الکبیر للعقیلی ج ٣ ص ٤٧٧، الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٥٩، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٦٠، اس حدیث کی سند ضعیف لیکن فضائل اعمال میں معتبر ہے)
امام عبدالرزاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن الحسین زین العابدین کی باندی ان کو وضو کر ارہی تھی تاکہ وہ نماز کی تیاری کریں، ناگاہ پانی کا لوٹ اس کے ہاتھ سے گر کر ان کے چہرے پر گرگیا اور ان کا چہرہ زخمی ہوگیا، انہونے نظر اٹھا کر اس باندی کی طرف دیکھا، اس نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” والکاظمین الغیظ “ (غصہ کو پینے والے) آپ نے اس سے فرمایا : میں نے غصہ کو پی لیا۔ اس نے کہا : ” والعافین عن الناس “ (لوگوں کو معاف کردینے والے) آپ نے فرمایا : اللہ تم کو معاف کرے، اس نے کہا ” واللہ یحب المحسنین “ (اللہ نیکی والوں سے محبت رکھتا ہے) (آل عمران :124) ، آپ نے فرمایا : جائو تم آزاد ہو۔ (الجامع لشعب الایمان ج ١٠ ص ٥٤٥، رقم الحدیث : ٧٩٦٤، مکتبۃ الرشید، ریاض، ١٤٢٣ ھ)
عبیدبن عمیر بیان کرتے ہیں کہ پڑوسی کے حقوق میں سے یہ ہے کہ تم اپنی نیکی میں اس کو یاد رکھو، اس سے تکلیف دہ چیز کو دور کرو اور قرابت کے حقوق میں سے یہ ہے کہ جب رشتہ دار تم سے تعلق توڑے تو تم سے تعلق جوڑو، وہ تم کو محروم رکھے تو تم اس کو عطا کرو اور وہ شخص معاف کرنے کا زیادہ مستحق ہے جو سزا دینے پر زیادہ قادر ہو اور جو شخص اپنے سے کمزور پر ظلم کرے اس کی عقل بہت کم ہے۔ (الجامع لشعب الایمان ج ١٠ ص ٥٤٨، رقم الحدیث : ٧٩٧٠، اس حدیث کی سند جید ہے)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ عزت والا کون ہے ؟ فرمایا : جو شخص باوجود قدرت کے معاف کردے۔ (الجامع لشعب الایمان ج ١٠ ص ٥٥٠، رقم الحدیث : ٧٩٧٤، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)
اس کے بعد فرمایا : ” بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا “۔
اس آیت میں ظالم سے مراد وہ شخص ہے جو بدلہ لینے میں حد سے تجاوز کرتا ہو۔
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 40