أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًا ۞

ترجمہ:

بیشک اللہ ایمان والوں سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو اللہ جانتا تھا جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، پس اللہ نے ان کے دلوں پر طمانیت نازل فرمائی، اور ان کو عنقریب آنے والی فتح کا انعام دیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ ایمان والوں سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو اللہ جانتا تھا جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، پس اللہ نے ان کے دلوں پر طمانیت نازل فرمائی، اور ان کو عنقریب آنے والی فتح کا انعام دیا۔ اور ان کو بہت سی غنیمتیں عطا فرمائیں جن کو وہ حاصل کریں گے، اور اللہ بہت غلبہ والا بہت حکمت والا ہے۔ اور اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمالیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے، پسیہ نعمت تو تم کو جلدی عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک لی اور تاکہ یہ (نعمت) مومنوں کے لئے نشانی ہوجائے، اور اللہ تمہیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ اور دوسری وہ نعمتیں جن پر تم قادر نہ تھے بیشک اللہ نے ان کا (بھی) اھاطہ فرما لیا اور اللہ ہر چیز پر قاد رہے۔ (الفتح : ٢١۔ ١٨)

اصحابِ بیعت رضوان کی فضیلت

یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی تھی جب آپ ٦ ھ ذوالقعدہ کے ماہ اپنے چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لئے روانہ ہوئے تھے اور کفار قریش نے آپ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا، کفار سے صلح ہونے سے پہلے آپ نے حضرت عثمان (رض) کو کفار سے معاملہ طے کرنے کے لئے اپنا سفیر بنا کر مکہ بھیجا تھا، اسی دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ کفار نے حضرت عثمان (رض) کو قتل کردیا، آپ نے حضرت عثمان کا قصاص لینے کے لئے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ سفر حدیبیہ اور حضرت عثمان (رض) سے کے قتل کی افواہ اور صحابہ کی بیعت اور کفار سے صلح کی شرائط، ان تمام امور پر ہم سورة الفتح کے مقدمہی اور تعارف میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں، وہاں مطالعہ فرمائیں۔

اس سے پہلے الفتح : ١٠ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : بیشک جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں، پھر اس کے بعد سفر حدیبیہ میں آپ کے ساتھ نہ جانے والے منافقین کا حال بیان کرنا شرع کردیا اور اب دوبارہ ان مسلمانوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر قصاص عثمان کے لئے بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جانتا تھا جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، یعنی جس طرح وہ منافقوں کے دلوں کا حال جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے، اسی طرح وہ مؤمنوں کے دلوں کے حال کو جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں اخلاص ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا جذبہ ہے، تب ہی آپ کے اصحاب نے یہ کہہ کر بیعت کی تھی وہ تادم مرگ آپ کی قیادت میں لڑتے رہیں گے یا آپ کو چھوڑ کر فرار نہیں ہوں گے۔

نیز فرامیا : اور ان کو عن قریب آنے والے فتح کا انعام دیا۔ بعض مفسرین نے کہا : اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے کیونکہ وہ بہت کی فتوحات کا پیش خیمہ تھی اور بعض نے کہا : اس سے مراد فتح خیبر ہے، کیونکہ اس کے الگے سال ٧ ھ میں مسلمانوں نے خیبر فتح کرلیا تھا۔

اس بات کی تحقیق کہ جس درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی آیا اس کو حضرت (رض) نے کٹوا دیا تھا یا نہیں ؟

مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ جس درخت کے نیچے بیعت رضوان منعقد ہوئی تھی وہ اپنی طبعی عمر تک باقی رہا تھا، لیکن صحابہ کرام اور فقہاء تابعین یہ بھول گئے تھے کہ وہ کون سا درخت ہے، یا اس درخت کو حضرت عمر ضی اللہ عنہ نے کٹوا دیا تھا کیونکہ لوگ اس درخت کی تعطیم اور اس درخت سے حصول برکت کے قصد سے اس کے پاس نمازین پڑھنے لگے تھے، ہم پہلے اس سلسلہ میں احادیث اور شارحین حدیث کی عبارات ذکر کریں گے اور اس سلسلہ میں اپنے مؤقف کو دلائل کے ساتھ بیان کریں گے اور پھر اس مسئلہ میں مفسرین کا آراء کا ذکر کریں گے۔ سو اب ہم اس مسئلہ میں احادیث کا ذکر کر رہے ہیں۔

