أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ مَا كُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَاۤ اَدۡرِىۡ مَا يُفۡعَلُ بِىۡ وَلَا بِكُمۡؕ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ وَمَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِيۡرٌ مُّبِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور نہ میں ازخود جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور (نہ میں ازخود یہ جانتا ہوں کہ) تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں صرف واضح طور پر عذاب سے ڈرانے والا ہوں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور نہ میں از خود جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ میں از خود یہ جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں صرف واضح طور پر عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ آپ کہیے کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کا کفر کرچکے ہو (تو پھر تمہارا کیا انجام ہوگا ! ) اور بنی اسرائیل کا ایک شخص اس جیسی کتاب کی گواہی دے چکا ہو اور اس پر ایمان بھی لا چکا ہو، اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہاری عاقبت کیسی ہوگی ! ) بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(الاحقاف : ١٠۔ ٩)

الاحقاف : ٩ میں جس لفظ کا معنی ہم نے انوکھا کیا ہے، اس آیت میں اس کے لئے ” بدیع “ کا لفظ ہے اس کا مادہ ” بدع “ ہے۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

” ابداع “ کا معنی ہے : کسی چیز کو ابتداء بنانا، بغیر اس کے کہ اس سے پہلے کسی اور نے اس چیز کو بنایا ہو، جو کنواں نیا نیا کھودا گیا ہو عرب اس کو ” رکیتہ بدیع “ کہتے ہیں اور جب اس لفظ کو اللہ سبحانہٗ کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کا معنی ہے : کسی چیز کو آلہ، مادہ اور زمان و مکان کے بغیر پیدا کرنا اور یہ کام تو صرف اللہ عزوجل ہی کرسکتا ہے اور بدیع ابداع کرنے والے کو کہتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے : ” بدع السموت والارض “ (البقرہ : ١١٧، الانعام : ١٠١) اور قرآن مجید میں ہے : ” قل ما کنت بدعامن الرسل “ (الاحقاف : ٩) اس آیت میں ” بدعا “ کا معنی ہے : ” مبدعا “ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ میں سب سے پہلا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے کوئی رسول نہ آیا ہو اور اس وجہ سے تم میری رسالت کو رد کردو اور ایک قول یہ ہے کہ میں تم سے کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا۔

مذہب میں بدعت کا معنی یہ ہے کہ کوئی ایسا قول پیش کرنا جس کی بنیاد شریعت پر نہ ہو اور شریعت میں اس سے پہلے ایسی مثال نہ ہو۔ حدیث میں ہے : دین میں ہر نیا کام نکالنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گم راہی دوزخ میں ہے۔(سنن نسائی رقم الحدیث : ١٥٧٨) (المفردات ج ١ ص ٤٩، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

” سنن نسائی “ کی حدیث میں جس بدعت کا ذکر ہے اس سے مراد بدعت سیئہ ہے کیونکہ مطلقاً بدعت مذموم نہیں ہے، حدیث میں ہے :

حضرت جریر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس (مسلمان) نے اسلام میں کوئی نیک طریقہ ایجاد کیا اس کو اس ایجاد کا اجر ملے گا اور ان کا اجر بھی ملے گا جنہوں نے اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا اور ان کے اجور میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اس ایجاد کا گناہ ہوگا اور ان کا گناہ بھی ہوگا جنہوں نے اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٧، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٥٥٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٣)

علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث کی وجہ سے اس حدیث میں تخصیص کی جائے گی جس میں مذکور ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور اس سے مراد وہ نئے کام ہیں جو باطل ہوں اور وہ بدعات مراد ہیں جو مذموم ہوں، اس کی تفصیل ” کتاب الجمعۃ “ میں گزر چکی ہے اور وہاں ہم نے لکھا ہے کہ بدعت کی پانچ اقسام ہیں : بدعت واجبہ، ستحبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ۔(صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٤ ص ٢٨٠٦، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ کرمہ، ١٤١٧ ھ)

علامہ نووی نے ” کتاب الجمعۃ “ میں بدعت کی حسب ذیل شرح کی ہے :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ہر بدعت گمراہی ہے۔ یہ عام مخصوص البعض ہے اور اس سے مراد غالب بدعات ہیں۔

علماء نے کہا ہے کہ بدعت کی پانچ اقسام ہیں : (١) واجبہ (٢) مستحبہ (٣) محرمہ (٤) مکروہہ (٥) مباحہ۔

واجبہ : بےدینوں، بدمذہبوں اور اصحاب بدعات سیہ کے رو پر دلائل قائم کرنا۔

مستحبہ : علوم دینیہ کی کتابوں کو تصنیف کرنا، مدارس اور سرائے وغیرہ کو تعمیر کرنا (اسی طرح ہسپتال اور دارالامان بنانا) ۔

مباحہ : نئے نئے قسم کے عمدہ کھانے کھانا اور نئے نئے خوبصورت لباس پہننا۔

(صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٤ ص ٢٤٦٨، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ)

علامہ نووی نے بدعت مکروہہ اور بدعت محرمہ کی تعریفات کا ذکر نہیں کیا اور یہ کہا ہے کہ ان کی تعریفیں ظاہر ہیں لیکن ہم اس بحث کو مکمل کرنے کے لے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ سے ان کی تعریفیں ذکر کر رہے ہیں :

بدعت مکروہہ : جیسے مساجد کو مزین کرنا (یا نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو لازم سمجھنا یا عمامہ باندھنے کو لازم سمجھنا) ۔

بدعت محرمہ : وہ اعتقاد یا وہ عمل جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول اعتقاد یا عمل کے خلاف ہو اور اس کی بنیاد کسی قسم کا شبہ یا استحسان ہو اور اس کو دین قویم اور صراط مستقیم بنا لا ہو جیسے شیعہ کا پیروں کو دھونے کے بجاے ان پر مسح کرنا یا معتزلہ کا مموزوں پر مسح کرنے کا انکار کرنا (یا جیسے علماء دیوبند کا سوئم، چہلم اور عرس کی فاتحہ اور ایصال ثواب کو ناجائز اور حرام کہنا) ۔

(ردالمحتار ج ٢ ص ٢٥٦، داراحیا التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر کفار مکہ کے اعتراضات کا جواب

کفار نے قرآن مجید کے متعلق یہ کہا تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ازخود گھڑ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان تراش کر یہ کہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، پھر انہوں نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں اور طرح طرح کے شبہات پیش کئے، ایک شبہ یہ تھا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طرح طرح کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز معجزات طلب کرتے تھے، مثلاً یہ کہ آپ ان کے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں یا آپ خود اپنے لئے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ بنالیں جس کے درمیان بہت سی نہریں جاری کر کے دکھائیں یا آپ ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرائیں یا آپ اللہ کو اور فرشتو کو ہمارے سامنے لاکھڑا کردی یا آپ کے لئے اپنا سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں یا آپ کوئی کتاب نازل کر کے دکھائیں جس کو ہم خود پڑھ سکیں۔ (دیکھئے بنی اسرائیل : ٩٣۔ ٩٠) اور وہ آپ سے یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ آپ ان کو غیب کی خبریں دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے شبہات کا یہ جواب دیا کہ آپ کہیے کہ میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں، یعنی میں کوئی پہلا رسول نہیں ہوں کہ تم مجھ سے اس طرح کے عجزات طلب کر رہے ہو اس لئے تمہیں مرے دعوی رسالت کو رد کرنا نہیں چاہیے اور نہ میرے اس پیغام کو مسترد کرنا چاہیے کہ اللہ سبحانہٗ ہی واحد مستحق عبادت ہے اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہیں کرنا چاہیے اور مجھ سے پہلے تمام رسول اسی پیغام کو لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس سے آئے تھے اور میں اپنی رسالت پر معجزہ پیش کرچکا ہوں جو اللہ کا کلام ہے جس کی نظیر تم سب مل کر بھی لانے سے عاجز ہو۔

اور تم نے مجھ سے جو حیرت انگیز معجزات اور غیب کی خبروں کا مطالبہ کیا ہے تو سنو ! اللہ سبحانہٗ کے اذن اور اس کی اجازت کے بغیر میں کوئی معجزہ پیش کرسکتا ہوں نہ کوئی غیب کی خبر دے سکتا ہوں، از خود میں کسی چیز پر قادر نہی ہو اور نہ مجھ سے پہلے کوئی رسول از خود ممعجزہ پیش کرتا تھا، نہ از خود غیب کی خبر دیتا تھا اور میں بھی ان رسولوں کی جنس میں سے ایک رسول ہوں تو جن چیزوں پر دوسرے رسول قادر نہی تھے ان پر میں کیسے قادر ہوسکتا ہوں ؟

نیز کفار سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یہ طعن کرتے تھے کہ آپ کھانا کھاتے ہیں، بازارو میں چلتے ہیں اور آپ کے اکر متبعین فقراء ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کہیے کہ میں رسووں میں سے کوئی انوکھا رسو نہیں ہوں، تمام گزشتہ رسولوں کی یہی صفات تھی جو میری صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قدرت دینے کے بغیر وہ کسی چیز پر قادر تھے نہ میں قادر ہوں اور اس کے عم دیئے بغیر نہ وہ غیب کی خبر دینے پر قادر تھے نہ میں قادر ہوں اور رہا کھانا کھانا، بازاروں میں چنا اور متبعین کا نادار ہونا تو یہ اوصاف پہلے نبیوں میں بھی تھے اور مجھ میں بھی ہیں تو جس طرح یہ اوصاف گزشتہ انبیاء کی نبوت میں موجب طعن نہیں تھے اسی طرح میری نبوت میں بھی موجب طعن نہیں ہیں۔

الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں مفسرین کی آراء

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اور آپ کہیے) اور نہ میں از خود جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور (نہ میں از خود یہ جانتا ہوں کہ) تمہارے ساتھ کیا کیا جاے گا۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے تین قول ہیں :

(١) بعض مفسرین کا یہ قول ہے کہ آپ کا مطب یہ تھا کہ میں از خود یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں میرے ساتھ کیا کیا جاے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

(٢) اور اکثر اور جمہور مفسرین کا مختار قول یہ ہے کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں از خود یہ نہیں جانتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔

(٣) اور بعض کا قول یہ ہے کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں از خود نہیں جانتا کہ دنیا اور آخرت دونوں میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

ہم ان تینوں اقوال کی تفسیر باحوالہ بیان کریں گے اور جمہور کے قول پر دلائل پیش کریں گے اور اس تفسیر پر جو اعتراضات ہیں ان کے مسکت جوابات پیش کریں گے۔ سب سے پہلے ہم ان بعض مفسرین کی تفسیر کو پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس آیت کو دنیا کے احوال نہ جاننے پر محمول کیا ہے۔ فنقول وباللہ التوافیق

