وَاِنَّهٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوۡنِؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 61
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنَّهٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوۡنِؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
اور بیشک وہ (ابن مریم) ضرور قیامت کی نشانی ہیں، سو (اے مخاطب ! ) تم قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہی صراط مستقیم ہے
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے نازل ہونے کی تحقیق
الزخرف : ٦٣۔ ٦٢ میں فرمایا : اور بیشک وہ (ابن مریم) ضرور قیامت کی نشانی ہیں، سو (اے مخاطب ! ) تم قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہی صراط مستقیم ہے اور شیطان تم کو روکنے نہ پائے، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے “
حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، ضحاک اور قتادہ سے روایت ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خروج مراد ہے کیونکہ وہ قیامت کی علامتوں میں سے ہیں، وقوع قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے نازل فرمائے گا، جیسا کہ خروج دجال بھی قیامت کی علامتوں میں سے ہے اور اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت عیسیٰ کے آسمان سے نزول کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، احکام نافذ کرنیوالے، عدل کرنے والے، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، حتیٰ کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا اور تم چاہو تو اس کی تصدیق میں یہ آیت پڑھو : ” اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا “۔ (النساء : ١٥٩) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٤٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٨)
حضرت نواس بن سمعان کلابی (رض) ایک طویل حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ ایک صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دجال کے تذکرہ میں فرمایا : حضرت عیسیٰ ابن مریم جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی منارہ پر اس حال میں اتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حلے پہنے ہوئے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوئوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے جب آپ سر نیچا کریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اوپر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٣٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٢١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٤٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور وہ (آسمان سے) نازل ہوں گے، جب تم ان کو دیکھو گے تو پہچان لو گے، ان کا رنگ سرخی آمیزسفید ہوگا، قد متوسط ہوگا، وہ ہلکے زرد حلے پہنے ہوئے ہوں گے، ان پر تری نہیں ہوگی، لیکن گویا ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور وہ لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، جزیہ موقوف کردیں گے، اللہ ان کے زمانہ میں اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو مٹا دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، چالیس سال زمین میں قیام کرنے کے بعدوفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٢٤، مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٧)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میں لوگوں کی بہ نسبت ابن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء باپ شریک بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور امام تم میں سے ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٥٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣٣)
حضرت عیسیٰ کے آسمان سے نزول کے متعلق قرآن مجید کی آیات
وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما اقتلوہ وما صلبوہ ولکن شیہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ وکان اللہ عزیزاً حکیما (النساء : 157-158)
(اور یہود کا کفر) ان کے اس قول کی وجہ سے ہے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا، حالانکہ انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ انہوں نے اس کو سولی دی لیکن ان کے لیے (کسی شخص کو عیسیٰ کا) مشابہ بنادیا گیا تھا اور بیشک جنہوں نے اس کے معاملہ میں اختلاف کیا وہ ضرور اس کے متعلق شک میں ہیں، انہیں اس کا بالکل یقین نہیں ہے، ہاں وہ اپنے گمان کے مطابق کہتے ہیں اور انہوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بہت غالب نہایت حکمت والا ہے
یہود کا کفر کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کے قتل کا دعویٰ کیا
اس آیت میں یہود کے ایک اور کفر کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کا بہت بڑا کفر ہے، کیونکہ اس قول سے یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس میں بہت کوشش کرتے تھے، ہرچند کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قاتل نہیں تھے لیکن چونکہ وہ فخریہ طور پر یہ کہتے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے، اس لیے ان کا یہ قول کفر یہ قرار پایا۔
یہود کا حضرت عیسیٰ کے مشابہ کو قتل کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” انہوں نے (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا نہ انہوں نے ان کو سولی دی لیکن ان کے لیے کسی شخص (عیسیٰ کا) مشابہ بنادیا گیا تھا “۔
