فَهَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَتُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَكُمۡ ۞- سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 22
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَهَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَتُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَكُمۡ ۞
ترجمہ:
تم سے یہ بعید نہیں ہے کہ اگر تم کو زمین میں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد کروں گے اور رشتے توڑ ڈالو گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تم سے یہ بعید نہیں ہے کہ اگر تم کو زمین میں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد کروں گے اور رشتے توڑ ڈالو گے یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تو ان کو بہرا بنادیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا تو کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں (محمد : ٢٤۔ ٢٢ )
جہاد سے روگردانی پر منافقوں کے عذر کا رد کرنا
اس آیت میں منافقین کے قول کے رد کی طرف اشارہ ہے، جب ان کو مشرکین کے خلاف قتال اور جہاد کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اپنے جہاد میں نہ شریک ہونے کے متعلق یہ عذر پیش کیا کہ ہم مشرکین کے خلاف کیسے قتال کریں کیونکہ ایک تو انسانوں کو قتل کرنا زمین میں فساد پھیلانا ہے، دوسرے یہ کہ مشرکین عرب ہمارے رشتہ دار ہیں اور ہمارے قبیلوں کے ہیں سوا سے قتال کرنا رحم کے رشتوں کو منقطع کرنا ہے اور قطع رحم کرنا اور رشتوں کو منقطع کرنا اچھا کام نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے عذر کو یہ فرما کر رد کردیا کہ اگر تم کو زمین میں حکمران بنادیا جائے تو تم اپنی مرضی سے زمین میں فساد پھیلائو گے جو شخص تمہاری مرضی کے خلاف کوئی کام کرے گا تو تم فوراً اس کو قتل کردو گے اور وہ تمہارے رشتہ دار اور تمہارے قبیلہ ہی کے افراد ہوں گے تو تم قتل کر کے زمین میں فساد ہی کروگے اور رشتوں کو منقطع کرو گے، اللہ کے حکم سے جہاد کرنے کو تو تم زمین میں فساد پھیلانا کہتے ہو اور اپنی خواہش سے زمین میں فساد پھیلاتے رہو گے اور کیا تم زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہیں کرتے رہے تھے، کیا تمہارا یہ فعل زمین میں فساد کرنا اور رشتوں کو منقطع کرنا نہیں تھا۔
محمد : ٢٢ میں ” ان تولیتم “ کی دو تفسیریں۔
اس آیت میں فرمایا ہے۔ ” ان تولیتم “ اس کی تفسیر میں دو قول ہیں :
(١) یہ لفظ ولایت سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے : حکومت، یعنی اگر تم ولایت اور حکومت کو حاصل کرلو اور لوگوں پر تمہیں اقتدار حاصل ہوجائے تو تم زمین میں فساد پھیلائو گے اور رشتوں کو منقطع کرو گے۔
(٢) یہ لفظ ” تولی “ سے ماخوذ ہے، جس کی معنی ہے : اعراض کرنا اور روگردانی کرنا، یعنی تم کفار کے خلاف قتال اور جہاد سے اعراض کر رہے ہو اور یہ کہتے ہو کہ جہاد کی وجہ سے زمین میں فساد ہوگا اور رشتتوں کو منقطع کیا جائے گا، کیونکہ کفار ہمارے رشتہ دار ہیں حالانکہ جب تم کو اقتدار مل جائے گا، تو تم بھی یہی کچھ کرو گے۔
امریکا اور امریکا نواز حکومتیں بھی جہاد کی اسی وجہ سے مخالف ہیں حتیٰ کہ امریکا نواز مسلم حکومتیں نصاب سے جہاد کے متعلق آیتوں کو نکال رہی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جہاد کی وجہ سے انسانی خون بہایا جاتا ہے، اس لئے پاکستان میں جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور مسلمان فلسطین میں اسرائیلوں کے تسلط کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر میں ہندئوں کے جبر کے خلاف جو جہادی کاروائی کر رہے ہیں، یہ لوگ اس کو دہشت گردی کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان افغانستان اور عراق میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جو جہادی کاروائی کرتے ہیں اس کو بھی دہشت گردی کہتے ہیں اور کوئی ان سے یہ نہیں کہتا کہ تم نے جو افغانستان کی بےقصور آبادیوں پر ہزاروں ٹن وزنی بم برسائے اور متعدد ملکوں کے اشتراک سے افغانستان پر حملہ کرکے غاصبانہ قبضہ کیا اور ہنوز وہاں پر بےقصور مسلمانوں کا خون بہا رہے ہو، اسی طرح تم نے برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر بلاجواز عراق پر حملہ کیا اور غاصبانہ قبضہ کیا اور ہزاروں عراقیوں کا خون بہایا اور وہاں پر مہلک بم برسائے اور گنوانتانا مو بے میں افغانستان کے جنگی قیدیوں کو جانوروں کی طرح پنجروں میں بند کرکے رکھا اور عراق کے جنگی قیدیوں کو ابو غریب جیل میں عراقی مسلمانوں کو مادرزاد برہنہ کرکے ان پر خون خوار کتے چھوڑے اور ان کی گردن میں پٹہ ڈال کر ان کو زمین پر گھسیٹا اور قیدی خواتین کو برہنہ کرکے ان پر تشدد کیا، جس ظلم اور بربریت پر ساری دنیا کا پریس اور میڈیا چیخ رہا ہے۔ (یکم مئی ٢٠٠٤ ئ، دی مرر کی رپورٹ) کیا یہ زمین میں فساد پھیلانا نہیں ہے، تم اپنے آپ کو مہذب قوم کہتے ہو، کیا یہی تہذیب اور شائستگی ہے، کیا یہی انسانی خون اور انسانی جان کا احترام ہے ؟
اسی طرح ان منافقین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ظالموں نے تم کو اقتدار سونپ دیا اور تم ان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تو تم ان ظالموں کے ساتھ مل کر زمین میں فساد پھیلائو گے اور رشتوں کو قطع کرو گے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو اصلاح کرنے کا، امن کے ساتھ رہنے کا اور رشتے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتے ہیں، پھر تم کفار کے خلاف جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیتے اور کیوں دور کی گم راہی میں جارہے ہو ؟
اس آیت میں چونکہ صلہ رحم کرنے کا اور قطع رحم کی مذمت کا ذکر آگیا ہے اس لئے اس مناسبت سے ہم صلہ ارحام کے متعلق احادیث بیان کر رہے ہیں :
صلہ رحم کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو مہمان کی تکریم کرنی چاہیے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو صلہ رحم (رشتہ داروں سے حسن سلوک) کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو اچھی بات کرنی چاہیے یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٣٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨ )
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جائے، اس کو چاہے کہ وہ صلہ رحم کرے (رشتہ داروں سے میل جول رکھے) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٧ )
حضرت علی ابن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کو اس سے خوشی ہو کہ اس کی عمر میں ضافہ کیا جائے اور اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس سے بری موت دور کی جائے، پس اس کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور رشتہ داروں سے میل جول رکھے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٥٣، المستدرک ج ٤ ص ١٦٠ )
خثعم کے ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ میں نبی و کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صحابہ کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے، میں نے سوال کیا : آیا آپ ہی وہ شخص ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ” میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : پھر صلہ رحم ہے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : پھر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ عزوجل کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ ناراضگی کا باعث ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کا شریک بنانا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر کون سا عمل مبغوض ہے ؟ فرمایا : رشتوں کو توڑنا، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٥١، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٢٨٣٩، حافظ منذری نے کہا : امام ابو یعلیٰ کی سند بہت اچھی ہے۔ الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٢٧٠٠)
حضرت ابو ایوبرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : یا رسول اللہ وہ مجھے وہ عمل بتلائیے جو مجھے جنت کے قریب کردے اور دوزخ سے دور کردے، آپ نے اپنے اصحاب کی طرف دیکھ کر فرمایا : اس کو (اچھے) سوال کی توفیق دی گئی ہے، پھر اعرابی سے پوچھا : تم نے کیا سوال کیا تھا ؟ اس نے اپنا سوال دہرایا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحم کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رحم عرش کے ساتھ معلق ہے اور کہہ رہا ہے : جو مجھ سے ملاپ رکھے گا، اللہ اس سے ملاپ رکھے گا اور جو مجھ کو قطع کرے گا اللہ اس کو قطع کرے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٥ )
حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ عزوجل فرماتا ہے : میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم پیدا کیا اور میں نے اس (رحم) کا نام اپنے نام ( رحمن) سے بنایا جو اس سے وصل (ملاپ) رکھے گا میں اس سے وصل (ملاپ) رکھوں گا اور جو اس سے قطع کرے گا میں اس سے قطع کروں گا۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٩٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٧، مسند احمد ج ا ص ١٩١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٣ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کرکے فارغ ہوگیا تو رحم کھڑا ہوگیا اور کہا : یہ وہ جگہ ہے جہاں تجھ سے قطع کرنے سے پناہ مانگی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں ! یا تو اس بات سے راضی ہے کہ جو تجھ سے وصل رکھے میں اس سے وصل رکھوں اور جو تجھ سے قطع کرے میں اس سے قطع کروں، رحم نے کہا : کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پس یہ تم کو مل گیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو :
……(محمد : ٢٣۔ ٢٢) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٤ )
تم سے یہ بعید نہیں کہ اگر تم کو زمین میں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد کروں گے اور رشتہ توڑ ڈالو گے یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تو ان کو بہرا بنادیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا
حضرت سعید بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے بڑا سود یہ ہے کہ مسلمان کی عزت کو ناحق پامال کیا جائے اور یہ رحم رحمن کی پیچیدہ شاخوں سے ہے جس نے اس کو قطع کیا، اللہ اس پر جنت کو حرام کردے گا۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٥٠، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٥٧، مسند البزار رقم الحدیث : ١٨٩٤)
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر ایک کی پیروی کرنے والے نہ بن جائو اور یہ کہو کہ اگر لوگوں نے نیک سلوک کیا تو ہم بھی نیک سلوک کریں گے اور اگر لوگوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، لیکن اپنے آپ کو مشقت برداشت کرنے کا عادی بنائو، اگر لوگ نیک سلوک کریں تو تم نیک سلوک کرو اور اگر لوگ ظلم کریں تو ظلم نہ کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٧)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) عنما بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص برابر کا سلوک کرے وہ صلہ رحم کرنے والا نہیں ہے، صلہ رحم کرنے والا وہ ہے جس اس سے رشتہ قطع کیا جائے تو وہ رشتہ جوڑے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٩٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٨)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر فی الواقع ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے بیان کیا ہے تو گویا کہ تم ان پر گرم راکھ مل رہے ہو اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک ان کے خلاف تمہاری مدد کرتا رہے گا جب تک تم اسی طرز سلوک پر قائم رہو گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٨ )
حضرت معاذ بن انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے افضل عمل یہ ہے کہ جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم رکھے اس عطا کرو اور جو تم کو گالی دے ( یا برا کہے) اس سے درگزر کرو۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٨٩، مسند احمدج ٣ ص ٤٣٨، المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ١٨٨)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 22