بوقت افطار دعاء کی خصوصی فضلیت سے متعلق ایک حدیث پر ابو محبوب راشدی کے ممدوح سنابلی یزیدی ہندی کی تحقیق کا علمی جائزہ

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

سنابلی کی تحقیق کو فیسبکی وابیوں کے جھنڈو پیر ابو محبوب راشدی نے شئیر کیا ہے تو یقینن اسکی بھی تائید ہوگی اس تحقیق پر جو کہ سنابلی نے اپنے پیج پر اپلوڈ کی ہے جو کہ ہم تک پہنچی ہے ۔

 

ہم ثابت کرینگے کہ کس طرح وابیہ کے محککین* تحقیق کے نام پر دونمبری کرتے ہوئے اسکو تحقیق کا نام دیکر اپنے مقلدین کو الو بناتے رہتےہیں ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصوف اپنی تحریر کا آغاز اس طرح کرتا ہے :

 

(از:كفایت اللہ سنابلی)

✿ ✿ ✿

امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273)نے کہا:

”حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي“

”عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللہم نی سل برحمت التی وسعت ل شی ن تغفر لی اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے“ [ سنن ابن ماجه رقم (1753) المستدرك للحاكم ، ط الهند (1 /422) و ضعفه الألباني في الإرواء (4/ 41) رقم (921) وحسنه البعض]۔

.

اس سند میں ”اسحاق بن عبداللہ المدنی“ کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے۔اس کی وجہ اسحاق کے والد ”عبداللہ“ کے نام کے ضبط کا اختلاف ہے، بعض نے اسے ”عبیداللہ“ بالتصغیربتایا ہے، جبکہ بعض نے ”عبداللہ“ بالتکبیر بتلایا ہے۔اسحاق کی یہ روایت دو طریق سے مروی ہے ۔

دونوں طرق کی تفصیل ملاحظہ ہو:

.

 

① ”محمدبن علی بن زید“ کی روایت کے لئے دیکھئے: [المستدرک للحاکم، ط الہند 1/ 22 وسندہ صحیح إلی الحکم]

② ”حامدبن محمد“ کی روایت کے لئے دیکھئے: [ذیل تاریخ بغداد لابن الدبیثی 1/ 334 وسندہ حسن إلی حامد]

③ ”ابویعلی“ کی روایت ابن السنی نے ”عمل الیوم واللیة“ میں نقل کی ہے اور اس کے بعض نسخوں میں ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی ہے ،جیساکہ محققین نے صراحت کی ہے بلکہ شیخ عبدالقادر عطاء نے اپنے نسخہ میں ایسے ہی ضبط کیا ہے دیکھئے: [عمل الیوم واللیلة لابن السنی، ت البرنی ص289 حاشیہ] ۔

اوریہی درست ہے جیساکہ دیگر رواۃ کی متابعت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

مذکورہ رواة کے برخلاف ”حکم بن موسیٰ“ کے کسی بھی شاگرد کی روایت ثابت نہیں ، مثلاً معجم ابن عساکر(١/٣٠٧) میں ”محمدالحضرمی“ کی روایت سنداً ضعیف ہے نیز محقق کی شہادت کے مطابق مخطوطہ میں متعلقہ نام پر تضبیب کی علامت ہے جو غلطی کی طرف اشار ہ کرتی ہے۔

.

⟐ فائدہ:

ولیدبن مسلم کے ایک اور شاگرد ”ہشام بن خالد“ کی روایت میں بھی ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے دیکھیں: [نوادر الأصول للحکیم الترمذی، ت توفیق2/ 158]

بہرحال اس تفصیل سے واضح ہے کہ ولید بن مسلم نے اپنے استاذ کانام ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی بیان کیا ہے ۔اور اس بیان پر ”اسد بن موسی“ کی متابعت بھی موجود ہے جیساکہ شروع میں گزرچکا ، یعنی اسدبن موسیٰ اورولید بن مسلم دونوں نے اپنے استاذ کانام ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی بتایاہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب (اسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہم نے موصوف کی تحریر میں کچھ کمی کے ساتھ نقل کی ہے تاکہ جو موصوف کا موقف اور دعویٰ ہے اسکے مکمل دلائل کے ان دلائل کی اسناد کو نہیں لکھا تاکہ پڑھنے والے کنفیوزن کا شکار نہ ہوں ۔ تو موصوف نے یہاں تک بحث کو اتنا پیچیدہ بنا دیا عامیوں کے لیے اور سند کے رجال رجال کھیل کر یہ ثابت کیا ہے کہ کچھ اسناد میں اسحاق بن عبیداللہ ہے تو ان میں بقول اسکے کوئی علت ہے یا راویان کی توثیق ہو تو مخالف راویان نے اسحاق بن عبداللہ بیان کیا ہے سند میں تو حتمی اسکی تحقیق یہ ہے کہ راوی اسحاق بن عبداللہ ہے ۔۔۔

 