امام بو جعفر ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ سترہ حواریوں کے ساتھ ایک گھر میں اس وقت داخل ہوئے جب یہودیوں نے ان کو گھیر لیا تھا، جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی صورت حضرت عیسیٰ کی صورت کی طرح بنادی، یہودیوں نے ان سے کہا : تم نے ہم پر جادو کردیا ہے، تم بہ بتلائو کہ تم میں سے عیسیٰ کون ہے ورنہ ہم سب کو قتل کردیں گے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے کہا : تم میں سے کون آج اپنی جان کو جنت کے بدلہ میں فروخت کرتا ہے ؟ ان میں سے ایک حواری نے کہا : میں ! وہ یہودیوں کے پاس گیا اور کہا : میں عیسیٰ ہوں، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت حضرت عیسیٰ کی طرح بنائی ہوئی تھی، انہوں نے اس کو پکڑ کر قتل کردیا اور سولی پر لٹکا دیا، اس وجہ سے وہ شخص ان کے لیے حضرت عیسیٰ کے مشابہ کردیا گیا تھا، یہودیوں نے گمان کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے اور عیسائیوں نے بھی یہی گمان کرلیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اسی دن اٹھا لیا تھا۔ (جامع البیان جز ٦ ص ١٧، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں :
ابو علی جبائی نے کہا ہے کہ یہودی سرداروں نے ایک انسان کو پکڑ کر قتل کردیا اور اس کو ایک اونچی جگہ پر سولی دے دی اور کسی شخص کو اس کے قریب جانے نہیں دیا حتیٰ کے اس کا حلیہ متغیرہ ہوگیا اور ان یہودیوں نے کہا : ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا تاکہ ان کے عوام اس وہم میں رہیں، کیونکہ یہودیوں نے جس مکان میں حضرت عیسیٰ کو بند کررکھا تھا جب وہ اس میں داخل ہوئے تو وہ مکان خالی تھا اور ان کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ واقعہ یہودیوں کے ایمان لانے کا سبب نہ بن جائے، اس لیے انہوں نے ایک شخص کو قتل کرکے یہ مشہور کردیا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک حواری منافق تھا، اس نے یہودیوں سے تیس درہم لے کر یہ کہا کہ میں تم کو بتادوں گا کہ عیسیٰ کہاں چھپے ہیں، وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے گھر میں داخل ہوا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا گیا اور اس منافق کے اوپر حضرت عیسیٰ کا شبہ ڈال دی گئی، یہودیوں نے اس کو اس گمان میں قتل کردیا کہ وہ حضرت عیسیٰ ہے۔
(امام ابن جریر نے جامع البیان جز ٦ ص ١٨ اور حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر کی ج ٢ ص ٤٣١۔ ٤٣٠ پر اس روایت کو وہب بن منبہ سے بہت تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے) (روح المعانی جز ٦ ص ١٠، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
” بل رفعہ اللہ الیہ “ پر مرزائیہ کے اعتراض کے جوابات
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا “ مرزائی اس آیت سے استدلال کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں رفع سے مراد ہے : روح کا اٹھا لینا، ان کا یہ کہنا اس لیے غلط اور باطل ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ میں کلام سابق سے اضراب ہے، کلام سابق میں جس چیز کی نفی کی ہے ” بل “ سے اضراب کرکے اس چیز کا اثبات کیا ہے، کلام سابق میں مذکور ہے کہ یہود نے کہا تھا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے اور ان کو سولی دی ہے، ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کے جسم مع روح کو قتل کیا ہے اور ان کے جسم مع روح کو سولی دی ہے، کیونکہ روح کو قتل کرنا اور اس کو سولی دینا غیر معقول ہے اور نہ یہ یہود کا دعویٰ تھا۔ پس ” بل “ سے پہلے جسم مع روح کو قتل کرنے کا ذکر تھا تو ” بل “ کے بعد جسم مع روح کے رفع اور اس کے اٹھانے کا ذکر ہے اور اس کو صرف روح کے رفع اور اٹھانے پر محمول کرنا سیاق وسباق اور قواعد نحو کے خلاف ہے اور غلط اور باطل ہے۔ لہٰذا اس آیت سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ کے جسم مع روح کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔
اس آیت سے استدلال پر مرزائیہ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حدیث میں ہے : حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
من تواضع اللہ رفعہ اللہ۔
جس نے اللہ کے لیے تواضع کی اللہ اس کا مرتبہ بلند فرماتا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٧ ص ١٢٩، العلل المتناہیہ ج ٢ ص ٣٢٥، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥١١٩)
سو جس طرح اس حدیث میں رفع کا معنی رفع درجات ہے اسی طرح ” بل رفعہ اللہ الیہ “ کا معنی بھی یہ ہے : اللہ نے حضرت عیسیٰ کے درجات بلند کیے، نہ کہ یہ کہ ان کو زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا۔
اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :
اس حدیث کی سند بہت رقیق ہے، اس میں راوی ہے سعید بن سلام، ابن نمیر نے کہا : یہ کذاب ہے، امام بخاری نے کہا : یہ حدیث وضع کرتا ہے۔ امام نسائی نے کہا : یہ ضعیف ہے، امام احمد بن حنبل نے کہا : یہ عذاب ہے۔ (میزان الاعتدال ج ٣ ص ٢٠٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ٤١٦ ھ)
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ متعین ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ کا معنی یہ ہے : اللہ تعالیٰ نے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا نہ یہ کہ ان کے درجہ کو بلند فرمایا۔
اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ کا معنی ان کا درجہ بلند کرنا مجاز ہے اور مجاز پر اس وقت محمول کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور یہاں حقیقت محال نہیں ہے، نیز ” بل رفعہ اللہ “ کے ساتھ ” الیہ “ بھی مذکور ہے، اگر اس کا معنی درجہ بلند کرنا ہوتا تو پھر الیہ کی ضرورت نہ تھی۔
مرزائیہ کا اس استدلال پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا حالانکہ تمہارا مدعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان والے سے تعبیر کیا گیا ہے، قرآن مجید میں ہے :
ء امنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض فاذاھی تمور (الملک :16)
کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کو آسمان والا تم کو زمین میں دھنسا دے اور زمین اچانک لرزنے لگے
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وحی کے منتظر ہوتے تو آسمان کی طرف دیکھتے تھے :
قد نری تقلب وجھک فی السماء : (البقرہ :144)
بے شک ہم آپ کے چہر کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
اس لیے زیر بحث آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں کا کنایہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور اس کی تائید اور تقویت ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور قرب قیامت میں وہ آسمان سے نازل ہوں گے اور اس پر اجماع امت ہے، مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی براہین احمدیہ میں یہی لکھا ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا۔
” انی متوفیک ورافعک الی “ سے حضرت عیسیٰ کے نزول پر استدلال
اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفروا۔ (آل عمران :55)
(اے رسول مکرم ! یاد کیجئے) جب اللہ نے فرمایا : اے عیسیٰ ! بیشک میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور آپ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور آپ کو کافروں (کے بہتان) سے پاک کرنے والا ہوں۔
اس آیت میں ” متوفیک “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر ” توفی “ ہے اور اس کا مادہ وفات ہے۔ وفات کے معنی ہیں : پورا کرنا، موت کو بھی وفات اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ عمر پوری ہوجاتی ہے۔
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
وافی اس چیز کو کہتے ہیں جو تمام اور کمال کو پہنچ جائے، قرآن مجید میں ہے :
وافوا الکیل اذ کلتم۔ (بنی اسرائیل :35)
اور جب تم ناپو تو پورا ناپو۔
ووفیت کل نفس ماعملت۔ (الزمر :70)
اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
موت پر وفات کا اطلاق کیا جاتا ہے کیونکہ موت کے ذریعہ زندگی کی مدت پوری ہوجاتی ہے اور نیند بھی موت کی بہن ہے، کیونکہ نیند میں بھی اعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور حواس اور مشاعر معطل ہوجاتے ہیں، اس لیے نیند پر بھی وفات کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔ (المفردات ص ٥٢٩۔ ٥٢٨، مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ، ایران، ١٣٤٢ ھ)
اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منا مھا۔ (الزمر :46)
اللہ جانوں کو ان کی موت کے قوت قبض کرلیتا ہے اور جنہیں موت نہیں آئی انہیں ان کی نید میں۔
امام رازی نے ذکر کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ ! میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور آپ کو زمین پر نہیں چھوڑوں گا تاکہ وہ آپ کو قتل کردیں بلکہ اپنی طرف اٹھالوں گا۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٥٧، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٣٩٨ ھ)
امام ابوجعفر محمد بن جریر نے بھی اپنی سند کے ساتھ اس آیت کے متعدد محامل بیان کیے ہیں :
ربیع بیان کرتے ہیں کہ اللہ آپ پر نیند کی وفات طاری کرے گا اور آپ کو نیند میں آسمان پر اٹھالے گا۔
کعب احبار نے بیان کیا کہ اللہ نے آپ کی طرف وحی کی کہ میں آپ کے جسم مع روح کے قبض کرلوں گا اور آپ کو اپنی طرف اٹھالوں گا اور میں عنقریب آپ کو کا نے دجال کے خلاف بھیجوں گا، آپ اس کو قتل کریں گے، پھر اس کے بعد آپ چوبیس سال تک زندہ رہیں گے۔ پھر میں آپ پر موت طاری کروں گا۔ کعب احبار نے کہا : یہ معنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کی تصدیق کرتا ہے، آپ نے فرمایا : وہ امت کیسے ہلاک ہوگی جس کے اول میں، میں ہوں اور جس کے آخر میں عیسیٰ ہیں۔ اور بعض علماء نے کہا : وائو مطلق جمع کے لیے آتی ہے، ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی، اس لیے اس آیت کا معنی یہ ہے : اے عیسیٰ ! میں تمہیں اپنی طرف اٹھائوں گا اور میں تمہیں کافروں (کی تہمت) سے پاک کروں گا اور اس کے بعد دنیا میں نازل کرکے تم پر وفات طاری کروں گا۔
امام ابوجعفر طبری کہتے ہیں کہ ان اقوال میں میرے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ میں آپ کی روح مع جسم کے قبض کرلوں گا، پھر آپ کو اپنی طرف اٹھائوں گا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متواتر احادیث میں ہے کہ عیسیٰ بن مریم زمین پر نازل ہو کر دجال کو قتل کریں گے، پھر ایک مدت تک زمین پر رہیں گے، پھر وفات پائیں گے، پھر مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کو دفن کریں گے۔ پھر امام ابوجعفر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام انبیاء علاتی (باپ کی طرف سے) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں مختلف ہیں اور کا دین واحد ہے اور میں عیسیٰ بن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور وہ میری امت پر میرے خلیفہ ہوں گے، وہ زمین پر نازل ہوں گے، جب تم ان کو دیکھوں گے تو ان کو پہچان لوگے۔ وہ متوسط الخلق ہیں، ان کا رنگ سرخی مائل سفید ہوگا، ان کے بال سیدھے ہوں گے گویا ان سے پانی ٹپک رہا ہے اگرچہ وہ بھیگے ہوئے نہیں ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، فیاضی سے مال تقسیم کریں گے، اسلام کے لیے لوگوں سے جہاد کریں گے حتیٰ کہ ان کے زمانہ میں تمام باطل دین مٹ جائیں گے اور اللہ ان کے زمانہ میں مسیح الدجال کو ہلاک کردے گا اور تمام روئے زمین پرامن ہوگا، اونٹ سانپوں کے چر رہے ہوں گے، بیل چیتوں کے ساتھ چر رہے ہوں گے اور بکریاں بھیڑیوں کے ساتھ، اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیل رہے ہوں گے اور کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ وہ چالیس سال تک زمین رہیں گے، پھر وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کو دفن کردیں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم ضرور زمین پر نازل ہوں گے وہ برحق فیصلہ کریں گے اور نیک امام ہوں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کریں گے، وہ بڑی فیاضی سے مال تقسیم کریں گے حتیٰ کہ کوئی شخص اس مال کا لینے والا نہیں ہوگا اور وہ مقام روحاء پر حج یا عمرہ کرنے کے لیے جائیں گے۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٠٤۔ ٢٠٢، مطبوعہ دارالعرفۃ، بیروت، ١٤٠٩ ھ)
