وابیوں کے کذاب الوقت زبیری مقلد ابو حمزی کی کذب بیانیوں کا علمی تعاقب

قسط اول

از قلم اسد الطحاوی الحنفی

ابو حمزہ کی جہالت بھری کذب بیانی اور دعویٰ

لکھتا ہے :

امام شافعی محمد بن حسن کا شاگرد نہیں بلکہ محمد بن حسن شیبانی امام شافعی کا شاگرد تھا۔ کتابیں لکھنے کے بعد انکی توثیق کیلئے امام شافعی کے سامنے پیش کرتا تھا، اور امام شافعی نے شیبانی سے مناظرے کیا اسکا رد کیا اور اسکو دھول چٹائی اور اسکے منہ سے یہ بات نکال دی کہ اسکا استاد ابو حنیفہ کتاب اللہ اور سنت نبویہ سے بالکل جاہل تھا۔

شافعی مذہب کے ایک بڑے فقیہ عبيد الله بْنُ عُمَرَ بْنِ أَحْمَدَ الشَّافِعِيُّ الْبَغْدَادِيُّ نے فرمایا:

قَالَ حُمِلَ الشَّافِعِيُّ مِنَ الْحِجَازِ مَعَ قَوْمٍ مِنَ الْعَلَوِيَّةِ تِسْعَةً وَهُوَ الْعَاشِرُ إِلَى بَغْدَادَ وَكَانَ الرَّشِيدُ بِالرَّقَّةِ فَحُمِلُوا مِنْ بَغْدَادَ إِلَيْهِ وَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ وَمَعَهُ قَاضِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحسن الشيبانى وَكَانَ صديقا للشافعى وَأحد الَّذِينَ جَالَسُوهُ فِي الْعِلْمِ وَأَخَذُوا عَنْهُ

(الإنتقاء في فضائل الأئمة الثلاثة الفقهاء)

یعنی خلیفہ ہارون رشید کے وقت میں امام شافعی کو انکے سامنے پیش کیا گیا، اور ہارون رشید کے ساتھ قاضی محمد بن حسن شیبانی حنفی بیٹھا تھا، قاضی محمد بن حسن امام شافعی کا دوست اور ان سےعلم حاصل کرنے کیلئے انکے ساتھ بیٹھے والے انکے شاگردوں میں سے ایک تھا۔

الجواب :

یعنی اس کذاب کے بقول امام شافعی امام محمد کے شاگرد نہیں بلکہ امام محمد امام شافعی کے شاگرد تھے بھھھھھ

یہ ہے ان جہلاء کی تحکیک!!!

ہم نے جو سند صحیح سے بیان کیا کہ امام شافعی کہتے ہیں مجھ پر فقہ کے باب میں سب سے زیادہ احسان امام محمد کا ہے اس بات کا رد جب اس سے کوئی بن نہیں پایا تو جہالت بکھیرتے ہوئے لکھتا ہے :

متقدمین سے آج تک کسی نے یہ بات نہیں لکھی کہ امام شافعی استاذ تھے امام محمد کے بلکہ یہ جہالت اور کذب بیانی گھڑنے والا وہابیہ کا یہ چیلا ہے

اور اپنے اس کذب بیانی کو ثابت کرنے کے لیے جو روایت یہ پیش کرتا ہے : اس میں وکان محمد لفظ ساقط ہو گیا جسکی وجہ سے پوری عبارت تبدیل ہو گئی اور امام شافعی کی بجائے امام محمد کا ان سے اخذکرنا روایت بن گئی

اس لیے الانقاء کے نسخے میں محقق شیخ ابو غدہ نے عبارت کی تصحیح کے لیے اس عبارت میں وکان الشافعی لفظ کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لفظ تمام نسخوں میں ساقط ہے لیکن عبارت کی تصحیح کے لیے اسکا اضافہ کیا ہے

اسی واقعے کو وہابی نے مکمل نقل نہیں کیا جس سے اسکے جھوٹ عیاں ہو جاتا اسی روایت کے آگے جو متن ہے وہ درج ذیل ہے :

