پاوں سن ہونے والی روایت پر ایک شخص بنام خرم شہزاد کے اعتراضات کا جواب

ازقلم اسد الطحاوی الحنفی

 

موصوف پر ہم ایک پہلے بھی تحریر پوسٹ کر چکے ہیں جس اسکا مدلل رد پیش کیا اور بقول انکے ایک راوی پر مجہول الحال ہونے کی جرح کا جواب دیا اور راوی کی توثیق بھی ثابت کی لیکن موصوف نے ابھی تک جواب نہیں دیا اس تحریر کا اور نہ ہی کمنٹ میں اپنی غلطی تسلیم کی ۔

 

خیر موصوف کے رد میں تحریر لکھی تو موصوف نے ایک صحیح الاسناد روایت جس میں حضرت ابن عمرؓ نے نبی اکرمﷺ کو یا محمد پکار کر استغاثہ کیا تھا جب انکا پاوں سن ہوگیا تھا جسکو امام بخاری نے اپنی الادب المفرد میں روایت کیا ہے

 

روایت کی سند درج زیل ہے :

 

حدثنا ابو نعیم حدثنا سفیان عن ابی اسحاق عن عبد الرحمن بن سعد الخ۔۔

[الادب المفرد للبخاری]

 

مذکورہ سند میں امام ابو اسحاق اپنے شیخ عبد الرحمن بن سعد سے روایت کرتے ہیں

 

اور امام سفیان کی متابعت امام زھیر نے بھی کر رکھی ہے جس میں امام ابو اسحاق اپنے شیخ عبد الرحمن بن سعد سے روایت کرتے ہیں

 

جسکی سند درج زیل ہے :

 

حدثنا احمد بن یونس حدثنا زھیر عن ابی اسحاق السبیعی عن عبدالرحمن بن سعد جئت ابن عمر الخ۔۔

[غریب الحدیث للحربی]

 

اور اسکی تیسری سند اسی کتب میں موجود ہے جس میں امام شعبہ نے بھی یہ روایت امام ابو اسحاق سے بیان کر رکھی ہے جسکی سند درج زیل ہے :

 

حدثنا عفان حدثنا شعبہ عن ابی اسحاق عمن سمع ابن عمر قال الخ۔۔۔

[غریب الحدیث ]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

موصوف نے اس روایت پر معدد اعترضات کر رکھے ہیں جسکا جائزہ لیتے ہیں مختصر!!

 

موصوف کا پہلا اعتراض کرتے ہوا لکھتا ہے :

 

علل حدیث و علم الرجال اور جرح و تعدیل کے ماہر ، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ( 195 ھ ، 277 ھ ) فرماتے ہیں : ابو اسحاق راوی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے لیکن ابو اسحاق کا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے ۔ ( کتاب المراسیل لابن ابی حاتم : صفحہ ، 146 ، ت : 265 ) یہی وجہ ہے کہ ” الادب المفرد للبخاری ” اور دیگر جتنی کتب میں یہ حدیث آتی ہے ان تمام میں راوی ابو اسحاق عن عبدالرحمن بن سعد قال خدرت رجل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ روایت کرتا ہے اور ان تمام کتب میں شعبہ بن حجاج راوی ابو اسحاق سے روایت نہیں کر رہا ، صرف ” غریب الحدیث للحربی ” میں شعبہ بن حجاج راوی ابو اسحاق سے اور ابو اسحاق ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہا ہے ، لہٰذا علل حدیث و رجال کے ماہر امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ کے حکم کے مطابق ابو اسحاق کا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے لہٰذا اس روایت کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ، الغرض ابو اسحاق اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان راوی عبدالرحمن بن سعد ہے اور یہ روایت تمام کتب میں معنعن ہے اور ابو اسحاق کے معنعن کی وجہ سے ضعیف ہے ، ( دوسری علتّ آگے آرہی ہے ان شاءاللہ )

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

موصوف کا موقف بھی یہی ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے والا ابو اسحاق سے عبد الرحمن بن سعد ہے

 

لیکن آگے موصوف سے ایک خطاء ہوئی ہے اور یہ کہ امام شعبہ والی سند جو کچھ یوں ہے

”حدثنا عفان حدثنا شعبہ عن ابی اسحاق عمن سمع ابن عمر”

 

مجھ سے عفان نے حدیث بیان کی ان سے امام شعبہ نے حدیث بیان کی اور انہوں نے امام ابو اسحاق سے اور انہوں نے ان سے جس نے حضرت ابن عمرؓ سے سنا ہے الخ۔۔۔

 

جبکہ موصوف نے یہ سمجھا کہ امام شعبہ نے ابو اسحاق سمع ابن عمر کہا ہے لیکن سمع سے پہلے عمن ہے جسکو موصوف حزف کرگئے اور سمجھے کہ یہ ابو اسحاق نے سمع ابن عمر کہا ہے

 

اور پھر اس غلطی کی بنیاد پر ائمہ علل سے راوی ابو اسحاق سبیعی سے ابن عمر کے سماع کی نفی کے دلائل دینے بیٹھ گئے