” انی متوفیک ورافعک الی “ یہ مرزائیہ کے اعتراض کا جواب
مرزائی اس آیت سے استدلال پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے ” انی متوفیک “ کا ذکر ہے اور پھر ” رافعک الی “ کا ذکر ہے یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو پہلے وفات یعنی موت دے گا، پھر آپ کی روح کو اپنی طرف اٹھائے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ وفات کا معنی ہے : پورا کرنا اور اس کا معنی موت نہیں ہے اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ میں آپ سے اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آپ کو دشمنوں سے بچائے گا اور اگر بالفرض ” انی متوفیک “ کا معنی یہ ہو کہ میں آپ کو وفات دینے والا ہوں، تب اس آیت کا معنی یوں ہوگا کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور آپ کو وفات دینے والا ہوں، یعنی پہلے آسمان کی طرف آپ کو اٹھائوں گا اور پھر وفات دوں گا، رفع پہلے ہے اور وفات بعد میں ہے لیکن ذکر میں وفات کو مقدم کیا ہے اور رفع کو مؤخر کیا کیونکہ وائو مطلقاً جمع کے لیے آتی ہے ترتیب کے لیے نہیں آتی، جیسے واقع میں رکوع پہلے ہے اور سجدہ بعد میں ہے لیکن قرآن مجید میں ایک جگہ ہے ” واسجدی وارکعی “ (آل عمران :43) سجدہ کر اور رکوع کر۔
” ومکروا ومکر اللہ “ سے حضرت عیسیٰ کے نزول پر استدلال
ومکرو امکرو اللہ واللہ خیر المکرین (آل عمران :54)
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے (ان کے خلاف) خفیہ تدبیر فرمائی
اللہ کی خفیہ تدبیر کے مطابق ایک شخص پر حضرت عیسیٰ کی شبہ ڈالنا
مگر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کے سبب سے کسی شخص کو مخفی طریقہ سے ضرر پہنچایا جائے یا ضرر رسانی کو ملمع کاری سے نفع رسانی بنایا جائے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف مکر کی نسبت ہو تو اس سے مراد خفیہ تدبیر ہے۔ فراء نے بیان کیا ہے کہ کافروں کا مکر یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی سازش کی اور اللہ کا مکر یہ تھا کہ اللہ نے ان کو ڈھیل دی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جب بھی وہ کوئی گناہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ایک نئی نعمت دیتا۔ زجاج نے کہا : اللہ کے مکر سے مراد نہیں ان کے مکر کی سزا دینا ہے، جس طرح قرآن مجید میں ہے : ” اللہ یستھزیء بھم “ یعنی اللہ ان کو ان کے استہزا کی سزا دیتا ہے۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ فرماتے ہیں :
سدی بیان کرتے ہیں کہ بنو اسرائیل نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے انیس (١٩) حواریوں کو ایک گھر میں بند کردیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : تم میں سے کون شخص میری صورت کو قبول کرے گا ؟ سو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس کو جنت مل جائے گی، ان میں سے ایک شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت کو قبول کرلیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان کی طرف چڑھ گئے او یہ اس کا معنی ہے کہ کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٠٢، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت، ١٤٠٩ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی شبہ کسی اور پر ڈال دی گئی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ جب یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے پر متفق ہوگئے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے بچنے کے لیے بھاگ کر ایک گھر میں آئے، حضرت جبریل نے اس گھر کے روشن دان سے ان کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ ان کے بادشاہ نے ایک خبیث شخص یہوذا سے کہا : جائو گھر میں داخل ہو اور ان کو قتل کردو۔ وہ روشن دان سے گھر میں داخل ہوا تو وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پایا اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ ڈال دی۔ جب وہ گھر سے باہر نکلا تو لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت پایا، انہوں نے اس کو پکڑ کر قتل کیا اور سولی پر چڑھادیا، پھر انہوں نے کہا کہ اس کا چہرہ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ ہے اور اس کا بدن ہمارے ساتھی کے مشابہ ہے، اگر یہ ہمارا ساتھی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہاں گئے اور اگر یہ عیسیٰ ہے تو ہمارا ساتھی کہاں گیا، پھر ان کے درمیان لڑائی ہوئی اور بعض نے بعض کو قتل کردیا اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ٤ ص ٩٩، ایران، ١٣٨٧ ھ)
” یکلم الناس فی المھد وکھلا “ سے حضرت عیسیٰ کے نزول پر استدلال
ویکلمہ الناس فی المھد وکھلا ومن الصلحین (آل عمران : ٤٦ )
وہ (مسیح ابن مریم) لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور پختہ عمر میں بھی، اور نیکو میں سے ہوگا