قال ما ذكرك لي محمد بن الحسن ثم عطف على محمد بن الحسن فقال يا محمد ما يقول هذا هو كما يقوله قال بلى وله من العلم محل كبير وليس الذي رفع عليه من شأنه قال فخذه إليك حتى أنظر في أمره فأخذني محمد وكان سبب خلاصي لما أراد الله عز وجل منه

رشید نے کہا کہ مجھ سے محمد بن حسن نے میرے سامنے تمہارا ذکر نہیں کیا ۔ پھر (رشید) امام محمد کی طرف متوجہ ہوئے اور اور بولے اے محمد (بن حسن شیبانی) کیا یہ نو جوان (شافعی) اسی طرح جس طرح یہ کہہ رہا ہے ؟ تو انہوں (امام محمد ) نے جواب دیا جی ہاں یہ علم میں مرتبہ رکھتا ہے اور اسکی وہ حیثیت نہیں (بغاوت کی) جو اس پر الزام عائد کیا گیا ہے ۔ تو ہارون نے کہا اسے آپ (امام محمد ) اپنے ساتھ لے جائیں میں اس کے معاملہ کا بعد میں جائزہ لونگا تو اما م محمد مجھ (الشافعی) کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ اور یہ (امام محمد ) میری نجات کا سبب بنے ۔ جب اللہ نے جھ پر نجات عطاء کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا

(الانتقاء لا ابن عبدلبر )

تو معلوم ہوا امام شافعی تو اس وقت جوانی میں تھے اور وہ بغداد گئے تھے اور ہارون نے امام محمد کو حکم دیا تھا کہ اسکو اپنے ساتھ لے جائیں ۔ اگر امام محمد امام شافعی کے حق میں گواہی نہ دیتے تو ہارون تو قتل کر دیتا امام شافعی کو معلوم ہوا فقہ شافعی بھی امام محمد کی سچائی اور گواہی حق دینے کی وجہ سے امام محمد کے صدقے پھیلی ۔ تبھی امام شافعی نے کہا کہ امام محمد میری نجات کا زریعہ بنے ۔۔۔۔

لیکن وہابی گھامڑ نے کیا کیا ایک لفظی نسخے کی خطاء کی وجہ سے امام شافعی کے اپنے قول کہ مجھ پر سب سے زیادہ احسان امام محمد کا ہے اسکو رد ایک راوی سے کر رہاہے جو کہ غلط عبارت ہے ۔۔۔ اور اگر یہ عبارت صحیح بھی ہوتی تو امام شافعی کی اپنی گواہی اور انکی بات مقدم ہوتی یا انکے شاگرد کی ؟

چونکہ یہ روایت الانتقاء کتاب کی ہے تو امام ابن عبدالبر سے اسکی چھترول پیش کرتے ہیں

امام ابن عبدالبر جب امام شافعی کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حدثنا خلف بن قاسم قال نا الحسن بن رشيق قال نا محمد بن يحيى الفارسى قال أنا الربيع ابن سليمان قال سمعت الشافعي يقول حملت عن محمد بن الحسن حمل بخى ومرة قال وقر بعير ليس عليه الاسماعى منه قال وما رأيت أحدا سئل عن مسألة فيها نظر إلا رأيت الكراهة في وجهه إلا محمد بن الحسن

امام ربیع بن سلیمان کہتے ہیں میں نے امام شافعی کو فرماتے سنا!

امام شافعی کہتے ہیں : میں نے امام محمد بن حسن سے ایک بختی اونٹ (پر لادے جانے والے وزن کے برابر تحریروں جتنا علم) حاصل کیا ہے اور ایک بار (اما م شافعی) نے کہا کہ انہوں نے ایک اونٹ کے بوجھ جتنا علم حاصل کیا (امام محمد ) سے ۔

امام شافعی یہ بھی فرماتے تھے میں نے یہ نہیں دیکھا کہ جب بھی کسی شخص سے کسی ایسے مسلہ کے بارے میں دریافت کیا گیا جس سے غور و فکر کی گنجائش ہو تو اسکے چہرے پر نا پسندیدگی کے آثار ظاہر ہو جاتے سوائے امام محمد بن حسن کے کیونکہ انکا معاملہ (انکے علم کی وجہ سے) مختلف تھا