بیعت رضوان والے درخت کے بھلا دئیے جانے کے ثبوت میں احادیث

امام محمد ابن سماعیل متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

سعید بن المسیب اپنے والد، (رض) سے روایت کرتے ہیں : ان کے والد بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس درخت کو دیکھا پھر میں ایک سال بعد وہاں گیا تو اس درخت کو نہیں پہنچان سکا، محمود کی روایت میں ہے : پھر مجھے وہ درخت بھلا دیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٦٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٥٩ )

طارق بن عبد الرحمان بیان کرتے ہیں کہ میں حج کرنے گیا تو میں نے چند لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، میں نے پوچھا : یہ کیس مسجد ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ وہ درخت ہے جس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت رضوان لی تھی، پھر میں سعید بن مسیتب کے پاس گیا اور ان کو اس واقعہ کی خبر دی، سعید نے کہا : مجھے میرے والد نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ وہ بھی ان اصحاب میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی تھی، انہوں نے کہا : جب ہم اگلے سال گئے تو ہم اس درخت کو بھول گئے اور اس کی شناخت پر قادر نہ ہوئے۔ سعید بن مسیب نے طنزاً کہا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب تو اس درخت کو نہیں جانتے اور تم لوگوں نے اس درخت کو شناخت کرلیا، پھر تم ان سے بڑے عالم ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٦٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٥٩، الرقم المسلسل : ٤٧٣٧)

سعید بن مسیتب بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد (رض) نے کہا کہ وہ ان اصحاب میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی، پھر جب ہم اگلے سال وہاں گئے تو ہم اس درخت کو شناخت نہ کرسکے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٦٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٥٩، الرقم المسلسل : ٤٧٣٨)

طارق بیان کرتے ہیں کہ سعید بن المسیب کے سامنے اس درخت کا ذکر کیا گیا تو وہ ہنسے اور کہا : میرے والد (رض) نے بتایا کہ وہ اس درخت کے پاس حاضر تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٦٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٥٩، الرقم المسلسل : ٤٧٣٩)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن ہم چودہ سو افراد تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا آج تم روئے زمین پر سب سے بہتر لوگ ہو، حضرت جابر نے کہا : اگر آج میری بصارت بحال ہوتی تو میں تم کو اس درخت کی جگہ دکھاتا۔ (صحیح الرقم المسلسل : ٤٧٢٩ )

بیعتِ رضوان والے درخت کے کٹوانے کے ثبوت میں حافظ اب حجر عسقلانی کے دلائل

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ، صحیح البخاری : ٤١٦٥ کی شرح میں لکھتے ہیں :

سعید بن مسیب کا یہ کہنا کہ ان کے والد اگلے سال اس درخت کو نہیں پہچان سکے، اس پر دلالت نہیں کرتا کہ کسی کو بھی اس درخت کی شناخت نہیں تھی کیونکہ مصنف (امام بخاری) نے اس سے پہلے حضرت جابر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” اگر آج میری بصارت بحال ہوتی تو میں تم کو اس درخت کی جگہ دکھا دیتا “ (حضرت جابر کا یہ قول ” صحیح بخاری “ میں نہیں ” صحیح مسلم “: ٤٧٢٩ میں ہے، میرا گمان ہے : حافظ اب حجر نے مسلم لکھا تھا اور کاتب نے اس کو مصنف لکھ دیا اور نواب قنوجی نے اس کو ” مصنف ابن ابی شیبہ “ سمجھ لیا، حالانکہ یہ حدیث صرف ” صحیح مسلم “ میں ہے) یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت جابر (رض) کو اس درخت کی شناخت تھی اور ان کو معلوم تھا کہ وہ درخت کس جگہ پر ہے اور طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کو اس درخت کی صحیح جگہ یاد تھی اور منضبط تھی اور اس میں یہ دلیل ہے کہ وہ اس جگہ کو پہنچانتے تھے، کیونکہہ ظاہر یہ ہے کہ جس وقت انہوں نے کہا کہ ” اگر آج میری بصارت بحال ہوتی تو میں تم کو وہ جگہ دکھا دیتا “ اس وقت وہ درخت کی خاص جگہ کو اسی طرح پہنچانتے تھے، پھر میں نے دیکھا کہ امام ابن سعد نے سند صحیح کے ساتھ از نافع یہ حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت عمر کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس جاتے ہیں اور وہاں نمازیں پڑھتے ہیں تو آپ نے ان کو سزا دینے سے ڈرایا، پھر اس درخت کو کاتنے کا حکم دیا سو اس درخت کا کاٹ دیا گیا۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٢١٨۔ ٢١٧، دار الفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ)