” کہل “ کا معنی ہے : جب شباب پختہ اور تام ہوجائے اور یہ چالیس سے ساٹھ سال کی عمر کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس آیت پر یہ سوال ہے کہ پنگوڑے میں باتیں کرنا تو قابل ذکر امر ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے۔ پختہ عمر میں بات کرنا کون سی خصوصیت ہے جس کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ذکر کیا ہے، اس سوال کے متعدد جوابات ہیں : ایک یہ کہ اس آیت سے مقصودنجران کے عیسائی وفد کا رد کرنا ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے مدعی تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ بچپن سے کہولت تک کا زمانہ گزاریں گے اور اس زمانہ میں ان پر جسمانی تغیرات آتے رہیں گے اور خدا وہ ہوتا ہے جس پر کوئی تغیر اور تبدل نہ آسکے کیونکہ تغیر حدث کو مستلزم ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تینتیس سال کی عمر میں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا، پھر کئی ہزار سال بعد جب وہ آسمان سے اتریں گے تو وہ کہولت اور پختہ عمر کے ہوں گے اور یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے کہ کئی ہزار برس گزرنے کے بعد چالیس سال کے ہوں گے، سو ان کا پنگوڑے میں باتیں کرنا بھی معجزہ ہے اور پختہ عمر میں باتیں کرنا بھی معجزہ ہے کیونکہ لیل ونہار کی گردش اور ہزاروں سال کا گزرنا ان کی جسمانی ساخت پر اثر انداز نہیں ہوا اور جس طرح پختہ عمر میں وہ اٹھائے گئے تھے آسمانوں سے اترنے کے بعد بھی وہ اسی طرح پختہ عمر کے ہوں گے۔
” وان من اھل الکتب الالیومنن بہٖ “ سے حضرت عیسیٰ کے نزول پر استدلال
وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ و یوم القیمۃ یکون علیھم شھیدا (النساء : 159)
اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص اس کی موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ان پر گواہ ہوں گے
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا بیان
اس آیت کی دو تفسیریں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ” قبل موتہ “ کی ضمیر کے مرجع میں دو احتمال ہیں : ایک احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر اہل کتاب کی طرف راجع ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر حضرت عیسیٰ کی طرف راجع ہے۔
پہلی صورت میں اس آیت کا معنی ہوگا : اہل کتاب میں سے ہر شخص اپنی موت سے پہلے ضرور حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئے گا، حضرت ابن عباس (رض) کا یہی مختار ہے، امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : کوئی یہودی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لے آئے۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٧ مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی یہودی محل کے اوپر سے گرے تو وہ زمین پر پہنچنے سے پہلے حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئے گا۔
سدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ہر یہودی اور نصرانی اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریم پر ایمان لے آئے گا، ان پر ان کے ایک شاگرد نے اعتراض کیا : جو شخص ڈوب رہا ہو یا آگ میں جل رہا ہو، یا اس پر اچانک دیوار گرجائے، یا اس کو درندہ کھاجائے، وہ مرنے سے پہلے کیسے ایمان لائے گا ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کے جسم سے اس کی روح اس وقت تک نہیں نکلے گی جب تک کہ وہ حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لائے۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٨۔ ٢٧، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
یہ تفسیر موجوح ہے کیونکہ جو یہودی یا نصرانی لڑائی میں اچانک دشمن کے حملہ سے مرجاتا ہے یا خود کشی کرلیتا ہے یا وہ کسی بھی حادثہ میں اچانک مرجاتا ہے اس کو کب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کا موقع ملے گا اور راجح دوسری تفسیر ہے جس میں یہ ضمیر حضرت عیسیٰ کی طرف راجع ہے، امام ابن جریر نے بھی اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے اور اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت سے پہلے آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، واضح رہے کہ مرزائی پہلی تفسیر کو راجح قرار دیتے ہیں، تاکہ نزول مسیح نہ ثابت ہو، بہرنوع اس صورت میں معنی یہ ہے : ” اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص عیسیٰ کی موت سے پہلے ضرور ان پر ایمان لے آئے گا “۔
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کی موت سے پہلے۔
ابو مالک نے اس کی تفسیر میں کہا : جب حضرت عیسیٰ بن مریم کا زمین پر نزول ہوگا تو اہل کتاب میں سے ہر شخص ان پر ایمان لے آئے گا۔
حسن نے اس کی تفسیر میں کہا : حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے، بہ خدا وہ اب بھی زندہ ہیں لیکن جب وہ زمین پر نازل ہوں گے تو ان پر سب ایمان لے آئیں گے۔
ان زید نے کہا : جب عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے تو دجال کو قتل کردیں گے اور روئے زمین کا ہر یہودی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئے گا۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٦۔ ٢٥، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کی حکمتیں
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان سے نازل کرنے کی حسب ذیل حکمتیں ہیں :
(١) یہود کے اس زعم اور دعویٰ کا رد کرنا کہ انہوں نے حصرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے، اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نازل کرکے ان کے جھوٹ کو ظاہر فرمادے گا۔
(٢) جب ان کی مدت حیات پوری ہونے کے قریب ہوگی تو زمین پر ان کو نازل کیا جائے گا تاکہ ان کو زمین میں دفن کیا جائے کیونکہ جو مٹی سے بنایا گیا ہو اس میں یہی اصل ہے کہ اس کو مٹی میں دفن کیا جائے۔
(٣) جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور آپ کی امت کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ آپ کو ان میں سے کردے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو باقی رکھا حتیٰ کہ آپ آخر زمانہ میں نازل ہوں گے، احکام اسلام کی تجدید کریں گے اور آپ کا نزول دجال کے خروج کے زمانہ کے موافق ہوگا، سو آپ اس کو قتل کریں گے۔
(٤) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے نصاریٰ کے جھوٹے دعو وں کا رد ہوگا جو وہ حضرت عیسیٰ کے متعلق کرتے رہے، وہ ان کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ کہ یہودیوں نے ان کو سولی دی اور وہ مرنے کے بعد تین دن بعد زندہ ہوگئے۔
(٥) نیز حضرت عیسیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کی بشارت دی تھی اور مخلوق کو آپ کی تصدیق اور اتباع کی دعوت دی تھی، اس لیے خصوصیت کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نازل فرمایا۔
مذکورہ استدلال پر مرزائیہ کے اعتراض کا جواب
قرآن مجید میں ہے :
اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک قوق الذین کفرو الی یوم القیمۃ ثم الی مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون (آل عمران :55)
(اے رسول مکرم ! یاد کیجئے) جب اللہ نے فرمایا : اے عسیٰ ! بیشک میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور آپ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور آپ کے پیرکاروں کو (دلائل کے ذریعہ) قیامت تک کافروں پر فوقیت دینے والا ہوں، پھر تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر میں تمہارے درمیان اس چیز کا فیصلہ کروں گا، جس میں تم اختلاف کرتے تھے
اس آیت سے جو چیزیں معلوم ہوتی ہیں : ایک یہ کہ قیامت تک کفار رہیں گے، تبھی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو قیامت تک کفار پر فوقیت حاصل رہے گی اور دوسری چیز یہ ہے کہ قیامت تک اہل کتاب ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہیں گے، حالانکہ آپ نے النساء : ١٥٩ کے ترجمہ میں یہ بیان کیا ہے کہ :” اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص اس کی موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ان پر گواہ ہوں گے “۔ پس اعتراض یہ ہے کہ جب سب مومن ہوجائیں گے تو حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں کا غلبہ کن کافروں پر ہوگا۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آل عمران : ٥٥ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب میں قیامت تک اختلاف رہے گا حتیٰ کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ اور النساء : ٥٩ کی جو آپ نے تقریر کی ہے اس کا مفاد یہ ہے کہ قیامت سے پہلے سب مومن ہوجائیں گے، پھر ان میں اختلاف نہیں رہے گا او یہ آل عمران : ٥٥ کے خلاف ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ پر سب لوگوں کے ایمان لانے سے پہلے اہل کتاب میں اختلاف بھی ہوگا اور ان میں کفار بھی ہوں گے جن پر اہل ایمان دلائل کے اعتبار سے غالب رہیں گے اور یہ واقعہ قیامت سے کچھ پہلے ہوگا، اس لیے اس کو مجازاً قیامت تک سے تعبیر کردیا، جیسا کہ آل عمران : ٥٥ میں ہے اور بعد میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد ان کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب ان کے عبدہونے اور ان کے رسول ہونے پر ایمان لے آئیں گے۔
” وما محمد الا رسول “ سے مرزائیہ کے اعتراض کا جواب
قرآن مجید میں ہے :
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اوقیل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضرا للہ شیئا وسیجزی اللہ الشکرین (آل عمران : 144)
اور محمد (خدا نہیں ہیں) صرف رسول ہیں، ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں، تو اگر وہ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پھر جائوگے تو جو اپنی ایڑیوں پر قھر جائے گا سو وہ اللہ کا کچھ نقصان نہیں کرے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزاء دے گا
مرزائی اس آیت کا یہ معنی کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے تمام رسول فوت ہوچکے ہیں، اس لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات کا عقیدہ رکھنا اور قرب قیامت میں ان کے نزول کا عقیدہ رکھنا اس آیت کے خلاف ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں فرمایا ہے : ” ان سے پہلے اور رسول گزر چکے ہیں “ یہ نہیں فرمایا کہ ان سے پہلے اور رسول فوت ہوچکے ہیں اور اگر بالفرض اس کا یہ معنی ہو کہ ان سے پہلے اور رسول فوت ہوچکے ہیں، تب بھی اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ ان سے پہلے تمام رسول فوت ہوچکے ہیں، حتیٰ کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی فوت ہونا لازم آئے گا اور اگر بالفرض اس کا یہ معنی ہو کہ : ” اور ان سے پہلے تمام رسول فوت ہوچکے ہیں “ تب بھی اس عمومی قاعدہ سے حضرت (علیہ السلام) مستثنیٰ ہوں گے اور استثناء کی دلیل قرآن مجید کی وہ متعدد آیات اور احادیث ہیں جن سے حیات مسیح اور نزول مسیح ثابت ہے جن کو ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں، اس کی نظیر یہ آیت ہے :
یایھا الناس ان خلقنکم من ذکروانثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا۔ (الحجرات :13)
اے لوگو ! ہم نے تم سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو خاندان اور قبیلے بنادیئے تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو۔
انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاحء۔ (الدھر :2)
بیشک ہم نے انسان کو مختلط نطفہ سے پیدا کیا۔
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مرد اور عورت کے مختلط پانی سے پیدا کیا ہے، لیکن اس قاعدہ کلیہ سے حضرت عیسیٰ مستثنیٰ ہیں کہ ان کو بغیر مرد کے پیدا کیا اور حضرت حواء مستثنیٰ ہیں کہ ان کو بغیر عورت کے پیدا کیا اور حضرت آدم بھی مستثنیٰ ہیں کہ ان کو مرد اور عورت دونوں کے بغیر پیدا کیا اور اس استثناء کی قرآن مجید میں اور بھی بہت نظائر ہیں پس اگر ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل “ (آل عمران :144) کا یہ معنی ہو کہ آپ سے پہلے تمام انبیاء (علیہم السلام) فوت ہوچکے ہیں تب بھی اس عموم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مستثنیٰ ہیں، کیونکہ قرآن مجید کی دیگر آیات اور احادیث صحیحہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات اور ان کا آسمان سے نزول ثابت ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی عبارات سے حیات مسیح اور نزول مسیح پر استدلال
مرزا غلام احمد قادیانی متوفی ١٩٠٧ ھ نے لکھا ہے :
سو حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص ہی ناقص چھوڑ کر آسمانوں پر جابیٹھے۔ (حاشیہ در حاشیہ براھین احمد یہ ص ٣٦١ طبع قدیم، ص ٣٧٧ طبع جدید، نظارت اشاعت ربوہ، ١٢٩٧ ھ)
اس عبارت میں غلام احمد قادیانی نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا گیا۔
نیز مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے :
اور فرقانی اشارہ اس آیت میں ہے : ” ھوالذی ارسل رسلوہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ “ (الفتح : ٢٨) یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح (علیہ السلام) دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔ (حاشیہ در حاشیہ براہین احمد یہ ص ٤٩٩ طبع جدید، نظارت اشاعت، ربوہ، ١٢٩٧ ھ)
اس عبارت میں غلام احمد قادیانی نے یہ تصریح کی ہے کہ قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمانوں سے زمین کی طرف نزول ہوگا اور اس سے بھی زیادہ صراحت مرزا غلام احمد قادیانی کی ان عبارات میں ہے، مرزا نے لکھا ہے :
عسی ربکم ان یرحم علیکم، وان عدتم عدنا، وجعلناجھنم للکافرین حصیرا (یہ مرزا کی خود ساختہ عبارت ہے کیونکہ قرآن مجید میں “ ان یرحمکم “ ہے۔ منہ) خدا تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقبوت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے، یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ہونے کا اشارہ ہے۔ یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لیے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خش و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام ونشان نہ رہے گ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست ونابود کردے گا۔
(حاشیہ در حاشیہ براھین احمدیہ ٥٠٦۔ ٥٠٥ طبع قدیم، ص ٥٤٨۔ ٥٤٧ طبع جدید، نظارات اشاعت، ربوہ، ١٢٩٧ ھ)
مرزا غلام احمد قادیانی نے چلیس سال کی عمر میں ” براھین احمدیہ “ لکھی تھی، پھر وہ بارہ سال تک حیات مسیح اور نزول مسیح کے عقیدہ پر جمارہا، پھر باون سال کی عمر میں اس نے اپنا پرانا عقیدہ تبدیل کیا جو دراصل تمام دنیا کے مسلمانوں کا عقیدہ تھا چناچہ اس نے لکھا ہے :
پھر میں قریباً بارہ سال تک جو ایک زمانہ دراز ہے، بالکل اس سے بیخبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے ” براہین احمدیہ “ میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا اور جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ مجھ پر اصل حقیقت کھول دی جائے، تب تو اتر سے اس بارے میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔ (اعجاز احمدی ص ٧ طبی قدیم، ص ٩ طبع جدید، نومبر ١٩٠٢ ء)
اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے :
میں نے براہین احمدیہ میں یہ اعتقاد ظاہر کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پھر واپس آئیں گے، مگر یہ بھی میری غلطی تھی جو اس الہام کے مخالف تھی جو ” براہین احمدیہ “ میں ہی لکھا گیا تھا، کیونکہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ رکھا اور مجھے اس قرآنی پیش گوئی کا مصداق ٹھہرایا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے خاص تھی، وہ آیت یہ ہے : ” ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیھجرہ علی الذین کلہ “ (ایام الصلح ص ٤٦، خزائن ٢٧٢ ص ١٤)
نیز مرزا غلام احمد قادیانی متوفی ١٩٠٨ ء نے لکھا ہے :
اور مجھے یہ کب خواہش تھی کہ میں مسیح موعد بنتا اور اگر مجھے یہ خواہش ہوتی تو ” براہین احمدیہ “ میں اپنے پہلے اعتقاد کی بنا پر کیوں لکھتا کہ مسیح آسمان سے آئے گا ؟ حالانکہ اسی براہین میں خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا ہے، پس تم سمجھ سکتے ہو کہ میں نے پہلے اعتقاد کو نہیں چھوڑا تھا جب تک خدا نے روشن نشانوں اور کھلے کھلے الہاموں کے ساتھ نہیں چھڑایا۔ (تتمہ حقیقت الوحی ص ١٦٣۔ ١٦٢، مطیع میگزین قادیان، ١٩٠٧ ء)
نیز مرزا غلام احمد قادیانی متوفی ١٩٠٨ ء نے لکھا ہے :
میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوگا اور باوجود اس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے ” براہین احمدیہ “ کے حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیش گوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب تھیں وہ سب میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرمایا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے، مگر پھر بھی متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کردیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوں گے۔
اور میری آنکھیں اس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بار کھول کر مجھ کو نہ سمجھایا کہ عیسیٰ بن مریم اسرائیلی تو فوت ہوچککا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا، اس زمانہ اور اس امت کے لیے تو ہی عیسیٰ بن مریم ہے۔ (براھین احمدیہ حصہ پنجم ص ٨٥، نظارات اشاعت ربوہ، دسمبر ١٩٧٨ ء)
مرزا غلام احمد قادیانی نے تسلیم کرلیا کہ ” براھین احمدیہ “ کے پہلے چار حصص میں اس نے تمام مسلمانوں کی طرح یہ عقیدہ رکھا اور اس کو شائع کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وفات نہیں آئی اور وہ آسمانوں پر زندہ ہیں (واضح رہے کہ اس نے چالیس سال کی عمر میں یہ کتاب لکھی) اور پھر لکھا ہے کہ بارہ سال تک وہ اسی عقیدہ پر جما رہا اور بارہ سال بعد اس کو یہ الہام ہوا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پاچکے ہیں اور یہ اس کے کلام میں صریح تناقض ہے اور اس کو خود بھی یہ اعتراف ہے کہ اس کے کلام میں تناقص ہے، اس نے لکھا ہے :