جبکہ ہمارا موقف ہے کہ یہ سنابلی ہندی نے پوری کی پوری جہالت بیان کی ہے کیونکہ ایسی تحقیق تب پیش کی جاتی ہے جب ایک روایت کی میں راویان سند میں رجال کو تبدیل کر دیں تو پھر ثقہ اور اوثق راوی کے زریعہ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اصل میں وہ روایت کس راوی کی ہے اور کس راوی نے اپنے شیخ کے نام میں وھم کر کے اسکو اور راوی بنا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جبکہ یہاں مسلہ راوی کا نہیں یہاں مسلہ ہے کہ راوی کے نام کے بعد اسکے والد کے نام میں ضبط کا اختلاف آیا ہے جو کہ متقدمین سے ہی اختلاف ہے کیونکہ سند میں راوی نے اپنے شیخ کے والد کے ضبط میں تبدیلی کی ہے

 

جیسا کہ خود موصوف نے شروع میں تصریح کی ہے :

”وجہ اسحاق کے والد ”عبداللہ“ کے نام کے ضبط کا اختلاف ہے، بعض نے اسے ”عبیداللہ“ بالتصغیربتایا ہے، جبکہ بعض نے ”عبداللہ“ بالتکبیر بتلایا ہے۔اسحاق کی یہ روایت دو طریق سے مروی ہے ۔”

 

اب سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گاکہ اسحاق بن عبداللہ یا اسحاق بن عبیداللہ کے نام سے کونسےراوی ہیں جنکے بارے محدثین نے ضبط کا اختلاف ذکر کیا ہے یا مذکورہ حدیث کو کس راوی سے منسوب کیا ہے کہ اس روایت کا اصل راوی کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جیسا کہ خود سنابلی بھی یہ بات تسلیم کرتا ہے جیسا کہ اسکی تحریر میں آگے یہ آئے گا کہ وہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ

امام بخاری ، امام ابوحاتم الرازی ،امام ابوزرعہ رازی اورابن ابی حاتم نے اس روایت کو جس راوی سے منسوب کیا ہے وہ اسحاق بن عبیداللہ ابن ملکیہ ہے

 

لیکن اس نے ان اماموں کے اقوالات کو پیش کرنے کی زہمت نہیں کی ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہو سکے کہ علل کے ائمہ نے یہاں کس نوعیت کے تحت بات کی ہے تو ہم پیش کرتے ہیں

 

۱۔ امام بخاری کی تحقیق؛

 

إِسحاق بْن عُبَيد اللهِ، المَدَنِيٌّ.

سَمِعَ ابْن أَبي مُلَيكةَ، فِي الصوم، ويزيد بْن رومان، مُرسلٌ.

سَمِعَ منه يعقوب بْن مُحَمد، قَالَ: وكَانَ مُسِنًّا.

وسَمِعَ أيضا منه الوليد بْن مسلم.

 

امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ اسحاق بن عبیداللہ المدنی ہے

اس نے سمع کیا ہے ابن ابی ملکیہ سے روزوں کے متعلق حدیث کے تحت (جو کہ مذکورہ ہے ) اور یزید بن رومان سے ایک مرسل روایت کے تحت

اور ان سے سماع کرنے والوں میں یعقوب بن محمد ہے

اور ان سے ولید بن مسلم نے بھی سماع کیا ہے ۔

[تاریخ الکبیر برقم: 1265]

 

اب جبکہ محققین کو معلوم ہے کہ یہ امام بخاری نے تاریخ الکبیر کتاب راویان کے ضبط و توثیق کو بیان کرنے کے احتمام پر خاص طور پر نہیں لکھی تھی البتہ وہ بعض راویان کے بارے علم جرح و تعدیل کے اصول سے کلام کرتے ہیں لیکن عمومی طور پر فقط انہوں نے یہ کتاب راویان کے سماع کوبیان کرنے کے لیے لکھی تھی کہ کس راوی کا سماع کس سے ثابت ہے

 

تو امام بخاری کی تحقیق میں یہ ثابت ہوا کہ جو روزوں میں دعا کے تعلق سے جو روایت بیان کرتا ہے بنام اسحاق بن عبیداللہ وہ ابن ابی ملکیہ سے سماع کرنے والا ہے اور اس سے ولید بن مسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اب آگے چلتے ہیں ؛

 

امام بخاری نے فقط اسکا نام اسحاق بن عبیداللہ المدنی بیان کیا ہے مگر آگے کوئی تصریح نہیں ہے کہ اسکا نسب کیا ہے اور کنیت کیا ہے

 

۲،۳: امام ابو حاتم ، ابو زرعہ

 

اسکی تفصیل امام ابو زرعہ و ابو حاتم نے پیش کی ہے جو کہ درج ذیل ہے :

 

إسحاق بن عبد الله بن أبي مليكة روى عن ابن أبي مليكة ويزيد بن رومان.

مرسل، روى عنه الوليد بن مسلم واسد ابن موسى وعبد الملك بن محمد الحزامي ويعقوب بن محمد سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك وزاد أبو زرعة: يعد في المكيين.