(الانتقاء، وسند صحیح )

اب یہ وابی گوچھو کیا کریگا ؟ امام شافعی تو کہتے ہیں کہ میں نے تو امام محمد سے ایک اونٹ کے برابر تحریریں لکھی ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام محمد کا علم کتنا ہوگا جو امام شافعی نے تو انکے علمی خزانے سے فقط ایک اونٹ کے برابر تحریریں لکھیں جسکو آج کے دور میں سوچنا بھی محال ہے تو امام محمد کا مطلق علم کتنا ہوگا ؟

امام ابن عبدالبر سے ابو حمزی دجالی کی دوسری چھترول!

امام شافعی کی اخبار نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر ایک باب قائم کرتے ہیں :

ذكر بعض من أخذ عن الشافعي علمه وكتب كتبه وتفقه له وخالفه في بعض قوله

ان بعض لوگوں کا ذکر جنہوں نے امام شافعی سے علم حاصل کیا ۔ ان سے لکھا اور ان سے فقہ سیکھی ۔ اور بعض نے انکے اقوال کی مخالفت کی

اس میں کہیں بھی امام محمد کا نام نہیں لکھا امام ابن عبدالبر نے کیونکہ ایسا ہے ہی نہیں ۔ اسی لیے ابو حمزہ دجالی نے لفظی طور پر غلط عبارت سے یہ جہالت بکی


ابو حمزہ دجالی کا یہ دعویٰ کہ امام محمد شاگرد تھے امام شافعی اس پر جمہور محدثین سے ابو حمزہ کی چھترول!!!

امام خطیب بغدادی :

تاریخ بغداد میں امام شافعی کے شیوخ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

وكان سمع من محمد بن الحسن الشيباني،

اور

امام محمد بن حسن کے تلامذہ کانام لکھتے ہوئے فرماتے ہیں :

فروى عنه: محمد بن إدريس الشافعي،

(تاریخ بغداد )

امام نووی

لکھتے ہیں : هو الإمام أبو عبد الله محمد بن الحسن بن فرقد الشيبانى مولاهم.

روى عنه الشافعى

(تهذيب الأسماء واللغات، النووی)

امام ذھبی :

امام ذھبی یوں لکھتے ہیں :

محمد بن الحسن:

ابن فرقد، العلامة، فقيه العراق، أبو عبد الله الشيباني، الكوفي، صاحب أبي حنيفة.

أخذ عنه: الشافعي -فأكثر جدا-

امام محمد بن حسن شیبانی ان سے علم حاصل کیا امام شافعی نے اور امام شافعی نے بہت ہی زیادہ اکثر انہی (امام محمد ) سے بیان کیا ہے

(سیر اعلام النبلاء،)

اور امام ذھبی امام محمد کی ثقاہت کو عیاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں

قلت: قد احتج بمحمد أبو عبد الله الشافعي.

میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ اور پھر احتجاج کیا ہے اما م محمد سے امام شافعی نے

(تاریخ الاسلام )

اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی امام شافعی کے شیوخ کا ذکر کرتےہوئے فرماتے ہیں :

وانتهت رياسة الفقه بالمدينة إلى مالك بن أنس فرحل إليه ولازمه، وانتهت رياسة الفقه بالعراق إلى أبي حنيفة، فأخذ عن صاحبه محمد بن الحسن حمل جمل، ليس فيها شيء إلا وقد سمعه عليه، فاجتمع له علم أهل الرأي وعلم أهل الحديث

ابن حجر کہتے ہیں :

مدینہ منوہ میں علم فقہ کی ریاست امام مالک پر ختم ہوئی (جن سے امام شافعی نے علم لیا) اسی لیے امام شافعی نے انکی طرف صرف کیا ، انکے ساتھ رہے ان سے استفادہ کیا ،

جبکہ

عراق میں علم فقہ کی ریاست امام ابو حنیفہ پر ختم ہوئی تھی ۔ انہوں (شافعی) نے امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے استفادہ کیا ، ان کے پاس جو مواد موجود تا وہ امام شافعی نے وہ سب ان سے سنا یوں امام شافعی کے پاس اہل رائے اور اہل حدیث کا علم جمع ہو گیا ۔