میں نے متناقض باتوں کو براھین میں جمع کردیا ہے۔ (اعجاز احمدی ص ٨ طبیع قدیم، ص ١٠ طبع جدید)
اور مرزا غلام احمد قادیانی نے عبدالحکیم خان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔ (حقیقت الوحی ص ١٨٤، مطبع میگزین قادیان ١٩٠٧ ء)
مرزا غلام احمد قادیانی کے کلام میں تناقض ہے اور اس کے نزدیک جس انسان کے کلام میں تناقض ہو وہ مخبوط الحواس ہے، تو اپنے تحریری اقرار کی وجہ سے مرزا غلام احمد قادیانی مخبوط الحواس ضرور ہوا۔
اس تناقض سے جان چھڑانے کے لیے مرزائی یہ کہہ دیتے ہیں کہ جس طرح قرآن اور حدیث میں ناسخ اور منسوخ آیات اور احادیث ہیں اسی طرح مرزا کی عبارات میں بھی ناسخ اور منسوخ ہیں اور براہین احمدیہ کے پہلے چار حصوں کی وہ عبارات جن سے حیات مسیح ثابت ہے بعد کی عبارات سے منسوخ ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ احکام ہیں مثلاً امرا اور نہی میں ہوتا ہے، اخبار اور عقائد میں نسخ نہیں ہوتا، مثلاً پہلے مسجد اقصیٰ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم تھا بعد میں اس کو منسوخ کردیا یا پہلے کافروں سے نرمی کرنے کا حکم تھا بعد میں اس کو منسوخ کرکے جہاد کا حکم دے دیا، عقائد میں نسخ نہیں ہوتا کہ پہلے یہ عقیدہ ہو کہ مسیح آسمانوں پر زندہ ہیں اور بعد میں یہ عقیدہ ہو کہ نہیں وہ وفات پاچکے ہیں، خود مرزا غلام احمد نے بھی اس کو نسخ نہیں کہا بلکہ یہ لکھا کہ یہ میری غلطی تھی اور میرے کلام میں تناقض ہے۔
نیز مرزا قادیانی نے لکھا ہے :
یہ اس قسم کا تناقض ہے کہ جیسے ” براہین احمدیہ “ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح بن مریم آسمان سے نازل ہوگا، مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خدا تعالیٰ نے ” براہین احمدیہ “ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی، مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جماہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے، اس لیے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل نہ کرنا چاہا، بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اعتقادوہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارے میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صد ہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لیے کھڑے ہوگئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں، ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے ” براہین احمدیہ “ میں لکھ دیا تھا اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کرکے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہوگیا ہے اور آخری خلفہ مسیح موعود کے نام پر اسی امت سے آئے گا (الی ان قال) اسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لیے مجور کردیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں۔ (حقیقۃ الوحی میں ١٤٩۔ ١٤٨، مطیع میزین قادیان ١٥ مئی، ١٩٠٧ ء)
اس کتاب کے آخر میں مرزا قادیانی نے اس کتاب کی تصنیف کی تاریخ ١٥ اپریل ١٩٠٧ ء لکھی ہے اور ١٩٠٨ ء میں مرزا قادیانی کی موت واقع ہوئی، گویا یہ کتاب اس کی آخری تصانیف میں سے ہے اور مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ وہ باون سال تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں پر زندہ مانتا رہا اور باون سال کے بعد اس کو الہام ہوا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوچکی ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس قرآن مجید کی آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پاچکے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ مسیح موعود اور دعویٰ نبوت کا ابطال
اب صورت حال یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیت قطعیۃ الدلالت کا انکار کفر ہوتا ہے اور مرزا قادیانی ان آیات قطعیۃ الدلالت کے بر خلاف باون سال تک عام مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق آسمانوں پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات پر جما رہا، لہٰذا یہ خود اپنے قول اور اپنی تصریح کے مطابق باون سال تک کفر پر جمارہا، بعد میں اسے الہام ہوا کہ وہ خود مسیح موعود اور دیگر کتب میں لکھا ہے کہ وہ نبی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کافر کا الہام کب معتبر ہوتا ہے اور کیا کافر کے دل میں جو بات ڈالی جائی اس کو الہام کہنا صحیح ہے ؟ کافر کے دل میں جو بات ڈالی جائے وہ شیطان کا وسوسہ ہوتا ہے اور شیطان کے وسوسے سے قرآن مجید کی آیت قطعیہ اور احادیث صریحہ کے خلاف مسیح موعود یا نبوت کا دعویٰ کرنا محض باطل ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی جو اپنے قول کے مطابق قرآن مجید کی آیات قطعبۃ الدلالت کے خلاف عقید رکھ کر کافر ہوچکا تھا اس کے بعد میں یہ دعویٰ کرنا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاچکے ہیں اور خود کے لیے مسیح موعود اور نبوت کے الہام اور وحی کا دعویٰ کرنا بالکل باطل ہے کیونکہ کافر کو الہام نہیں ہوتا، اس کو وسوسہ شیطان ہوتا ہے۔
نوٹ : ہمارے نزدیک سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کو نبی یا رسول ماننا کفر ہے اور حیات مسیح اور نزول مسیح کا انکار کرنا شدید ترین گمراہی ہے، البتہ غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود ماننا کفر ہے بلکہ اس کو مسلمان ماننا بھی کفر ہے۔
میں حضرت مولانا عبدالمجید صاحب مدظلہ وزید حبہ وعلمہ لطفہ واسعدہ اللہ تعالیٰ فی الدارین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے مرزا غلام احمد قادیانی کی وہ کتابیں مہیاکیں جن کی مدد سے میں نے یہ مضمون مکمل کیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 61
[…] تفسیر […]