کتاب کیسے اور کیوں پڑھیں؟

(خورشید احمد سعیدی ، اسلام آباد، 12 ذو الحجہ 1442ھ / 23 جولائی 2021ء)

 

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے تین سوالوں پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے. ایک یہ کہ آپ کس نوع کی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ خود آپ کون ہیں؟ تیسرا یہ کہ آپ کوئی کتاب کیوں پڑھنا چاہتے ہیں؟

 

پہلے سوال پر اظہار خیال ہم اپنی کتاب “علوم اسلامیہ میں تحقیقی مقالہ نگاری” ایڈیشن اپریل 2021ء کی فصل چہارم کے مبحث اول میں (صفحہ 130 تا 136) پر کر چکے ہیں. دلچسپی رکھنے والے قارئین وہاں ملاحظہ فرمائیں.

 

یہاں دوسرے اور تیسرے سوال کے متعلق کچھ تفصیل اور ممکنہ جوابات ملاحظہ فرمائیں.

 

1. آپ ایک استاد ہیں اور آپ نے مقررہ کورس پڑھانے ہیں. اس کے لیے نصابی کتاب کے ساتھ ساتھ وسعت مطالعہ کے لیے اضافی مطالعے کے خواہشمند ہیں.

 

2. آپ ایک نگران مقالہ ہیں اور آپ نے اپنی نگرانی میں تحقیقی مقالات لکھنے والے نو آموز تحقیق کاروں کی ٹھوس رہنمائی کرنی ہے.

 

3. آپ ایک استاد ہیں اور ترقی کے لیے تحقیقی پرچہ لکھنا اور کسی ریسرچ جرنل میں شائع کرنا چاہتے ہیں.

 

4. آپ ایک استاد ہیں اور کسی کانفرنس یا سیمینار میں ریسرچ پیپر پڑھنا ہے. اس کے لیے کئی کتابوں کو کھنگالنا ہے.

 

5. آپ ایک استاد، آزاد محقق، مصنف یا مؤلف ہیں اور آپ نے ایک کتاب لکھنی اور شائع کرنی ہے.

 

6. آپ ایم فل / ایم ایس یا پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے ایک تحقیقی مقالہ نگار ہیں. مقررہ مدت کے اندر سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرنا ہے.

 

7. آپ ایک مدرس ہیں. کلاس میں ایک سبق کے موضوع پر اپنے مطالعے کو وسعت دینا چاہتے ہیں تاکہ طلبہ کے متوقع سوالات کے درست جواب دے سکیں یا کسی اعتراض کو حل کر سکیں.

 

8. آپ ایک خطیب ہیں اور عوام سے کسی موضوع پر مناسب خطاب کرنا چاہتے ہیں. اس کے لیے ٹھوس اور وسیع مطالعے کے ضرورت مند ہیں.

 

9. آپ ایک مناظر ہیں اور کسی مناظرے میں کامیابی کے لیے اپنی معلومات کو گہرائی اور وسعت دینا چاہتے ہیں.

 

10. آپ کسی پیر، وزیر، سیاسی لیڈر کے سپیچ رائٹر ہیں اور کم وقت میں مدلل خطاب تیار کرنے کے لیے کتب سے معلومات جمع کرنا چاہتے ہیں.

 

11. آپ کسی پالیسی ساز ادارے میں تحقیق کار کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور تقابلی مطالعہ کے بعد پالیسی سازی کے لیے آراء اور مثالیں تلاش کرنی ہیں.

 

12. آپ کے پاس کرنے کا کوئی اہم کام نہیں ہے. بس وقت گزاری کے لیے کتابوں کا مطالعہ کر رہے ہیں.

 

مذکورہ تمام امور کے اغراض و مقاصد اور اہداف اگرچہ کسی نہ کسی لحاظ سے مختلف ہیں لیکن کتابوں کے مطالعے پر سبھی متفق ہیں.