(توالي التأنيس بمعالي ابن إدريس لابن حجر، ص ۱۲۳)

اسی طرح یہی سب محدثین ، مورخین ، شارحین نے متفقہ علیہ لکھا ہے

اب شرم سے ڈوب کہ مر جانا چاہیے اس جاہل اجھل کو ۔۔۔۔


اسکے بعد اس کذاب سے امام شافعی سے امام محمد پر کوئی جرح نہ ملی (اور کبھی مل ہی نہیں سکتی سوائے مداح کے ) پھر اس نے ایک اور سرخی بنائی

لکھتا ہے :

امام شافعی نے محمد بن حسن شیبانی کی کتابوں کا رد کیا تھا، فرماتے ہیں۔

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ،() أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقْولُ: أَنْفَقْتُ عَلَى كُتُبِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ سِتِّينَ دِينَارًا، ثُمَّ تَدَبَّرْتُهَا، فَوَضَعْتُ إِلَى جَنْبِ كُلِّ مَسْأَلَةٍ حَدِيثًا، يَعْنِي: رَدًّا عَلَيْهِ

(الكتاب: آداب الشافعي ومناقبه)

میں نے محمد بن الحسن شیبانی کی کتابوں پر رقم خرچ کی یعنی انکو خریدا، پھر اس پر تدبر کیا پھر اسکے ہر مسئلہ پر میں نے رد لکھا اور اسکے بالمقابل حدیث تحریر کی۔

<><><><><><><><><>

اس جاہل نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کے چونکہ امام شافعی نے مناظرہ بھی کیا امام محمد سے اور انکی کتب کا رد کیا تو پس ثابت ہوا کتاب کا رد کرنا امام محمد پر جرح کرنا ہوا اگر اس جاہل کی یہ جہالت مان لی جائے تو اس طرح امام شافعی نے امام مالک کے رد میں بھی کتاب لکھی ہیں اور امام شافعی کے رد میں انکےشاگرد نے بھی کتاب لکھی ہیں

تو امام شافعی نے امام محمد کے رد میں کتاب لکھی ہے تو اسی طرح امام محمد نے امام مالک کے رد میں بھی کتاب لکھی ہے یہ تو علمی منہج ہوتا ہے

اسی لیے یہ بھی اس جاہل کی جہالت ہے کیونکہ اپنے شیخ سے علم حاصل کرنا اور ان سے فقہی اختلاف کرنے کا بلکل یہ نہیں مطلب نہیں ہے کہ انکی مداح یا ان کی علمی شان ختم ہو جائے گی

اب اسکی حسب عادت میں ایک پھکی بطور نمونہ پیش کرتا ہوں

امام ابن عبدالبر نے الانتقاء میں امام شافعی کے تلامذہ میں محدثین کا ذکر کیا جنہوں نے امام شافعی سے فقہ و علم سیکھا اس میں ایک نام

محمد بن عبد الله بن عبد الحكم

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم امام شافعی کے بارے فرماتے ہیں

أحد وبه عرفت ما عرفت وهو الذي علمني القياس رحمه الله فقد كان صاحب سنة وأثر وفضل وخير مع لسان فصيح طويل وعقل صحيح رصين

باب قول عبد الله بن عبد الحكم فيه

حدثنا ابو عمر احمد بن عبد الله بن محمد بن علي قال نا أبي قال نا أسلم بن عبد العزيز قال قال لى محمد بن عبد الله بن عبد الحكم لولا الشافعي ما عرفت كيف أرد على أحد وبه عرفت ما عرفت وهو الذي علمني القياس رحمه الله فقد كان صاحب سنة وأثر وفضل وخير مع لسان فصيح طويل وعقل صحيح رصين

باب قول عبد الله بن عبد الحكم فيه

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم کہتے ہیں :

اگر امام شافعی نہ ہوتے تو مجھ سے معرفت حاصل نہیں ہونی تھی ، کہ میں کسی کو کیا جواب دوں ؟ میں نے ان سے اور جو کچھ سیکھا تو سیکھا ہے وہی ہیں جنہوں نے مجھے قیاس کی تعلیم دی اللہ کی ان پر رحمت ہو ۔ وہ اثار کے عالم تھے ۔ فضیلت اور بھلائی ولے تھے انکی زبان فصحیح تھی عقل صحیح اور مضبوط تھی