 

اسحاق بن عبداللہ بن ابی ملکیہ یہ ابن ابی ملکیہ سے اور یزید بن رومان سے مرسل روایت بیان کرنے والے ہیں ۔

اور ان سے بیان کرنے والوں میں سے ولید بن مسلم ،اسد بن موسی اور عبد الملک وغیرہم شامل ہیں

یہی سنا ہے اپنے والد اور امام ابو زرعہ سے ۔

[الجرح والتعدیل برقم: 795]

 

اب یہاں تک یہ ثابت ہوا گیا کہ یہ راوی قلیل الحدیث ہے اور قلیل الحدیث راوی کو بعض اوقات علل کے ائمہ اسکی بس خاص روایت کے تحت جانتے ہیں کیونکہ انکا ہر راوی کی روایات پر استقراء ہوتا ہے

اس لیے بخاری نے اس راوی کی صراحت کی ہے کہ یہ ابن ابی ملکیہ سے مذکورہ روایت بیان کرتا ہے یہ مدنی ہے اور امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم نے اسکو ابن ابی ملکیہ قرار دیا ہے تصریح کی ساتھ

 

لیکن ایک نقطہ اہم ہے امام بخاری نے اسکو اسحاق بن عبید اللہ کہا

لیکن

امام ابو حاتم نے اسحاق بن عبداللہ کہا لیکن امام ابو حاتم و ابو زرعہ نے اسکو ابن ابی ملکیہ قرار دیا اور باقی موقف امام بخاری واالا ہی بیان کیا ہے

 

یعنی یہ ثابت ہو گیا کہ جس راوی کے والد کے نام میں عبداللہ اور عبید اللہ کا فرق ہے اسکو علل کے ائمہ نے ابن ابی ملکیہ قرار دیا ہے ۔

 

۴۔ امام ذھبی کا بھی یہی موقف تھا

 

جیسا کہ وہ تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں :

 

ق: إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.

يَرْوِي عَنْ قَرِيبِهِ ابْنِ أبي مليكة.

وَعَنْهُ: الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَأَسَدُ بْنُ مُوسَى، وَيَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ.

خَرَّجَ لَهُ ابْنُ مَاجَهْ حَدِيثًا فِي دُعَاءِ الصَّائِمِ.

صَدُوقٌ.

اسحاق بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ یہ قریبہ بن ابی ملکیہ سے روایت کرتا ہے

اور ان سے ولید بن مسلم ، اسد بن موسیٰ اور یعقوب وغیرہم بیان کرتے ہیں

امام ابن ماجہ نے ان سے ایک ہی حدیث کی تخریج کی ہے روزے کی دعا کے باب میں

 

[تاریخ السلام برقم: 19]

 

۵۔ یہی موقف امام ذھبی کے شیخ امام مزی کا جیسا کہ وہ تہذیب الکمال میں فرماتے ہیں :

 

ق: إسحاق بن عُبَيد الله بن أَبي مليكة القرشي التَّيْمِيّ المدني، ويُقال: المكي.

رَوَى عَن: عَبد اللَّهِ بْن عُبَيد الله بن أَبي مليكة (ق) ، عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ عَمْرو بن العاص، حديث: إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ” .

وعن يزيد بْن رومان، مُرْسلاً.

[تهذيب الكمال في أسماء الرجال برقم: 369]

 

امام مزی نے بھی من و عن وہی موقف بیان کیا ہے جیسا کہ امام بخاری ، امام ابو حاتم، ابو زرعہ کا ہے اور امام مزی کی موافقت امام ذھبی نے بھی کی ہے

 

۶۔ مزید یہ کے امام مغلطائی الحنفی نے مذکورہ روایت کا راوی بھی ابن ابی ملکیہ کو قرار دیا لیکن انہوں نے امام ابن عساکر کے اختلاف کا بھی تذکرہ کرتے ہیں

جیسا کہ وہ اپنی کتاب اکمال میں رقم دراز ہوتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

– (ق) إسحاق بن عبيد الله بن أبي مليكة.

روى عن عبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة عن ابن عمرو: «إن للصائم عند فطره لدعوة».

كذا ذكره المزي، والذي في كتاب ابن عساكر: إسحاق ابن عبيد الله بن أبي المهاجر المخزومي مولاهم أخو إسماعيل بن عبيد الله سمع: سعيد بن المسيب، وعبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة.

روى عنه: الوليد بن مسلم، روى عن: ابن أبي مليكة عن ابن عمرو: «إذا أفطر الصائم يقول: اللهم إني أسألك برحمتك أن تغفر لي».

قال أبو زرعة الدمشقي: وهو أخو إسماعيل بن عبيد الله.

وذكره ابن سميع في الطبقة الرابعة.

[اکمال للمغطائی برقم: 411]

 

جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امام مغلطائی نے بھی امام مزی کا موقف بھی لکھ دیا ہے اور امام ابن عساکر کا موقف بھی لکھ دیا ہے کہ انکے مطابق یہ راوی اسحاق بن عبید اللہ ابی مھاجر المخزومی ہے جو کہ اسماعیل بن عبیداللہ کا بھائی ہے ۔

 

اب امام ابن عساکر نے اس راوی کو اسحاق بن عبیداللہ بیان کیا ہے اور اس سے مراد ابن ابی مھاجر قرار دیا ہے نہ کہ ان ابی ملکیہ امام ابن عساکر نے اپنی سند سے مذکورہ روایت کو انکے ترجمہ میں بیان کرتے ہیں :

 

جیسا کہ وہ تاریخ دمشق میں لکھتے ہیں :

 

إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر المخزومي مولاهم أخو إسماعيل بن عبيد الله سمع سعيد بن المسيب وعبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة

وى عنه الوليد بن مسلم

أخبرنا أبو عبد الله محمد بن الفضل أنا أبو بكر محمد بن عبد الله العمري أنا عبد الرحمن بن أحمد بن أبي شريح أنا محمد بن أحمد بن عبد الجبار نا حميد بن زنجوية نا أبو أيوب نا الوليد بن مسلم حدثني إسحاق بن عبيد الله عن ابن أبي مليكة عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) إن للصائم عند فطره دعوة لا ترد قال ابن أبي مليكة فسمعت عبد الله بن عمرو يقول إذا أفطر اللهم إني أسألك برحتمك التي وسعت كل شئ أن تغفر لي

[تاریخ دمشق ابن عساکر برقم: 653]

 

اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے

 

اب چونکہ امام ذھبی نے مذکورہ روایت کے راوی کو اسحاق بن عبید اللہ ابن ابی ملکیہ قرار دیا ہے تو اسحاق بن عبید اللہ بن مھاجر کو امام ذھبی نے مجہول قرار دیے دیا

 

جیسا کہ انکا تعاقب کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی لسان المیزان میں امام ذھبی کا کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

إسحاق بن عبد الله بن أبي المهاجر [تحرف اسم أبيه على الذهبي فجهَّله وهو إسحاق بن عُبَيد الله بن أبي المهاجر]

شيخ للوليد بن مسلم.

دمشقي لا يعرف، انتهى.

وهو رجل معروف وإنما تحرف اسم أبيه على الذهبي فجهَّله وهو إسحاق بن عُبَيد الله بالتصغير أخو إسماعيل بن عُبَيد الله.

ذكره ابن عساكر في تاريخه فقال: سمع سعيد بن المُسَيَّب، وَابن أبي ملكية روى عنه الوليد بن مسلم.

وذكره ابن سميع في الطبقة الرابعة.

وذَكَره ابن حِبَّان في “الثقات”.

وحديثه عن ابن أبي ملكية عند ابن ماجة من رواية الوليد عنه واختلفت النسخ في ضبط والده بالتصغير والتكبير وقد أوضحته في تهذيب التهذيب.

 

اسحاق بن عبداللہ بن مھاجر یہ شیخ ہے ولید بن مسلم کا یہ معروف نہیں ہے

یہاں تک امام ذھبی کا کلام ختم ہوا ۔

 

ابن حجر فرماتے ہیں :

یہ شخص معروف ہے اسکے والد کے میں نام میں تحریف واقع ہونے کی وجہ سے امام ذھبی اس بات سے لا علم رہے یہ اسحاق بن عبید اللہ ہے بالتصغیر اور یہ بھائی ہے اسماعیل کا اسکے بارے امام ابن عساکر نے ذکر کیا ہے اپنی تاریخ میں ،اور ابن حبان نے بھی اسکو ثقات میں شامل کیا ہے

اسکی حدیث ابن ابی ملکیہ سے مروی ہے ابن ماجہ میں جو کہ ان سے ولید بیان کرتا ہے لیکن اسکے والد کے نام میں ضبط کی وجہ سے اختلاف واقع ہوا ہے بالتصغیر اور تکبیر کی وجہ سے (یعنی عبداللہ یا عبیداللہ ) جسکی وضاحت میں نے اپنی کتاب تہذیب میں بیان کر دی ہے ۔

[لسان الميزان برقم: 1040]

 

اب یہاں امام ذھبی کی بات ٹھیک تھی کیونکہ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی ملکیہ کو تو صدوق قرار دیا ہے

لیکن یہ راوی اسحاق بن عبداللہ بن ابی مھاجر ہے اور اسکو کسی نے عبیداللہ قرار ہی نہیں دیا تو یہ مجہول ہی ہے

لیکن امام ابن حجر عسقلانی نے ابن عساکر کی تحقیق کی موافقت کرتے ہوئے امام ذھبی کو ہی لاعلم قرار دیکر اسکو اسحاق بن عبید اللہ ابن ابی مہاجر قرار دے دیا جو کہ غلطی ہے خود امام ابن حجر عسقلانی کی ۔

یہاں تک متقدمین سے متاخرین تک یہ ثابت ہوا کہ سند میں اسحاق بن عبید اللہ ہے نہ کہ اسحاق بن عبداللہ

 

جبکہ سنابلی نے فقط ابن شاھین کی سند میں الاموی آجانے کی وجہ سے اسکو ابن ابی فروہ بنا لیا جو کہ ائمہ علل اور جید محدثین کے تصریحات کے مقابل نہایت ہی کمزور اور بھونڈی دلیل ہے

 

اور جو روایت زیل تاریخ بغداد کو بطور حجت بیان کیا اسکی سند ہی ثابت نہیں ہے ۔ جسکی تفصیل آگے آئےگی۔

 

اور یہاں تک ایک نکتہ یہ بھی طے ہوا کہ اسحاق بن عبیداللہ جو ہے وہ ابن ابی ملکیہ ہے کیونکہ اسکے نام میں محدثین میں اختلاف پایا گیا ہے نہ کہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ کے

 

کیونکہ کتب رجال میں کہیں بھی ابن ابی فروہ کے نام میں اختلاف بیان نہیں ہوا اور نہ ہی یہ اسحاق بن ابی فروہ اور نہ ہی کسی نے اسکو عبداللہ بن ابی فروہ کے شاگردوں میں لکھا ہے

 

جیسا کہ امام مزی لکھتے ہیں :

 

: الوليد بن مسلم القرشي ، أبو العباس الدمشقي مولى بني أمية، وقيل: مولى العباس بن محمد بن علي ابن عبد الله بن عباس بن عبد المطلب الهاشمي.

روى عن: إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة (د) ، وإسحاق ابن عبيد الله بن أبي مليكة (ق)

[تہذیب الکمال برقم: 6737]

 

(نوٹ: امام مزی نے ابن ابی ملکیہ کو اسحاق بن عبیداللہ ہی قرار دیا ہے )

 

البتہ ولید بن مسلم کے شیوخ میں تو اسحاق بن عبداللہ بن فروہ تو آتا ہے اور اسحاق بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ دونوں آتے ہیں

 

لیکن عبداللہ بن ابی ملکیہ کے شاگردوں میں فقط ائمہ علل نے اسحاق بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ کا تذکرہ کیا ہے

جیسا کہ امام بخاری ، ابو حاتم و ابو زرعہ وغیرہم نے تصریح کی ہے

 

تو یہ مضبوط دلیل ہے کہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ کا اس روایت سے کوئی لینا دینا نہیں

 

اب جو سنابلی نے دلیل پیش کی ہے کہ زیل تاریخ میں سند میں عبداللہ بن اسحاق بن ابی فروہ آیا ہے تو اسکا جواب درج ذیل ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سنابلی ہندی لکھتا ہے :

.

✿ اسحاق بن عبداللہ کی تعیین:

اس تفصیل سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس سند میں ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کون مراد ہے تو اما م حاکم ،امام ذہبی اورعلامہ البانی رحمہم اللہ نے یہ احتمال ذکرکیا ہے کہ اس سے مراد ”إسحاق بن عبد اللہ بن أبی فروة، الأموی ،المدنی“ ہوسکتاہے [المستدرک للحاکم، ط الہند 1/ 422 ومعه تعليق الذهبي، إرواء الغليل للألبانی 4/ 43]

عرض ہے کہ یہی با ت متعین ہے ، اس کے متعدد دلائل ہیں ، مثلاً :

● اس کی ایک زبردست دلیل یہ ہےکہ اس کے شاگرد ”ولید بن مسلم“ نے ایک روایت میں اس کا پورا نا م”إسحاق بن عبد اللہ بن أبی فروة” بتادیا ہے،ملاحظہ ہو:

أبو عبد الله محمد بن سعيد ابن الدبيثي ( المتوفی637 ) نے کہا:

”قرأت على أبي محمد عبد العزيز بن أبي نصر البزاز من كتابه، قلت له: أخبركم أبو عبد الله محمد بن رمضان بن عبد الله الجندي، فأقر به، قال: أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الدوري، قال: أخبرنا أبو محمد الحسن ابن علي الجوهري، قال: حدثنا الحسن بن عمر بن حبيش، قال: حدثنا حامد ابن محمد، قال: حدثنا الحكم بن موسى، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة،قال: سمعت عبد الله بن أبي مليكة قال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((إن للصائم عند إفطاره لدعوةً ما ترد)). قال ابن أبي مليكة: فسمعت عبد الله بن عمرو يقول إذا أفطر: ((اللهم إني أسألك رحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي))“ [ذيل تاريخ بغداد لابن الدبيثي 1/ 334 وإسنادہ حسن إلی الولید ، ابن حبیش ھو الحسین بن عمر بن عمران بن حبیش ، ذکرہ الخطیب فی تلامیذ حامد بن محمد، انظر:تاریخ بغداد، مطبعة السعادة 8/ 169]

ولید بن مسلم کے اساتذہ میں بھی اس کا تذکرہ ہے دیکھئے:[ تہذیب الکمال للمزی2/ 446]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب(اسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ روایت امام ابن الدبيثي اپنی ذیل تاریخ میں ایک راوی ابو عبداللہ محمد بن رمضان کے ترجمہ میں لائے ہیں کیونکہ اس راوی کی کوئی توثیق وغیرہ ثابت ہی نہیں یہ مجہول الحال ہے اور امام ابن الدبيثي انکو فقط اس روایت کے تحت جانتے تھے ۔

 

جیسا کہ اسکے بارے لکھتے ہیں :

سمع منه جماعةٌ من شيوخنا. وروى لنا عنه شيخنا أبو محمد عبد العزيز ابن محمود بن الأخضر.

 

اس سے میرے شیوخ کی جماعت نے سماع کیا ہے اور ان سے میرے شیخ ابو محمد نے روایت بیان کی ہے

اور دوسری جگہ اسکے بارے لکھتے ہیں :

 

(قَالَ ابْنُ النجار: كَانَ صالحًا يؤدب الصبيان، ولد سنة خمس وثمانين وأربعمائة، بوادي العقيق من أعمال المدينة. لم يذكر وفاته) .

