أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَذٰلِكَ وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍؕ ۞

ترجمہ:

ایسا ہی ہوگا، اور ہم بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کی بیویاں بنائیں گے

حور کا معنی اور جنت میں حوروں سے عقد کا محمل

الدخان : ٥٤ میں فرمایا : ” ایسا ہی ہوگا، اور ہم بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کی بیویاں بنائیں گے “

علامہ محمد بن مکرم ابن منظور افریقی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں :

جس سفید عورت کی آنکھوں کی پتلیاں سیاہ ہوں اس کو حور کہتے ہیں۔ (لسان العرب ج ٤ ص ٢٦٥، داراصادر، بیروت)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

حور کا معنی ہے : حسین و جمیل، روشن چہرے والی عورت، حضرت ابن مسعود نے فرمایا : حور کی پنڈلی کا مغز ستر حلوں اور گوشت اور ہڈی کے پار سے بھی نظر آتا ہے جیسے سفید شیشے کی جگہ میں سرخ مشروب ہو تو وہ دور سے نظر آتا ہے، مجاہد نے کہا : حور کو حور اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے گورے رنگ، صاف اور شفاف چہرے اور اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر آنکھیں حیران ہوجاتی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو حور اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی آنکھیں بہت سفید ہوتی ہیں اور پتلی بہت سیاہ ہوتی ہے جیسے ہرن اور گائے کی آنکھیں ہوتی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآنجز ١٦ ص ١٤٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑی آنکھوں والی حور کا مہر چند مٹھی کھجوریں ہیں اور روٹی کے ٹکڑے ہیں۔ (الکشف والبیان للثعلبی رقم الحدیث : ٢١٧، ج ٨ ص ٣٥٦ )

(اس حدیث کی سند میں ابان بن محبر ہے، ابو حاتم بن حبان نے کہا : اس کی حدیث باطل ہے اور دارقطنی نے کہا : ابان متروک ہے، ابن جوزی نے کہا یہ حدیث موضوع ہے، کتاب الموضاعات ج ٣ ص ٢٥٣ )

ابوقرصافہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجر مسجد سے چچڑیوں کو نکال کر صاف کرنا بڑی آنکھوں والی حوروں کا مہر ہے۔ (الکشف والبیان للثعلبی رقم الحدیث : ٢١٨، ج ٣ ص ٢٥٣ )

اس حدیث کی سند میں عبدالواحد بن زید ہے، یحییٰ بن معین نے کہا : یہ ثقہ نہیں ہے۔ امام بخاری، فلاس اور امام نسائی نے کہا، یہ متروک الحدیث ہے، ابن جوزی نے کہا : یہ حدیث موضوع ہے۔ (کتاب الموضوعات ج ٣ ص ٢٥٤۔ ٢٥٣ )

علامہ سعدی المفتی نے کہا ہے کہ جنت میں عقد نکاح نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا فئدہ ایک عورت کے اعضاء کو حلال کرنا ہے اور جنت دارتکلیف نہیں ہے اور وہاں حلال اور حرام کے احکام نہیں ہیں۔

علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت حواء کا مہور یہ مقرر کیا تھا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دس مرتبہ درود پڑھا جائے اور مہر اس وقت رکھا جانا ہے جب عقد نکاح ہو، لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ عقد نکاح دنیاوی عقود کی طرح نہیں تھا اور اس سے مقصود صرف ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم اور آپ کا تعارف کرانا تھا اور اس مہر کے عوض حضرت حواء کو حضرت آدم (علیہ السلام) پر حلال کرنا نہیں تھا اور اس عقد سے مقود صرف حضرت آدم اور حضرت حواء کے درمیان انس پیدا کرنا تھا اور ان کے درمیان دنیا کی طرح جماع نہیں تھا۔ (روح البیان ج ٨ ص ٥٧٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

دنیاوی عورتیں افضل ہیں یا حوریں ؟

اس میں اختلاف ہے کہ دنیا کی مسلمان عورتیں افضل ہیں یا حوریں افضل ہیں ؟ امام ابن المبارک نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جو عورتیں جنت میں داخل ہوں گی وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے حوروں سے افضل ہوں گی اور حدیث میں ہے :

حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک نماز جناہ پڑھائی، میں نے یادرکھا تھا، آپنی اس کی دعا میں فرمایا تھا : اے اللہ ! اس کی مغفرت کردے، اس پر رحم فرما، اس کو عافیت میں رکھ، اس کو معاف فرما، اس کو اچھی مہمانی عطا فرما، اس کی قبر کو وسیع فرما، اس کے گناہوں کو (رحمت کے) پانی، برف اور اولوں سے دھوڈال اور اس کو گناہوں سے اس طرح پاک کردے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف ہوجاتا ہے اور اس کو دنیا کے گھر سے اچھا گھر عطا فرما اور اس کی دنیاوی بیوی سے اچھی بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل کردے اور اس کو عذاب قبر سے محفوظ رکھ، عوف کہتے ہیں کہ حتی کہ میں نے یہ تمنا کی : کاش ! میں وہ میت ہوتا جس کے لیے دعائیں فرمائی تھیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٦٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٢٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٩٨٢، مسند احمد ج ٦ ص ٢٨ )

اس حدیث میں آپ نے فرمایا : اس کی دنیاوی بیوی سے اچھی بیوی عطا فرما، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی آنکھوں والی حوریں دنیاوی عورتوں سے افضل ہوں گی۔

حافظ جلال الدین سیوطی نے حوروں کی فضیلت میں حسب ذیل احادیث بیان کی ہیں :

امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑی آنکھوں والی حوریں زعفران سے پیدا کی گئیں ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٥٥٩ )

امام ابن ابی شیبہ نے حضرت مجاہد (رض) سے روایت کیا ہے کہ بڑی آنکھوں والی حور کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے آتی ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٥٦٠ )

امام ابن المبارک نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی آنکھوں والی حوروں کو مٹی سے پیدا نہیں کیا، ان کو مشک، کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے۔

امام ابن مردویہ اور امام دیلمی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی آنکھوں والی حوروں کو فرشتوں کی تسبیح سے پیدا کیا ہے۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٦٥۔ ٣٦٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

ایک حدیث میں ہے کہ حوروں کی مشک، کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے اور دوسری حدیث میں ہے : ان کو فرشتوں کی تسبیح سے پیدا کیا ہے، ان میں تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تسبیح کو مشک، کافور اور زعفران سے ڈھال دیا ہو اور پھر اس سے حوروں کو پیدا کردیا ہو۔

ایک قول یہ ہے کہ حوروں سے مرادیہاں دنیا کی بیویاں ہیں او یہی جنت میں حوریں ہوں گی جو کہ مشک، زعفران اور کافور سے بنی ہوگی، بلکہ یہ دنیاوی بیویاں بڑی آنکھوں وال حوروں سے زیادہ حسین ہوں گی اور انسان کی جو دنیا میں بیویاں ہوں گی وہ اس کو جنت میں مل جائیں گی اور ان کے علاوہ حوریں بھی ملیں گی اور اگر کافر کی بیوی جنت میں گئی تو اللہ تعالیٰ اس کو جس مسلمان کو چاہے گا عطا فرمادے گا اور حدیث میں ہے کہ فرعون کی بیوی آسیہ جنت میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہوگی۔ (روح المعانی جز ٢٥ ص ٢٠٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ مسلمان جنتی عورت بڑی آنکھوں والی حوروں سے ستر درجہ افضل ہوگی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٧ ص ١٤٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

یہ حدیث مجھ کو نہیں ملی اور صحیح مسلم کی جو حدیث ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں اس میں یہ تصریح ہے کہ حور دنیاوی عورت افضل ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 54