أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحًا مُّبِيۡنًا ۞

ترجمہ:

(اے رسول مکرم ! ) ہم نے آپ کے لئے کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے رسول مکرم ! ) ہم نے آپ کے لئے کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی۔ تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرمادے آپ کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلافِ اولیٰ سب کام اور آپ پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ کو صراط مستقیم پر براقرار رکھے۔ اور اللہ آپ کی نہایت قوی مدد فرمائے۔ وہی ہے جس نے مؤمنوں کے دلوں میں سکون نازل فرمایا تاکہ ان کا ایمان ان کے پہلے ایمان سے اور زیادہ ہو، اور آسمانوں اور زمینوں کے لشکر اللہ ہی کی ملک میں ہیں، اور اللہ بہت علم والا ہے بےحد حکمت والا ہے۔ تاکہ اللہ مومنوں اور مؤمنات کو ان جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان کی برائیوں کو ان سے مٹا دے اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔ (الفتح : ٥۔ ١)

(الفتح : ١) سے آیا فتح مکہ مراد ہے یا فتح حدیبیہ ؟

الفتح : ١ میں جس فتح کا ذکر فرمایا ہے، اس سے مراد کون سی فتح ہے ؟ اس میں مفسرین کے کوئی اقوال ہیں : (١) فتح مکہ (٢) فتح روم (٣) صلح حدیبیہ کی فتح (٤) دلائل اور براہین سے اسلا کی فتح (٥) اسلحہ سے اسلام کی فتح (٦) حق اور باطل کے اختلاف میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ۔

جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد حدیبیہ کی فتح ہے، حضرت انس (رض) نے الفتح : ١ کی تفسیر میں کہا : اس سے مراد حدیبیہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٤) حضرت جابر نے کہا : ہم فتح مکہ کا شمار نہیں کرتے تھے مگر حدیبیہ کے دن اور فراء نے کہا : حضرت جابر نے فرمایا : تم لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہو، فتح مکہ بھی فتح تھی اور ہم حدیبیہ کے دن بیعت رضوان کو فتح شمار کرتے ہیں، ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ سو افراد تھے، اور حدیبیہ ایک کنواں ہے، ضحاک نے کہا : یہ فتح بغیر جنگ کے حاصل ہوئی اور یہ صلح بھی فتح تھی، مجاہد نے کہا : اس سے مراد حدیبیہ میں اونٹوں کو نحر کرنا اور سروں کو مونڈنا ہے اور کہا : فتح حدیبیہ میں بہت عظی نشانیاں ہیں، حدیبیہ کا پانی تقریباً ختم ہوگیا تھا، نبی و نے اس میں کلی فرمائی تو اس کا پانی کناروں سے چھلکنے لگا، حتیٰ کہ آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے وہ پانی پی لیا، اور موسیٰ بن عقبہ نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے حدیبیہ سے واپسی کے وقت کہا : یہ فتح نہیں ہے، ہم کو بیت اللہ کی زیارت کرنے سے روک دیا گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ یہ سب سے عظیم فتح ہے، مشرکین اس بات سے راضی ہوگئے کہ وہ تم کو اپنے شہروں سے دور رکھیں اور تم سے مقدمہ کا سوال کریں اور امان کے حصول میں تمہاری طرف رظبت کریں اور انہوں نے تم سے وہ چیزیں دیکھیں جو ان کو ناپسند ہیں۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٣٧١١) شعبی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اس فتح سے مراد فتح حدیبیہ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس فتح میں وہ چیزیں حاصل ہوئیں جو کسی اور غزوہ میں حاصل نہیں ہوئیِ آپ کو اس میں اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ سب کاموں پر مغفرت حاصل ہوئی، آپ کو بیعت رضوان حاصل ہوئی، اسی غزوہ کے بعد خیبر فتح ہو اور رومی ایرانیوں پر غالب ہوئے اور مسلمانوں کو اس سے خوشی ہوئی کہ اہل کتاب کو مجوسیوں پر غلبہ ہوا اور زہری نے کہا کہ حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی، حدیبیہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ سو مسلمان تھے اور اس کے صرف دو سال بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٣٩، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 1