ابن نجار نے کہا یہ صالح تھا اور یہ ۴۸۵ھ میں پیدا ہوا وادی العقیق میں اور اسکی وفات (کی تاریخ ) کا ذکر نہیں کیا (عدم علم کی وجہ سے )

[ذيل تاريخ بغداد لابن الدبيثي برقم: 180, 94]

 

اور صالح ہونے سے راوی کے ضبط کی دلیل نہیں مل سکتی ہے کیونکہ بہت سے ضعیف اور متروک درجہ کے راوی بھی صالح ہوتے ہیں حتیٰ کے کذاب الحدیث بھی تو جس روایت ابو محبوب راشدی (دیسی پیر) کے ممدوح سنابلی ہندی یزیدی نے عمارت کھڑی کر کے علل کے ائمہ سے مخالفت کی وہ بھی غیر ثابت ہوئی ہے ۔

 

نیز ایک اور دلیل بھی ہماری تائید کرتی ہے جیسا کہ امام خلیلی نے الارشاد میں بیان کیا ہے اسحاق بن عبداللہ ابن ابی فروہ کے ترجمہ میں

 

وہ کہتے ہیں :

 

إسحاق بن عبد الله بن محمد بن أبي فروة المدني غير متفق عليه , ولا مخرج في الصحاح , روى عن مالك

اسحاق بن عبداللہ ابی فروہ یہ مدنی ہے اس پر اتفاق نہیں ہے ۔ اور اسکو صحاح (ستہ) میں کسی نے بھی نہیں لیا

[الإرشاد في معرفة علماء الحديث برقم: 228]

 

تو امام خلیلی کی اس گواہی سے سنابلی یزیدی کے اس دعویٰ کی کوئی وقعت نہیں رہہ جاتی ہے کہ امام ابن ماجہ نے اس سے روایت کیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسکے بعد سنابلی یزیدی امام ابو زرعہ ، امام بخاری اور امام ابو حاتم کے موقف کو اشارا نقل کرتا ہے جسکی تفصیل ہم نے اوپر پہلے تفصیل سے نقل کی ہے

 

جیسا کہ سنابلی ہندی لکھتا ہے :

 

.

✿کچھ وضاحتیں:

❀ امام بخاری ، امام ابوحاتم الرازی ،امام ابوزرعہ رازی اورابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے اس اسحاق کو ”اسحاق بن عبد اللہ بن أبی ملیکة“ بتلایا ہے[ الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:2 /288]

امام ابن حبان نے بھی ”اسحاق بن عبد اللہ المدنی“ لکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن حبان کا بھی یہی موقف ہے[ الثقات لابن حبان ط ، العثمانیة(٦/٤٨) مطبوعہ نسخہ میں تصغیر کے ساتھ ذکرکرنا غلط ہے کیونکہ مخطوطہ میں ایسا نہیں ہے]

اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اسحاق کے والد کا نام ”عبداللہ“ تکبیر کے ساتھ ہی ہے۔ البتہ ان أئمہ نے اس کا تعین ”ابن ابی فروہ“ کے بجائے ”ابن أبی ملیکہ“ سے کیا ہے۔اگر یہ بات مان لی جائے تو بھی یہ روایت ضعیف ہی رہے گی کیونکہ ”ابن ابی ملیکہ“ نامعلوم التوثیق ہے ابن حبان نے اسے ثقات میں صرف ذکرکیا ہے ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب (اسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

عرض ہے کہ امام ذھبی نے تاریخ الاسلام میں اسحاق بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ کو صدوق قرار دیا ہے تو یہ منفرد سند سے حسن بن جائے گی اور اسکو تفصیل سے آگے بیان کرینگے ۔

 

لیکن اس سے پہلے سنابلی ہندی یزید نے ایک دھوکا دیا ہے اپنی تحریر میں اسکو عیاں کرنا یہاں ضروری ہے کہ اس نے امام بیھقی پر کذب بیانی کی ہے اور اپنے موقف کو امام بیھقی کے کھاتے جڑ کر بد ترین خیانت کا مرتکب بھی ہوا ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جیسا کہ سنابلی ہندی لکھتاہے :

 

❀ ”هشام بن عمار“ کی روایت: –

● ھشام سے ان کے شاگرد ”عبید بن عبدالواحد“ کی روایت ثابت ہے ، اس میں بغیر کسی اختلاف کے ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی ہے ، [شعب الإيمان،ت زغلول ،رقم3904 وسندہ صحیح إلی عبید]

یادرہے کہ شعب الإیمان کے دوسرے محقق دکتور عبدالعلی نے جو تصغیر کے ساتھ ضبط کیا ہے یہ قطعی طورپر غلط ہے ،کیونکہ امام بیہقی رحمه الله نے روایت کے بعد پوری صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا ہے :

