فَاصۡبِرۡ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسۡتَعۡجِلْ لَّهُمۡؕ كَاَنَّهُمۡ يَوۡمَ يَرَوۡنَ مَا يُوۡعَدُوۡنَۙ لَمۡ يَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنۡ نَّهَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَهَلۡ يُهۡلَكُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاصۡبِرۡ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسۡتَعۡجِلْ لَّهُمۡؕ كَاَنَّهُمۡ يَوۡمَ يَرَوۡنَ مَا يُوۡعَدُوۡنَۙ لَمۡ يَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنۡ نَّهَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَهَلۡ يُهۡلَكُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۞
ترجمہ:
سو (اے رسول ! ) آپ صبر کیجیے جیسا کہ ہمت والے رسولوں نے صبر کیا تھا اور ان کے لئے (طلب عذاب کی) جلدی نہ کریں، جس دن وہ آخرت کے اس عذاب کو دیکھیں گے جس کی ان کو وعید سنائی گئی ہے، (اس وقت وہ گمان کریں گے) کہ وہ دنیا میں صرف دن کی ایک گھڑی رہے تھے، (یہ قرآن کا) پیغام ہے، لہٰذا صرف نافرمان لوگوں کو ہی ہلاک کیا جائے گا ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو (اے رسول ! ) آپ صبر کیجیے جیسا کہ ہم ہمت والے رسولوں نے صبر کیا تھا اور ان کے لئے (طلب عذاب کی) جلدی نہ کریں، جس دن وہ آخرت کے اس عذاب کو دیکھیں گے جس کی ان کو وعید سنائی گئی ہے، (اس وقت وہ گمان کریں گے) کہ وہ دنیا میں صرف دن کی ایک گھڑی رہے تھے، یہ (قرآن کا) پیغام ہے، لہٰذا صرف نافرمان لوگوں ہی کو ہلاک کیا جائے گا (الاحقاف : ٣٥)
اولوالعزم کا معنی
الاحقاف : ٣٥ میں اللہ تعالیٰ نے اولی العزم (ہمت والے) رسولوں کا ذکر فرمایا ہے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اولی العزم رسول کتنے ہیں اور کون کون ہیں ؟ سب سے پہلے ہم اولی العزم کا معنی بیان کریں گے، پھر یہ بیان کریں گے کہ مفسرین نے اولی العزم رسولوں میں کن کن رسولوں کو شمار کیا ہے ؟
امام حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
عزم اور عزیمت کا معنی ہے، کسی کام کو کر گزرنے کے لئے دل کا پختہ ارادہ کرلینا، اس سے مراد وہ عمل ہے جس کے حسن، خوبی اور نیکی کی وجہ سے ہر شخص کو اسے کر گزرنے کا پختہ ارادہ کرلینا چاہیے یا اس کام کی عظمت کی وجہ سے اس کام کو انجام دینا اللہ کی طرف سے بندوں پر پختہ اور لازم کردیا گیا ہو، قرآن مجید میں ہے :
” وَلَقَدْ عَہِدْنَـآ اِلٰٓی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا “ (طہ : ١١٥)
اور ہم نے اس سے پہلے ہی آدم کو پختہ حکم دے دیا تھا پس وہ بھول گئے اور ہم نے ان کا کوئی عزم نہیں پایا
(المفردات ج ٢ ص ٤٣٤، مکتبہ نزار مصطفی، الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : ہم نے معصیت کے ارتکاب پر ان کا کوئی عزم نہیں پایا، اور یہ معنی مدح کے قریب ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی ہو : ہم نے ترک معصیت پر آپ کا عزم نہیں پایا، یا ہم نے غفلت سے احتراز اور حفاظت پر آپ کا عزم نہیں پایا، یا کیفیت اجتہاد میں احتیاط کرنے پر آپ کا عزم نہیں پایا، یہ تمام محامل اس صورت میں ہیں جب یہ کہیں کہ آپ سے اجتہادی خطاء واقع ہوئی۔ (تفسیر کبیر ج ٨ ص ١٠٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ لکھتے ہیں :
کسی کام پر عزم کرنے کا یہ معنی ہے کہ اس کام کو کرنے کا قطعی ارادہ کرلیا یا اس کام میں پوری کوشش اور جدوجہد کی، اولی العزم رسولوں کا معنی ہے : اللہ نے ان سے جس کام کو کرنے کا عہد لیا تھا اس کو کرنے کا انہوں نے عزم کیا اور یہ رسول حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت سیدنا محمد علیہ و (علیہ السلام) ہیں۔ زمخشری نے کہا : یہ رسول اصحاب جدوجہد، ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں اور یہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب، حضرت موسیٰ ، حضرت دائود اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ (القاموس المحیط ص ١١٣٧، مؤـسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :
عزم کا معنی ہے : جس کام کو کرنے کا تمہارے دل نے پختہ ارادہ کرلیا اور تم نے اس کام کو کرنے کی اپنے دل میں گرہ باندھ لی۔ حدیث میں ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر سے پوچھا : تم کس وقت وتر پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : رات کے ابتدائی حصہ میں، حضرت عمر سے پوچھا : تم کس وقت وتر پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : رات کے آخری حصہ میں، آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : تم نے حزم (احتیاط) پر عمل کیا ہے اور حضرت عمر سے فرمایا : تم نے عزم پر عمل کیا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٤٣٤، مسند احمد ج ٣ ص ٣٠٩، سنن بیہقی ج ٣ ص ٣٦۔ ٣٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منشاء یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے یہ احتیاط کی کہ کہیں ان کی آنکھ نہ کھلے اس لئے انہوں نے وتر پہلے پڑھے اور حضرت عمر کو تہجد پڑھنے کی اپنی قوت پر اعتماد تھا، اس لئے انہوں نے وتر کو مؤخر کیا اور بغیر احتیاط کے کسی عزم میں خیر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ” فاذا اعزم الامر “ (محمد : ٢١) زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے : جب امر مؤکد ہوجائے اور قتال لازم ہوجائے، حدیث میں ہے : ” خیر الامور عوازمھا “ (الدارالمنثور ج ٢ ص ٢٢٥، قدیم) یعنی جس چیز پر تمہاری رائے پختہ اور مؤکد ہوجائے اور تم اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور عزم کا معنی صبر کی طاقت ہے اور اولی العزم رسولوں کا معنی ہے : جن رسولوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور سیدنا محمد (علیہ السلام) ہیں۔
(لسان العرب ج ١٠ ص ١٤٠۔ ١٣٩، مؤسسۃ الرسالۃ، العنایۃ ج ٣ ص ٢٠٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اولوالعزم رسولوں کے مصادیق
اولی العزم رسولوں کا معنی بیان کرنے کے بعد اب ہم یہ بیان کرتے ہیں اولی العزم رسول کتنے ہیں اور کون کون ہیں ؟
امام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ٢١١ ھ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قتادہ نے الاحقاف : ٣٥ کی تفسیر میں کہا : یہ رسول حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہیں صلوات اللہ علیہم۔ (تفسیر امام عبد الرزاق ج ٢ ص ١٧٨، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤١١ ھ)
امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ نے عطاء خراسانی سے روایت کیا ہے اولی العزم رسول یہ ہیں : حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور سیدنا محمد صلوٰت اللہ علیہم و التسلیمات۔ (رقم الحدیث : ٢٤٢٤٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام ابو اسحاق احمد بن اباہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اولی العزم رسول وہ ہیں جو بہت احتیاط کرنے والے ہوں، بہت جدوجہد اور صبر کرنے والے ہوں، ان کی رائے درست ہو، ان کی تعداد میں اختلاف ہے، ابن زید نے کہا : تمام رسول اولی العزم ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف اولی العزم ہی کو رسول بنایا ہے، علی بن مہدی الطبری کا بھی یہی مختار ہے اور آیت ” اولوالعزم من الرسل “ (الاحقاف : ٣٥) میں ” من “ تجنیس کے لئے ہے تبعیض کے لئے نہیں ہے اور بعض مفسرین نے کہا : حضرت یونس (علیہ السلام) کے علاوہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اولوالعزم ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ : ترجمہ : سو آپ اپنے رب کے حکم سے صبرکیجئے اور مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں نے غم کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو پکارا تھا۔
اور ابومنصور جمشاذی نے ابوبکر رازی سے اور انہوں نے ابوالقاسم الحکیم سے نقل کیا ہے کہ اولوالعزم رسول اٹھارہ ہیں جن کا ذکر انعام 82-86 میں ہے وہ یہ ہیں (١) حضرت ابراہیم (٢) حضرت اسحاق (٣) حضرت یعقوب (٤) حضرت نوح (٥) حضرت داؤد (٦) حضرت سلیمان (٧) حضرت ایوب (٨) حضرت یوسف (٩) حضرت موسیٰ (١٠) حضرت ہارون (١١) حضرت زکریا (١٢) حضرت یحییٰ (13) حضرت عیسیٰ (١٤) حضرت الیاس (١٥) حضرت اسماعیل (١٦) حضرت الیسع (١٧) حضرت یونس اور (18) حضرت لوط علیہم السلام، ان انبیاء کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کذالک نجزی المحسنین انعام 84) ہم اسی طرح محسنین کو جزا دیتے ہیں کل من الصلحین یہ سب صالح رسول ہیں۔ انعام 85) کلا فضلنا علی العلمین (انعام 86) ہم نے ان سب رسولوں کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔
اولئک الذی ھدی اللہ فبھدیھم اقتدہ (انعام 90) ان تمام نبیوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے سو آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے (یعنی ان کے تمام انفرادی مح اس اور کمالات کو اپنی سیرت میں جمع کرلیجئے۔
ابو علی حبش مقری نے کہا : اولو العزم بارہ نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شام میں بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا اور ان کی طرف یہ وحی فرمائی کہ میں تمہیں نافرمان بنی اسرائیل کی طرف بھیج رہا ہوں، ان پر یہ حکم دشوار ہوا تو ان کی طرف اللہ سبحانہ نے یہ وحی فرمائی کہ تم جس چیز کو چاہو اختیار کرلو اگر تم چاہو تو میں تم پر عذاب (مصائب) نازل کروں اور بنی اسرائیل کو نجات دے دوں اور اگر تم چاہو تو میں بنی اسرائیل پر اپنا عذاب بھیجوں، انہوں نے باہم مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ ان پر مصائب کو نازل کیا کردئیے، سو بعض نے ان کو آرے سے چیز ڈالا اور بعض کے چہرے اور باقی جسم کی کھال اتارلی اور بعض کو سولی پر چڑھا دیا اور بعض کو آگ میں جلا دیا۔
ایک قول یہ ہے کہ اولوالعزم رسول سات ہیں : حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت موسیٰ (علیہم السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا ذکر ” الشعرائ “ میں ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اولی العزم رسول پانچ ہیں جن پر شریعت (جدیدہ) نازل ہوئی : حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
مقاتل نے کہا : اولوالعزم چھ رسول ہیں : حضرت نوح (علیہ السلام) جن کو ان کی قوم نے اذیت پہنچائی حتیٰ کہ ان کی قوم ان کو اس قدر مارتی کہ وہ بےہوش ہوجاتے اور انہوں نے اس اذیت رسانی پر صبر کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنہوں نے آگ میں جلائے جانے پر صبر کیا اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) جنہوں نے ذبح کیے جانے پر صبر کیا (صحیح یہ ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ ہم نے الصفت میں بیان کیا) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) جنہوں نے اپنے بیٹے کے گم ہونے پر صبر کیا اور بینائی کے جانے پر صبر کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) جنہوں نے کنویں میں ڈالے جانے پر صبر کیا اور قید میں ڈالے جانے پر صبر کیا اور حضرت ایوب (علیہ السلام) جنہوں نے اپنی بیماری پر صبر کیا۔
حسن بصری نے کہا : اولوالعزم چار سول ہیں :ـ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت دائود اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عزم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا :” اسلم “ اسلام لائو، تو انہوں نے کہا ::” اسلمت لرب العلمین “ (البقرہ : ١٣١) میں نے رب العلمین کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، پھر ان کو ان کے مال، ان کی اولاد، ان کے وطن اور ان کی جان کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا تو وہ ہر آزمائش میں سچے اور پورے اترے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عزم یہ ہے کہ جب ان سے ان کی قوم نے کہا :” انا المدرکون “ (الشعرائ : ١٢) ہم کو پکر لیا جائے گا، تو انہوں نے فرمایا : ” کلا ان معنی ربی سیھدین (الشعرائ : ٦٢ ) “ ہرگز نہیں میرے ساتھ ہے میرا رب وہ عنقریب مجھے ہدایت دے گا، اور رہے حضرت دائود (علیہ السلام) تو ان کا عزم یہ ہے کہ ان سے ایک خطا ہوگئی پھر ان کو اس پر تنبیہ کی گئی اور چالیس سال تک وہ اپنی خطا پر نادم رہے حتیٰ کہ ان کے آنسوئوں سے ایک درخت اگ گیا اور وہ اس کے سائے میں بیٹھ گئے اور رہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو ان کا عزم یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں ایک اینٹ پر دوسری اینٹ نہیں رکھی اور کہا : یہ دنیا عبرت کی جگہ ہے تم یہاں پر تعمیر نہ کرو، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمایا : آپ اس طرح صبر کیجئے جس طرح ہمت والے رسولوں نے صبر کیا تھا۔ (الاحقاف : ٣٥) یعنی حضرت ابراہیم کی طرح آزمائش میں پورے اتریں اور حضرت موسیٰ کی طرح اللہ کی نصرت پر اعتماد رکھیں اور حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرح کثرت سے استغفار کریں اور حضرت عیسیٰ کی طرح دنیا سے بےرغبت رہیں۔
ابو العالیہ نے کہا : اولوالعزم رسول تین ہیں : حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے چوتھے ہیں، آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ بھی ان کی طرح صبر کریں۔ (الکشف والبیان ٩ ص ٢٦۔ ٦٤، ملخصا، دار احیاء التراث العربی، بیروت ١٤٢٢ ھ)
اولوالعزم رسولوں پر سب سے زیادہ تفصیل سے ان ہی (علامہ ثعلبی) نے لکھا ہے اور بعد والوں نے ان کی خوشی چینی کی ہے۔ علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے ان کی پوری تفسیر کو اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٠٤۔ ٢٠٣) اور علامہ سید محمود آلوسی نے ان کی تفسیر کا اکثر حصہ اپنی تفسیر میں نقل کردیا ہے۔ ٠ روح المعانی جز ٢٦ ص ٥٤۔ ٥٣) امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے ان کی تفسیر میں سے مقاتل، ھسن بصری اور ابن زید کے اقوال نقل کیے، لیکن قائلین کی طرف نسبت نہیں کی۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٣١۔ ٣٠) علامہ عبد اللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ نے مقاتل اور ابن زید کا نام لئے بغیر ان کے اقوال کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر بیضاوی مع الخفا جی ج ٨ ص ٤٨٥۔ ٤٨٣)
الاحقاف : ٣٥ منسوخ ہے یا نہیں ؟
بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ قتال اور جہاد کی آیتوں سے یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے، کیونکہ یہ سورت مکی ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ان کے لئے (طلب عذاب) جلدی نہ کریں، کیونکہ ان کے آخری عذاب کی مدت قیامت کا دن ہے۔
پھر فرمایا : جس دن وہ آخرت کے اس عذاب کو دیکھیں گے، جس کی ان کو وعید سنائی گئی ہے ( اس وقت وہ گمان کریں گے) کہ وہ دنیا میں صرف دن کی ایک گھڑی رہے تھے۔
یعنی قیامت کے ہولناک امور کو جب وہ دیکھیں گے تو ان کو دنیا میں اپنا قیام صرف ایک گھنٹہ کا معلوم ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا : یہ (قرآن کا) پیغام ہے۔
اور فرمایا : لہٰذا صرف نافرمان لوگوں کو ہی ہلاک کیا جائے گا۔ یعنی ان لوگوں کو جنہوں نے خود کا للہ سبحانہ، کی اطاعت سے باہر رکھا ہوا ہے۔
سورۃ الاحقاف کا خاتمہ
الحمد اللہ رب العلمین ! آج سات ربیع الاول ١٤٢٥ ھ/اٹھائیس اپریل ٢٠٠٤ ھ بہ روز جمعرات کو سورة الاحقاف کی تفسیر مکمل ہوگئی۔ ٢٤ مارچ ٢٠٠٤ ء کو اس سورت کی تفسیر شروع کی گئی تھی اس طرح ایک ماہ اور چار دن میں یہ تفسیر مکمل ہوگئی، الہ العلمین ! جس طرح آپ نے محض اپنے فضل و کرم سے یہاں تک پہنچا دیا ہے باقی قرآن مجید کی تفسیر کو بھی مکمل کرادیں، اس تفسیر اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائیں اور ہر خاص و عام کے نزدیک اس کو قبول بنادیں اور قیامت تک اس کو فیض آفریں رکھیں اس کو میرے لئے صدقہ جاری بنادیں، میری امی کی، میرے والد گرامی کی اور میری مغفرت فرمادیں، قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ایک دفعہ سورة فاتحہ اور تین بار سورة اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب میرے والدین کو پہنچا دیں، میں بھی ان کے لئے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ میرے قارئین کو، اس کتاب کے ناشر کو اور مجھ کو دنیا اور آخرت کے ناگہانی حوادث، مصائب اور عذاب سے محفوظ رکھے اور محض اپنے فضل سے ہماری مغفرت فرما دے۔
غلام رسول سعیدی غفرلہ،
٣ صفر ١٣٢٥ ھ/٢٥ مارچ ٢٠٠٤ ء
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 35