زبیر زئی کے چیلے ابو حمزہ کذابی کی جہالتوں کا علمی جائزہ

ازقلم اسد الطحاوی الحنفی

 

تقلید شخصی کے ردمیں حافظ ذہبی کا پہلا قول :

01۔- قُلْتُ: مَا يَتَقَيَّدُ بِمَذْهَبٍ وَاحِدٍ إِلاَّ مَنْ هُوَ قَاصِرٌ فِي التَّمَكُّنِ مِنَ العِلْمِ، كَأَكْثَرِ عُلَمَاءِ زَمَانِنَا، أَوْ مَنْ هُوَ مُتَعَصِّبٌ،(سير أعلام النبلاء)

ایک مذہب کی اتباع وہی چنتا ہے جو شخص علم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں (دیوبندی بریلوی قادیانی) رکھتا جیسے کہ وقت کے اکثر علماء اوروہ جو اہل ہوا ہو(یعنی تعصبی)۔

 

……………………………………

الجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس گھوپو نے عبارات بھی آدھی لکھی ہیں جس سے عبارت کا مفہوم مبھم ہو گیا ہے

امام ذھبی نے یہ بات مطلق مقلدین کے لیے نہیں لکھی بلکہ خاص تناظر میں امام ابن منذر رحمہ اللہ کےترجمہ میں کہی اور اور امام نووی رحمہ اللہ کی ایک بات کی تا ئید کرتے ہوئے کہی ہے جیسا کہ امام ذھبی امام نووی کا ایک قول نقل کرتے ہیں امام ابن منذر کی معرفت کے بارے :

 

قال الشيخ محيي الدين النواوي :له من التحقيق في كتبه ما لا يقاربه فيه أحد، وهو في نهاية من التمكن من معرفة الحديث، وله اختيار فلا يتقيد في الاختيار بمذهب بعينه، بل يدور مع ظهور الدليل.

 

امام شیخ محی الدین النووی کہتےہیں : اسکی کتابوں میں جو تحقیق ہے کوئی بھی (اسکے زمانے میں ) اسکے قریب نہیں ہے ۔ یہ معرفت حدیث کے علم میں انتہاء کے درجہ تک تھا ۔ اور وہ کسی بھی مسلے میں تقلید نہیں کرتے تھے ایک معین مذہب کی بلکہ خود مختار مسلہ کو اختیار کرنے والوں میں سے تھے ۔اور جب وہ دلیل پر مطلع ہوتے تو اسکی طرف ہو جاتے ۔

 

قلت: ما يتقيد بمذهب واحد إلا من هو قاصر في التمكن من العلم، كأكثر علماء زماننا، أو من هو متعصب، وهذا الإمام فهو من حملة الحجة، جار في مضمار ابن جرير، وابن سريج، وتلك الحلبة – رحمهم الله -.

 

میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ کوئی بھی تقلید نہیں کرتا ایک مذہب کی سوائے اسکے وہ اس علم سے قاصر ہو ، جیسا کہ ہمارے زمانے کے اکثر علماء ہیں یا وہ جو متعصب ہیں ۔

اور یہ امام جو کہ حجت کا درجہ رکھنے والوں میں سے ایک ہیں ۔ یہ اس میدان میں ہے جس میں ابن جریج ، اور ابن سریج درجہ کے لوگ ہیں اسکے جیسے طقبہ کے اور اللہ کی ان پر رحم کرے ۔

 

[سیر اعلام النبلاء ترجمہ امام ابن منذر]

 

معلوم ہوا امام ذھبی نے پہلے دو صورتیں بیان کی ہیں

 

ایک تو یہ کہ معین ایک مذہب کی تقلید وہ کرتا ہے جو اجتیہاد کا علم نہیں رکھتا ۔۔ اور ان میں اکثر علماء کو شامل کیا ہے امام ذھبی نے اپنے زمانے کے یعنی اکثریت معین مذہب کی تقلید کرتی ہے

 

اور اسکے ساتھ یہ شرط لگائی کہ کوئی اس درجہ کا علم رکھتا بھی ہو لیکن متعصب ہو تو بھی وہ معین مذہب کی تقلید کرتا ہے

