تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰)

ترجمۂ کنزالایمان: ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں ، کیا ہی بری چیز اپنے لیے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں توان کی جانوں نے ان کے لئے کتنی بری چیز آگے بھیجی کہ ان پراللہ نے غضب کیا اور یہ لوگ ہمیشہ عذاب میں ہی رہیں گے۔

{یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔} پچھلی آیات میں گزشتہ زمانے کے یہودیوں کی مذموم صفات اور ان کے عُیوب و نَقائص کا بیان تھا اب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ مبارکہ کے یہودیوں کی برائیوں اور سازشوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔

شانِ نزول: کعب بن اشرف یہودی اور اس کے ساتھی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بغض و عناد کی وجہ سے مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچے اور انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے پر ابھارا، لیکن یہ لوگ اپنی اس کوشش میں ناکام و نامراد ہوئے، اس واقعے سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منافقین میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے کہ وہ یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۵۱۷)
کفار سے دوستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوااور آخرت میں دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
کفار سے دوستی کا دم بھرنے والے مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت:
معلوم ہوا کے کفار سے دوستی اور مُوالا ت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ یہ آیتِ مبارکہ ان مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت ہے جو کفار کی مسلمانوں سے کھلی دشمنی اپنی روشن آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ، صرف اپنے منصب کی بَقا کی خاطران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے،ان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کی ناراضی سے خوف کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