الاحقاف : ٩ کو دنیا کے احوال نہ جاننے پر محمول کرنے والے مفسرین

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

ضحاک نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ مجھے کس چیز کا حکم دیا جائے گا اور کس چیز سے منع کیا جائے گا اور حسن بصری نے کہا : ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ آپ کے ساتھ آخرت میں کیا کیا جائے گا، بیشک آپ کو معلوم تھا کہ آپ جنت میں ہوں گے، لیکن آپ نے یہ فرمایا کہ مجھے از خود نہیں معلوم کہ دنیا میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، آیا مجھے اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا، جس طرح مجھ سے پہلے انبیاء کو نکال دیا گیا تھا یا مجھے قتل کردیا جائے گا جس طرح مجھ سے پہلے انبیاء کو قتل کردیا گیا تھا اور میں از خود یہ نہیں جانتا کہ آیا تم کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا یا تم پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں گے اور اسی قول پر امام ابن جریر نے اعتماد کیا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور قول جائز نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کے لائق یہی قول ہے، کیونکہ آخرت کے اعتبار سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پختہ یقین تھا کہ آپ جنت میں ہوں گے اور اسی طرح آپ کے پیروکار بھی، اور رہا دنیا کا حال تو آپ کو علم نہیں تھا کہ دنیا میں آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا، اسی طرح مشرکین قریش کے متعلق بھی آپ کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ دنیا میں کیا ہوگا آیا وہ ایمان لے آئیں گے یا اپنے کفر پر برقرار رہیں گے، پھر ان کو عذاب دیا جائے یا ان کے کفر کی وجہ سے ان کو بالکل جڑ سے اکھاڑ کر نیست و نابود کردیا جائے گا۔ رہی وہ حدیث جس کو امام بخاری اور امام احمد نے روایت کیا ہے وہ بھی اس آیت کے مناسب ہے :

خارجہ بن زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام العلاء انصار کی ایک خاتون تھیں، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی تھی، وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ماجرین کو تقسیم کیا گیا تو حضرت عثمان بن مظعون (رض) کا قرعہ فال ہمارے نام نکلا، ہم نے ان کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا، پھر وہ اس درد میں مبتلا ہوگئے جس درد میں ان کی وفات ہوئی تھی، وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں نے کہا : اے ابو سائب ! (حضرت عثمان بن مظعون کی کنیت) میں تمہارے لئے گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عزت دی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں از خود کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عزت دی ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! پھر اللہ کس کو عزت دے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رہا وہ تو اللہ کی قسم ! اس کے پاس یقین آچکا ہے اور اللہ کی قسم ! میں اس کے لئے اچھے انجام ہی کی امید رکھتا ہوں، اور اللہ کی قسم ! میں از خود نہیں جانتا، حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا، حضرت ام العلاء (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اب کبھی بھی کسی کی (ایسی) تعریف و تحسین نہیں کروں گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠٠٣۔ ١٢٤٣، مسند احمد بن ٦ ص ٤٣٥)

اس حدیث میں اور اس طرح کی دیگر احادیث میں یہ دلیل ہے کہ کسی شخص معین کے لئے یقین اور قطعیت کے ساتھ جنت کی خبر دینی جائز نہیں ہے، ماسوا اس صورت کے کہ شارع (علیہ السلام) نے معین طور پر اس کے جنتی ہونے کی خبر دی ہو جیسے عشرہ مبشرہ (وہ دس اصحاب جن کے جنتی ہونے کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشارت دی ہے) اور حضرت عبد اللہ بن سلام اور حضرت عمیصاء اور حضرت بلال اور حضرت سراقہ اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حزام، حضرت جابر کے والد اور وہ ستر (٧٠) قاری جن کو بیر معونہ کے پاس بلا کر دھوکے سے شہید کیا گیا اور حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور جو ان کی مثل ہیں (رض) ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٦٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

حسب ذیل مفسرین نے بھی ان کی موافقت کی ہے :

(١) بحر العلوم نصر بن محمد سمر قندی متوفی ٣٧٥ ھ۔ (تفسیر سمرقندی ج ٣ ص ٢٣٠، دارالباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٣ ج)

(٢) علامہ علی بن احمدواحدی متوفی ٤٦٨ ھ۔ (الوسیط ج ٤ ص ١٠٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

(٣) علامہ منصور بن احمد ابوالمظفر السمعانی متوفی ٤٨٩ ھ۔ (تفسیر القرآن ج ٥، ص ١٥٠، دارالوطن، ریاض، ١٤١٨ ھ)

(٤) علامہ حسن بن محمودقمی نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ۔ (غرائب القرآن ورغائب الفرقان جز ٢٦ ص ١١٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

(٥) علامہ ابو الحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ۔ (البحر المحیط ج ٩ ص ٤٣٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٢ ھ)

(٦) علامہ ابراہیم بن عمر البقاعی المتوفی ٨٨٥ ھ۔ (نظم الدررج ٧ ص ١٢٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

(٧) علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ۔ (روح البیان ج ٨ ص ٦٢٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

ان مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو علم کی نفی کی ہے وہ دنیا کے احوال پر محمول ہے یعنی آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ دنیا میں آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا اور کافروں کے ساتھ کیا کیا جائے گا اور اس پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ آخرت کے متعلق تو آپ کو قطعی طور پر علم تھا کہ آپ جنت میں ہوں گے اور آپ کے وہ اصحاب بھی جنت میں ہوں گے جن کے جنتی ہونے کی آپ نے بشارت دی ہے۔ البتہ دنیا کے متعلق آپ کو علم نہیں تھا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا اور کافروں کے ساتھ کیا کیا جائے گا، اس لئے اس آیت میں علم کی نفی سے مراد دنیا کے علم کی نفی ہے نہ کہ آخرت کے علم کی نفی ہے۔

درایت کا معنی

میں کہتا ہوں : اس آیت میں علم کی نفی نہیں ہے، درایت کی نفی ہے اور درایت کا معنی ہے : کسی چیز کو انکل پچو سے، حیلہ سے یا قیاس سے جاننا، اسی لئے ہم نے اس کا معنی کیا ہے، میں از خود نہیں جانتا۔ اور کتب لغت سے اس پر حسب ذیل شواہد ہیں :

درٰی : حیلہ سے جاننا۔ (المنجدارد و ص ٣٢١ )

درٰی : وہ معرفت جو کسی قسم کے حیلہ سے حاصل کی گئی ہو۔ (المفردات ج ١ ص ٢٢٤ )

درٰی : کسی قسم کے حیلہ سے جاننا۔ (القاموس ص ١٢٨٢)

کسی چیز کو قیاس سے اور حیلہ سے جاننا درایت ہے اور کسی چیز کو مطلقاً جاننا علم ہے۔

علامہ سیدمحمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لقمان : ٣٤ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

علم کے بجائے درایت کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا کہ درایت میں کسی چیز کو حیلہ سے جاننے کا معنی ہے۔

(روح المعانی جز ٢١ ص ١٦٥، دارلفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

حافظ ابن کثیر اور ان کے موافقین کا جواب مصنف کی طرف سے

اب ہمارے جواب کی تقریر اس طرح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے بغیر ازخود نہیں جانتے تھے کہ آپ کے ساتھ اور آپ کے متبعین کے ساتھ آخرت میں کیا کیا جائے گا اور کفار کے ساتھ آخرت میں کیا کیا جائے گا، اس لئے اس آیت میں آپ سے درایت کی نفی کرائی ہے یعنی آپ کہہ دیجئے کہ میں از خود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ آخرت میں کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ آخرت میں کیا کیا جائے گا اور اس آیت میں آپ سے علم کی نفی نہیں کرائی کیونکہ اللہ کی وحی سے آپ کو علم تھا کہ آپ آخرت میں مقام محمود پر فائز ہوں گے، آپ کو شفاعت کبریٰ عطاکی جائے گی، سب سے پہلے آپ جنت میں داخل ہوں گے اور آپ کی شفاعت سے ہم جیسے لاتعداد گناہ گار جنت میں داخل ہوں گے اور آپ کی شفاعت سے ہم جیسے لاتعداد گناہ گار جنت میں داخل ہوں گے اور کفار میدان حشر میں اللہ سبحانہٗ کے دیدار سے محروم ہوں گے، ان کے چہرے سیاہ اور ان کا اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا اور بالآخر ان کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر اور دیگر وہ مفسرین جنہوں نے اس آیت کو اس پر محمول کیا ہے کہ آپ کہیے کہ میں نہیں جانتا کہ دنیا میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، ان کی یہی دلیل ہے کہ آخرت میں آپ کے ساتھ کیا جائے گا اور کفار کے ساتھ کیا کیا جائے گا اس کا تو آپ کو قطعی طور پر علم تھا کہ آپ اور آپ کے اصحاب قطعی طور پر جنت میں ہوں گے اور مشرکین اور کفار دوزخ میں ہوں گے، سو آیت میں اس علم کی نفی کیسے مراد ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا لازماً اس سے یہی مراد ہے کہ آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ دنیا میں آپ کے ساتھ کیا ہوگا اور کافروں کے ساتھ کیا ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی نفی نہیں ہے حتیٰ کہ اس آیت کی یہ تاویل کی جائے بلکہ اس آیت میں درایت کی نفی ہے یعنی آپ اپنا اور کفار کا آخرت میں انجام از خود نہیں جانتے تھے اگرچہ اللہ کی وحی سے آپ قطعی طور پر جانتے تھے کہ آپ اور آپ کے متبعین جنتی ہیں اور کفار دوزخی ہیں اور آپ کا جو بھی علم تھا وہ اللہ کی وحی سے تھا ازخود نہیں تھا۔ اور یہی جواب حضرت ام العلاء کی حدیث کا بھی ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا : اور اللہ کی قسم ! میں ازخود نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ اس حدیث میں بھی آپ نے ” ما ادری “ فرمایا ہے، ” ما اعلم “ نہیں فرمایا اور آپ نے درایت کی نفی کی ہے علم کی نفی نہیں کی۔

اور اگر بالفرض اس آیت میں اور اس حدیث میں درایت سے مراد علم ہو تو پھر جواب یہ ہے کہ آپ نے آخرت کے علم تفصیلی کی نفی کی ہے علم اجمالی کی نفی نہیں کی، یعنی آپ کو اجمالی طور پر تو معلوم تھا کہ آخرت میں آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا اور کفار کے ساتھ کیا کیا جائے گا لیکن تفصیلی طور پر معلوم نہیں تھا کہ آخرت میں جنت میں آپ کے اور آپ کے اصحاب کے کیا مقامات ہوں گے اور کتنے درجات ہوں گے اور کفار آخرت میں دوزخ کے کون کون سے طبقات میں ہوں گے اور بعد میں آپ کو ان چیزوں کا تفصیلی علم دے دیا گیا، جس پر قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث شاہد ہیں۔

درایت تفصیلی کی نفی پر کتب لغت، مفسرین اور شارحین حدیث کی عبارات سے استشہاد

کتب لغت، کتب تفسیر اور شروح حدیث میں بھی یہ جواب مذکور ہے کہ اگر درایت سے مراد علم ہو تو حضرت ام العلاء کی حدیث میں اور اس آیت میں درایت کی نفی سے علم تفصیلی کی نفی مراد ہے نہ کہ علم اجمالی۔

علامہ محمد طاہر پٹنی گجراتی متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وما ادری وانا رسول اللہ “ اس میں درایت تفصیلیہ کی نفی ہے ورنہ یہ معلوم ہے کہ آپ کے اگلے اور پچھلے تمام بہ ظاہر خلاف اولیٰ کاموں کی مغفرت ہوچکی ہے اور آپ کے وہ مقامات ہیں جو کسی اور کے نہیں ہیں (الی قولہ) یا یہ حدیث ” لیغفرلک اللہ “ سے منسوخ ہے۔ (مجمع بحار الانوارج ٤ ص ١٧٥۔ ١٧٤، مکتبہ دارالایمان، مدینہ منورہ، ١٤١٥ ھ)