 

اس سلسلے میں ملازمت کے فرائض کی ادائیگی کے لیے وافر وقت دستیاب نہیں ہے تو آپ سب سے پہلے کتاب کا پیش لفظ، دیباچہ یا مقدمہ غور سے پڑھیں تاکہ کتاب کی تصنیف و تالیف کے اسباب، محرکات اور وجوہات معلوم ہو جائیں. اس کے ساتھ ساتھ آپ کو مصنف / مؤلف کی غرض و غایت اور اہداف بھی معلوم ہو جائیں. اگر وہ آپ کے مقصد، ضرورت اور طلب کو پورا کرنے والی نہ ہو تو پھر اس کتاب کو چھوڑ دیں.

 

کتاب لکھنے میں مصنف؍مؤلف کی غرض و غایت اور اہداف کو درست اور گہرائی سے سمجھنے کا بہتر وسیلہ اس مصنف؍مؤلف کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ ہے۔ کیا وہ ایک مفسر کی حیثیت سے مسلم اور مشہور ہیں ؟ کیا وہ ایک محدث کی حیثیت سے اپنا ایک بلند مقام رکھتے ہیں ؟ کیا وہ ایک اچھے سیرت نگار کے طور پر معروف ہیں؟ کیا وہ ایک صاحبِ اثر مجتہد فقیہ مانے جاتے ہیں؟ کیا وہ ایک شارح، منطقی، مؤرخ، عالم ادیان عالم، سیاست دان، بانی تحریک، معیشت دان، ماہر تعلیم، مُبلّغ، مُناظِر، فلسفی، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، لُغت نویس، تذکرہ نویس، فلم سٹار، قدامت پرست، جدیدیت پسند، مُلحد، افواج کے کلیدی منصب پر فائز ماہر دفاع، شعبہ پولیس میں مُنتظم، جج، وکیل، سائنس دان، ماہر حیوانات، ماہر نباتات، ماہر احجار، تجربہ کار باغبان، ماہر زرعی اجناس، ماہر جسمانی امراض، ماہر حیاتِ طیور، ماہر حیاتِ حشرات، ماہر جدلیات، وغیرہ. کیا وہ کسی ایک علم میں اتھارٹی تسلیم کیا گیا ہے یا ایک سے زائد علوم میں؟

 

لیکن اگر کتاب کا سبب تصنیف و تالیف آپ کی ضرورت سے تعلق رکھتا ہے تو پیش لفظ کے بعد اس کا خاتمہ یا اختتامیہ پڑھیں ورنہ نہیں.

 

پیش لفظ یا مقدمہ کے بعد کتاب کا خاتمہ بھی پڑھ لیا تو معلوم ہوا کہ کتاب مکمل یا جزوی طور پر آپ کے مقصد سے مربوط ہے. اب اس کی فہرست موضوعات پر نظر ڈالیں اور جو فصل یا مبحث دلچسپی کا محسوس ہو اس کی ورق گردانی کریں اور ذیلی سرخیوں کو دیکھیں.

 

اگر اس فصل یا مبحث کی سرخیوں کو دیکھنے کے بعد آپ کی رائے بدل جائے، دلچسپی برقرار نہ رہے تو اسے چھوڑ دیں اور کسی اور فصل یا مبحث کی طرف منتقل ہو جائیں.

 

اسی طریقے اور ترتیب سے پوری کتاب کے ابواب و فصول اور مباحث و ذیلی عناوين کے ساتھ معاملہ کریں.

 

سب سے آخر میں کتاب کے جو حصے رہ گئے ان پر ایک سرسری نظر ڈالیں. ممکن ہے اب نہیں تو بعد میں کسی اور غرض کے لیے آپ کو یا آپ کے کسی سائل کو ان کی ضرورت پڑے. اس کے بعد اس کتاب کو رکھ دیں. اس کا مطالعہ مکمل ہو گیا. اب کسی دوسری کتاب پر یہی طریقہ کار استعمال کریں.

 

اسی دوران آپ ایک یہ کام بھی کر سکتے ہیں کہ اس ورق گردانی کے دوران دلچسپی اور ضرورت کے صفحات پر کاغذ کی چھوٹی چھوٹی پرچیاں رکھتے جائیں تاکہ بعد میں تفصیلی مطالعے کے لیے آن صفحات کو تلاش کرنے پر دوبارہ وقت صرف نہ ہو. ہائی لائٹر یا کسی رنگین قلم کے ساتھ دلچسپی کی سطور یا پیراگرافوں پر نشانات لگا کر کتاب کا حلیہ نہ بگاڑیں تاکہ بعد میں یہ کسی اور قاری کو اپنا منہ دکھانے کے قابل رہے.

 

اس چھان بین اور ورق گردانی کے دوران زیادہ مفید اور درپیش ضرورت کو بہتر طور پر پورا کرنے والی کتابوں کو الگ کر لیں، ان کی درست فہرست تیار کر لیں اور اپنے مناسب وقت میں ان کا بالتفصیل مطالعہ کریں.

 

یاد رکھیں کہ آپ کی مستقل مزاجی اور باقاعدہ تسلسل کے ساتھ مطالعے سے آپ کا علم جتنا وسیع، عریض اور گہرا ہوتا جائے گا کتابوں کی ورق گردانی کے لیے آپ کی رفتار بہت تیز ہوتی جائے گی.

 

آپ روزانہ چند گھنٹوں کے اندر کم از کم بیس کتابوں سے متعارف ہو سکتے ہیں. اور مہینے میں چھ سو کتابوں سے اور سال میں لگ بھگ سات ہزار کتابوں سے. اور دس سالوں میں ستر ہزار کتابوں سے.

 

جب کسی موضوع پر لکھنے یا کسی کو مشورہ دینے کی ضرورت پیش آئے گی تو آپ کو یاد آئے گا کہ متعلقہ مستند معلومات یا مواد کس کس کتاب میں ملے گا.

 

اس درجے پر پہنچ کر آپ لفظ بلفظ تو صرف ان صفحات کو پڑھیں گے جن کی عبارت طلبہ کو کلاس میں پڑھانی ہو گی یا اس سے اقتباس لینا یا کسی لیکچر، خطاب، یا مکالمے میں استدلال مقصود ہوتا ہے.

 

آپ ایک سال میں سات ہزار کتابوں سے متعارف ہونے کا ایک بار تجربہ کر کے دیکھیں پھر اپنے تاثرات سے آگاہ کریں.

 

ممکن ہے کہ پہلے اگر دس کتابوں کی ورق گردانی پر دس گھنٹے لگتے تھے تو کچھ عرصے کے بعد آپ صرف ایک گھنٹہ میں دس کتابوں سے مکمل استفادہ کر لیں گے. تجربہ شرط ہے.

 

اگر آپ مذکورہ منصوبے کے مطابق اپنا مطالعہ زیادہ مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو بہترین وقت رات کا آخری پہر ہے. نماز عشاء کے بعد جلدی سو جائیں. تین ساڑھے تین بجے بستر سے اُٹھ جائیں. اللہ کریم نماز تہجد کی توفیق عطا فرمائے. اس وقت کے سجدوں سے دماغ کو خاص طاقت اور دل کو عجیب فرحت ملتی ہے. اس کے بعد مطالعہ شروع کر دیں اور اس وقت تک جاری رکھیں جب تک اس سے زیادہ ضروری کوئی کام نہ کرنا ہو.

 

اب چند باتیں اس سوال کے جواب میں کہ ہم کتابیں کیوں پڑھیں؟ یا باقاعدہ کتب بینی کی عادت پیدا کرنے اور ان سے استفادے کے محرکات اپنے اندر کیونکر پیدا کریں؟

 

دیکھئے! تمام ذی روح مخلوق بشمول اہل علم انسانوں نے اپنی عمر کے پورا ہونے پر مر جانا ہے. بعد از موت جو اعمال آپ کو فائدہ دیں گے ان میں سے ایک علم ينتفع به ہے. طلبہ کو تدریس کے دوران زیادہ سے زیادہ علمی فائدہ پہنچائیں. عصری مسائل کے پیش نظر مضامین اور کتابیں لکھیں اور شائع کریں. اشاعت علوم اسلامیہ کے ان وسیلوں کے لیے وسیع و عریض مطالعات کی عادت پیدا کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں. مسلم معاشرے کی رہنمائی کے لیے اپنے دور کے ہمہ گیر مفکر، مدبر، فلسفی اور چارہ گر بنیں.

 

اس ذمہ داری سے پہلو تہی کر کے اور اسے کسی اور شخص پر ڈال کر آپ بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ کی تعلیم و تربیت پر غریب عوام کی خون پسینہ کی کمائی کی بہت بڑی دولت خرچ ہوئی ہے. اب آپ اخلاقی طور پر اپنی قوم کے مقروض ہو چکے ہیں. قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ قوم کے غرباء و مساکین اور متوسط طبقے کی بھاری اکثریت پر لاگو ٹیکس، مہنگائی، زکوٰۃ، صدقات وغیرہ آپ پر صرف ہوئے. آپ نے انہیں کیا واپس کیا؟

 

مزید برآں آپ نے سنت نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی پیروی کرتے ہوئے إنذار و تبشیر، دعوت دین، دفاع اسلام، اسلامی معاشرے کا قیام، استحکام، اصلاح کا کام قومی اور بین الاقوامی سطح پر کر کے امت مسلمہ کو مسائل سے نکلنے میں تجاویر دینی اور اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانی ہے تو مختلف زبانوں کے لٹریچر کا مطالعہ نا گزیر ہے. یہ آپ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تقاضا ہے.

 

اس کے لیے آپ کو کسی پڑھنے لکھنے والے مستقل مزاج مصنف / مؤلف کی نگرانی، صحبت یا کم از کم رابطے میں رہنا بہت ضروری ہے جب تک آپ کی گاڑی سیلف سٹارٹ ہو کر شاہراہ حیات پر فل سپیڈ سے دوڑنا شروع نہ کر دے.

 

ہاں آپ علوم اسلامیہ کے ایک تربیت یافتہ عالم دین اور وسائل رکھنے والے مسلم سکالر ہونے کے باوجود اپنے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت کے ساتھ کوئی خاص ہمدردی والا علمی کام نہیں کرنا چاہتے تو مطالعے کو تسلسل سے جاری رکھنے کی مذکورہ تجاویز پر عمل پیرا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟؟؟

 

یہودی، عیسائی، ہندو، ملحدین، مشرکین، مرتدین، منحرفین کا قلم و قرطاس اور سوشل میڈیا جو دین اسلام اور مسلمانوں کی سیاست، سماج، معیشت، اسلامی فکر، مسلم شناخت وغیرہ پر مسلسل حملے کر رہے ہیں وہ آپ کو اپنے حصے کا مضبوط کردار ادا کرنے پر غصہ اور غیرت نہیں دلاتے تو آپ اس پوسٹ میں پیش کردہ فکر کی کوئی پرواہ نہ کریں. اللہ خالق و مالک کے رجال کار مصروف عمل ہیں اور رہیں گے. شاید آپ قرآن مجید میں مذکور عباد اللہ اور حزب اللہ کے رکن نہیں ہوں گے. الله أعلم بالصواب.

 

اگر آپ پڑھنے، لکھنے اور شائع کرنے والوں میں سے نہیں ہیں مگر اس مزاج کے لوگوں میں شامل رہنا چاہتے ہیں تو آپ پڑھنے لکھنے والوں کو ان کی ضرورت کی کتابیں خرید کر دے دیا کریں. مساجد اور محلوں میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں بنا کر بھی دے سکتے ہیں. طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت میں مالی یا انتظامی طور پر شریک ہو جائیں.

 

آپ میری ان معروضات میں کیا اضافہ کرنا چاہیں گے؟

 

(تحریر: خورشید احمد سعیدی ، اسلام آباد، 12 ذو الحجہ 1442ھ / 23 جولائی 2021ء)