 

لیکن انکے سوا جو معرفت والے ہیں جیسا کہ ابن منذر ، ابن سریج اور ابن جریج طبقہ کے علماء تو وہ واحد مذہب کی تقلید نہیں کرتے ہیں

جیسا کہ ابن منذر کو امام ذھبی نے شوافع فقھاء میں ہی شامل کیا ہے لیکن اجتیہاد کے درجہ پر فائض قرار دیا ہیں ۔

 

تو کیا اس پورے قول میں امام ذھبی نے کہیں یہ کہاہے کہ ہر کسی کو اجتیہاد کرنا چاہیے یا تقلید کرنا ہی گمراہی ہے ؟ جیسا کہ وابیہ کا موقف ہے

تو یہ دلیل اس گھوپو کی بن ہی نہیں رہی ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اگلی روایت جو حمزہ کذابی نے نقل کی ہے امام ذھبی سے جو کہ درجہ زیل ہے :

 

02۔ تقلید شخصی کے ردمیں حافظ ذہبی کا دوسرا قول :

وكل إمام يؤخذ من قوله ويُترك إلا إمام المتقين الصادق المصدوق الأمين المعصوم صلوات الله وسلامه عليه، فيا لله العجب من عالم يقلد دينه إماما بعينه في كل ما قال مع علمه بما يرد على مذهب إمامه من النصوص النبوية فلا قوة إلا بالله.(تذكرة الحفاظ)

ہر امام کا قول لیا بھی جاتا ہے اور ترک بھی کیا جاتا ہے، سوائے امام المتقین صادق المصدوق الامین المعصوم کے، آپ پر اللہ کی بارگاہ سے صلوۃ سلام ہو، پس اللہ کی قسم، تعجب ہے اس عالم پر جو اپنے دین میں کسی متعین امام کی تقلید کرتا ہے اسکے ہر قول میں،، اس علم کے باوجود کہ احادیث صحیحہ اسکے امام کے مذہب کو رد کردیتی ہیں(ایسے مقلد سے اظہارِ براءت کرتے ہوئے ذہبی نے فرمایا فلا قوة إلا بالله)

 

03۔ تقلید شخصی کے ردمیں حافظ ذہبی کا تیسرا قول :

[أصول الفقه]

يا مقلد، ويا من يزعم أن الاجتهاد قد انقطع، وما بقي مجتهد، ولا فائدة في أصول الفقه إلا أن يصير محصله مجتهدا به، فإذا عرفه ولم يفك تقليد إمامه لم يصنع شيئا، بل أتعب نفسه وركب على نفسه الحجة في مسائل، وإن كان يقرأ لتحصيل الوظائف [و] (57) ليقال، فهذا من الوبال، وهو ضرب من الخبال.(زغل العلم)

اے مقلد یا وہ شخص (علماء) جو خیال کرتا ہے کہ اجتہاد ختم ہوگیا اور کوئی بھی مجتہد نہیں ہے تو تمہیں اصول فقہ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اصولِ فقہ پڑھنے کا تو فائدہ صرف اسی کو ہے جو اس سے مجتہد بن سکے، جب کوئی شخص اصول فقہ جانتا ہے اور پھر بھی اسنے اپنےآپ کو امام کی تقلید سے آزاد نہیں کیا تو اسنے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ فقہ پڑھنے میں خوامخواہ اپنے اپ کو مشقت میں مبتلا رکھا اور اپنے آپ پر کئی مسائل میں حجت قائم کرلی ہے اور اگر اس علم کو نوکری اور شہرت حاصل کرنے کیلئے پڑھتا ہے تو ہی بہت بڑا وبال اور ضرب من الخبال ہے۔

ـــــــــــــــ

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ دو اقوال امام ذھبی کے ہر مقلدکے لیے نہیں بلکہ ان ائمہ کے لیے ہے جو فقہ میں اجتیہاد کے درجہ پر فائض تھے اور اصول میں اپنے امام کے مقلد تھے

اب اسکی تفصیل درج ذیل ہے

 

پہلا یہ قول امام ذھبی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ترجمہ میں بیان کیا ہے کہ انکا علم اور اجتیہاد اس درجہ کا تھا کہ ممکن ہے آدھے جلد پر انکو بیان کیا جائے اور بہت سے ایسے فتاوے ہیں جن میں انکا تفرد ہے

اسکے بعد امام ذھبی مذکورہ بات بیان کرتےہیں

 

اب امام ذھبی نے کن لوگوں پر تعجب کیا ہے کہ جو اپنے امام کی ہر ہر بات کو لیتے ہیں جبکہ سوائے نبی اکرمﷺ معصوم کے باقی ہر کسی کی بات کو رد اور قبول کیا جاسکتا ہے

 

کیا امام ذھبی کا تعجب ہر مقلد پر تھا ؟ جو کہ مجتہد مذہب کی شرط پر بھی نہ اترتا ہو

یا

امام ذھبی نے یہ تعجب ان مقلدین پر کیا ہے جو تقلید کے ساتھ اجتیہاد کی قدرت بھی رکھتے ہیں علم کے سبب اور راجح اور مرجوع کی بنیاد پر اپنے امام سے اختلاف کرنے کا علمی درجہ پر فائز ہیں

 

یقینن امام ذھبی نے دوسرے طربقے کے لوگوں کے بارے یہ کہا ہے

 

اب کچھ وہابی جاہل یہ کہینگے کہ جو اجتیہاد کے درجہ تک ہو وہ مقلد کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیونکہ انکے مولویوں نے ان جہلاء کو یہ پھکی دیکر الو بنایا ہوا ہے کہ ہر انسان مقلد جاہل ہوتا ہے اور ہر مجتہد مقلد نہیں ہوتا

یعنی یہ جس طرح مجتہدین کے طبقات کے منکر ہیں ویسے ہی مدلس راویان کے طبقات کے منکر ہیں

 

فقھا نے مجتہدین کی درج زیل طبقات کو بیان کیا ہے

 

مجتہد کی بنیادی قسمیں دو ہیں:

1. مجتہد مطلق (کلی مجتہد): جس کو کسی بھی پیش آنے والے واقعہ میں اجتہاد کرنے کی قدرت و اہلیت حاصل ہو۔

2. مجتہد فی البعض (جزوی مجتہد): جس کو صرف بعض مسائل میں (ماہر ہونے کی وجہ سے ) اجتہاد کرنے کی قدرت ہو۔

 

اسلامی قانون کے ماہرین نے علما فقہ کو کم و بیش چھ طبقوں میں تقسیم کیا ہے:

1. مجتہد کامل

2. مجتہد فی المذہب

3. مجتہد فی المسائل

4. اصحاب تخریج

5. اصحاب ترجیح

6. اصحاب تمییز

 

اب امام ذھبی سے چند ایک تصریحات پیش کرتے ہیں کہ امام ذھبی نے کن کن مقلدین ائمہ کو مجتہد کے مرتبہ پر فائض کہا ہے

 

زفر بن الهذيل بن قيس بن سلم العنبري أبو الهذيل

 

یہ امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سے ایک ہیں اور فقہ حنفی انکی خدمات ڈھکی چھپی نہیں امام ابو حنیفہ کی رحلت کے بعد امام زفر ہی امام ابو حنیفہ کی مسند پر بیٹھے

 

امام ذھبی انکا تعارف یوں کرواتے ہیں :

 

الفقيه، المجتهد، الرباني، العلامة، أبو الهذيل بن الهذيل بن قيس بن سلم.

قال أبو نعيم الملائي: كان ثقة

وذكره: يحيى بن معين، فقال: ثقة، مأمون.

قلت: هو من بحور الفقه، وأذكياء الوقت.

تفقه بأبي حنيفة، وهو أكبر تلامذته، وكان ممن جمع بين العلم والعمل، وكان يدري الحديث ويتقنه.

 

یہ مجتہد درجہ کے فقیہ و ربانی ہیں

ابو نعیم کہتے ہیں یہ ثققہ تھے اور امام ابن معین کہتے ہیں یہ ثقہ مامون تھے

میں ( الذھبی)کہتا ہوں کہ یہ فقہ کا سمندر تھے اور اپنے وقت کے صالحین میں سےتھے

انہوں نے امام ابو حنیفہ سے فقہ پڑھی ، اور ایہ انکے تلامذہ میں سب سے بڑے تھے ۔ یہ عمل اور علم کا مجموعہ تھے اور حدیث اور فقہ دونوں پر دسترس رکھتے تھے

[سیر اعلام النبلاء ترجمہ امام زفر]

 

دوسرے مقلد مجتہد امام کا ترجمہ :

 

القاضي أبو يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري

هو الإمام، المجتهد ، العلامة، المحدث، قاضي القضاة، أبو يوسف

یہ امام اور مجتہد درجے کے علامہ اور محدث اور قاضیوں کے قاضی ہیں

[سیر اعلام النبلاء ترجمہ امام ابو یوسف]

 

اس بات کا انکار وہابیہ کو بھی نہیں کہ امام ابو یوسف نے اپنے استاذ ابی حنیفہ سے کتنے مسائل میں اختلاف کیا ہے اور کتنے مسائل میں احناف امام ابو یوسف کے فتویٰ پر عمل کرتے ہیں

 

تیسرے مقلد امام

 

القاسم بن معن بن عبد الرحمن الهذ

ابن صاحب النبي -صلى الله عليه وسلم- عبد الله بن مسعود، الإمام الفقيه، المجتهد، قاضي الكوفة، ومفتيها في زمانه، أبو عبد الله الهذلي المسعودي

 

یہ قاسم جو کہ معن کے بیٹے ہیں اور عبد الرحمن کے اور وہ صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود کے بیٹے ہیں

القاسم یہ مجتہد درجے کے فقیہ تھا اپنے زمانے کے اور کوفہ کے قاضی تھے

 

آگے امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں:

 

وكان: ثقة، نحويا، أخباريا، كبير الشأن،

قلت: وكان عفيفا، صارما، من أكبر تلامذة الإمام أبي حنيفة.

 

یہ ثقہ تھے نھوی اخباری اور بڑی شان والے تھے

میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ یہ پاک دامن ، سخت (مزاج) اور امام ابو حنیفہ کے بڑے تلامذہ میں سے ایک تھے

[سیر اعلام ترجمہ امام القاسم بن معن ]

 

اسی طرح چوتھے مقلد مجتہد امام ابو بکر جصاص کے بارے امام ذھبی فرماتے ہیں :

 

أبو بكر الرازي أحمد بن علي الحنفي

لإمام، العلامة، المفتي، المجتهد، علم العراق، أبو بكر أحمد بن علي الرازي، الحنفي، صاحب التصانيف.

وإليه المنتهى في معرفة المذهب.

 

امام ذھبی کہتے ہیں کہ یہ امام مفتی اور عراق کے عالم ہیں اور صاحب تصانیف ہیں

ان پر انکے مذہب کی معرفت کی انتہا ہے

 

تفقه بأبي الحسن الكرخي، وكان صاحب حديث

انہوں نے امام ابوالحسن کرخی سے فقہ (حنفیہ ) سیکھی اور صاحب حدیث تھے

 

اب حنابلہ میں سے مجتہد مقلد امام

ابن قدامة عبد الله بن أحمد بن محمد المقدسي

 

انکے بارے فرماتے ہیں :

 

الشيخ، الإمام، القدوة، العلامة، المجتهد، شيخ الإسلام، موفق الدين، أبو محمد عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة

قال ابن النجار: كان إمام الحنابلة بجامع دمشق، وكان ثقة،

 

یہ شیخ امام علامہ اور مجتہد درجہ کے شیخ الاسلام ہیں

امام ابن نجار کہتے ہیں یہ شیخ الاسلام اور دمشق میں حنابلہ کے امام ہیں

 

معلوم ہوا امام ذھبی علیہ رحمہ ان جیسے لوگوں کے لیے کہہ رہے تھے کہ اگر ان میں کوئی اپنے امام کے ہر قول کو تسلیم کر لے اجتیہاد کی قدرت کے باوجود تو پھر ان پر تعجب ہے

 

اور مزے کی بات جنکا تذکرہ ہم اوپر حنفیہ ائمہ کرام کا پیش کیا ہے امام ذھبی سے انکا اختلاف اپنے امام یعنی امام اعظم سے مشہور و معروف ہے تو یہ امام ذھبی کے تعجب کے دائرے میں نہیں آتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گھوپو کاچوتھا پیش کردہ قول :

 

05۔ حافظ ذہبی تقلید شخصی کے رد پر پانچوا قول:

زَلاَّتِ المُجْتَهِدِيْنَ یعنی مجتہد کی غلطیوں کی تقلید سے منع فرمانا

حافظ ذہبی اور قاضی عیاض کی ایک عبارت کا رد:

قاضی عیاض مالکی نے لکھا:

فقد قال بعض المشائخ: إن الإمام لمن التزم تقليد مذهبه كالنبي عليه السلام مع أمته، ولا يحل له مخالفته (ترتيب المدارك وتقريب المسالك)

مقلد یعنی ہمارے بعض مشائخ نے لکھا:بس امام کے مذہب کی تقلید کی جائے اور وہ امام اسی طرح ہے جیسے نبی اُمت کیلئے ہوتا ہے کہ اس مقلد کیلئے اُس امام کی مخالفت جائز نہیں۔

اس قول کو نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی نے لکھا:

قُلْتُ: قَوْلُهُ: لاَ تَحِلُّ مُخَالَفَتُه: مُجَرَّدُ دَعْوَى وَاجْتِهَادٍ بِلاَ مَعْرِفَةٍ، بَلْ لَهُ مُخَالَفَةُ إِمَامِهِ إِلَى إِمَامٍ آخَرَ، حُجَّتُهُ فِي تِلْكَ المَسْأَلَةِ أَقوَى، لاَ بَلْ عَلَيْهِ اتِّبَاعُ الدَّلِيْلِ فِيْمَا تَبَرهَنَ لَهُ، لاَ كَمَنْ تَمَذْهَبَ لإِمَامٍ، فَإِذَا لاَحَ لَهُ مَا يُوَافِقُ هَوَاهُ، عَمِلَ بِهِ مِنْ أَيِّ مَذْهَبٍ كَانَ، وَمَنْ تَتَبَّعَ رُخَصَ المَذَاهِبِ، وَزَلاَّتِ المُجْتَهِدِيْنَ، فَقَدْ رَقَّ دِيْنُهُ، كَمَا قَالَ الأَوْزَاعِيُّ أَوْ غَيْرُهُ: مَنْ أَخَذَ بِقَوْلِ

المَكِّيِّيْنَ فِي المُتْعَةِ، (متعہ میں مکہ والوں کاقول اختیارکرے)

وَالكُوْفِيِّيْنَ فِي النَّبِيذِ،(نبیذ میں کوفہ والوں)

وَالمَدَنِيِّينَ فِي الغِنَاءِ، (غناء میں مدینہ والوں )

وَالشَّامِيِّينَ فِي عِصْمَةِ الخُلَفَاءِ، (خلفاء کی عصمت کے بارے میں شام والوں )

فَقَدْ جَمَعَ الشَّرَّ.(تواس نے شر اوربرائی کو جمع کرلیا)

میں(ذہبی)کہتاہوں:یہ کہناکہ اس کی مخالفت جائز نہیں محض دعوی ہے اوربغیر معرفت کے اجتہاد کرناہے۔اس کو حق ہے کہ اپنے امام کے قول کو چھوڑ کر دوسرے امام کے قول کو اختیار کرے۔جب کہ اس دوسرے امام کی دلیل زیادہ مضبوط ہو۔جب اس پرواضح ہوجائے۔ اسے دلیل کی پیروی کرنی چاہئے جب وہ واضح ہوجائے ۔ایسانہ ہوجس امام کاکوئی قول اپنی خواہش کے مطابق نظرآئے اس کی

پیروی کرے ۔اورجوشخص مختلف مسلکوں کی رخصتوں پر اورمجتہدین کی لغزشوں پر عمل کرے گاتووہ اپنادین سستاکرے گا۔جیساکہ امام اوزراعی اوران کے علاوہ دیگر علماء نے کہاہے کہ جو متعہ میں مکہ والوں کاقول اختیارکرے،نبیذ میں کوفہ والوں،غناء میں مدینہ والوں کااورخلفاء کی عصمت کے بارے میں شام والوں تواس نے شر اوربرائی کو جمع کرلیا۔اسی طرح جوسودی تجارت میں حیلہ کرنے والوں کاقول اختیار کرے ۔اورطلاق اورنکاح حلالہ میں ان کا جنہوں نے اس میں توسع برتاہے اوراسی کے مشابہ تووہ دین سے نکلنے کیلئے اپنے کو پیش کرتاہے۔ہم اللہ سے عافیت اورتوفیق کے طلبگارہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

الجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس گھوپو کا دماغ بالکل ٹٹی ہے

 

چوتھا قول کو پانچواں بنا دیا

 

خیر امام ذھبی کے اس قول کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصہ میں جو انہوں نے فرمایا کہ امام مجتہد کی خطاء پر جو مقلد مطلع ہو جائے تو اس کے لیے اب تقلید کرنا لازم نہیں

 

اب مجتہد امام کی غلطی پر عامی تو مطلع ہو نہیں سکتے اس وجہ سے امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر نے امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا ہے

اور کئی مسائل میں احناف شیخین کا موقف اصح مان کر انکی اتباع کرتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کے فتوے کو ترک کرتے ہیں

تو ہم احناف اس قول کے دائرے میں نہیں آتے

 

البتہ غیر کے مقلدین آتے ہیں

 

کیونکہ یہ ہر مذہب سے اپنی پسند کے اقوال کو تسلیم کرتے ہیں

 

جیساکہ امام ذھبی نے اوزاعی کا قول نقل کیا تھا

 

جیساکہ امام اوزراعی اوران کے علاوہ دیگر علماء نے کہاہے کہ جو متعہ میں مکہ والوں کاقول اختیارکرے،نبیذ میں کوفہ والوں،غناء میں مدینہ والوں کااورخلفاء کی عصمت کے بارے میں شام والوں تواس نے شر اوربرائی کو جمع کرلیا۔اسی طرح جوسودی تجارت میں حیلہ کرنے والوں کاقول اختیار کرے ۔اورطلاق اورنکاح حلالہ میں ان کا جنہوں نے اس میں توسع برتاہے اوراسی کے مشابہ تووہ دین سے نکلنے کیلئے اپنے کو پیش کرتاہے۔ہم اللہ سے عافیت اورتوفیق کے طلبگارہیں

 

اب وہابی طلاق کے مسلہ میں محمد بن اسحاق کا قول لے لیا باقی سلف کو چھوڑ دیا ، نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسلے میں انہوں نے اپنی پسند کے مطابق شاذ قول اٹھا لیا جبکہ پور امت نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی قائل نہیں

سلف کا اختلاف ناف کے اوپر یا نیچے باندھنے پر ہے بس جیسا کہ امام ترمذی نے بیان کیا ہے

ایسے لوگوں سے امام ذھبی نے اللہ کی پناہ طلب کی ہے

 

آخر میں اس گدھے نے سرخی لگائی کے امام ذھبی کے پسندیدہ لوگ جو تقلید نہ کرتے تھے

 

تو عرض ہے جو ہم نے اوپر ابھی فقط ان مجتہدین کا ترجمہ امام ذھبی سے پیش کیا جو مجتہد ہونے کے باوجود مقلد تھے اور جن میں ۴ تو حنفی ہیں امام ذھبی نے انکی مدح اور علمی جلالت کا خوب اظہار کیا ہے

 

فقط حنفی مقلدین کا ترجمہ بیان کرنے لگ جائیں امام ذھبی کی سیر اعلام سے تو اس وہابی کی نانی مر جانی ہے

 

بطور نمونہ فقط دو کا نقل کرتے ہیں :

 

الكندي أبو اليمن زيد بن الحسن بن زيد

 

الشيخ، الإمام، العلامة، المفتي، شيخ الحنفية، وشيخ العربية، وشيخ القراءات، ومسند الشام، تاج الدين، الكندي، البغدادي، المقرئ، النحوي، اللغوي، الحنفي.

 

شیخ امام علامہ مفتی ، حنفیوں کے شیخ ، اور شیخ العرب ، شیخ القرات اور مسند شام (یہ محدثین کا اعلی ٰ درجہ ہے ) تاج الدین الکندی ، بغدادی ، مقری نحوی لغوی الحنفی

[سیر اعلام النبلاء ]

 

دوسری مثال :

 

شمس الأئمة أبو الفضل بكر بن محمد بن علي بن الفضل

 

امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں :

 

لإمام، العلامة، شيخ الحنفية، مفتي بخارى، شمس الأئمة، أبو الفضل بكر بن محمد بن علي بن الفضل الأنصاري،

كان يضرب به المثل في حفظ المذهب، قال لي الحافظ أبو العلاء الفرضي: كان الإمام على الإطلاق

 

امام علامہ حنیفوں کے شیخ بخارہ کے مفتی شمس الائمہ ابو فضل

یہ اپنے مذہب(حنفی) کو حفظ کرنے میں بے مثال تھے اور مجھے حافظ ابو العلاء کہتے ہیں کہ یہ علی اطلاق امام تھے

[سیر اعلام النبلاء ]

 

امید ہے اسکے لیے اتنی چھترول کافی ہوگی

وگرنہ ابھی ہم نے حنفیہ ائمہ علل اور محدثین میں سے

امام یحییٰ بن معین (جنکو امام ذھبی نے حنفی قرار دیا ہے )

امام یحییٰ بن سعید القطان (جنکو امام ذھبی نے حنفی قرار دیا ہے )

امام ابو یعلی صاحب مسند ابی یعلی (جنکو امام ذھبی نے حنفی قرار دیا ہے )

انکی تفصیل پیش نہیں کی وگرنہ یہ الو مذکورہ بحث چھوڑ کر امام ذھبی کو خطاء کار ثابت کرنے میں لگ جاتا

 

باقی یہ امام ذھبی کے ان اقوالات جو ہم نے پیش کیے جواب دینے سے قاصر رہا ہے ۔ کیونکہ جو اقوال اس نے نقل کیے ہیں امام ذھبی سے امام ذھبی ان اقولات کا اطلاق کس پر کرتے ہیں کہ کون اپنے امام سے اختلاف کر سکتا ہے علم کی بنیاد پر تو انکی تصریح امام ذھبی نے خود کی ہے

 

جیسا کہ امام ذھبی ایک جگہ فرماتے ہیں

 

وَالأَخْذُ بِالحَدِيْثِ أَوْلَى مِنَ الأَخْذِ بِقَولِ الشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيْفَةَ

قُلْتُ: هَذَا جَيِّدٌ، لَكِنْ بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ بِذَلِكَ الحَدِيْثِ إِمَامٌ مِنْ نُظَرَاءِ الإِمَامَيْنِ مِثْلُ مَالِكٍ، أَوْ سُفْيَانَ، أَوِ الأَوْزَاعِيِّ

 

جیسا کہ امام ذھبی نے یہ اعتراض نقل کیا

حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہی

 

اس پر رد کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں:۔

میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالکؒ یا امام سفیانؒ یا امام اوزاعی

[سیر اعلام النبلاء]

 

اس سے صاف معلوم ہوا کہ امام ذھبی کے نزدیک مجتہد سے اجتیہاد کرنے والا علم میں اس مجتہد کے جتنا یا اسکے قریب علم میں معرفت رکھتا ہو وگرنہ اسکو تقلید ہی کرنی پڑے گی

 

اور دوسرا قول امام ذھبی کا وہی ہے

جسکو ہم نے ابن حزم کی مذمت میں امام ذھبی سے نقل کیا تھا جس پر اسکو کیڑے نے تنگ کیا تھا اور اسکا علاج ہم نے پیش کر دیا ہے ۔۔۔۔