محمد بن عبد الله بن عبد الحكم يقول لي أبي الزم هذا الشيخ يعني محمد بن إدريس الشافعي فما رأيت أبصر بأصول العلم أو قال أصول الفقه منه

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم بیان کرتے ہیں کے میرے والد نے مجھے کہا کہ تم ان بزر گ کے ساتھ رہنا ۔ انکی مراد شافعی تھی ۔ میں نے علم کے اصول یا اصول فقہ کے بارے میں ان (شافعی) سے زیادہ بصیرت رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا

(الانتقاء و سند صحیح )

اور پھر نقل کرتے ہیں امام ابن عبدالبر اسی راوی کے بارے لکھتے ہیں

ابن أعين وكان فقيها جليلا نبيلا وجيها في زمانه أخذ عن الشافعى وصحبه وكتب وكتبه وكان أبوه عبد الله بن عبد الحكم قد ضمه إليه وأمره أن يعول عليه وعلى أشهب وكان محمد أقعد الناس بهما قال أبو عبيد الله محمد بن الربيع الجيزي سمعت محمد بن عبد الله بن عبد الحكم يقول سمعت من الشافعي كتاب أحكام القرآن في أربعين جزءا وكتاب الرد على محمد بن الحسن في سبعة أجزاء قال وعندنا عنه جزآن في السنن وروى عن الشافعي كتاب الوصايا ويقولون إنه لم يروه عن غيره ولمحمد بن عبد الله بن عبد الحكم رد على الشافعي فيما وقع له من خلاف للحديث المسند ينتصر بذلك لمالك رحمه الله في عيب الشافعي له فيما ترك من المسند للعمل عنده وتوفى محمد ابن عبد الله بن عبد الحكم في ذي القعدة سنة ثمان وستين ومائتين ومنهم

امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے احکام القرآن کے چالس اجزاء کی سماعت کی ہے اور کتاب الرد علی محمد بن حسن کے سات اجزاء کی سماعت کی ہے اور بیان کرتے ہیں ہمارے پاس اس کتاب کے دو جز سنن کی شکل میں موجود ہیں انہوں نے امام شافعی سے کتاب الوصایا روایت کی ہے علماء کا یہ کہنا ہے کہ امام شافعی سے یہ کتاب ان کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کی ہے

شیخ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم نام کے ان راوی نے امام شافعی کے رد میں بھی کتاب لکھی ہے بنام :

رد على الشافعي فيما وقع له من خلاف للحديث المسند

امام شافعی پر ان مسائل میں رد جس میں انہوں نے متصل احادیث کی مخالفت کی ہے (معاذاللہ) انہوں نے اس کتاب میں اما م مالک کا دفاع کیا ہے ان مسائل کے حوالے سے جن مٰں امام شافعی نے امام مالک پر اعتراض اور رد کیا تھا جس میں امام شافعی نے امام مالک پر عیب لگایا

له فيما ترك من المسند للعمل عنده

کہی امام مالک ان متصل احادیث کو رد کر دیتے ہیں اہل مدینہ کے عمل کو ترجیح دینے کی وجہ سے

اور محمد بن عبداللہ بن الحکم کا انتقال ۲۶۸ھ میں ہوا

(الانتقاء ، ابن عبدالبر )

تو کیا ثابت ہوا ؟

امام شافعی نے امام محمد کے رد میں کتاب لکھی

کیونکہ امام محمد نے امام مالک کے رد میں کتاب لکھی بنام الرد علی اہل مدینہ

اور پھر امام شافعی کے رد میں انکے شاگرد نے کتاب لکھی بنام رد على الشافعي فيما وقع له من خلاف للحديث المسند

اور یہ کتاب اس جواب میں تھی جو امام شافعی نے امام مالک کے رد میں لکھی تھی بنام له فيما مالک ترك من المسند للعمل عنده

