أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡلَاۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَـعَلۡنَا لِمَنۡ يَّكۡفُرُ بِالرَّحۡمٰنِ لِبُيُوۡتِهِمۡ سُقُفًا مِّنۡ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيۡهَا يَظۡهَرُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ تمام تول کافروں کا گروہ بن جاتے تو ہم رحمن کا کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھت چاندی کی بنادیتے اور ان کی وہ سیڑھیاں جن پر وہ چڑھتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ تمام تول کافروں کا گروہ بن جاتے تو ہم رحمن کا کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھت چاندی کی بنادیتے اور ان کی وہ سیڑھیاں جن پر وہ چڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کے دروازے اور جن تختوں پر وہ ٹیک لگاتے ہیں ان کو بھی چاندی کا بنادیتے (چاندی کے علاوہ) سونے کا بھی بنادیتے اور یہ سب دنیاوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور آخرت کا اجر آپ کے رب کے پاس (صرف) متقین کے لیے ہے (الزخرف :33-35)

دنیا کی زیب وزینت کفار کے لیے ہے

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا بہت حقیر ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا کی محبت کی وجہ سے لوگ کفر کو اختیار کرلیتے تو اللہ تعالیٰ کافروں کے گھر اور ان گھروں کا سازوسامان چاندی اور سونا کا بنا دیتا۔

ان آیات کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات ناپسندیدہ نہ ہوتی کہ جب لوگ کافروں کے گھروں میں انواع و اقسام کی نعمتیں اور عیش و عشرت کا سامان دیکھ کر کفر کی طرف رغبت کریں گے اور یہ وہم کریں گے کہ فضیلت کفر میں ہے اور پھر سب لوگ کفر کو اختیار کرلیں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور کافروں کے گھر اور ان کا سازو سامان چاندی اور سونے کا بنا دیتا۔

اس آیت میں ” بیوت “ کا لفظ ہے، اس کا واحد بیت ہے، اس کے معنی گھر اور رہنے کی جگہ ہے اور ” باب “ کا لفظ ہے۔ کسی گھر میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں اور ” سرر “ کا لفظ ہے، یہ سر یر کی جمع ہے، سریر اس جگہ کو کہتے ہیں جس پر امیر اور عیاش لوگ سرور اور خوشی سے بیٹھتے ہیں۔ میت کے تخت کو بھی سریرکہتے ہیں اور اس میں یہ نیک شگون ہے کہ اس پر میت کو لٹا کر اسے اللہ کے پاس لے جائیں گے تو اس کو اللہ کی جانب سے سرور حاصل ہوگا اور اس میں ” زخرف “ کا لفظ ہے، اس کا اصل میں معنی سونا ہے اور اس کو استعارہ زینت سے بھی کیا جاتا ہے، پھر ہر نقش ونگار ولی مزین چیز کو زخرف کہا جانے لگا۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا حقیر ہونا

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٢٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٠، المستدرک ج ٤ ص ٣٠٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٩٢٢ )

المستورد بن شداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کی جماعت میں تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک مرے ہوئے بکری کے بچے پر کھڑے ہوئے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دیکھ رہے ہو کہ یہ بکری کا بچہ اس کے مالکوں کے نزدیک کتنا حقیر تھا جب انہوں نے اس کو ڈال دیا تھا، ان لوگوں نے کہا : اس کے حقیر ہونے کی وجہ سے ہی انہوں نے اس کو ڈال دیا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مرا ہوا بکری کا بچہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر تھا۔ (شرح السنۃ رقم الحدیث : ٢٩٢٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٢١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٥٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٨٦، مسند احمد ج ١ ص ٣٢٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٥٩٣)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مومن پر ظلم نہیں کرتا، اس کی نیکی اس کو دنیا میں دی جاتی ہے اور اس پر اس کو آخرت میں اجر دیا جائے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا اجر دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے اور جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی جس کا اجر اس کو آخرت میں دیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٠٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٧٧، مسند احمد ج ٣ ص ١٢٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٩ ص ٢٦٦، رقم الحدیث : ١٢٢٣٧، جامع المسانید والسنن مسند انس بن مالک رقم الحدیث : ٢٨١٨)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فقر کو پسند کرنے کی وجوہ

اس جگہ پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کافروں پر تمام نعمتوں کے دروازے کھول دیتا تو یہ تمام لوگوں کے کفر پر مجتمع ہونے کا سبب بن جاتا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام نعمتوں کے دروازے مسلمانوں پر کیوں نہ کھول دیئے تاکہ یہ تمام لوگوں کے اسلام پر مجتمع ہونے کا سبب بن جاتا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں لوگ دنیا کو طلب کرنے کے لیے اسلام کو قبول کرتے او یہ منافقین کا ایمان ہے، اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کے اوپر دنیا تنگ کردی جائے حتیٰ کہ جو شخص بھی اسلام کو قبول کرے وہ اسلام کی حقانیت کی وجہ سے اسلام کو قبول کرے اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اور اب اس کو عظیم ثواب ملے گا، کیونکہ اب اس کا اسلام اخلاص پر مبنی ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فقر کو پسند کیا غنا کو پسند نہیں کیا، اس کے حسب ذیل وجوہ ہیں۔

(١) اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اغنیاء کی زندگی گزارتے تو لوگ مال دنیا کی وجہ سے آپ کا قصد کرتے اور جب کہ آپ نے فقروفاقہ کی زندگی گزاری ہے تو لوگ آخرت اور غقبی کی وجہ سے آپ کا قصد کرتے ہیں۔

(٢) اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے فقر کو اس لیے پسند کیا تاکہ فقراء کو تسلی ہو کہ اگر ہم فقر وفاقہ کی زندگی گزار رہے ہیں تو کیا ہوا، دو عالم کے مختار نے فقر وفاقہ کی زندگی گزاری ہے۔

(٣) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فقر کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس کے نزدیک مال دنیا بہت حقیر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک مال دنیا کے حقیر ہونے کا معنی یہ ہے کہ مال دنیا مقصود بالذات نہیں ہے، مقصود بالذات تو آخرت ہے اور مال دنیا اجر آخرت کا وسیلہ ہے، یہ دنیا دائمی قیاک کی جگہ ہے نہ نیک اعمال کی جزاء ہے، یہ دنیا تو امتحان کی جگہ ہے اور سفر کی جگہ ہے، دنیا میں وہی لوگ دل لگاتے ہیں جو علم اور ایمان سے خالی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور ولیوں کو دنیا کی محبت سے محفوظ اور مامون رکھتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 33