علامہ حسن بن محمد قمی نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت تفصیلی درایت حاصل نہیں تھی اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ آپ کو اس وقت تفصیلی درایت حاصل تھی، تو آپ نے اس وقت اس درایت کی نفی کی تھی جو آپ کو از خود اپنی عقل سے حاصل ہو اور آپ نے اس درایت کی نفی نہیں کی تھی جو آپ کو وحی سے حاصل ہوئی ہے۔ (غرائب القرآن ورغائب الفرقان جز ٢٦ ص ١١٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

علامہ محمود بن عمر زمخشری متوفی ٥٣٨ ھ نے لکھا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ما ادری “ میں درایت مفصلہ کی نفی کی گئی ہو۔(الکشاف ج ٤ ص ٣٠٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

جس چیز کو میں اختیار کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس آیت سے اس درایت کی نفی کرنا مراد ہے جو بغیر وحی کے ہو ( یعنی میں ازخود نہیں جانتا) ۔ عام ازیں کہ وہ درایت تفصیلی ہو یا اجمالی ہو اور خواہ اس کا تعلق دنیاوی امور سے ہو یا اخروی امور سے ہو اور میرا اعتقاد یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک دنیا سے منتقل نہیں ہوئے حتیٰ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور تمام شانوں کا علم دے دیا گیا اور جن چیزوں کے علم کو کمال قرار دیا جاتا ہے ان تمام چیزوں کا علم آپ کو دے دیا گیا اور آپ کو اتنا علم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں میں کسی کو اتنا علم نہیں دیا گیا اور میرا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ دنیا کے بعض جزوی حوادث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے علم کا کمال نہیں رہے گا، مثلاً یہ کہ زید آج اپنے گھر میں کیا کر رہا ہے اور کل کیا کرے گا اور میں کسی قائل کے اس قول کو اچھا نہیں جانتا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب کو جانتے ہیں اس کو اس کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرما دیا ہے یا اللہ سبحانہٗ نے آپ کو غیب کا علم عطا فرما دیا ہے یا اس طرح کی کوئی اور بات کہنی چاہیے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١٧۔ ١٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

حضرت ام العلاء کی حدیث کا علامہ آلوسی نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ” ما ادری ما یفعل بی ‘ فرمانا اس آیت کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے یعنی ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح)(روح المعانی جز ٢٦ ص ١٦، دارالفکر)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث میں آپ کا ” ما ادری “ فرمانا الاحقاف : ٩ کے موافق ہے کیونکہ اس میں بھی ” ما ادری ما یفعل بی “ ہے اور یہ واقعہ ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : ٢) سے پہلے کا ہے کیونکہ سورة الاحقاف مکی ہے اور سورة الفتح بالاتفاق مدنی ہے اور یہ چیز ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے پہلے میں جنت میں داخل ہوں گا، اس کے علاوہ اور صریح احادیث ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اخروی احوال اور مقامات کا علم تھا سو جن احادیث میں آپ کے اخروی علم کا ثبوت ہے وہ آپ کے علم اجمالی پر محمول ہیں اور جن آیات اور احادیث میں آپ کے علم اخروی کی نفی ہے وہ علم محیط اور علم تفصیلی پر محمول ہیں۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٤٥٢، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت عثمان بن مظعون غزوہ بدر کے بعد فوت ہوئے اور انہوں نے اس غزوہ میں شرکت کی تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی مغفرت فرما دی، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اس حدیث میں جو ” ما ادری “ فرمایا ہے وہ پہلے کا واقعہ ہے اور اہل بدر کے جنتی ہونے کی خبر آپ کو بعد میں دی گئی، دوسرا اعتراض یہ ہے کہ غزوہ احد میں آپ نے حضرت جابر کے والد (رض) کے متعلق فرمایا تھا : فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایہ کر رہے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت جابر کے والد کا حال آپ کو صرف وحی سے معلوم ہوا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اخروی احوال کی جو خبر دی ہے، اس کا علم آپ کو وحی سے ہوا اور اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ بغیر وحی کے از خود تو آپ کو بھی اپنے اخروی حال کا علم نہیں ہے تو حضرت ام العلاء قطعیت کے ساتھ حضرت عثمان بن مظعون کے نیک انجام کی بشارت کیسے دے سکتی ہیں ؟ (عمدۃ القاری ج ٨ ص ٢٤۔ ٢٣، ملخصا، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ شہاب الدین احمد القسطلانی المتوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ام العلاء کی حدیث میں جو آپ نے ” ما ادری “ فرمایا ہے وہ ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : ٢) کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے کیونکہ الاحقاف مکی ہے اور الفتح مدنی ہے اور آپ کو پہلے اپنی مغفرت کلی کا علم نہیں تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا علم نہیں دیا تھا، پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا علم عطا فرمایا تو آپ نے اس کو جان لیا۔ (الی ان قال)

علامہ بیضاوی نے کہا ہے کہ دنیا اور آخرت کا پہلے آپ کو تفصیلی علم نہ تھا۔ علامہ برماوی نے کہا ہے کہ بعض تفاصیل آپ سے مخفی تھیں۔ (ارشاد الساری ج ٣ ص ٣٤٨، دارالفکر، بیروت، ١٤٢١ ھ)

خلاصہ بحث

خلاصہ یہ ہے کہ جن علماء نے الاحقاف : ٩ میں درایت کی نفی کو دنیا کے احوال پر محمول کیا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قطعی طور پر معلوم تھا کہ آپ آخرت میں جنت میں ہوں گے اور کفار دوزخ میں ہوں گے اس لئے آیت کا یہی معنی ہے کہ میں یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور آخرت میں کیا کیا جائے گا اور یہ معنی نہیں ہے کہ میں یہ نہیں جانتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا کیونکہ آپ کو اپنے اخروی انجام کے اچھے ہونے اور کفار کے اخروی انجام کے برے ہونے کا قطعی طور پر علم تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ جو یہ قطعی علم تھا وہ وحی سے تھا اور اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے تھا اور اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کے خبر دینے کے بغیر از خود آپ کو اس کا علم نہیں تھا اور یہی معنی اس آیت میں مراد ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے آپ کو اپنی آخرت کا اور کفار کی آخرت کا اجمالی علم تھا اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا تفصیلی علم عطا فرما دیا اور الاحقاف : ٩ میں درایت تفصیلی کی نفی ہے، یعنی آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا مجھے اس کا تفصیلی علم نہیں ہے۔

اور اس آیت کو دنیا کے علم کی نفی پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ کفار کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا جاتا تھا اور ان کو آخرت کے اجر وثواب کی ترغیب دی جاتی تھی دنیا کے عذاب کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا :

وَمَا کَانَ اللہ ُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ ط (الانفال : ٣٣)

اور یہ اللہ کی شان نہیں ہے کہ وہ ان کو اس حال میں عذاب دے جب آپ ان میں موجود ہوں۔

اور جنگوں میں کبھی مسلمانوں کو فتح ہوتی تھی اور کبھی کفار کو اور اب تک یہی ہو رہا ہے، سو آسمانی عذاب تو کفار پر آنے کا نہیں اور دنیاوی مصائب اور جنگوں میں شکست یہ کافروں اور مسلمانوں میں سے کسی ایک کی بھی خصوصیت نہیں ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بشیر و نذیر تھے وہ آخرت کے اعتبار سے ہی تھے، لہٰذا اس آیت کو دنیاوی احوال کے علم کی نفی پر محمول کرنا صحیح نہیں اور آیت کا صحیح محمل صرف یہی ہے کہ : (اور آپ کہیے کہ :) اور نہ میں از خود جانتا ہوں کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ میں از خود یہ جانتا ہوں کہ آخرت میں تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

الاحقاف : ٩ کے منسوخ ہونے پر مستند علماء اور مفسرین کی تصریحات

(١) امام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ٢١١ ھ لکھتے ہیں :

امام عبد الرزاق، معمر سے اور وہ قتادہ سے الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ آپ کے تمام اگلے اور پچھلے ذنوب (بہ ظاہر خلاف اولیٰ سب کاموں) کی مغفرت کردی گئی ہے۔ (تفسیر القرآن العزیز ج ٢ ص ١٧٥، دارالمعرفت، بیروت، ١٤١١ ھ)

اس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہوگئی ہے کیونکہ الاحقاف : ٩ میں یہ فرمایا تھا کہ آپ کہیے کہ میں از خود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ (الخ) (یعنی آپ کو اپنی مغفرت ازخود معلوم نہیں تھی) اور الفتح : ٢ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرما دیا کہ آپ کی مغفرت کردی گئی۔ سو اس سے معلوم ہوگیا کہ الفتح : ٢ سے الاحقاف : ٩ منسوخ ہوگئی ہے۔

(٢) امام ابو جعفر محمد بن جریرطبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عکرمہ اور حسن بصری الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں : اس آیت کو سورة الفتح کی اس آیت نے منسوخ کردیا :

” اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ …“ الایۃ (الفتح ٢، ١) جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر آئے اور مسلمانوں کو یہ بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے (ظاہری) ذنب کی مغفرت فرما دی ہے تو بعض مؤمنوں نے آپ سے کہا : آپ کو مبارک ہو یا نبی اللہ ! ہم کو معلوم ہوگیا کہ اللہ سبحانہٗ آپ کے ساتھ کیا کرے گا پس ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ تب اللہ عزوجل نے سورة الاحزاب کی یہ آیت نازل فرمائی :

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہ ِ فَضْلًا کَبِیْرًا۔ (الاحزاب : ٤٧ )

اور آپ مؤمنین کو یہ بشارت دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔

اور یہ آیت نازل فرمائی :

لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْط وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللہ ِ فَوْزًا عَظِیْمًا۔ (الفتح : ٥)

تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان جنتوں میں لے جائے، جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے گناہوں کو ان سے مٹا دے اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔

(جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١٦٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ہر چند کہ امام ابن جریر نے اسی طرح لکھا لیکن ان کا مختاریہ ہے کہ الاحقاف : ٩ منسوخ نہیں ہے۔

(٣) امام عبد الرحمن بن محمد رازی ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ ط “ (الاحقاف : ٩) کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : ٥۔ ٢) اور اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اللہ آپ کے ساتھ اور مؤمنوں کے ساتھ کیا کرے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٥٦٥، ج ١٠ ص ٣٢٩٣، مکتبہ نزار مصطفی، مدینہ منورہ)

(٤) امام ابو اسحٰق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفتح : ٢ سے بتادیا کہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا اور الاحقاف : ٩ منسوخ ہوگئی۔

(الکشف و البیان ج ٩ ص ٧، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

(٥) علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں چار تاویلیں ہیں، دوسری تاویل یہ ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہوگئی ہے۔

(النکت و العیون ج ٥ ص ٢٧٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

(٦) علامہ ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن قشیری متوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :

الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (تفسیر القشیری ج ٣ ص ١٩٥، ملخصا، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