یوں تو پھر نہ امام شافعی بچتے ہیں نہ امام مالک ، نہ امام محمد اگر فقط کتب لکھنا ہی جرح ہے تو

اب آخر میں امام شافعی سے ایک ایسی شان بیان کرتے ہیں امام محمدکے بارے میں جسکو پڑھ کر وہابی کا دل سڑ جائے گا اور احناف کا پھول پھول ہو جائے گا

امام شافعیؒ کا علمی مقام اور انکا اپنے شیخ امام الفقہاء محمد بن الحسن الیشبانیؒ کو خراج تحسین اور انکو اپنے بقیہ تمام شیوخ پر مقدم کرنا

امام الاجری الساجستانی الشافعی جنکے بارے میں امام الذھبیؒ فرماتے ہیں کہ امام ابن حبان کے بعد ساجستان میں یہی امام محدث الوقت تھے

انہوں نے امام شافعیؒ کے مناقب میں ایک خوبصورت کتاب تصنیف کی تھی

چناچہ امام الذھبیؒ فرماتے ہیں :

3412- الآبري:

الشيخ الإمام الحافظ, محدث سجستان بعد ابن حبان, أبو الحسن محمد بن الحسين بن إبراهيم بن عاصم السجستاني الآبري -بالمد ثم الضم, مصنف كتاب “مناقب الإمام الشافعي”, منسوب إلى قرية آبر من عمل سجستان.

ارتحل وسمع إمام الأئمة ابن خزيمة، وأبا العباس الثقفي, وأبا عروبة الحراني، ومكحولا البيروتي، ومحمد بن يوسف الهروي, وأبا نعيم بن عدي الجرجاني، ومحمد بن الربيع الجيزي، وزكريا بن أحمد البلخي القاضي.

(سیر اعلام النبلاء)

ترجمہ:

الشیخ الامام الحافظ جو محدث ساجستان تھے امام ابن حبانؒ کے بعد ابو الحسن محمد بن ابراہیم بن عاصم السجستانی ، جوکہ مصنف ہیں کتاب منقاب الامام شافعیؒ کے

انہوں نے سماع کیا امام الائمہ ابن خذیمہ، ابو العباس الثقفی ، محمد بن ربیع الجیزی الجیزی وغیرہ سے

یہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں :

27- حدثني محمد بن عبد الله بن جعفر الرازي بحمص, قال: حدثنا الحسين بن علي بن أبي مروان, قال: حدثنا الربيع بن سليمان, قال: قال لي الشافعي:

((سألت محمد بن الحسن كتاباً فدافعني به, فكتبت إليه بهذه الأبيات:

قل لمن لم تر عين … من رآه مثله

ومن [كأن من] رآه … قد رأى من قبله

العلم ينهى أهله … أن يمنعوه أهله

لعله يبذله … لأهله لعله

سند کا پہلا راوی: ابو الحسین محمد بن عبداللہ بن جعفر الرازی ہیں

انکا ترجمہ امام ذھبی یوں بیان کرتے ہیں :

: كان ثقة نبيلا مصنفًا. مات في سنة سبع وأربعين وثلاثمائة. يقع لنا حديثه نازلا.

(تذکرہ الحفاظ ، امام ذھبی)

دوسرا راوی: ابو عبداللہ الحسن بن حامدبن علی بن مروان ہیں جو حنابلہ کے شیخ اور مفتی تھے جو امام ابو خلال کے کبیر شاگرد تھے

3741- ابن حامد 1:

شيخ الحنابلة، ومفتيهم، أبو عبد الله، الحسن بن حامد بن علي بن مروان، البغدادي الوراق، مصنف كتاب الجامع في عشرين مجلدا في الاختلاف.

روى عن: أبي بكر النجاد، وأبي بكر الشافعي، وابن سلم الختلي.

روى عنه: أبو علي الأهوازي، وأبو طالب العشاري، والقاضي أبو يعلى، وتفقه عليه، والمقرىء أبو بكر الخياط.

وكان يتقوت من النسخ، ويكثر الحج.

وهو أكبر تلامذة أبي بكر غلام الخلال.

هلك شهيدا في أخذ الوفد سنة ثلاث وأربع مائة.

(سیر اعلام النبلاء)

سند کا تیسرا راوی: شاگرد خاص امام شافعی الربیع بن سلیمان

جو کہ متفقہ علیہ ثقہ ہیں

امام ربیع بن سلیمان المرادی فرماتے ہیں :

مجھے امام شافعی ؒ نے فرمایا جب امام محمد بن الحسن الیشبانیؒ کو خطوط لکھے اور انہوں نے جوابی خط بھیجنے میں تاخیر کی تو یہ اشعار لکھ بھیجے

قل لمن لم تر عين … من رآه مثله

اس سے کہہ دو جسے دیکھ لینے کے بعد آنکھوں نے س کی نظیر نہ دیکھی

ومن [كأن من] رآه … قد رأى من قبله

وہ ایسا ہے کہ جس نے اسے دیکھ لیا گویا سب اگلوں کو دیکھ لیا

العلم ينهى أهله … أن يمنعوه أهله

علم کو گوارا نہیں کہ اہل علم، علم کو اس کے اہل سے باز رکھیں

لعله يبذله … لأهله لعله

لیکن یہ عجلت کیوں ؟ شاید وہ علم کے مستحقوں پر خرچ کرنے لگے ۔۔

پھر انہی امام محمد بن الحسن کے متعلق امام شافعی فرمایا کرتے تھے :

انسے میں اونٹ کے بوجھ برابر علم سنا ہے

(مناقب الامام شافعی للآجری السجستانی ، ص ۷۷)

امام شافعی اپنی جوانی کی شروعاتی زندگی میں پہلے علم امام مالک سے حاصل کیا اور ان سے ملاقات سے پہلے موطا یاد کر چکے تھے اور امام مالک کو بھی امام شافعی سے موطا سننے کا لطف اور کسی سے نہ آتا تھا

یہی امام شافعیؒ جب کوفہ گئے اور امام محمد بن الحسن کے علم و فضل اور انکی سخاوت سے فیض یافتہ ہوئے تو انہوں نے اپنی محبت ان اشعار میں بیان کی جو ہم نے اوپر یش کی ہے

اسکو بیان کرکے امام المحدث ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں :

ومن المعلوم ان الشافعی رآی مالکا، وکیع بن الجراح و ابن عیینة وقد اعترف فی تلك الابیات انه لم یر مثل محمد بن الحسن ، وعدہ یمثل علم ابی حنیفة الذی لم یدرکه الشافعی،

فتح المغطا شرح الموطأ برواية الشيباني، امام ملا علی القاریؒ، ص ۴۷)

امام ملا علی قاری فرماتے ہیں : اس سے یہ معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ نے امام مالک، امام وکیع بن الجراح اور امام سفیان بن عیینہ کو دیکھا ہوا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی یہ اعتراف کیا اپنے بیان سے کہ انہوں نے امام محمد بن الحسن الشیبانی کی مثل کوئی نہ دیکھا اور امام ابو حنیفہ کے علم کا کیا مقام ہوگا جنکا ادراک امام شافعی نے نہیں کیا تھا (اپنی آنکھوں سے)

اس روایت کو امام الصمیری نے بھی اپنی سند لا باس بہ سے بیان کیا ہے

اور امام ابن عبدالبر المالکی اور امام ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے منساقب امام محمد میں

جیسا کہ وہ اپنی تصنیف میں الآجری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں :

وأخرج الآبري من طريق الحسن بن علي بن مروان حدثنا الربيع بن سليمان قال: قال لي الشافعي: سألت محمد بن الحسن كتابا فدافعني فكتبت إليه:

-قل لمن لم تر عينا من رآه مثله.

-ومن كان رآه قد رأى من قبله.

-العلم ينهى أهله أن يمنعوه أهله.

-لعله يبذله لأهله لعله.

قال: فحمل محمد الكتاب في كمه وجاءني معتذرا من حينه.

الكتاب: توالي التأنيس بمعالي ابن إدريس لابن حجر

المؤلف: ابن حجر العسقلاني (852 هـ)

امید ہے اسکی جہالتوں کے بعد وابیوں کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ انکے محکک کتنے بڑے کذاب و دجال ہیں

دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی