أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَمَا بَكَتۡ عَلَيۡهِمُ السَّمَآءُ وَالۡاَرۡضُ وَمَا كَانُوۡا مُنۡظَرِيۡنَ۞

ترجمہ:

سو ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا، نہ زمین اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی

الدخان : ٢٩ میں فرمایا : ” سو ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا، نہ زمین اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی “

نیک آدمی کی موت پر آسمان اور زمین کا رونا

عرب میں دستور ہے کہ جب کسی قبیلہ کا سردار مرجائے تو کہتے ہیں کہ اس کی موت پر آسمان اور زمین رو رہے ہیں، یعنی اس کی موت ایسی مصیبت ہے جو تمام چیزوں پر چھاگئی ہے حتیٰ کہ اس مصیبت پر آسمان اور زمین اور ہوا اور فضا سب چیزیں رو رہی ہیں اور گرم اور سرد راتیں بھی اس پر رو رہی ہیں اور یہ مقولہ اس چیز کو ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ اس کی موت پر گریہ وزاری کرتا واجب ہے اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قوم فرعون ہلاک ہوگئی اور کسی نے بھی اس کی موت کو کوئی بڑا حادثہ نہیں سمجھا اور ان کے نہ ہونے سے لوگوں کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا اور اس آیت میں مضاف مقدر ہے جیسے ” واسئل القریۃ “ (یونس :82) میں ہے اور کا حاصل یہ ہے کہ ان کے غرقاب ہونے پر اور ان کے مرنے پر نہ آسمان والے فرشتے روئے اور نہ زمین والے انسان روئے، بلکہ ان کی ہلاکت پر خوش ہوئے البتہ مومن کی کی موت پر آسمان روتا ہے، حدیث میں ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مومن کے لیے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں، ایک دروازے سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے اور دوسرے دروازے سے اس کا کلام اور اس کا عمل داخل ہوتا ہے پس جب وہ فوت ہوجاتا ہے تو یہ دونوں دروازے اس پر روتے ہیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ” فما بکت علیھم السماء والارض “ (الدخان ٢٩) (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٥، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدث : ٤١٣٣، حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٥٣، ج ٨ ص ٣٢٧، تاریخ بغداد ج ١١ ص ٢١٢)

یعنی قوم فرعون نے زمین میں ایسے نیک اعمال نہیں کیے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد زمین میں ان نیک اعمال کے فراق پر روتی اور نہ آسمان کی طرف ان کے نیک اعمال لے جائے جاتے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد ان نیک اعمال کے فراق پر آسمان روتا۔

مجاہد نے کہا : مومن کے مرنے پر آسمان اور زمین چالیس روز تک روتے رہتے ہیں، ابویحییٰ نے کہا : مجھ ان کے اس قول پر تعجب ہوا تو انہوں نے کہا : تم اس پر کیوں تعجب کرتے ہو، زمین اس شخص کی موت پر کیوں نہ روئے جب کہ بندہ مومن زمین پر رکوع اور سجود کرکے اس کو آباد رکھتا ہے اور آسمان اس کی موت پر کیوں نہ روئے جب کہ اس کی تسبیح اور تکبیر کی آوازیں زمین پر تک پہنچتی تھیں، حضرت علی اور حضرت عباس (رض) نے کہا : زمین پر مومن جس جگہ نماز پڑھتا تھا وہ جگہ اس کی موت پر روتی ہے اور آسمان کی جس جگہ پر اس کے نیک اعمال پہنچتے تھے وہ جگہ اس کی موت روتی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٣٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

شریح بن عبیدالحضری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام ابتداء میں اجنبی تھا اور وہ اجنبیت ہی میں لوٹ جائے گا، سنو ! مومن پر کوئی اجنبیت نہیں ہے، مومن بھی کسی سفر میں مرتا ہے جہاں اس پر کوئی رونے والا نہ ہو تو اس پر آسمان اور زمین روتے ہیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ” فما بکت علیہم السماء والارض (الدخان : 29) پھر فرمایا : زمین اور آسمان کافر پر نہیں روتے۔ (جامع البیان جز ٢٥ ص ١٦٢، رقم الحدیث : ٢٤٠٧٨)

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 29