(٧) امام ابو الحسن الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (اسباب النزول ص ٣٩٨)

(٨) امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ نے کہا : اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے، بعض علماء نے یہ کہا : جب الاحقاف : ٩ نازل ہوئی تو مشرکین خوش ہوئے اور انہوں نے کہا : لات اور عزیٰ کی قسم ! ہمارا اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ ایک جیسا ہے اور ان کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے، پھر جب الفتح : ٢ نازل ہوئی تو اس نے اس آیت کو منسوخ کردیا۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٩١، ملخصاً )

(٩) علامہ محمود بن عمرزمخشری متوفی ٥٣٨ ھ نے لکھا ہے : حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (الکشاف ج ٤ ص ٣٠٢)

(١٠) قاضی عبد الحق بن غالب بن عطیۃ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ لکھتے ہیں :

الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس، حضرت انس بن مالک، الحسن، قتادہ اور عکرمہ نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ میں ازخود نہیں جانتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، یہ ابتداء اسلام کا واقعہ ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتادیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنوب (بہ ظاہر خلاف اولیٰ سب کام) کی مغفرت فرما دی ہے اور مؤمنوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا فضل ہے اور وہ جنت ہے اور کافروں کے لئے دوزخ کی آگ ہے۔ (المحرر الوجیز ج ١٥ ص ١٣، المکتبۃ التجاریۃ، مکہ مکرمہ)

(١١) علامہ عبد الرحمن ابن الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ نے لکھا ہے کہ جب الاحقاف : ٩ نازل ہوئی تو مشرکین بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمار اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک جیسا معاملہ ہے اگر یہ واقعی رسول ہوتے تو یہ اس بات کی خبر دیتے کہ ان کے ساتھ آخرت میں کیا کیا جائے گا، تب اللہ تعالیٰ نے الفتح : ٢ نازل فرمائی، یہ تفسیر حضرت انس، عکرمہ اور قتادہ سے مروی ہے (علامہ ابن عطیہ اور علامہ ابن جوزی نے دنیا کے علم کی نفی کا قول بھی ذکر کیا ہے اور اس کی نسبت ابو صالح از ابن عباس کی طرف کی ہے) ۔ (زادالمسیر ج ٧ ص ٣٧٣)

(١٢) امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے حضرت ابن عباس کی دو روایتیں ذکر کی ہیں پہلی روایت یہ ہے کہ اس آیت میں دنیا کے علم کی نفی کی ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ اس میں آخرت کے علم کی نفی ہے اور الفتح : ٢ نے اس آیت کو منسوخ کردیا اور اس روایت پر (امام رازی نے) اعتراضات کئے ہیں جن کے جوابات ہم مفسرین کے حوالہ جات کے بعد ذکر کریں گے۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٩)

(١٣) علامہ محمد بن احمد قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے دو قول ذکر کئے ہیں، پہلے یہ قول ذکر کیا ہے کہ الاحقاف : ٩ میں آخرت کے علم کی نفی ہے اور الفتح : ٢ سے منسوخ ہے، پھر حسن بصری اور سدی کے حوالوں سے دوسرا قول ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں دنیا کے علم کی نفی ہے اور اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٧٦۔ ١٧٣، ملخصاً )

(١٤) علامہ عبد اللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں دنیا اور آخرت کے تفصیلی علم کی نفی ہے۔(تفسیر البیضاوی مع الخفاجی ج ٨ ص ٤٦٤ )

(١٥) علامہ علی بن محمد الخازن المتوفی ٧٢٥ ھ نے پہلے تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہے اور اخیر میں اختصار سے دنیا کے علم کی نفی کا قول ذکر کیا ہے۔ (لباب التاویل ج ٤ ص ١٢٨ )

(١٦) علامہ عبد الرحمان بن محمد بن مخلوف الثعالبی المتوفی ٨٧٥ ھ نے لکھا ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے، لیکن راجح یہ ہے کہ یہ الفتح : ٢ سے منسوخ ہے، اور یہ حضرت ابن عباس اور ایک جماعت کا قول ہے۔ (تفسیر الثعالبی ج ٥ ص ٢١٤)

(١٧) حافظ جلا الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے امام ابو دائود کی ” ناسخ “ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے اور اس کی تائید میں کئی احادیث ذکر کی ہیں اور اخیر میں حسن بصری کا قول ذکر کیا ہے کہ اس میں دنیا کے علم کی نفی ہے۔(الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٧٨۔ ٣٧٧)

(١٨) علامہ ابو السعود محمد بن محمد عمادی متوفی ٩٨٢ ھ نے لکھا ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (تفسیر ابو السعود ج ٦ ص ٦٩ )

(۱۹) علامہ خفاجی متوفی ١٠٦٩ ھ نے لکھا ہے : یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٤٦٤ )

(٢٠) علامہ سلیمان الجمل المتوفی ١٢٠٤ ھ نے لکھا ہے : یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (تفسیر الجمل ج ٤ ص ١٢٥ )

(٢١) علامہ احمد بن محمد صاوی متوفی ١٢٢٣ ھ لکھتے ہیں : اس آیت کو الفتح : ٢ نے منسوخ کردیا ہے۔(حاشیۃ الصاوی علی الجلالین ج ٥ ص ١٩٣٣)

(٢٢) شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ لکھتے ہیں : امام ابو دائود نے اپنی ” ناسخ “ میں لکھا ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (فتح القدیرج ٥ ص ٢١ )

(٢٣) علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے پہلے یہ قول نقل کیا کہ اس آیت میں دنیا کے علم کی نفی ہے پھر یہ لکھا اور امام ابو دائود نے اپنی کتاب ” ناسخ “ میں عکرمہ کی سند سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے اس آیت کو ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : ٢) نے منسوخ کردیا۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

(٢٤) مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ نے بھی امام ابو دائود کی ” ناسخ “ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔ (فتح البیان ج ٦ ص ٢٩٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

(٢٥) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ نے بھی الاحقاف : ٩ کو الفتح : ٢ سے منسوخ قرار دیا ہے، چناچہ وہ رشید احمد گنگوہی کے رد میں اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

یہی مولوی رشید احمد صاحب پھر لکھتے ہیں :

” خود فخر عالم (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ” واللہ لا ادری ما یفعل بی ولا بکم “ الحدیث۔ اور شیخ عبد الحق روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں “۔

قطع نظر اس کے کہ حدیث اول خود احاد ہے، سلیم الحواس کو سند لانی تھی تو وہ مضمون خود آیت میں تھا اور قطع نظر اس سے کہ اس آیت و حدیث کے کیا معنی ہیں اور قطع نظر اس سے کہ یہ کس وقت کے ارشاد ہیں اور قطع نظر اس سے کہ خود قرآن عظیم و احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کا ناسخ موجود ہے کہ جب آیت کریمہ :

” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ تاکہ بخش دے تمہارے واسطے سے سب اگلے پچھلے گناہ۔ (نازل ہوئی) ۔

صحابہ نے عرض کی :

” ھنیا لک یا رسول اللہ لقدبین اللہ لک ماذا یفعل بک فما ذا یفعل بنا “ یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو، خدا کی قسم ! اللہ عزوجل نے یہ تو صاف بیان فرما دیا کہ حضور کے ساتھ کیا کرے گا۔ اب رہا یہ کہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا۔

اس پر یہ آیت اتری :

” لیدخل المؤـمنین (الی قولہ تعالیٰ ) فوزًا عظیما “ تاکہ داخل کرے اللہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ رہیں گے ان میں اور مٹا دے ان سے ان کے گناہ اور یہ اللہ کے یہاں بڑی مراد پانا ہے۔

یہ آیت اور ان کے امثال بےنظیر اور یہ حدیث جلیل و شہیر، ایسوں کو کیوں سجھائی دیتیں۔

(انباء المصطفیٰ ص ٩۔ ٨، نوری کتب خانہ، لاہور)

اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ العزیز نے ” انباء الحی “ ص ٣٨٨ (مرکز اہل سنت برکات رضا) میں بھی متعدد احادیث کے حوالوں سے اسی طرح لکھا ہے۔

(٢٦) صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ نے بھی الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔

(٢٧) نیز صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ” الکلمۃ العلیا لاعلاء علم المصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ میں لکھتے ہیں : ” ملا عبد الرحمن بن محمد دمشقی (رح) تعالیٰ رسالہ ناسخ و منسوخ میں لکھتے ہیں : قولہ تعالیٰ ما ادری ما یفعل بی ولایکم الایۃ نسخ بقولہ تعالیٰ انا فتحنا لک فتحنا مبینا لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر الایۃ اور اسی صفحہ میں اس سے کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں : سورة الفتح و فیھا ناسخ ولیس فیھا منسوخ فالناسخ قولہ تعالیٰ لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر والمنسوخ قولہ تعالیٰ و ما ادری ما یفعل بی ولا بکم۔ ان دونوں عبارتوں سے ثابت ہوگیا کہ یہ آیہ کریمہ ” ما ادری ما یفعل بی ولا بکم “ منسوخ اور اس کا ناسخ ” انا فتحنا لک فتحا مبینا الایۃ “ ہے۔ جس میں دنیا میں فتح مبین کا اور آخرت میں غفران کا مژدہ دیا گیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کا رب جل و علا دنیا و آخرت میں کیا کرے گا “۔

(الکلمۃ العلیاء لا علاء علم المصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ص ١٤٧، مکتبہ فریدیہ، ڈرگ کالونی، کراچی، ١٩٧٧ ء)

(٢٨) مشہور دیوبند مفسر شیخ شبیر احمد عثمانی متفی ١٣٦٩ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔

(٢٩) مفتی احمد یار خاں نعیمی گجراتی (رح) متوفی ١٣٩١ ھ نے بھی الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔

(٣٠) مفتی اویسی صاحب اپنی کتاب ” ناسخ و منسوخ “ میں لکھتے ہیں : ” بعض ناسخ ایسے تھے کہ منسوخ پر عمل سے پہلے ہی نازل ہوجاتے تھے، جیسے آیت نجویٰ اور بعض ایسے بھی تھے کہ جن کے لئے کئی سال گزر جاتے، مثلاً آیت ” قل ما کنت بدعا من الرسل “ (الاحقاف : ٩) کا نزول ابتدائے اسلام میں ہوا لیکن اس کا نسخ سورة الفتح ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : ٢) تیرہ سال بعد سال حدیبہ میں ہوا “۔ (ناسخ و منسوخ ص ٢٩۔ ٢٨، فیض رضا پبلی کیشنز، کراچی)

ہم نے امام عبد الرزاق متوفی ٢١١ ھ اور امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ کی تفاسیر سے لے کر مفتی اویسی صاحب کی ” الناسخ و المنسوخ “ تک تیس کتابوں کی عبارات سے واضح کردیا ہے کہ الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہوچکی ہے۔

اور ہمارے بعض مخالفین کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” نہ سورة فتح کی آیت : ٢ کے پہلے جملہ نے سورة احقاف کی آیت : ٩ کے دوسرے جملہ کو منسوخ کیا “۔ شاید یہ بات بعد میں لوگوں نے اپنی عقل سے تجویز کی ہے اور وہ دراز ہوتے ہوتے ہمارے دور تک آگئی۔ قارئین کرام پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ الاحقاف : ٩ کے منسوخ ہونے کی بنیاد صحیح حدیث اور مفسرین کرام کی ٹھوس روایات پر ہے۔

الاحقاف : ٩ سے دنیا کے احوال کے علم کی نفی مراد لینے کا بطلان

ہم اس سے پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں دنیا کے علم کی نفی مراد ہے، یعنی اے رسول مکرم ! آپ یہ کہہ دیجئے کہ میں از خود یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اصل اور اہم چیز آخرت کے احوال ہیں اور کفار کو یہ بتانا مقصود ہے کہ آخرت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین جنت میں ہوں گے اور کفار اور مشرکین دوزخ کے دائمی عذاب میں گرفتار ہوں گے اور یہی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مابہ الامتیاز ہے ورنہ جس طرح کفار اور مشرکین دنیا میں جنگوں میں شکست اور مصائب و آلام میں مبتلا رہتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی جنگوں میں شکست اور مصائب و آلام میں مبتلا رہتے ہیں اور اب تک ہیں، بلکہ کفار اور مشرکین سے زیادہ زبوں حال ہیں۔ اس لئے ان مفسرین کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور یہ محض عقلی توجیہ ہے اور اس کی بنیاد کسی حدیث پر نہیں ہے، اس لئے صحیح یہی ہے کہ الاحقاف : ٩ کا معنی یہ ہے کہ آپ کہیے : میں از خود نہیں جانتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، پھر قرآن مجید کی دیگر آیات میں وحی جلی سے اور آپ کو وحی خفی سے یہ بتادیا گیا کہ آخرت میں آپ اور آپ کے متبعین جنت کے بلند مقامات اور دائمی نعمتوں میں ہوں گے اور کفار اور مشرکین دوزخ کے دائمی عذاب میں ہوں گے۔

الاحقاف : ٩ سے امور آخرت کے علم کی نفی مراد لینے پر امام رازی کے اعتراضات کے جوابا

ہم نے پہلے کہا تھا کہ ہماری مختار تفسیر پر امام رازی کے جو اعتراضات ہیں ہم ان کا آخر میں جواب دیں گے۔ امام رازی نے اس آیت کو آخرت کے احوال کے علم کی نفی پر محمول کرنے پر تین اعتراضات کئے ہیں، ہم ان اعتراضات کا ذکر کر کے ان کا جواب ذکر کر رہے ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں :

(١) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو یہ علم ہو کہ آپ نبی ہیں اور جب آپ کو اپنے نبی ہونے کا علم ہوگا تو آپ کو یہ علم ہوگا کہ آپ سے گناہ کبیرہ کا صدور نہیں ہوگا اور آپ کو علم ہوگا کہ آپ مغفور ہیں اور پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کو اس میں شک ہو کہ آپ کی مغفرت ہوگی یا نہیں۔

(٢) اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کا مرتبہ اولیاء کرام سے بلند ہے اور اولیاء کرام کے متعلق یہ فرمایا ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہ ُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ (الاحقاف : ١٣)

جن لوگوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تو پھر یہ کیسے متصور ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رئیس الاتقیاء ہیں اور انبیاء کے پیشوا ہیں ان کو اس بات میں شک ہو کہ ان کی مغفرت ہوگی یا نہیں ؟

(٣) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

اَ اللہ ُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰلَتَہٗ ط (الانعام : ١٢٤ )

اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے گا۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا انتہائی قرب حاصل ہے اور جس کی یہ شان ہو اس کے یہ کب مناسب ہے کہ وہ اس چیز میں متردّ در ہے کہ وہ مغفورین میں سے ہے یا معذبین میں سے ہے۔

(تفسیر کبیر ج ١٠ ص ١٠۔ ٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

بے شک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ قطعی علم تھا کہ آپ مغفور ہیں اور آپ کو اپنے مغفور ہونے میں کوئی تردّد اور شک نہیں تھا لیکن آپ کو یہ قطعی علم وحی سے حاصل ہوا تھا اور بغیر وحی کے آپ کو محض اپنی عقل یا قیاس سے یہ قطعی علم حاصل نہیں تھا اور اس آیت میں علم کی نفی نہیں ہے، درایت کی نفی ہے اور درایت کا معنی ہے : از خود جاننا، لہٰذا اس آیت کا معنی ہے : آپ کہیے : میں ازخود نہیں جانتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کو وحی کے بغیر پہلے اپنے مغفور ہونے کا اجمالی علم حاصل تھا اور وحی نازل ہونے کے بعد آپ کو اس کا تفصیلی علم حاصل ہوا اور اس صورت میں اس آیت کا معنی ہے : آپ کہیے : میں تفصیل سے نہیں جانتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ علامہ قرطبی، حافظ ابن کثیر اور دوسرے جن مفسرین نے اس آیت کو احوال دنیا کے علم کی نفی پر محمول کیا ہے اور احوال آخرت کے علم کی نفی پر محمول کرنے کا رد کیا ہے ان کے بھی آخرت کے علم کی نفی مراد لینے پر یہی اعتراضات ہیں اور دنیا کے احوال کے علم کی نفی مراد لینے پر ان کے لئے یہی دلائل ہیں اور ہم نے امام رازی کے اعتراضات کے جو جوابات ذکر کئے ہیں ان میں ان تمام مفسرین کے اعتراضات کے جوابات آگئے ہیں۔ وللہ الحمد علی ذالک

مخالفین اعلیٰ حضرت کا اس صحیح حدیث پر اعتراض جس کی بنیاد پر الاحقاف : ٩ کو منسوخ قرار دیا گیا

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ نے جس حدیث سے استدلال کر کے اس حدیث کو الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ قرار دیا ہے بعض مخالفین نے اس حدیث کو مدرج قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ شعبہ نے اس حدیث کا بعض حصہ از قتادہ ازانس سنا اور بعض حصہ عکرمہ سے سنا اور دونوں کو ملا کر ایک حدیث بنادیا سو یہ حدیث مدرج ہے اور اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا یہ حدیث استدلال کی صلاحیت نہیں رکھتی چہ جائیکہ اس حدیث کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جائے کہ الفتح : ٢ کی آیت الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ ہے ؟ اور اس کے ثبوت میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں :

از شعبہ از قتادہ از انس بن مالک (رض) انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ (الفتح : ٢) حضرت انس نے کہا : اس فتح سے مراد حدیبیہ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے کہا : آپ کو یہ (مژدہ مغفرت) مبارک ہو، پھر ہمارے لئے کیا (بشارت) ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :” لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ “۔ (الفتح : ٥) تاکہ اللہ مؤمنوں اور مؤمنات کو ان جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں۔ شعبہ نے کہا : جب میں کوفہ گیا تو میں نے یہ پوری حدیث قتادہ سے روایت کردی، پھر جب میں واپس آیا تو میں نے اس کا قتادہ سے ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ اس حدیث کا یہ حصہ جس میں ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ (الفتح : ٢) ہے یہ حضرت انس سے مروی ہے اور حدیث کا یہ حصہ جس میں ” ھنیا مرئیا “ ہے یہ عکرمہ سے مروی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٤۔ ٤١٧٢)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث پر گفتگو انشاء اللہ سورة الفتح کی تفسیر میں آئے گی، امام بخاری نے یہاں پر یہ فائدہ بیان کیا ہے کہ اس حدیث کا بعض حصہ شعبہ نے ازقتادہ از انس روایت کیا ہے اور بعض حصہ عکرمہ سے روایت کیا ہے اور اسماعیلی نے اس حدیث کو اس سند سے روایت کیا ہے : از حجاج بن محمد از شعبہ اور حدیث میں حضرت انس اور عکرمہ کی روایت کو جمع کردیا ہے اور حدیث کے دونوں حصوں کو ملا کر حدیث واحد کے طور پر روایت کیا ہے اور میں نے اس کی وضاحت ” کتاب المدرج “ میں کی ہے۔

(فتح الباری ج ٨ ص ٢٢١، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

اور سورة الفتح کی تفسیر میں حافظ ابن حجر نے صرف اتنا اضافہ کیا ہے :

شعبہ نے یہ بیان کیا ہے کہ اس حدیث کا جو حصہ حضرت انس سے مروی ہے وہ سند متصل کے ساتھ ہے اور اس کا جو حصہ عکرمہ سے مروی ہے وہ سند مرسل کے ساتھ مروی ہے۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٥٥٨، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

واضح رہے کہ فقہاء احناف اور فقہاء مالکیہ کے نزدیک حدیث مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے۔

علامہ بدر الدین عینی متوفی ٨٥٥ ھ نے بھی اس حدیث کی شرح میں یہی کچھ لکھا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٧ ص ٢٩٧، طبع جدید) اسی طرح علامہ احمد قسطلانی متوفی ٩١١ ھ نے بھی اس کی شرح میں صرف اتنا ہی لکھا ہے۔ (ارشاد الساری ج ٩ ص ٢٣٤، طبع جدید)

یہاں تک ہم نے مخالفین اعلیٰ حضرت کے اس اعتراض کی تقریر کی ہے جو انہوں نے اس حدیث پر کیا ہے جس سے اعلیٰ حضرت نے استدلال کیا ہے اور اس کو صحیح حدیث قرار دیا حتیٰ کہ اس حدیث کی بنیاد پر الاحقاف : ٩ کو الفتح : ٢ سے منسوخ قرار دیا ہے۔

اب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی تائید سے اس اعتراض کا جواب بیان کرتے ہیں اور قوی دلائل سے یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

مصنف کی طرف سے متعدد حوالوں کے ساتھ حدیث مذکور کے صحیح ہونے پر دلائل

قتادہ بن دعامہ متوفی ١١٨ ھ کے متعدد شاگردوں نے ان سے اس حدیث کو سنا ہے اور ان سے اس کو روایت کیا ہے۔ جب کہ قتادہ کے دوسرے شاگرد جو ثقہ اور ثبت ہیں، وہ قتادہ سے اس حدیث کو مکمل روایت کرتے ہیں اور کوئی استثناء نہیں کرتے اور مستند محدثین ان کی روایت کو اپنی صحیح اور معتبر کتب میں درج کرتے ہیں تو ان کی یہ روایت کیوں صحیح نہیں ہوگی اور کیوں غیر مقبول ہوگی ؟ جب کہ محققین نے ان روایات کے صحیح ہونے کی تصریح بھی کردی ہے۔

قتادہ بن دعامہ کے ایک شاگرد ہیں معمر بن راشد ازدی متوفی ١٥٤ ھ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں چودہ سال کی عمر سے قتادہ کی مجلس میں بیٹھ رہا ہوں اور میں نے ان سے جو حدیث بھی سنی وہ میرے سینے میں نقش ہے۔ ابو حاتم، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، العجلی، یعقوب بن شیبہ، نسائی وغیرہم نے ان کو اثبت، اصدق، ثقہ اور صالح لکھا ہے اور ائمہ ستہ ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔

(تہذیب الکمال ج ١٨ ص ٢٧٢۔ ٢٦٨، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

اور معمر بن راشد نے اس مکمل حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے۔

از معمر از قتادہ از انس یہ حدیث ان کتابوں میں ہے : سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٦٣، اور امام ترمذی نے لکھا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام ابن حبان نے بھی اپنی ” صحیح “ میں از معمر از قتادہ اس حدیث کو روایت کیا ہے، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤١٠، امام احمد نے بھی از معمر از قتادہ اس کو روایت کیا ہے، مسند احمد ج ٣ ص ١٩٧، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٩٦٩، مطبوعہ قاہرہ اس کے حاشیہ میں حمزہ احمد زین نے لکھا ہے : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ابو یعلیٰ تمیمی نے بھی ازمعمر ازقتادہ اس حدیث کو روایت کیا ہے، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٠٤٥، اس کے مخرج اور محقق حسین سلیم اسد نے بھی لکھا ہے اس کی سند صحیح ہے۔ امام ابن جریر نے بھی اسی سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٣٤٥، امام ابن عبد البر نے بھی اس سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (التمہید ج ٢ ص ١٦٥ )

” مسند احمد “ ج ٢٠ ص ٣٣٥، رقم الحدیث : ١٣٠٣٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٨ ھ میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور اس کے محقق شیخ شعیب الارنؤط اور ان کے ساتھ دیگر محققین نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :

اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور یہ حدیث ” تفسیر عبد الرزاق “ ج ٣ ص ٢٢٥ میں بھی مذکور ہے، (ہمارے پاس ” تفسیر عبد الرزاق “ کا جو نسخہ ہے اس کی جلد ٢ ص ١٨٣ پر یہ حدیث اس سند کے ساتھ مذکور ہے، عبد الرزاق از معمر از قتادہ) اور اسی سند کے ساتھ یہ حدیث ” ترمذی “ رقم الحدیث : ٣٢٦٣ اور ” مسند ابو یعلیٰ “ رقم الحدیث : ٣٠٤٥ میں مذکور ہے اور اسی سند کے ساتھ اس کو طبری نے بھی روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی سند یہ ہے : امام احمد از امام عبد الرزاق از معمر از قتادہ از حضرت انس (رض)

اور اس حدیث کا متن یہ ہے : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حدیبیہ سے واپس ہوئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی : ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّر “ (الفتح : ٢) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے تمام روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی، مسلمانوں نے کہا : آپ کو مبارک ہو یا رسول اللہ ! بیشک اللہ عزوجل نے بیان فرما دیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا تو ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ پھر یہ آیت نازل ہوئی :” لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ “ (الفتح : ٥)

قتادہ بن دعامہ کے ایک اور شاگرد ہیں ہمام بن یحییٰ بن دینار العوذی المتوفی ١٦٣ ھ، امام احمد بن حنبل، ابن مہدی، یحییٰ بن معین، عثمان بن سعید دارمی، محمد بن سعد وغیرہم نے ہمام کو اثبت، احفظ اور ثقہ لکھا ہے۔ ائمہ ستہ ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔ (تہذیب الکمال ج ١٩ ص ٣٠٥۔ ٣٠١، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

امام احمد نے اس حدیث کو از ہمام از قتادہ از انس روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢٥٢۔ ١٢٢ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ١٣٥٧٥۔ ١٢١٦٦، طبع قاہرہ) اس کے حاشیہ پر حمزہ احمد زین نے لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ امام واحدی نے بھی اس سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (اسباب النزول ص ٣٩٨) امام بیہقی نے بھی اس سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (دلائل النبوۃ ج ٤ ص ١٥٨) امام بغوی نے بھی اس حدیث کو ہمام از قتادہ سے روایت کیا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٧٠)

” مسند احمد “ ج ١٩ ص ٢٥٧ رقم الحدیث : ١٢٢٢٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٨ ھ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اس کے محقق اور مخرج شیخ شعیب الارنؤط دیگر محققین کے ساتھ اس حدیث کی تحقیق اور تخریج میں لکھتے ہیں :

یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

اس حدیث کو اس سند کے ساتھ امام واحدی نے ” اسباب النزول “ ص ٢٥٦ میں روایت کیا ہے (ہمارے پاس ” اسباب النزول “ کا جو نسخہ ہے اس کے ص ٣٩٨ پر یہ روایت ہے۔ سعید غفرلہٗ ) ۔ امام مسلم نے رقم الحدیث : ١٧٨٧ میں اس کو روایت کیا ہے، امام طبری نے اس کو امام ابو دائود طیالسی اور امام ابو عوانہ سے روایت کیا ہے ان کی سند ہے : عمرو بن عاصم از ہمام۔ امام عبد بن حمید نے اس کو رقم الحدیث : ١١٨٨ میں اس کو روایت کیا ہے اور امام ابو عوانہ نے ” مسند ابو عوانہ “ ج ٤ ص ٢٤٨۔ ٢٤٧ میں اور امام ابن حبان نے رقم الحدیث : ٣٧١ میں از حسن بصری از انس، اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

علاوہ ازیں علامہ احمد عبد الرحمن البنا نے بھی اس سند کے ساتھ اس حدیث کو ” الفتح الربانی “ ج ١٨ ص ٢٧٦ میں روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی سند یہ ہے : امام احمد از یزید بن ہارون از ھمام از قتادہ از انس اور اس کا متن یہ ہے : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ سے واپس ہوئے تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی : ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ الایۃ (الفتح : ١) تو مسلمانوں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو جو اللہ نے آپ کو عطا کیا پس ہمارے لئے کیا ہے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی : ” لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ “ الایۃ۔ (الفتح : ٥)

قتادہ بن دعامہ کے ایک اور شاگرد ہیں سعید بن ابی عروبہ العدوی المتوفی ١٥٧ ھ۔ امام احمد، یحییٰ بن معین، ابو زرعہ، نسائی، ابو دائود طیالسی وغیرہم نے ان کو ثقہ اور احفظ کہا ہے۔ ائمہ ستہ ان سے روایت کرتے ہیں۔

(تہذیب الکمال ج ٧ ص ٢٦٥۔ ٢٦٢، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

امام احمد نے از سعید از قتادہ از انس اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢١٥ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ١٣١٧٩، طبع قاہرہ) اس کے حاشیہ میں حمزہ احمد زین نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٢٠٤۔ ٢٩٣٢ میں بھی ہے۔ اس کے محقق نے بھی لکھا ہے : اس کی سند صحیح ہے۔

(اسباب النزول للواحدی ص ٣٩٩، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٣٤٤، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٩ ص ٢٢٢ )

یہ حدیث مسند احمد ج ٢٠ ص ٤٥٢، رقم الحدیث : ١٣٢٤٦ میں بھی موجود ہے۔ اس کے محقق اور مخرج شیخ شعیب الارنؤط لکھتے ہیں :

یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

اس حدیث کو امام ابو یعلیٰ نے رقم الحدیث : ٣٢٠٤۔ ٣٢٠٢۔ ٢٩٣٢ میں روایت کیا ہے، امام طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام ابن حبان نے رقم الحدیث : ٣٧٠ میں اور امام بیہقی نے ج ٩ ص ٢٢٢ میں۔

اس حدیث کی سند یہ ہے کہ امام احمد از محمد بن بکر، از سعید و عبدالوہاب از سعید از قتادہ از انس بن مالک (رض) ۔

اور اس حدیث کا متن یہ ہے : جب یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی : ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ الایۃ (الفتح : ١) تو آپ نے فرمایا : مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہے، مسلمانوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمیں معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا پس ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ تب یہ آیت نازل ہوئی : ” لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ “ الایۃ۔ (الفتح : ٥)

قتادہ بن دعامہ کے ایک شاگرد ہیں شیبان بن عبد الرحمن تمیمی متوفی ١٦٤ ھ۔ مشہور ائمہ حدیث نے ان کو ثقہ اور صدوق لکھا ہے اور ائمہ ستہ ان سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ (تہذیب الکمال ج ٨ ص ٤١٧۔ ٤١٤، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

امام بیہقی نے اس حدیث کو از شیبان از قتادہ از انس روایت کیا ہے۔ (سنن کبریٰ ج ٥ ص ٢١٧)

قتادہ بن دعامہ کے ایک اور شاگرد ہیں حکم بن عبد الملک الرقشی۔ امام بخای نے ” الادب المفرد “ میں امام نسائی نے ” خصائص نسائی “ میں، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے اپنی ” سنن “ میں ان سے احادیث کو روایت کیا ہے، یہ اگرچہ ضعیف راوی ہے لیکن ان کی جن روایات کی متابعت کی گئی ہے، ان سے استدلال کرنا جائز ہے۔

(تہذیب الکمال ج ٥ ص ٩٣۔ ٩٢، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

امام بیہقی نے از حکم بن عبد الملک از قتادہ از انس اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (سنن کبریٰ ج ٥ ص ٢١٧)

خلاصہ یہ ہے کہ قتادہ بن دعامہ کے شاگردوں میں سے معمر، ہمام، سعید، شیبان اور حکم بن عبدالملک نے اس پوری حدیث کو قتادہ سے سنا ہے اور اس پوری حدیث کو روایت کیا ہے اور صحاح اور سنن کے مصنفین نے ان کی روایات کو اپنی تصانیف میں درج کیا ہے اور ان کی اسانید کے متعلق محققین نے تصریح کی ہے کہ وہ صحیح ہیں۔ ماسوا حکم کی روایت کے لیکن ہم نے اس کو بطور تائید درج کیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ حدیث قتادہ بن دعامہ کے علاوہ از ربیع بن انس بھی مروی ہے۔ لہٰذا اب اعتراض کی بنیاد ہی منہدم ہوگئی۔ امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ از ربیع از انس روایت کرتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی : ” وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ ط “ (الاحقاف : ٩) تو اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی : ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ ُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : ٢) تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہم نے جان لیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا تو ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ” وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہ ِ فَضْلًا کَبِیْرًا۔ “ (الاحزاب : ٤٧) آپ نے فرمایا : فضل کبیر جنت ہے۔

(دلائل النبوۃ ج ٤ ص ١٥٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٠ ھ)

نیز امام ابن جریر نے اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ عکرمہ اور الحسن البصری سے روایت کیا ہے۔

(جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١٦٥، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اعلیٰ حضرت کے جواب کی تقریر

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے ” انباء المصطفیٰ “ میں اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے اور اس کو الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ قرار دیا ہے۔ بعض مخالفین نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث غیر صحیح ہے کیونکہ شعبہ نے اس حدیث کا صرف ایک جملہ قتادہ سے سنا تھا اور باقی حصہ عکرمہ سے اور انہوں نے دونوں کو ملا کر قتادہ کی طرف منسوخ کردیا۔ لیکن اس وجہ سے اس حدیث کو غیر صحیح قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ معمر، ہمام، سعید اور شیبان بھی قتادہ کے شاگرد ہیں اور صحاح ستہ کے راوی ہیں اور ان سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے قتادہ سے یہ پوری حدیث نہیں سنی اور ان کی اس حدیث کو صحاح اور سنن کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور محققین نے ان کی ان روایات کو صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا امام احمد رضا کا اس حدیث کو صحیح لکھنا برحق ہے۔ حدیث کا ایک ادنیٰ خادم ہونے کی حیثیت سے مجھ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حدیث کی صحت پر جو اعتراض کیا جائے اس کو دور کروں۔ لہٰذا میں نے یہاں پر اس اعتراض کا جواب لکھ دیا ہے اور اعلیٰ حضرت سے قلت فہم حدیث کی تہمت دور کردی ہے۔

الاحقاف : ٩ کو منسوخ ماننے پر مخالفین اعلیٰ حضرت کے ایک عقلی اعتراض کا جواب

یہاں تک جو ہم نے گفتگو کی اس میں یہ مباحث پوری تفصیل سے باحوالہ دلائل کے ساتھ آگئے ہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے الاحقاف : ٩ کے منسوخ ہونے پر ” لیغفرلک اللہ “ سے استدلال کیا اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس آیت میں مغفرت کا تعلق آپ کے ساتھ ہے، ” ترمذی “ کی صحیح حدیث سے استدلال کیا۔ اس پر مخالفین نے یہ اعتراض کیا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کے ہم نے شافی جوابات ذکر کردیئے۔ پھر اعلیٰ حضرت کے مخالفین نے اس استدلال پر عقلی طور سے یہ اعتراض کیا کہ الاحقاف : ٩ مکی ہے اور سورة الفتح مدنی ہے، اس سے لازم آئے گا کہ ایک طویل عرصہ تک تقریباً تیرہ سال تک آپ کو اپنی مغفرت کا علم نہیں ہوا۔ اس کا اوّلاً جواب یہ ہے کہ یہ صرف اعلیٰ حضرت نے نہیں کہا بلکہ بہت سے مفسرین اور محدثین نے کہا ہے، جن میں سے اکثر کے حوالے اس بحث کے شروع میں آ چکے ہیں۔ ثانیاً : کسی چیز کا علم اور چیز ہے اور اس کا بیان دوسری چیز ہے۔ دیکھئے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مکہ میں بھی نماز پڑھتے تھے اور وضو کر کے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وضو کی آیت سورة المائدہ میں مدینہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ آپ کو وضو کا علم بہت پہلے تھا لیکن اس کا بیان بہت بعد میں ہوا ہے۔ اسی طرح آپ کو اپنی کلی مغفرت کا علم بہت پہلے تھا لیکن اس کا بیان بعد میں کیا گیا۔

ثالثا : اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ” ما ادری “ میں درایت کی نفی ہے علم کی نفی نہیں ہے یعنی آپ کو از خود اپنی مغفرت کا علم نہیں تھا یہ علم آپ کو اللہ سبحانہٗ کی وحی سے حاصل ہوا تھا۔ رابعاً : اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ درایت کا معنی علم ہے تو اس آیت سے علم کی نفی ہے یعنی اس وقت آپ کو اپنی مغفرت اور دیگر مسلمانوں کی مغفرت اور کفار کے عذاب کا تفصیلی علم نہیں تھا بلکہ ان تمام چیزوں کا اجمالی علم حاصل تھی، پھر بعد میں بہ تدریج ان چیزوں کا تفصیلی علم حاصل ہوا۔

مخالفین اعلیٰ حضرت کے ایک نحوی اعتراض کا جواب

بعض مخالفین لکھتے ہیں : اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ ” لیغفرلک اللہ “ کے جملہ سے ” وما ادری ما یفعل بی و لا بکم “ کا جملہ منسوخ ہوا تو اس صورت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ جملہ ثانی جملہ اول (جملہ ثانیہ، جملہ اولیٰ لکھنا چاہیے تھے۔ سعیدی غفرلہٗ ) ” قل ما کنت بدعا من الرسل “ سے ملا ہوا ہے تو کیا عربی قواعد کی رو سے صرف معطوف کو منسوخ کرنا جائز ہوسکتا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ضابطہ کے لحاظ سے معطوف، معطوف علیہ دونوں ایک ہی حکم میں آتے ہیں ” جاء نبی زید و عمرو “ میں مجیئت کا اطلاق دونوں پر ہے، (الیٰ قولہ) اسی طرح منسوخ کا حکم بھی دونوں جملوں پر تو ہونا ہی چاہیے، جب کہ اس طرح ہو نہیں سکتا، جملہ اوّل کے نسخ کا کوئی بھی قائل نہیں اور وہ خبر ہے ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ معترض نے مفرد کے مفرد پر عطف سے معارضہ کیا ہے اور ہماری بحث جملہ کے جملہ پر عطف میں ہے، اور جب جملہ کا جملہ پر عطف ہو تو اصولیین نے یہ تصریح کی ہے کہ ان کی خبر میں مشارکت واجب نہیں ہے۔

علامہ عبد العزیز بن احمد البخاری المتوفی ٧٣٠ ھ ” اصول البزدوی “ کی شرح میں لکھتے ہیں :

وقد تدخل الواوعلی جملۃ کاملۃ بخبرھافلا تجب بہ المشارکۃ فی الخبر مثل قول الرجل ھذہ طالق ثلاثا وھذہ طالق ان الشانیۃ تطلق واحدۃ۔

(کشف الاسرار ج ٢ ص ٢٢٥۔ ٢٢٤، دارالکتاب العربی، ١٤١١ ھ)

کبھی وائو اس جملہ پر داخل ہوتی ہے جو اپنی خبر کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، پس اس صورت میں خبر میں مشارکت واجب نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص کہے : اس عورت کو تین طلاقیں ہیں اور اس عورت کو طلاق ہے تو دوسری عورت کو صرف ایک طلاق پڑے گی۔

حسب ذیل علماء اصول نے بھی اس قاعدہ کی تصریح کی ہے۔

علامہ تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ (تلویح ص ١٨٨) ، ملا جیونمتوفی ١١٣٠ ھ (نور الانوار ص ١٢٢) اور علامہ ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ (شرح شرح المنار ص ١١٩) ۔

اور جب ایک جملہ کا دوسرے جملہ پر عطف ہو اور معطوف اور معطوف علیہ کی خبر میں اختلاف جائز ہے تو یہ بھی جائز ہے کہ معطوف یعنی جملہ ثانیہ منسوخ ہو اور جملہ اولیٰ یعنی معطوف علیہ منسوخ نہ ہو۔

اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جب مفرد کا مفرد پر عطف ہو تب بھی ان میں مشارکت واجب نہیں، یہ ہوسکتا ہے کہ معطوف میں مجاز مراد ہو اور معطوف علیہ میں حقیقت مراد ہو اور اس کی قرآن مجید میں دو واضح مثالیں ہیں :

(١) یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْاط (النساء : ٤٣) اے ایمان والو ! نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو، حتیٰ کہ تم یہ جان لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں موضع نماز (مسجد) کے قریب جائو مگر راستہ عبور کرنے کے لئے حتیٰ کہ تم غسل کرلو۔

اس آیت میں معطوف میں ” صلوٰۃ “ سے مراد موضع صلوٰۃ (مسجد) مراد ہے، جو مجاز ہے اور معطوف علیہ میں ” صلوٰۃ “ سے مراد ارکان مخصوصہ ہیں جو حقیقت ہے۔

امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں، حضرت ابن عباس نے اس آیت میں ” جنبا “ کی تفسیر میں فرمایا :” لاتقرب المسجد “ جب تو جنبی ہو تو مسجد کے قریب نہ جا مگر راستہ سے گزرنے کے لئے۔(جامع البیان رقم الحدیث : ٧٥٧٤)

علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے : اصحاب رائے یعنی فقہاء احناف نے کہا ہے : جو مسافر جنبی ہو وہ مسجد سے گزر سکتا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٥ ص ١٨٠)

امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ اور علامہ خازن متوفی ٧٢٥ ھ نے بھی کہا ہے : اس آیت میں معطوف میں ” صلوٰۃ “ سے مراد موضع صلوٰۃ ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٤ ص ٧٦، تفسیر خازن ج ١ ص ٣٧٨)

(٢) وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ (المائدہ : ٦)

اپنے سروں پر مسح کرو اور اپنے پیروں کو دھوئو۔

علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

مسح کا حقیقی معنی ہے : گیلا ہاتھ پھیرنا اور مجازی معنی ہے : دھونا، عرب کہتے ہیں : ” مسح الارض المطر “ بارش نے زمین کو دھو ڈالا۔ سو اس آیت میں ” ارجلکم “ سے پہلے ” وامسحوا “ مقدر ہے اور معطوف میں مسح سے مجاز مراد ہے یعنی دھونا اور معطوف علیہ میں مسح سے حقیقت مراد ہے یعنی گیلا ہاتھ پھیرنا اور یہ جائز ہے کہ معطوف میں مجاز مراد ہو اور معطوف علیہ میں حقیقت مراد ہو جیسے اس آیت میں ہے :

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْاط (النساء : ٤٣ )

اے ایمان والو ! نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو حتیٰ کہ تم یہ جان لو کہ تم کیا کہہ ہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں موضع نماز (مسجد) کے قریب جائو مگر راستہ عبور کرنے کے لئے، حتیٰ کہ تم غسل کرلو۔

اس آیت میں ” صلوٰۃ “ سے معطوف میں مراد ہے محل صلوٰۃ اور معطوف علیہ میں ” صلوٰۃ “ سے مراد ارکان مخصوصہ ہیں اس طرح آیت وضو میں مسح سے معطوف میں مجازاً دھونا مراد ہے اور معطوف علیہ میں مسح سے حقیقتاً گیلا ہاتھ پھیرنا مراد ہے۔

(روح المعانی جز ٦ ص ١١١۔ ١١٠، ملخصاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے کہ الاحقاف : ٩ میں مطعوف ” ما ادری ما یفعل بی ولا بکم “ منسوخ ہو اور معطوف علیہ ” ما کنت بدعا من الرسل “ منسوخ نہ ہو۔

اس اعتراض کا تیسرا جواب یہ ہے کہ معترض نے لکھا ہے کہ ضابطہ کے لحاظ سے معطوف، معطوف علیہ دونوں ایک ہی حکم میں آتے ہیں، ” جاءنی زید و عمرو “ میں مجیئت کا اطلاق دونوں پر ہے (الیٰ قولہ) اسی طرح منسوخ کا حکم بھی دونوں جملوں پر تو ہونا ہی چاہیے۔

معترض نے اپنی سادہ لوحی سے نحوی حکم اور اصولی حکم دونوں کو ایک سمجھ لیا ہے جب کہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے منسوخ ہونا یا نہ ہونا اصولی حکم ہے اس کا تعلق اصول تفسیر اور اصول فقہ سے ہے اور ” جاءنی زید و عمرو “ میں دونوں پر آنے کا حکم لگایا ہے یہ نحوی حکم ہے اور نحوی حکم کا منشاء یہ ہے کہ معطوف علیہ میں جو عامل مذکور ہے وہی عامل معطوف میں بھی مقدر مانا جائے جیسے ” جاءنی زید و عمرو “ میں زید سے پہلے عامل ” جاء “ مذکور ہے تو وہی عامل عمرو سے پہلے بھی مقدر مانا جائے تبھی دونوں پر آنے کا حکم لگے گا اور جب معترض نے الاحقاف : ٩ میں دونوں جملوں کو معطوف اور معطوف علیہ قرار دے دیا تو معلوف علیہ سے پہلے جو عامل ” قل “ مذکور ہے وہی عامل ” قل “ معطوف سے پہلے بھی مقدر ماننا ہوگا اور دونوں جملوں پر ایک حکم لگے گا یعنی آپ کہیے اور پوری آیت کا معنی ہوگا : آپ کہیے کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں اور آپ کہیے کہ میں از خود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور دوسرا جملہ منسوخ کردیا گیا اور یہ نسخ ” قل “ پر وارد ہے یعنی اب آپ کو بھی یہ کہنے سے منع کردیا گیا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا کیونکہ اب آپ کو اپنا اور آپ کے متبعین کا تفصیلی علم دے دیا گیا ہے اور دوسرے جملہ کا منسوخ ہونا اور پہلے جملہ کا منسوخ نہ ہونا یہ اصولی حکم ہے اس کا نحوی حکم سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ معترض نے اپنی سادہ لوحی سے سمجھ لیا ہے۔ معترض نے بڑے طمطراق سے لکھا ہے کہ علم تفسیر ہو یا علم حدیث، عربی زبان کے قواعد کو کہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بہرصورت نسخ کا حکم دونوں جملوں پر ہونا چاہیے۔ ( مغفرت ذنب ص ٢٦٤ )

اور ہم نے واضح کردیا کہ عربی زبان کے قواعد اور نحو کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ دونوں جملے منسوخ ہوں، عربی زبان کا قاعدہ اور نحو کا تقاضا یہ ہے کہ معطوف علیہ سے پہلے جو عام مذکور ہے معطوف سے پہلے بھی اس عامل کو مقدر مانا جائے، علامہ محمود صافی اور علامہ محی الدین درویش نے قرآن مجید کی صرفی نحوی تفسیر لکھی ہے اور اس میں ان دونوں نے تصریح کی ہے کہ ” وما ادری ما یفعل بی ولا بکم “ کا عطف ” وما کنت بدعا من الرسل “ پر ہے۔

محمود صافی نے لکھا ہے کہ ” ما نت بدعا “ الایۃ محل نصب میں ہے اور قول (قل) کا مقولہ ہے اور ” ما ادری “ الایہ محل نصب میں ہے اور اس کا عطف پہلے جملہ پر ہے جو قول کا مقولہ ہے۔

(اعراب القرآن و صرفہ و بیانہ جز ٢٦ ص ١٧٣، انتشارات مدین، اعراب القرآن الکریم و بیانہ ج ٩ ص ١٧٠، ایران)

اس عبارت کا تقاضایہ ہے کہ ” وما ادری “ بھی قول کا مقولہ ہے کیونکہ معطوف علیہ اور معطوف کا حکم واحد ہوتا ہے اس لئے اس جملہ سے پہلے بھی ” قل “ مقدر ہے اور اب اس پر یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ خبر کا نسخ نہیں ہوتا، امر یا نہی کا نسخ ہوتا ہے کیونکہ ” قل “ امر کا صیغہ ہے اور نسخ اسی پر وارد ہے اور نسخ کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے جس کو امام ترمذی اور امام احمد نے روایت کیا ہے اور جمہور مفسرین نے اس آیت کے دوسرے جملہ کے منسوخ ہونے کی تصریح کی ہے اور پہلے جملہ کے منسوخ ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے محکم ہونے پر دلائل ہیں تو وہ جملہ کیوں منسوخ ہوگا ؟

علامہ خفاجی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ اور علامہ آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے یہ تصریح کی ہے کہ یہ نسخ ” قل “ پر وارد ہے۔(عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٤٦٤، روح المعانی جز گ ٢٦ ص ١٥)

اور نسخ لغوی (تغییر حکم) اور نسخ اصطلاحی میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ہم نے ٹھوس نحوی دلائل سے یہ واضح کردیا ہے کہ ان دونوں جملوں کے ایک حکم کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دونوں جملے ” قل “ کے مقولے ہیں اور صرف دوسرے جملہ کے منسوخ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ صحیح حدیث اسی جملہ کے متعلق ہے۔ وللہ الحمد علی ذالک

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اور آپ کہیے :) میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں صرف واضح طور پر عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔

قیاس کے ثبوت پر دلائل

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ میں جو بات بھی کہتا ہوں اور جو کام بھی کرتا ہوں وہ صرف وحی کے تقاضے سے اور اسی کی پیروی میں کہتا ہوں یا کرتا ہوں، جو علماء قیاس کی نفی کرتے ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اللہ کی وحی اور اس کی نص پر عمل کرتے ہیں، یعنی از خود قیاس نہیں کرتے سو ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم بھی قیاس نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے۔

وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (الاعراف : ١٥٨ )

اور تم سب نبی امی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پائو۔

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ (النور : ٦٣ )

پس ان لوگوں کو (عذا ب سے) ڈرنا چاہیے جو آپ کے حکم کے خلاف کرتے ہیں۔

مکرین قیاس کی اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجتہاد کرنے اور قیاس سے حکم معلوم کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اس لئے آپ کا قیاس کرنا بھی اتباع وحی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فَاعْتَبِرُوْا یٰٓـاُولِی الْاَبْصَارِ ۔ (الحشر : ٢)

سو اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو۔

یعنی اس میں غور و فکر کرو کہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے اس پر کس طرح عذاب نازل ہوتا ہے سو تم اس پر قیاس کرو کہ اگر تم نے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو تم پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض احکام کو قیاس سے بھی معلوم کیا ہے، جیسا کہ حسب ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :

حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت فضل بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی، حضرت فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل کا چہرہ دوسری طرف کردیا، وہ عورت کہنے لگی : یا رسول اللہ ! بیشک حج بندوں پر اللہ کا فریضہ ہے، میرا باپ بہت بوڑھا ہے وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥١٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٣٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٠٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٦٤١ )

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ان کی والدہ نے نذر مانی تھی اور وہ نذر پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئیں، آپ نے ان کو یہ جواب دیا کہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے نذر پوری کردیں۔ پھر بعد میں یہ طریقہ مشروع ہوگیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٩٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٣٠٧، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٨١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٣٢)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ فوت ہوگئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم اس کے قرض کو ادا کرتے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر اللہ کا قرض ادا کرو، وہ قرض ادا کئے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٩٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٠٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٨٤٠ )

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے کہا : میری بہن فوت ہوگئی اور اس پر دو ماہ کے مسلسل روزے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بتائو کہ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر اللہ کا قرض ادا کئے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩٥٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨٩۔ ٢٦٨٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٣١٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٧١٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٥٨ )

ان احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حق کو بندوں کے حق پر قیاس کر کے مسئلہ بتایا ہے۔

انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کے علم غیب کی تحقیق

علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اللہ سبحانہٗ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے اور آپ کو اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ آپ لوگوں کو ہدایت یافتہ بنادیں، لوگوں کو ہدایت یافتہ بنانا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ کہ غیب کا علم بالذات اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور انبیاء (علیہم السلام) نے جو غیب کی خبریں دیں ہیں وہ وحی کے واسطے سے دی ہیں اور اولیاء کرام نے جو غیب کی خبریں دی ہیں وہ الہام کے واسطے سے دی ہیں اور اللہ سبحانہٗ کے علم عطا کرنے سے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو قیامت کی علامتیں بتائیں کہ آخر زمانہ میں بدعات کا غلبہ ہوگا، یہ بھی وحی سے بتائی ہیں، اسی طرح آپ نے فرمایا : جو شخص سب سے پہلے اس دروازہ سے داخل ہوگا وہ جنتی ہوگا، پھر حضرت عبد اللہ بن سلام داخل ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ان کے پاس گئے اور ان کو اس بشارت کی خبر دی اور ان سے پوچھا : آپ بتائیں کہ آپ کا وہ کون سا عمل ہے جس پر آپ کو بہت اعتماد ہے ؟ انہوں نے کہا : میں بہت کمزور شخص ہوں اور مجھ کو جس عمل پر زیادہ اعتماد ہے وہ یہ ہے کہ میرا سینہ صاف ہے (میں کسی کے خلاف کینہ نہیں رکھتاض اور میں بےمقصد کاموں میں نہیں پڑتا۔

اور سید الطائفہ جنید بغدادی قدس سرہٗ نے کہا : مجھ سے میرے ماموں السری السقطی نے کہا : لوگوں کو وعظ اور نصیحت کیا کرو اور میں اپنے آپ کو وعظ اور نصیحت کے لائق نہیں سمجھتا تھا، پھر مجھے خواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت ہوئی اور وہ جمعہ کی شب تھی، آپ نے فرمایا : لوگوں کو وعظ کیا کرو، میں بیدار ہوا اور اپنے ماموں کے پاس گیا تو انہوں نے کہا : تم نے اس وقت تک میری بات کی تصدیق نہیں کی جب تک کہ تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے حکم نہیں دیا گیا دوسرے دن میں لوگوں کو نصیحت کرنے بیٹھ گیا، میرے سامنے ایک نصرانی لڑکا آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا : اے شیخ ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کا کیا معنی ہے ؟ حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کی فراست سے بچو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ ۔ (الحجر : ٧٥)

بے شک گہری نظر سے دیکھنے والوں کے لئے اس (قوم لوط کے عذاب) میں ضروربہت نشانیاں ہیں۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١٢٧، تاریخ کبیر للبخاری رقم الحدیث : ١٥٢٩، الضعفاء العقیلی ج ٤ ص ١٢٩، حلیۃ الاولیاء ج ١٠ ص ٢٨٢۔ ٢٨١ تاریخ بغدادج ٣ ص ١٩١۔ ج ٧ ص ٢٤٢ )

جنید بغدادی نے پہلے اپنا سر جھکایا پھر سر اوپر اٹھا کر کہا : تم اب اسلام قبول کرلو، تمہارے اسلام قبول کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جنید کو اس مقام کی معرفت کرا دی تھی۔

(روح البیان جز ٨ ص ٦٣١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ اسماعیل حقی نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کو علم غیب وحی سے عطا فرماتا ہے اور اولیاء کرام کو غیب الہام سے عطا فرماتا ہے، انہوں نے اس سلسلہ میں ایک مثال حدیث سے دی ہے اور ایک مثال جنید کے واقعہ سے دی ہے۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :

الاحقاف : ٩ میں ان لوگوں کا رد ہے جو بعض اولیاء کے لئے ہر چیز کا علم، کلیات اور جزئیات سے ثابت کرتے ہیں اور مجھ سے ایک شخص نے کہا : حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ کو ہر چیز کا علم ہے، حتیٰ کہ ان کو میرے بالوں کے اگنے کی جگہ کا بھی علم ہے، حالانکہ اس قسم کا دعویٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی نہیں کرنا چاہیے، چہ جائیکہ آپ کے غیر کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے۔ پس بندہ کو اپنے مولیٰ سے ڈرنا چاہیے اور حضرت عثمان بن مظعون کے متعلق جو حدیث گزر چکی ہے اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو حضرت عثمان بن مظعون سے کم درجہ کے لوگوں کے لئے جنت اور کرامت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان لوگوں کے متعلق جن کے حق میں مخب صادق (علیہ السلام) نے بشارت نہیں دی، ہاں ! مسلمان زندہ ہوں یا مردہ ان کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے اور ہر ایک کے لئے خیر کی امید رکھنی چاہیے۔ پس اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہیے کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کا کفر کرچکے ہو (تو پھر تمہارا کیا انجام ہوگا ! ) اور بنی اسرائیل کا ایک شخص اس جیسی کتاب کی گواہی دے چکا ہو اور اس پر ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہاری عاقبت کیسی ہوگی ! ) بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا  الاحقاف : ١٠۔ ٩)

القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 9