أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ ‌ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ۖسِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ ۛۚ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا۞

ترجمہ:

محمد اللہ کے رسول ہیں، جو ان کے اصحاب ہیں، کفار پر بہت سخت ہیں، آپس میں نرم دل ہیں ‘(اے مخاطب ! ) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں اور انجیل میں ان کی صفت یہ ہے جیسے ایک کھتی ہو، جس نے اپنی باریک کونپل نکالی، پھر اس نے طاقت پکڑی، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر وہ اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کاشت کاروں کو بھلی لگی تاکہ (ان کی یہ صفت) کافروں کے دل جلائے، اللہ نے ایمان والوں اور ان میں سے نیک عمل کرنے والوں سے مغفرت کا اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : محمد اللہ کے رسول ہیں، جو ان کے اصحاب ہیں، کفار پر بہت سخت ہیں، آپس میں نرم دل ہیں ‘(اے مخاطب ! ) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں اور انجیل میں ان کی صفت یہ ہے جیسے ایک کھتی ہو، جس نے اپنی باریک کونپل نکالی، پھر اس نے طاقت پکڑی، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر وہ اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کاشت کاروں کو بھلی لگی تاکہ (ان کی یہ صفت) کافروں کے دل جلائے، اللہ نے ایمان والوں اور ان میں سے نیک عمل کرنے والوں سے مغفرت کا اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ (الفتح : ٢٩ )

خلفاء راشدین کے فضائل

اس آیت میں فرمایا ہے : ”……“ آیت کا یہ حصہ آپ کی تسلی کے لئے نازل فرمایا کہ کفارِ قریش نے حدیبیہ کے صلح نامہ پر ”……“ لکھنے نہیں دیا اور کہا کہ ہم محمد کو رسول اللہ نہیں مانتے، اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں، اللہ تو کہتا ہے :”……“

پھر آپ کے اصحاب کی صفت بیان فرمائی : وہ کفار پر بہت سخت ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اہل حدیبیہ کفار پر بہت سخت تھے جیسے شیر جنگل کے جانوروں پر سخت ہوتا ہے اور آپس میں نرم دل ہیں، یعنی جس حال میں وہ کفار پر سخت ہوتے ہیں اس حال میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اے مخاطب ! تو ان کو رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے، یعنی وہ بہت زیادہ عبادت کرتے ہیں اور بہ کثرت نمازیں پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے جنت اور اس کی رضا کو طلب کرتے ہیں۔

ایک تفسیر یہ ہے کہ ”……“ سے مراد حضرت ابوبکر ہیں کیونکہ ایمان لانے کے بعد اسلام کی تبلیغ کرنے میں حضرت ابوبکر آپ کے مع (ساتھ) تھے، حضرت ابوبکر کی تبلیغ سے حضرت عثمان بن عفان اسلام لائے، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اسلام لائے، اسلام کی مدافعت میں وہ آپ کے مع تھے، سفرِ ہجرت میں آپ کے مع تھے، غارِ ثور میں آپ کے مع تھے، قبرِمیں آپ کے مع ہیں، قبر سے اٹھنے میں آپ کے مع ہوں گے اور دخول جنت میں بھی آپ کے مع ہوں گے اور جیس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کو معیت حال تھی کسی کو حاصل نہ تھی اور ”……“ سے مراد حضرت عمر (رض) ہیں، آپ کا کفار پر سخت ہونا بہت مشہور ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ماننے میں تامل کیا تو حضرت عمر نے اس کو قتل کردیا، یہ ان کے مزاج میں کفار پر سختی کا تقاضا تھا کہ انہوں نے قریش مکہ سے صلح کرنے کے معاملہ میں بہت تردد کیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے نکلے تو اس موقع پر بھی انہوں نے آپ سے بحث کی اور ”……“ سے مراد حضرت عثمان (رض) ہیں کیونکہ آپ بہت نرم دل تھے، جب مسجد نبوی میں مسلمانوں کے لئے جگہ کم تھی تو آپ نے مسجد نبوی کی توسیع کی، مسلمانوں کے لئے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا تو روما نام کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کریں، غزوہ تبوک کے لشکر کے لئے تین سو اونٹ مع سازوسامان مہیا کیے، خود جان پر کھیل گئے لیکن اپنی حفاظت کے لئے مسلمان فوجوں کو بلانے کی اجازت نہیں دی اور ”……“ سے مراد حضرت علی ہیں جن کی اکثر راتیں رکوع اور سجدوں میں گزرتی تھیں۔

سجدوں کے اثر سے پیشانی پر نشان

اس کے بعد فرمایا : سجدوں کے اثرے ان کے چہروں پر نشانی ہے۔

اس آیت میں ”…“ کا لفظ ہے ”…“ کے معنی علامت ہیں، یعنی ان چہروں سے شب بیداری اور تہجد گزاری جھلکتی ہے، حدیث میں ہے :

حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو رات کو بہت نمازیں پڑھتا ہے تو صبح کو اس کا چہرہ بہت حسین لگتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٣)

حسن بصری نے کہا : یہ سفیدی ہے جو قیامت کے دن اس کے چہرے پر نظر آئے گی، نیز حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہوجائے گا اور یہ ارادہ فرمائے گا کہ اپنی رحمت سے بندوں کو دوزخ سے نکالے تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بالکل شرک نہیں کرتا تھا اس کو دوزخ سے نکال لیں اور ان پر رحم کرنے کا ارادہ فرمائے گا جو ”…“ پڑھتے تھے، فرشتے ان کو دوزخ میں سجدوں کے نشانات سے پہنچان لیں گے، آگ ان آدم کے سجدوں کے نشان کے سوا اس کے تمام جسم کو کھالے گی، اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھائے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٥٣٤ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٦ ص ٥٢٧۔ رقم الحدیث : ١٠٩٠٦، موسستہ الرسالۃ، بیروت)

شہر بن جو شب نے کہا کہ سجدہ کا نشان ان کے چہروں پر اس طرح چمک رہا ہوگا جس طرح چودھیوں رات کو چاند چمکتا ہے۔

حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : دنیا میں ان کی علامت اچھے اخلاق ہیں، اور مجاہد سے ہی روایت ہے کہ اس سے مراد خشوع اور تواضع ہے۔ منصور نے کہا : میں نے مجاہد سے اس آیت کے متعلق پوچھا : کیا یہ وہ نشان ہے جو آدمی کی دو آنکھوں کے درمیان ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، بعض اوقات انسان کی دو آنکھوں کے درمیان ایک گٹا سا ہوتا ہے حالانکہ اس کا دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے، لیکن وہ خضوع اور خشوع کی کثرت سے ان کے چہرے پر این نور ہوتا ہے۔

ابن جریج نے کہا : وہ ان کے چہروں پر وقار اور تروتازگی ہے۔ شمر بن عطیہ نے کہا : وہ رات کے قیام کی وجہ سے ان کے چہروں کی زردی ہے۔ حسن نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں کہ جب تم ان کو دیکھو تو یہ گمان کرو کہ وہ بیمار ہیں، حالانکہ وہ بیمار نہیں ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٦٧۔ ٢٦٦ )

” تورات “ اور ” انجیل “ میں صحابہ کی صفات

اس کے بعد فرمایا : ان کی یہ صفات تورات میں ہیں، اس کو یوں بھی پڑھ سکتے ہیں : ان کی یہ صفات تورات اور انجیل میں ہیں اور یوں بھی پڑھ سکتے ہیں کہ تورات پر وقف کیا جائے اور انجیل میں ان کی یہ صفات ہیں۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یہ دو مثالیں ہیں : ایک ” تورات “ میں ہے اور دوسری ” انجیل “ میں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی یہ مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ پہلے تھوڑے تھے، پھر بہ تدریج زیادہ ہوتے گئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ابتداء لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلایا تو پہلے ایک ایک کرکے آپ کی دعوت پر لبیک کہتے رہے حتیٰ کہ آپ کا دین بہت قوی ہوگیا، جیسا کہ کھیت ابتداء میں ایک بیج ہوتا ہے پھر ایک باریک اور کمزور سی کونپل نکلتی ہے، پھر وہ کھیت دن بہ دن قوی ہوتا جاتا ہے، حتی کہ وہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگتا ہے، پس کھیت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور اس کی کونپلیں آپ کے اصحاب ہیں جو پہلے کم تعداد میں تھے پھر بہ تدریج زیادہ ہوتے گئے اور اس کھیت کو بڑھانا اور پروان چڑھانا، یہ کام اللہ سبحانہ نے آپ کے اور آپ کے اصحاب کے لئے کیا تاکہ اس سے کفار اپنے غیظ و غضب میں جل بھن کر راکھ ہوجائیں۔

صحابہ کرام کے فضائل

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ نے ایمان والوں اور ان میں سے نیک عمل کرنے والوں کے لئے مگفرت کا اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

یہ ان مؤمنوں کے ساتھ وعدہ ہے جو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیں، ان سے ایسے ثواب کا وعدہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور وہ جنت ہے۔

ایک شخص نے امام مالک کے سامنے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مذمت کی تو امام مالک نے اس سامنے الفتح : ٢٩ کی پوری آیت پڑھی اور کہا : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو عزت دی ہے، جو شخص ان سے بغض رکھتا ہے وہ اپنے غیظ میں جل کر راکھ ہوجائے۔

……(الفتح : ١٨) اللہ ان مؤمنوں سے راضی ہوگیا جو درکت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔

حدیبیہ میں اکثر صحابہ کرام نہتے تھے، ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے، وہ احرام باندھے ہوئے تھے، ان کا پڑائو وہاں سے اڑھائی سو میل کی مسافت پر تھا اور وہ دشمن کی سرحد پر کھڑے، ایسے میں ان کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرنا اور تادم حیات لڑنے کی بیعت کرنا بہ ظاہر عقل و خرد کے خلاف تھا لیکن وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی محبت میں ایسے سر شار تھے کہ وہ موت وحیات سے بےگانہ ہوگئے تھے اور تب ہی اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فرمایا کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اگر خدانخواستہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد انہوں نے مرتد ہوجانا تھا تو اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے، وہ ان سے کبھی راضی نہ ہوتا، اسی طرح التوبہ : ١٠٠ میں مہاجرین اور انصار اور ان کے متبعین کے متعلق فرمایا :”……“ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، اور یہ آیت رافضیوں کے اس عقیدہ کی جڑ کاٹ دیتی ہیں کہ یہ صحابہ نفاق کی وجہ سے حضور کے ساتھ تھے اور آپ کے وصال کے بعد چھ صحابہ کے سوا باقی تمام صحابہ مرتد ہوگئے تھے اور کفر کی طرف لوٹ گئے تھے۔

لہٰذا تمام صحابہ کرام عدول ہیں، اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اصفیاء ہیں اور نبی ون اور رسولوں کے بعد تمام مخلوق سے افضل ہیں اور یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے اور درج ذیل احادیث میں اس کی تائید ہے :

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا نہ کہو اگر تم میں سے کوئی ایک شخص اھد پہاڑ جتنا سونا خیرات کردے، پھر بھی وہ ان کے دئیے ہوئے ایک کلو یا نصف کلو کے برابر نہیں ہوگا۔

(صحیح بخاری رقم الحدیث : ٣٦٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦١ )

ابو بردہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا : ستارے آسمان کی امان ہیں اور جب ستارے چلے جائیں گے تو آسمان پر وہ چیزیں آجائیں گے جن سے آسمان کو ڈرایا گیا ہے اور میں اپنے اصحاب کی امان ہوں، جب میں چلا جائوں گا تو میرے اصحاب کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی جن سے انکو ڈرایا گیا ہے اور میرے اصحاب میری امت کی امان ہیں جب وہ چلے جائیں گے تو ان کے پاس وہ چیزیں آجائیں گی جن سے اس کو ڈرایا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث المسلسل : ٢٥٣١)

حضرت عبد اللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب کے متعلق اللہ سے ڈرو، میرے اصحاب کے متعلق اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد طنز کا نشانہ نہ بنائو، جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے بیشک مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے بیشک اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، عنقریب اللہ اس کو پکڑ لے گا۔ ) (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٢٦، مسند احمد ج ٤ ص ٨٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٢٨٤)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو براکہتے ہیں تو کہو کہ اللہ تمہارے شر پر لعنت کرے۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٦، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٢٣٤٠ )

عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب میں سے جو شخص کسی علاقہ میں فوت ہوجائے تو قیامت کے دن وہ شخص اس علاقہ والوں کے لئے قائد اور نور بنا کر اٹھایا جائے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٥، شرح السنتہ رقم الحدیث : ٣٨٢٦ )

سورة الفتح کا اختتام

الحمد للہ رب العلمین ! آج ٩ جمادی الاولیٰ ١٤٢٥ ھ/ ٢٨ جون ٢٠٠٤ ء بہ روز پیر سورة الفتح کی تفسیر مکمل ہوگئی، اس سورت کی ایک آیت الفتح : ٢ کے ترجمہ پر تقریباً ١٥ برس سے حاسدین اور معاندین اعتراض کر رہے تھے میں ” شرح صحیح مسلم “ کی مختلف جلدوں اور پھر ” بتیان القرآن “ کی مختلف جلدوں سے میں ان اعتراضات کے جوابات لکھتا رہا ہوں اور اس سورت میں الفتح : ٢ کی تفسیر میں تمام ابحاث کو اختصار کے ساتھ جمع کردیا ہے، انسانی بساط میں کسی مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے جتنے دلائل کی ضرورت ہوسکتی ہے، وہ میں نے فراہم کردئیے ہیں۔ باقی حق کو دلوں میں جاگزین کردینا میرے بس میں نہیں، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی طاقت ہے اور رہے نہ ماننے والے تو وہ عہد رسالت سے لے کر آج تک پائے جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اس نے یہاں تک تفسیر لکھوا دی ہے، باقی قرآن مجید کی سورتوں کی تفسیر بھی مکمل کرادے، ایمان پر میرا خاتمہ فرمائے اور میری اور میرے والدین کی مغفرت فرمائے، ان کی قبروں کو منور فرمائے اور اس کتاب کو تا قیامت باقی اور فیض آفریں رکھے۔ ………

غلام رسول سعیدی غفرلہِ

خادم الحدیث دار العلوم نعیمیہ، ١٥ فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ ٣٨

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 29