علامہ بد رالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ ” بخاری “ کی ان حادیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

لوگوں کے ذہنوں میں اس درخت کی تعیین کو محو کرنے کی اور اس کی جگہ کی شناخت کو بھلا دینے کی حخمت یہ تھی کہ اس جگہ پر خیر اور اللہ کی رضا کا نزول ہوا تھا، اگر اس درخت کی جگہ کی شناخت اسی طرح لوگوں پر ظاہر اور معلوم ہوتی تو یہ اندیشہ تھا کہ جاہل لوگ اس درخت کی عبادت کرنے لگیں گے تو اس درخت یا اس کی جگہ کی شناخت کو مخفی کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی…اس کے بعد لکھتے ہیں : امام ابن سعد سند صحیح کے ساتھ از نافع یہ حدیث بیان کی ہے کہ حضرت عمر (رض) کو یہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس جا کر نمازیں پڑھتے ہیں تو پہلے تو حضرت عمر نے ان کو سزا کی دھمکی دی، پھر اس درخت کو کٹوا دیا۔ (عمدۃ القاری ج ١٧ ص ٢٩٤۔ دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ شہاب الدین احمد القسطلانی المتوفی ٩٢٣ ھ نے ان احادیث کی شرح میں ” فتح الباری “ کی مکمل عبارت نقل کی ہے۔ (ارشاد الساری ج ٩ ص ٢٣١، دار الفکر، بیروت، ١٤٢١ ھ)

درخت مذکور کے کٹوانے کے ثبوت میں پیش کردہ روایت کے رجال پر بحث و نظر

جس حدیث کو حافظ ابن عجر عسقلانی، علامہ عینی اور علامہ قسطلانی نے امام ابن سعد کے حوالہ سے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے، اس کی سند یہ ہے : امام محمد بن سعد فرماتے ہیں : ہم کو عبد الوہاب بن عطاء نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا : ہم کو عبد اللہ بن عون نے نافع سے روایت کیا کہ لوگ اس درخت کے پاس جاتے ہیں، جس کو شجرۃ الرجوان کہا جاتا ہے اور وہاں نماز پڑھتے ہیں، حضرت عمر بن الخطاب کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے لوگوں کو سزا کی دھمکی دی اور اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا، سو اس درخت کو کٹوا دیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ٧٦، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ، طبع جدید)

میں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ کا اس حدیث صحیح کہنا ان کا تسامح ہے اس کی سند میں امام ابن سعد کے شیخ، عبد الوہاب بن عطا حدیث صحیح کے راوی نہیں ہیں ان پر کافی تنقید اور جرح کی گئی ہے۔

حافظ ابو الحجاج یوسف مزی متوفی ٧٤٢ ھ نے ان کے متعلق لکھا ہے :

٭ ابوبکر مروزی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ سے پوچھا : آیا عبد الوہاب ثقہ ہے ؟ انہوں نے کہا : تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو ؟ ثقہ صرف یحییٰ القطان ہیں۔

٭ یحیٰی بن معین نے کہا : اس کی روایت میں کوئی حرج نہیں، ان کا دوسرا قول ہے کہ وہ ثقہ ہے۔

٭ زکریا بن یحییٰ الساجی نے کہا : وہ بہت سچا ہے کہ لیکن محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے۔

٭ امام بخاری نے کہا : وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں، امام نسائی نے بھی کہا : وہ قوی نہیں ہے۔

٭ عبد الرحمن بن ابی حاتم نے کہا : اس کی وہ حدیث لکھی جائے گی جو سچی ہو اور وہ خود قوی نہیں ہے۔

(تہذیب الکمال ج ١٢ ص ١٥١۔ ١٥٠، دار الفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ، ملتقطا)

اس کے متعلق ثقاہت کے دو قول ہیں، زیادہ تر اقوال یہ ہیں کہ وہ قوی نہیں، یعنی ضعیب راوی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابن معین اور امام نسائی سے اس کی ثقاہت کا قول نقل کیا ہے اور یہ اضافہ کیا ہے کہ امام ابن حبان نے لکھا ہے کہ یہ روایت میں خطا کرتا تھا اور شدید وہمی تھا۔ (تہذیب التہذب ج ٦ ص ٣٨٩۔ ٣٨٨، ملتقطا، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

شمس الدین محمد بن احمد ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ لکھتے ہیں :

سعید بن ابی عروبہ نے کہا : یہ صدوق ہے۔ ابن معین نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں۔ امام احمد نے کہا : یہ ضعیب الحدیث مضطرب ہے۔ دار قطنی نے کہا : ثقہ ہے۔ ابن الجوزی نے کہا : یہ غلطی کرتا تھا۔ رازی نے کہا : یہ جھوٹ بولتا تھا، نسائی نے کہا : یہ متروک الحدیث ہے۔ (میزان الاعتدال ج ٤ س ٤٣٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

نیز علامہ ذہبی نے اس کی عبادت اور گریہ وزاری کے متعلق اقوال نقل کیے ہیں اور امام بخاری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ج ٨ ص، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

ظاہر ہے جس راوی کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ قوی نہیں، روایت میں خطا کرتا تھا، شدید وہمی تھا، ضعیب الحدیث اور مضطرب تھا، جھوٹ بولتا تھا اور متروک الحدیث تھا، اس کی روایت صحیح کس طرح ہوسکتی ہے ؟ حافظ ابن حجر نے اس کی روایت کو بےتوجہی سے صحیح کہا اور علامہ عینی اور علامہ قسطلانی نے تحقیق کے بغیر ان کے کلام کو نقل کردیا۔

مذکورہ روایت کے مردود ہونے پر دیگر شواہد

حضرت عمر (رض) ، شجرۃ بیعتِ رضوان کے پاس نماز پڑھنے کی وجہ سے اس درخت کو کاٹنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں جب کہ خود انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا تھا کہ ہم مقام ابراہیم (جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیر کا نشان ہے) کو نماز پڑھنے کی جگہ نہ بنالیں ؟ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :

حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ تین چیزوں میں، میں نے اپنے رب کی موافقت کی، ایک یہ کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کاش ! آپ مقام ابراہیم کو نماذ پڑھنے کی جگہ بنالیں (پھر یہ آیت نازل ہوگئی : ”……“ (البقرۃ : ١٢٥ ) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٨٣)

جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ حضرت عمر نے وہ درخت اس وجہ سے کٹوا دیا تھا کہ کہیں جاہل لوگ اس درخت کی عبادت نہ شروع کردیں، ان کا یہ قول اس لئے صحیح نہیں ہے کہ اگر حضرت عمر کا ایسا مزاج ہوتا تو وہ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنانے کی کبھی درخواست نہ کرتے کیونکہ اس میں بھی یہ اندیشہ تھا کہ جاہل لوگ اس پتھر کی عبادت نہ شروع کردیں، بلکہ یہ اندیشہ زیادہ قوی تھا کیونکہ قوم عرب پتھروں کی عبادت کرتی رہی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ درخت کاٹنے کے متعلق یہ روایت بالکل بےاصل ہے، خصوصاً اس لئے کہ ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم “ کی بہ کثرت احادیث میں تصریح ہے کہہ بیعت رضوان کے ایک سال بعد ہی عام لوگ اس درخت کی جگہ کو پھول گئے تھے اور حضرت جابر کو اس جگہ کا یاد رہنا ان کی انفرادی خصوصیت ہے۔ پھر حضرت عمر کے زمانہ میں لوگوں کے اس درخت کے پاس نماز پڑھنے کی نقل کس طرح صحیح ہوسکتی ہے ؟ ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم “ کی احادیث کے خلاف ” ابن سعد “ کی حدیث کب معتبر ہوسکتی ہے ؟ یہ حافظ ابن حجر کی عجب تحقیق ہے۔

حضرت عمر کے صاحب زادے حضرت ابن عمر ضی اللہ عنما مدینہ سے مکہ کے سفر میں ڈھونڈ، ڈھونڈ کر ان جگہوں پر نمازین پڑھتے تھے، جن جگہوں کے متعلق ان کو علم ہوتا کہ ان جگہوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی ہے۔

چنانچہ موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر کو دیکھا کہ وہ راستہ میں ان جگہوں کو تلاش کرتے تھے جن جگہوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی تھی، پھر ان ہی جگہوں پر نماز پڑھتے تھے، اور وہ بیان کرتے تھے کہ ان کے والد حضرت عبد اللہ بن عمر بھی ان جگہوں پر نماز پڑھتے تھے، جن جگہوں پر انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣)

حضرت عتبان بن مالک انصاری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، میری نظر بہت کمزور ہے، بارش کے ایمان میں میں ان کو نماز پڑھانے نہیں جاسکتا، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر آکر کسی جگہ نماز پڑھا دیں تو میں اس جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں عنقریب ایسا کروں گا۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٥، سنن نسائی رقم الحدیث : ٧٨٨)

بعض مفسرین نے حافظ ابن حجر عسقلانی کی اتباع میں یہ لکھا کہ بیعت رضوان کے بعد حضرت عمر نے اس درخت کو کٹوا دیا تھا اور زیادہ تر مفسرین نے احادیث اور آثار کی اتباع میں یہ لکھا کہ بیعت رضوان کے ایک سال بعد اس درخت کی جگہ کی شناخت لوگوں کے ذہنتوں سے محو ہوگئی تھی اس لئے یہ روایت بےاصل ہے کہ اس درخت کے پاس لوگوں نے اس درخت کی تعظیم کے لئے وہاں نمازیں پڑھنا شروع کردی تھیں اس لئے حضرت عمر نے اس درخت کو کٹوا دیا۔

مذکورہ درخٹ کٹوانے کے واقعہ کا اثبات کرنے والے مفسرین

اول الذکر مفسرین کے نام یہ ہیں : (١) علامہ ابو الحیان اندلی متوفی ٧٥٤ ھ، البحر المحیط ج ٩ ص ٤٩٢ (٢) شیخ سلیمان جمل متوفی ١٢٠٤ ھ، حاشتیہ الجمل علی الجلالین ج ٤ س ١٦٥ (٣) علامہ احمد بن محمد صاوی متوفی ١٢٢٣ ھ، حاشتیہ الصاوی علی الجلالین ج ٥ ص ١٩٧٤ (٤) نواب صدیق بن حسن قنوجی متوفی ١٣٠٧ ھ فتح البیان ج ٦ ص ٣٥٥، انہوں نے ہی ” فتح الباری “ کی عبارت میں مصنف کو یوں لکھا ہے کہ حضرت جابر کی حدیث کو ” مصنف ابن ابی شیبہ “ نے سند سے ذکر کیا ہے، حالانکہ حافظ ابن حجر نے صرف مصنف لکھا ہے اور اس سے بہ ظاہر امام بخاری مراد ہیں لیکن یہ ناسخین کا تسامح ہے، غالباً حافظ ابن حجر نے ” مسلم “ لکھا تھا اور یہ حدیث ” مسلم “ ہی میں ہے “ ” بخاری “ یا ” مصنف ابن ابی شیبہ “ میں ہرگز نہیں ہے، دراصل نقل کے لئے بھی عقل چاہیے۔

مذکورہ درخت کٹوانے کے واقعہ کا انکار کرنے والے مفسرین

ثانی الذکر مفسرین کے اسماء یہ ہیں : (١) امام محمد بن جعفر طبری متوفی ٣١٠ ھ، جامع البیا جز ٢٦ ص ١١٢ (٢) امام ابو اسحاق ثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ، الکشف والبیان ج ٩ ص ٤٧ (٣) امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ، معالم التنزیل ج ٤ ص ٢٢٧ (٤) علامہ علی بن محمد خازن متوفی ٧٢٥ ھ، لباب التاویل ج ٤ س ١٥٩ (٥) حافظ اسمایل بن عمرو بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٠٨ (٦) علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ، روح البیان ج ٩ ص ٤٣۔ ٤٢ (٧) علامہ سید محمود ا الوسی متوفی ١٢٧٠ ھ، روح المعانی جز ٢٦ ص ١٦٢ (٨) سید ابو الاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ، تفہیم القرآن ج ٥ ص ٥٥ (١٠) مفتی محمد شفیع متوفی ١٣٩٦ ھ معارف القرآن ج ص ٨١۔

معروف مفسرین میں سے علامہ زمخشری متوفی ٥٣٨ ھ، امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ، علامہ بیضاوی متوفی ٢٨٥ ھ اور علامہ سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے اس مسئلہ کے متعلق کچھ نہیں لکھا علامہ شہاب الدین خفا جی متوفی ١٠٦٩ ھ نے اس مسئلہ کے متعلق دونوں قول ذکر کیے ہیں۔ (حاژیتہ الشہاب ج ٨ ص ٥٢٨) علامہ بیضاوی نے لکھا ہے : یہ درخت کیکر کا تھا یا بیر کا، علامہ ابو سعود متوفی ٩٨٢ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (تفسیر ابو السعود ج ٦ س ١٠٣)

اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت اور ان سے حصول فیض کا جواز

علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ اس بحث میں لکھتے ہیں :

بعض فریب خوردہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب لوگ کسی ولی سے اعتقاد رکھیں گے، ان کی قبر کی تعظیم کریں گے اور اس سے برکت و مدد حاصل کریں گے، تو ہمیں خطرہ ہے کہ لوگ کہیں یہ اعتقاد نہ کر بیٹھیں کہ اللہ کے ساتھ اولیاء بھی موثر فی الوجود ہیں، نتیجہ، لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہوجائیں گے۔ پس ہم انہیں اس سے روکیں گے، اولیاء کی قبور کو گرائیں گے، ان پر بنی ہوئی عمارت ہٹائیں گے، ان سے غلاف اور پردے اتاریں گے اور ” بہ ظاہر “ اولیاء کی توہین کے مرتکب ہوں گے تاکہ جاہل عوام کو پتاچل جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ یہ اولیاء بھی موثر فی الوجود ہوتے تو اس توہین کو روک دیتے۔ سو جان لیجئے کہ یہ فعل توہین قبور وغیرہ) صریح کفر ہے اور یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے فرعون نے کہا تھا کہ مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ (اپنی مدد کے لئے) اپنے رب کو بلالیں، بیشک مجھے تو ڈر ہے اس بات کا کہ کہیں وہ تمہارے دین کو تبدیل نہ کردیں اور ملک میں فساد نہ پھیلا دیں۔ (الغٓفر : ٢٦) اور یہ فعل (توہین قبور وغیرہ) محض ایک امر موہوم کی بناء پر کیونکر درست ہوسکتا ہے جب کہ اس میں عوام الناس کے متعلق گمراہی کی بدگمانی بھی ہے ؟ (روح البیان ج ٩ ص ٤٣، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی متوفی ١٢٢٣ ھ نے ”……“ (المائدہ : ٣٥) کی تفسیر میں لکھا ہے :

وسیلہ تلاش کرنے سے مراد وہ چیز تلاش کرنا ہے جو بندے کو مطلقاً اللہ تعالیٰ کے قریب کردے، مثلاً انبیاء کرام اور اولیاء کرام کی محبت، صدقات، اللہ تعالیٰ کے محبوبین کی زیارت، دعا کی کثرت، صلہ رحمی اور کثرت ذکر وغیرہ۔ پس مطلب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قریب کردے اس سے چمٹ جائو اور جو رب سے دور کردے اس کو چھوڑ دو ۔ جب تم نے یہ جان لیا تو (اب یہ سمجھ لو کہ) کھلی گمراہی اور کھلا خسارہ ہے ان لوگوں کے لئے جو مسلمانوں کو زیارتِ اولیاء کی بنیاد پر محض یہ گمان کرکے کافر قرار دیتے ہیں کہ ” زیارتِ اولیاء غیر اللہ کو پوچنے کے قبیل سے ہے “۔ ہرگز ایسا نہیں ! بلکہ یہ تو ” محبۃ فی اللہ “ (اللہ کی خاطر محبت) کا مظاہرہ ہے جس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سنو ! اس شخص کا ایمان نہیں جس کے اندر محبت نہیں۔ (تفسیر صاوی ج ٢ ص ٤٩٧، دار الفکر، بیروت)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 18