”وشيخاي لم يثبتاه، فقالا: إسحاق بن عبد الله“ ، ”یعنی میرے دونوں شیخ (یحییٰ بن ابراہیم اور امام حاکم ) نے اپنی سندمیں ايسا (يعني ”عبیداللہ“ ) نہیں بیان کیا ہے بلکہ ”اسحاق بن عبداللہ“ ہی بیان کیا ہے“ [شعب الیمان ت،عبدالعلی،5/ 408]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب (اسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام بیھقی کا مکمل موقف ہم بیان کرتے ہیں تاکہ سب کچھ عیاں ہو جائے

 

پہلی سند جو امام بیھقی بیان کرتے ہیں اس میں اسحاق بن عبد اللہ نام ہے

 

أخبرنا يحيى بن إبراهيم بن محمد بن يحيى، أخبرنا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن أيوب الفقيه، أخبرنا عبيد بن عبد الواحد، حدثنا هشام بن عمار، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا إسحاق بن عبد الله، عن عبد الله بن أبي مليكة، أنه سمعه يحدث، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” للصائم عند فطره دعوة ما ترد “، قال: وسمعت عبد الله يقول عند فطره: ” اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي “.

 

اسکے بعد امام بیھقی پھر امام حاکم کا طریق لاتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی سند میں اسحاق بن عبداللہ بیان کیا تھا

 

چناچہ وہ لکھتے ہیں :

 

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن الدباس، بمكة، حدثنا محمد بن علي بن زيد المكي، حدثنا الحكم بن موسى، حدثنا الوليد بن مسلم، فذكره بإسناده غير أنه قال: سمعت سمعت، وقال عبد الله بن عمرو بن العاص، وزاد في آخره: ” ذنوبي “، وإسحاق هو ابن عبيد الله مدني، يروي عنه الوليد بن مسلم، ويعقوب بن محمد وشيخاي لم يثبتاه، فقالا: إسحاق بن عبد الله.

 

امام بیھقی اپنے دونوں شیوخ سے سند میں اسحاق بن عبداللہ راوی سند میں بیان کرکے پھرکہتے ہیں :

 

انکی بیان کردہ سند کے علاوہ باقیوں نے روایت کے متن میں سمعت سمعت کے الفاظ(عبداللہ بن عمرو بن العاص) کے ساتھ بیان کیے ہیں اور اس میں متن میں زبونی لفظ کا اضافہ ہے

اور اسحاق جو ہے یہ ابن عبیداللہ مدنی ہے(ابن عبداللہ) ان سے ولید بن مسلم اور یعقوب بیان کرتے ہیں اورمیرے دونوں شیوخ نے اپنی سند میں اسکو ثبت نہیں کیااور کہا اسحاق بن عبداللہ ۔(جبکہ اصل راوی اسحاق بن عبیداللہ ہے)

 

پھر اس بات کو مضبوط کرنے کے لیے امام بیھقی اسکا ایک اور طریق بھی نقل کرتے ہیں جس میں اسحاق بن عبیداللہ ہے سند میں

 

اگلی روایت امام بیھقی نقل کرتے ہیں :

 

وقد اخبرنا علی بن احمد بن عبدان انا احمد بن عبید نا احمد بن علی اخزاز نا عیسی بن [مساور] اللولوی نا الولید عن اسحاق بن عبید اللہ المدنی : سمعت فذکرہ ولم یقل فی آخرہ ذنوبی۔

 

اپنے تیسرے شیخ علی بن احمد بن عبدان کے طریق سے سند میں ولید بن مسلم سے اسحاق بن عبید اللہ مدنی کی تصریح سے نقل کرتےہیں

[شعب الإيمان،ت زغلول برقم : 3621 تا 3723،]

 

اب یہاں امام بیھقی نے اپنے دعویٰ کے مطابق دوسری سند میں اسحاق بن عبیداللہ کا ثؓبوت دیا ہے اور اپنے دونوں شیوخ سے اختلاف کیا ہے ۔

 

یعنی امام بیھقی کی مکمل عبارت دیکھنے کے بعد ثابت ہوا کہ امام بیھقی نے خود تعین کرتے ہوئے راوی کو اسحاق بن عبید اللہ قرار دیا ہے اور پھر راوی کو اسحاق بن عبید اللہ مدنی ثابت کرنے کے لیے ایک تیسراطریق نقل اور اس طریق کو نقل کرنے سے پہلے امام بیھقی نے خود تعین بھی کر دیا کہ یہ راوی ابن عبیداللہ مدنی ہے ۔

اور اپنے دو شیوخ یعنی امام حاکم اور یحییٰ بن ابراہیم پر یہ اعتراض کیا کہ انہوں نے اسکو ثبت نہیں کیا ۔ یہ انکی غلطی ہے انہوں نے راوی کے والد کو عبداللہ کہا ۔

 

جبکہ سنابلی یزیدی ہندی نے نا مکمل عبارت بیان کرکے امام بیھقی پر جھوٹ گھڑ دیا ۔

 

اس لیے شعب الإیمان کے دوسرے محقق دکتور عبدالعلی نے جو تصغیر کے ساتھ ضبط کیا ہے جس پر سنابلی ہندی نے اعتراض جڑ دیا جبکہ محقق نے بالکل ٹیھک ضبط کیا تھا کیونکہ امام بیھقی کا یہی فیصلہ تھا ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسکے بعد سنابلی ہندی لکھتا ہے کہ امام ابن حجر نے امام ابن عساکر کی پیروی میں اسکو ابن ابی مہاجر سمجھا ہے

جیسا کہ سنابلی ہندی لکھتا ہے :

 

.

❀ ابن عساکررحمہ اللہ نے اس اسحاق کو ”اسحاق بن عبید اللہ بن أبی المہاجر“ بتایا ہے ،اورانہیں کی پیروی میں ابن حجر اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے بھی اسے ”ابن أبی المہاجر“ مانا ہے ، لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ زیربحث روایت میں اسحاق کوکئی رواة نے مدنی بتایا ہے جبکہ ”ابن أبی المہاجر“ شامی راوی ہے۔ بہرحال یہ راوی بھی نا معلوم التوثیق ہے، لہٰذا اسے ماننے کی صورت میں بھی روایت ضعیف ہی رہے گی ۔ یادرہے کہ اس کو ابن حبان نے بھی ثقات میں ذکر نہیں کیاہے، کیونکہ یہ شامی اور تصغیر کے ساتھ ہے اورابن حبان نے جسے ثقات میں ذکر کیا ہے وہ مدنی اور تکبیر کے ساتھ ہے۔دکتور بشار نے بجاطور پرلکھا:

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب (ااسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام ابن حجر عسقلانی نے واقعی غلط تعین کیا ہے یہ ابن ابی مہاجر نہیں بلکہ ابن ابی ملکیہ ہے جیسا کہ امام بخاری ، ابو زرعہ وابو حاتم امام مزی اور امام ذھبی نے تعین کیا ہے

 

اب چونکہ جمہور ائمہ کی رائے یہی ہے کہ یہ ابن ابی ملکیہ ہے اسحاق بن عبید اللہ اور اسکا ایک اور طریق بھی ثابت ہے جس میں ایک مجہول راوی ہے جیسا کہ سنابلی نے ذکر کیا ہے

 

.

❀حدیث مذکور کا ایک اور ضعیف طریق:

یہی حدیث ایک الگ طریق ”أبو محمد المليكي، عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده“ سے مروی ہے ،دیکھئے:[مسند أبي داود الطيالسي 4/ 20رقم 2376 ، شعب الإيمان 5/ 408رقم 3624]

لیکن اس میں موجود ”أبو محمَّد المليكي“ کا کوئی سراغ نہیں ملتا لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے ،

 

اور سنن ابن ماجہ وغیرہ والی سند چونکہ سخت ضعیف ہے ، اس لئے یہ دونوں مل کی بھی تقویت نہیں پاسکتیں ۔

.

خلاصہ بحث یہ کہ مذکورہ روایت سخت ضعیف ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب (اسد الطحاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ اس سند میں صدوق راوی ہے اور اس سے تقویت پا کر یہ روایت حسن بنتی ہے کیونکہ وہ منفرد سند بھی حسن ہے ۔

 

خلاصہ تحقیق:

 

سند کا اصل راوی اسحاق بن عبید اللہ ہے جسکے بارے میں اختلاف ہے متقدمین میں امام بخاری نے ابن عبداللہ کہا اور مدنی بھی اور امام ابو حاتم و ابو زرعہ نے ابن عبیداللہ کہا اور ابن ابی ملکیہ کی تصریح کی اور باقی باتوں میں امام بخاری سے موافقت کی

یہی رائے

امام مزی

امام ذھبی

امام مغلطائی

کی بھی ہے

 

امام ابن عساکر نے بھی اپنی سند سے اسحاق بن عبید اللہ یہ نقل کیا ہے لیکن انہوں نے ابن ابی مھاجر کا تعین کیا اور انکی موافقت امام ابن حجر نے کی جو کہ انکی خطاء ہے

 

اور جو غیر ثابت کمزور دلائل سنابلی نے پیش کر کے راوی کو اسحاق بن عبداللہ بنانے کی کوشش کی اور پھر اس سے مراد ابن ابی فروہ لیا تو وہ بالکل ہی باطل ہے

 

کیونکہ محدثین ولید بن مسلم کے شیوخ میں ابن ابی ملکیہ اور ابن ابی فروہ کا ذکر تو کیا ہے

لیکن ابن ابی فروہ کے شیوخ میں عبداللہ بن ابی ملکیہ کا تذکر نہیں بلکہ اسکے برعکس اسحاق بن عبیداللہ بن ابی ملکیہ کے شیوخ میں عبداللہ بن ابی ملکیہ کا ذکر کیا ہے

 

نیز امام خلیلی نے بھی یہ کہا ہے کہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ کو تو صحاح ستہ والے مصنفین نے اسکی روایت کی تخریج ہی نہیں کی ہے اپنی کتب میں ۔

 

یہی موقف علامہ شعیب الارنووط کا ہے انہوں نے بھی اس راوی کو ابن ابی ملکیہ قرار دیا ہے

اور دیگر عرب محققین کا بھی

 

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی

 

نوٹ: ابو محبوب راشدی نے تو مجھے بلاک کر رکھا ہے ۔۔۔ تو جو بھی اسکا چیلا ہو تو اس تک اسکی شئیر کردہ جہالت کا جواب پہنچا سکتا ہے