 

جبکہ ہما را یا کسی کا دعویٰ یہ ہے ہی نہیں کہ ابو اسحاق نے ابن عمر سے روایت کیا ہے موصوف سند پڑھنے میں خطاء کھائی ہے

تو یہ اعتراض ختم ہوا

 

بلکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ روایت امام ابو اسحاق سبیعی نے عبد الرحمن بن سعد سے ہی بیان کی ہے

 

اور امام ابن معین کی تصریح بھی موجود ہے کہ اس روایت کا اصل راوی عبد الرحمن بن سعد القرشی ہی ہے

 

جیسا کہ امام الدوری نے انکا قول اس روایت کے تحت بیان کیا ہے :

 

سمعت يحيى يقول الحديث الذي يروونه خدرت رجل بن عمر وهو أبو إسحاق عن عبد الرحمن بن سعد قيل ليحى من عبد الرحمن بن سعد قال لا أدري شك العباس سعيد أو سعد

میں نے ابن معین سے سنا کہتے ہوئے حدیث روایت کی جاتی ہے ایک شخص حضرت ابن عمرؓ کے پاس گیا ۔ یہ ابو اسحاق سبیعی بیان کرتے ہیں عبد الرحمن بن سعد کے حوالے سے ۔ اور پوچھا گیا ابن معین سے کہ یہ عبد الرحمن بن سعد کون ہے ؟ تو کہا میں نہیں جانتا

اور عباس (الدوری) کو شک ہے کہ (نام)سعد ہے یا سعید

[تاریخ بن معین بروایت الدوری برقم: 2953]

 

اس سے ایک بات ثابت ہوئی کے امام شعبہ جو روایت کرتے ہیں ابو اسحاق سے اور ابو اسحاق جس راوی کا نام مبھم کر کے بیان کرتے ہیں وہ راوی اصل عبد الرحمن بن سعد ہے

اور اس روایت کے متن سے بھی تصریح ہے جیسا کہ وہ کہتا ہے کہ میں گیا ابن عمر کے پاس ۔

 

پس ثابت ہوا کہ امام شعبہ کے بیان کرنے کے سبب ابو اسحاق کا اس روایت کو عن سے بیان کرنے میں تدلیس کا احتمال ختم ہو گیا کیونکہ امام شعبہ ابو اسحاق سے عن کے صیغے کی بھی فقط وہی روایت بیا کرتے ہیں تھے ان سے جس میں تدلیس نہ ہوتی تھی ابو اسحاق کی

 

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام ابن معین کے نزدیک عبد الرحمن بن سعد راوی مجہول ہے اور وہ انکے حالات پر مطلع نہ ہو سکے ۔

 

اورموصوف کا دوسرا اعتراض بھی یہی تھا جیسا کہ لکھتا ہے :

 

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ میں نہیں جانتا

نبیہ نمبر : ( 1 ) امام نسائی رحمہ اللہ کا اس راوی کی توثیق کرنا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ۔۔

تنبیہ نمبر : ( 2 ) ایسا راوی جس کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نہیں جانتے تو ایسا راوی مجہول ہی ہوتا ہے ۔ ( الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : 3 \ 473 )

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

موصوف نے تنبیہ دیکر وہی گیم کی ہے جو عمومی اس روایت کے تحت غیر مقلدین کے سو کالڈ محققین کرتے ہیں اور فضول اعتراضات جڑ دیتے ہیں

 

امام نسائی سے توثیق کا انکار اس سبب کر دیا کہ ان سے متصل سند ثابت نہیں ہے

 

اصل میں یہ توثیق نقل کرنےوالے امام ابن حجر عسقلانی ہیں

 

انہوں نے تقریب التہذیب بھی امام نسائی سے عبد الرحمن بن سعد کو ثقہ ہی نقل کیا ہے

اور علامہ شعیب الارنووط نے اس پر اعتراض نہیں کیا یعنی انکی بھی موافقت ہے

 

اور ایسے ہی امام ابن حجر نے تہذیب میں بھی اس راوی کے ترجمہ میں امام نسائی سے توثیق نقل کی ہے

 

اور توثیق پر یہ بہانہ بنانا کہ سند نہیں تو یہ فضول اعتراض ہے کیونکہ امام ابن حجر عسقلانی ناقل ہیں نہ کہ روایت کرنے والے

 

اور انہوں نے یہ توثیق کسی سند کے اعتبار سے نقل ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے یہ امام نسائی کی کتاب سے نقل کی ہے تبھی بلجزم ہی امام نسائی سے منسوب کر کے لکھا ہے

 

اور اگر اس قول کی صیحت ثابت نہ ہوتی تو امام ابن حجر عسقلانی اسکو نقل کیسے کرتے اپنی دو کتب میں

 

اور اسکے جواب میں اگر غیر مقلدین یہ کہیں کہ امام نسائی کی کتب سے یہ قول ثابت کر دو تو ان جہلاء کو یہی جواب دیا جائے گا

 

آپ پہلے امام نسائی کی تمام کتب سامنے لے آئیں پھر ہم توثیق بھی پیش کردینگے کیونکہ امام نسائی کی متعدد کتب ایسی ہیں جنکا ذکر امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتب میں کیا ہے لیکن دور حاضر میں وہ مفقود ہیں

تو ثقہ امام کی نقل پر اعتماد ہوگا

 

امام ابن حجر عسقلانی سے اسکے ثبوت بھی موجود ہیں کہ امام نسائی کی کتب کے نسخاجات امام ابن حجر عسقلانی کے پاس موجود تھے جو کہ اب ہم کو میسر نہیں

 

امام ابن حجر عسقلانی کے پاس امام نسائی کی ایک کتاب بنام الجرح والتعدیل کا بھی نسخہ تھا جو کہ رجال کی کتب پر مبنی تھی

 

جیسا کہ تہذیب التہذیب میں امام ابن حجر عسقلانی نے متعدد جگہ اس سے استفادہ کیا ہے :

 

وقال النسائي في كتاب الجرح والتعديل ليس بالقوي

 

وقال النسائي في “الجرح والتعديل”: “ليس بالقوي”,

 

وقال النسائي في الجرح والتعديل: “بل ليس بثقة

 

قلت وقال النسائي في الجرح والتعديل ثقة.

 

اور اسی طرح امام نسائی کی ایک اور کتاب بنام الكنى وفي أسماء جس میں راویان کے نام کے ضبط اور کنیت کے ساتھ جرح و تعدیل کے ساتھ بھی کلام کیا ہے امام نسائی نے

 

اس سے بھی امام ابن حجر نے استفادہ کیا ہے جیسا کہ تہذیب میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

 

قلت: قال النسائي في الكنى وفي أسماء شيوخه ثقة

 

قلت قال النسائي في الكنى

 

اور اسی طرح امام نسائی بعض اوقات کتاب کے نام کی تصریح کے بغیر امام نسائی سے بلجزم بھی نقل کرتے ہیں

 

قلت قال النسائي فيه نظر

 

. قلت: قال النسائي عقبه: “لست أعرف سعيدا ولا إبراهيم”.

 

اور اسی طرح امام ابن حجر نے امام نسائی نے عبد الرحمن بن سعد کے ترجمہ میں لکھا

قلت قال النسائی ثقہ

 

اسی طرح فتح الباری میں امام نسائی کی ایک کتاب التمییز کا بھی ذکر کرتے ہوئے ایک راوی کی توثیق بیان کرتے ہیں :

 

وقال النسائي في التمييز وغيره ثقة

[فتح الباری شرح صحیح البخاری]

 

تو اب یہاں سند کا رولا ڈالنا جہالت اور اصول سے نا واقفی ہے کیونکہ امام نسائی با سند متصل نقل کرنے کا احتمام بھی نہیں رکھتے اور نہ ہی دوسرے متاخرین نقل کرتے ہیں ایسے عمومی طور

 

اس طرح امام نسائی کی اور بھی متعدد کتب ہیں جنکے بارے محدثین متاخرین نے تصریح کی ہے

 

تو امام نسائی کی کتاب سے ہی امام ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے اور ان پرتسامح کا بہانہ بھی نہیں بنایا جا سکتا ہے کیونکہ امام ابن حجر نے دو کتب میں اسکو لکھا ہے

اور تہذیب میں تو قلت کی تصریح کی ہے

 

تو پس امام نسائی سے یہ توثیق ثابت ہے

 

اور باقی امام ابن حبان کا انکو ثقات میں شامل کرنے میں وہ منفرد نہ رہے ۔۔۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اور موصوف نے دوسری تنبیہ بطور پھکی یہ دی کہ جس راوی کو ابن معین مجہول قرار دیں وہ مجہول رہتا ہے تو عرض ہے ایسا کوئی اصول نہیں جب کسی معتبر امام سے راوی کی توثیق مل جائے تو وہ توثیق ہی راجح ہوتی ہے

 

اس طرح تو امام احمد کا قول امام ابن معین کے بارے ہے کہ جو روایت امام بن معین کہیں میں نہیں جانتا وہ حدیث رسولﷺ ہی نہیں ہے

 

تو کیا ایسی روایات جنکا تذکرہ امام ابن معین سے نہیں ملتا یا جن روایات پر امام ابن معین نے جرح کی ہیں اور وہ صحیحین مین ہیں تو کیا ان روایات کا بھی انکار کر دیا جائے گا ؟

تو یہ فضول بات تھی موصوف کی ۔

 

پس یہ حدیث ثابت ہوئی صحیح الاسناد ۔

 

خلاصہ کلام :

ابو اسحاق سے امام شعبہ کے بیان کرنے کی وجہ سے تدلیس کی علت ختم ہوگئی۔

 

اور امام شعبہ کے طریق سے ابو اسحاق نے جس اپنے شیخ کو مبھم بنا کرروایت کیا وہ شیخ عبد الرحمن بن سعد ہیں

جیسا کہ خود امام ابن معین کی تصریح ہے

 

اور اس راوی کی توثیق امام نسائی اور امام ابن حبان دونوں نے کر دی ہے ۔

 

تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی