أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡكُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَالۡهَدۡىَ مَعۡكُوۡفًا اَنۡ يَّبۡلُغَ مَحِلَّهٗ‌ ؕ وَلَوۡلَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَنِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡهُمۡ اَنۡ تَطَئُوْ هُمۡ فَتُصِيۡبَكُمۡ مِّنۡهُمۡ مَّعَرَّةٌ ۢ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ ۚ ‌لِيُدۡخِلَ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ۚ لَوۡ تَزَيَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۞

ترجمہ:

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام میں جانے سے روک دیا اور قربانی کے لئے وقف جانوروں کو اپنی جگہ پر پہنچنے سے روکا اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جن مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو تم نہیں جانتے، تم ان کی پامالی کا ذریعہ بنو گے، پھر ان کی طرف سے لاعلمی میں تمہیں کوئی ضرر پہنچے گا (تو تمہیں کفار سے قتال کی اجازت دے دی جاتی لیکن یہ اجازت نہیں دی گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر وہ مسلمان کافروں سے الگ ہوتے تو ہم ان کافروں کو دردناک عذاب دیتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام میں جانے سے روک دیا اور قربانی کے لئے وقف جانوروں کو اپنی جگہ پر پہنچنے سے روکا اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جن مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو تم نہیں جانتے، تم ان کی پامالی کا ذریعہ بنو گے، پھر ان کی طرف سے لاعلمی میں تمہیں کوئی ضرر پہنچے گا (تو تمہیں کفار سے قتال کی اجازت دے دی جاتی لیکن یہ اجازت نہیں دی گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر وہ مسلمان کافروں سے الگ ہوتے تو ہم ان کافروں کو دردناک عذاب دیتے۔ جب کافروں نے اپنے دلوں میں تعصب کو جگہ دی جو جاہلانہ تعصب تھا تو اللہ نے اپنے رسول پر طمانیت نازل کی اور مؤمنین پر اور اللہ نے انہیں کلمہ تقویٰ پر مستحکم کردیا اور وہی اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (الفتح : ٢٦۔ ٢٥ )

یعنی قریش نے تم مسلمانوں کو ٦ ھ میں مسجد حرام میں داخل ہونے سے منع کردیا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے تے اور ان کے ساتھ جو قربانی کے اونٹ تھے ان کو اپنی جگہ (قربان گاہ، منیٰ ) میں پہنچنے سے روک دیا۔

امام ابوحنیفہ کے نزدیک قربانی کی جگہ حرم ہے اور جس شخص کو حج یا عمرہ کرنے سے روک دیا گیا ہو اس کی قربانی کی جگہ بھی حرم ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ستر (٧٠) اونٹ تھے، جن کو آپ نے اور آپ کے اصحاب نے نحر کیا تھا۔

محصر کے لئے قربانی کی جگہ کے تعین میں امام ابوحنیفہ کا مسلک

امام ابو حنیہف کے نزدیک جو شکص راستہ میں مرض یا دشمن کی وجہ سے رک جائے، وہ کسی اور شخص کے ہاتھ قربانی (اونٹ، گائے یا بکری) یا اس کی قیمت بھیج دے اور ایک دن مقرر کرلے کہ فلاں دن اس قربانی کو حرم میں ذبح کیا جائے گا اور اس دن وہ اپنا احرام کھول دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس وقت تک سر نہ منڈوائو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے اور قربانی کی جگہ حرم ہے۔ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جس جگہ کسی شخص کو رک جانا پڑے وہیں قربانی کرکے احرام کھول دے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حدیبیہ میں رک جانا پڑا تھا اور آپ نے حدیبیہ میں ہی قربانی کی اور امام بخاری نے لکھا ہے کہ حدیبیہ حرم سے خارج ہے۔ (صحیح بخاری ج ا ص ٢٤٤، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی، ١٣٨١ ھ)

علامہ بدر الدین عینی اس دلیل کے جواب میں فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کا بعض حصہ حرم سے خارج ہے اور بعض حصہ حرم میں ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے جس حصہ میں رکے تھے وہ حرم میں تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن ابی شیبہ نے ابو عمیس سے روایت کیا ہے کہ عطاء نے کہا ہے کہ حدیبیہ کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام حرم میں تھا۔ (عمدۃ القاری ج ١٠ ص ١٤٩، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ] ١٣٤٨ ھ)

علامہ ابن حیان اندلسی لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس جگہ روک دیا گیا تھا آپ نے وہیں قربانی کی تھی، وہ جگہ حدیبیہ کی ایک طرف تھی جس کا نام الربی ہے اور یہ اسفل مکہ میں ہے اور وہ حرم ہے، زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اونٹ کو حرم میں نحر کیا تھا۔ واقدی نے کہا : حدیبیہ مکہ سے نو میل کے فاصلہ پر طرف حرم میں ہے۔ (البحرالمحیط ج ٢ ص ٢٥٧، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، ١٤١٢ ھ)

محصر کے لئے قربانی کی جگہ کے تعین میں ائمہ ثلاثہ کا مذہب

علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتیٰ کہ قربانی اپنے محل میں پہنچ جائے، محل کے متعلق دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد حرم ہے، حضرت ابن مسعود، حسن بصری، عطائ، طائوس، مجاہد، ابن سیرین، ثوری او امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ جگہ ہے جس جگہ محرم کور کا وٹ پیش آئی، وہ اس جگہ قربانی کا جانور ذبح کرکے احرام کھول دے، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کا یہی مذہب ہے۔ (زاد المسیرج ٢٠٥، مطبوعہ مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)

علامہ ماوردی شافعی (النکت والعیون ج ا ص ٢٥٥) اور علامہ ابن العربی مالکی نے بھی یہی لکھا ہے۔ (احکام القرآن ج ا س ١٧٦)

قوتِ دلائل کے اعتبار سے امام ابوحنیفہ کا مسلک راجح ہے اور یسر اور سہولت کے اعتبار سے ائمہ چلاثہ کا مسلک راجح ہے کیونکہ بیمار یا دشمن میں گھرے ہوئے آدمی کے لئے اس وقت تک اتنظار کرنا جب تک قربانی حرم میں ذبح ہو بہت مشکل اور دشوار ہوگا، اس کے برعکس موضع احصار میں قربانی کرکے احرام کھول دینے میں اس کے لئے بہت آسانی ہے جب کہ اس طریقہ کو مختصر کی آسانی ہی کے لئے مشروع کیا گیا ہے۔

اس اشکال کا جواب کہ آپ عمرہ حدیبیہ میں اپنے ساتھ اونٹ کیوں لے گئے تھے جب کہ عمرہ میں قربانی نہیں ہے ؟

الفتح : ٢٥ میں فرمایا ہے : یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام میں جانے سے روک دیا اور قربانی کے لئے وقف جانوروں کو اپنی جگہ پہنچنے سے روکا۔ الخ

اس آیت پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (چھ) ہجری کو اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے تے، آپ کے اصحاب کی تعداد پندرہ سو تھی اور آپ کے اصحاب اپنے ساتھ ستر اونٹ قربانی کے لئے لے گئے تھے۔ پندرہ سو اصحاب کی تعداد کے متعلق یہ حدیث ہے :

امام بخاری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ سالم نے حضرت جابر (رض) سے پوچھا کہ یوم حدیبیہ کو آپ لوگوں کی کتنی تعداد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم پندرہ سو افراد تھے۔ (امام احمد اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے یوم حدیبیہ کو (٧٠) اونٹ نحر کیے تھے۔ (مسند احمد ج ا ص ٣١٥)

اس حدیث پر اشکال یہ ہے کہ عمرہ میں قربانی نہیں ہے، قربانی صرف حج تمتع یا حج قرآن میں ہویت ہیِ عمرہ میں احرام باندھ کر صرف بیت اللہ کے گرد سات مرتبہ طواف کیا جاتا ہے اور صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کی جاتی ہے اور اس میں قربانی نہیں ہے۔ ” ہدایہ ‘ میں لکھا ہوا ہے : ”……“ عمرے میں صرف طواف اور سعی کرنا ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر ج ٣ ص ٢٠٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ نے لکھا ہے کہ عمرہ کرنے والا احرام باندھ کر حرم میں داخل ہو، پھر طواف کرے اور سعی کرے اور سر منڈوائے تو اس کا عمرہ پورا ہوگیا اور اس پر قربانی نہیں ہے۔ (مناسک الحج و العمرہ ص ٢١٤، مکتبہ امدادیہ، ملتان)

اب اشکال کی تقریر یہ ہے کہ جب عمرہ میں قربانی نہیں ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اپنے ساتھ قربانی کے اونٹ کیوں لے گئے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عمرہ میں قربانی کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن ممنوع بھی نہیں ہے اور آپ اور آپ کے اصحاب نقیل قربانی کرنے کے لئے اپنے ساتھ اونٹ لے گئے تھے، چونکہ حرم میں قربانی کرنا بہت پسندیدہ اور مستحب عمل ہے۔ اب ہم اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسرین کی تفسیروں کو پیش کر رہے ہیں :

امام ابو منصور محمد بن محمد المتاتردیدی السمر قندی الحنفی المتوفی ٣٣٣ ھ لکھتے ہیں :

گویا کہ مشرکین نے قربانی کے اونٹوں کو اپنے محل میں پہنچنے سے روک دیا تھ اور وہ محل منیٰ ہے یا مکہ، کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کے لئے گئے تھے اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آپ حج تمتع کرنے کے لئے گئے تھے۔ (تاویلات اہل سنت ج ٤ ص ٥٢٩، موسستہ الرسالۃ، ناشرو، بیروت، ١٤٢٥ ھ)

امام ابو منصور ماتریدی کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ حج تمتع کے لئے تشریف لے گئے تھے کیونہ آپ حج تمتع کے لئے بالا تفاق دس ہجری کی تشریف لے گئے تھے اور آپ نے ہجرت کے بعد صرف یہی ایک حج کیا تھا اور اگر عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تھے تو پھر وہی اشکال ہے کہ عمرہ میں تو قربانی نہیں ہے، پھر آپ اور آپ کے اصحاب اپنے ساتھ اونٹوں کو کیوں لے گئے تھے۔

حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کی زیارت کے لئے گئے تھے اور آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا اور آپ کے ساتھ سات سو لوگ تھے، ہر دس افراد کے لئے ایک قربانی تھی۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢١٢، دار الفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

یہ روایت درایۃ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہم نے ” صحیح بخاری “ سے باحوالہ بیان کیا ہے کہ آپ کے ساتھ جانے والے اصحاب کی تعداد پندرہ سو تھی۔ نیز صحیح یہ ہے کہ ایک اونٹ میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں نہ کہ دس اور اس سے پھر بھی یہ اشکال دور نہیں ہوتا کہ عمرے میں تو قربانی ہے نہیں، پھر آپ اور آپ کے اصحاب قربانی کے اونٹوں کو کیوں لے گئے ؟

اس اشکال سے چھٹکارا صرف ہماری تقریر سے ہوسکتا ہے کہ یہ قربانی کے اونٹ نفلی قربانی کے لئے صحابہ کرام لے گئے تھے اور فقہاء نے لکھا ہے کہ ہدی (قربانی) کی تین قسمیں ہیں : نفلی، تمتع اور قرآن۔ (ہدایہ مع فتح القدیر ج ٣ ص ١٤٩، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پنے ساتھ قربانی کے اونٹ اس احتیاط کی وجہ سے لے گئے ہوں کہ اگر خدانخوستہ آپ کو عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تو آپ اور آپ کے اصحاب قربانی کرکے احرام کھولدیں گے۔

اس آیت میں یہ بھی دلیل ہے کہ صرف قرآن مجید سے احکامِ شرعیہ ثابت نہیں ہوتے، ورنہ قرآن مجید کی اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب عمرہ کرنے گئے تو اپے ساتھ قربانی کے اونٹوں کو بھی لے گئے تو اس لازم آئے گا کہ عمرہ میں بھی قربانی کی جائے۔ اب یہ صرف حدیث سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد عمرے کیے اور کسی عمر میں قربانی نہیں کی اور آج تک تواتر سے مسلمانون کا یہی معمول ثابت ہے کہ عمرے میں قربانی نہیں ہے۔

میں نے اس آیت کی تفسیر میں بہت تفسیروں کو دیکھا، لیکن کوئی مفسر اس اشکال کی طرف متوجہ ہوا نہ اس کے حل کی طرف اس کا حل اللہ تعالیٰ نے صرف اس فقیر پر القاء فرمایا۔ وللہ الحمد

حضرت مولانا عبد المجید صاحب (برسٹل، انگلینڈ) نے مجھے بذریعہ ٹیلی فون اس پر متوجہ کیا کہ اس میں اس اشکال کا جواب لکھوں۔

حدیبیہ میں مسلمانوں کو قتال کی اجازت نہ دینے کی توجیہات

اس کے بعد فرمایا : اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جن مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو تم نہیں جانتے، تم ان کی پامالی کا ذریعہ بنو گے، پھر ان کی طرف سے لاعلمی میں تمہیں کوئی ضرر پہنچے گا (تو تمہیں کفر سے قتال کی اجازت دے دی جاتی، لیکن یہ اجازت نہیں دی گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں سے چاہے داخل کرے اور اگر وہ مسلمان کافروں سے الگ ہوتے تو ہم ان کافروں کو درد ناک عذاب دیتے۔

اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو اپنی کمزوری کی وجہ سے ہجرت کرکے مدینہ نہیں جاسکتے تھے اور مکہ کے وسط میں رہتے تھے۔ جیسے سلمہ بن ہشام، عی اس بن ابی ربیعہ، ابو جندل بن سہیل اور ان کے امثال، اور مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ ایمان لاچکے ہیں، اس لئے فرمایا : جن کو تم نہیں جانتے، اور فرمایا : تم ان کی پامالی کا ذریعہ بنو گے، کیونکہ اگر حدیبیہ میں قتال ہوتا اور مسلمان مکہ میں داخل ہو کر کفار کو قتل کرتے تو وہ کمزور مسلمان بی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ان کو پہنچانتے نہیں تھے۔

ضحاک نے کہا : اس آیت کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ کئی مشرکین کی پشتوں میں انکی ایسی اولاد تھی جو اسلام لانے والی تھی، اگر آپ کے اصحاب کو کفار سے قتال کی اجازت دے دی جاتی تو وہ مسلمان بھی ماریجاتے، لیکن یہ وجہ ضعیف ہے۔

اس کے بعد فرمایا : پھر ان کی طرف لاعلمی میں تمہیں کوئی ضرور پہنچے گا۔

اس آیت میں ” معرۃ “ کا لفظ ہے، جس کا ترجمہ ہم نے ضرر کیا ہے۔ ” معرۃ “ کا معنی ہے : عیب، یعنی اگر لاعلمی میں تمہارے ہاتھوں مسلمان قتل ہوجاتے تو کفار تم پر یہ عیب لگاتے کہ ان مسلمانوں نے اپنے دینی بھائیوں اور ہم مذہب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور پھر تم پر قتل خطاء کا کفارہ لازم آتا، کیونکہ اگر مسلمان دار الحرب میں رہنے والے کسی کمزور مسلمان کو قتل کردیں جو اپنے ضعف کی وجہ سے دار السلام کی طرف ہجرت نہ کرسکا ہو تو اس پر قتل خطاء کی دیت لازم نہیں آتی، صرف کفارہ لازم آتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

……(النسائ : ٩٢)

پس اگر وہ مقتول تمہارے دشمنوں کی قوم میں رہنے والا ہو اور وہ مقتول مومن ہو تو اس کا کفارہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے۔

اللہ کی رحمت میں داخل  کرنے کے دو محمل

نیز فرمایا : تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے۔

اس آیت کے دو محمل ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں تم کو کفار سے جنگ کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ مکہ کے وسط میں رہنے والے کمزور مسلمان اللہ کی رحمت میں داخل رہیں اور بیخبر ی میں تمہارے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔

(٢) اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں مشرکین سے قتال کرنے کی تمہیں اجازت اس لئے نہیں دی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان میں سے بہت سے مشرکین بعد میں اسلام لے آئیں گے، چناچہ ان میں سے بہت سے مشرکین بعد میں مسلمان ہوگئے اور انہوں نے اسلام میں بہت نیک کام کے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی جنت میں داخل ہوگئے۔

ققہاء مالکیہ کے نزدیک اگر کفار کے خلاف جہاد کرنے سے مسلمانوں کو ہلاکت کا خطرہ ہو تو …پھر ان کے خلاف جہاد نہیں کیا جائے گا۔

اس کے بعد فرمایا : اگر وہ مسمان کافروں سے الگ ہوتے تو ہم ان کافروں کو دردناک عذاب دیتے۔

اس آیت میں ” تزیلوا “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے :” تمیزوا، تفرقوا “ یعنی اگر وہ مسلمان ( جو مکہ میں رہائش پذیر تھے) کافروں سے متمیز اور متفرق ہوتے یعنی کسی اور جگہ ہوتے تو ہم ان کافروں کو دردناک عذاب دیتے۔

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی لکھتے ہیں :

اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ اگر کافروں کو اذیت پہنچانا مسلمانوں کو اذیت پہنچانے پر موقوف ہو تو کافروں کو اذیت نہیں پہنچائی جائے گی اور مومن کو ضرر سے بچانے کے لئے کافر کو بھی ضرر سے بچایا جائے گا۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اگر کفار جہاز میں سوار ہوں اور ان کے جہاز میں کچھ قیدی مسلمان بھی ہوں تو کیا کافروں کے جہاز کو نقصان پہنچایا جائے گا، اس کو آگ لگائی جائے گی ای اس پر حملہ کیا جائے گا ؟ امام مالک نے کہا : میرے نزدیک یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

……(الفتح : ٢٥ )

اگر وہ مسلمان کافروں سے الگ ہوتے تو ہم ان کافروں کو دردناک عذاب دیتے۔

اور حدیبیہ میں مسلمانوں کو قتال کی اجازت اسی لئے نہیں دی گئی کہ اگر مسلمان مکہ میں جا کر قتال کرتے تو اس کی زد میں وہاں پر رہنے والے مسلمان بھی آجاتے۔

فقہاء حنبلیہ کے نزدیک ایسی صورت میں اگر جہاد کرنا، ناگزیر ہو تو جہاد کیا جائے گا ورنہ نہیں

علامہ موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :

اگر کفار مسلمانوں کو ڈھال بنالیں اور ان کی طرف تیر مارنے ( یا گولی چلانے) کی ضرورت نہ ہو، کیونکہ ابھی جنگ منعقد نہیں ہوئی ہے یا مسلمانوں کو نشانہ بنائے بغیر کفار پر حملہ کرنا ممکن ہو، یا کفار کے شر سے بچنا ممکن ہو تو پھر کفار پر گوی چلانا جائز نہیں اور اگر کسی نے گولی چلائی اور وہ مسلمان کو لگ گئی تو وہ ضامن ہوگا اور اگر کفار کی طرف سے مسلمانوں کی جانوں کو خطرہ ہو تو ایسی صورت میں کافروں پر گولی چلائی جائے گی، کیونہ اب ضرورت ہے اور گولی چلانے والے کافروں کا قصد کرکے گولی چلائیں نہ کہ مسلمانوں کا۔ (المغنی ج ٩ ص ٢٣١، دار الفکر، بیروت، ١٤٠٥ ھ)

فقہاء شافعیہ کے نزدی صورت مذکورہ میں دو قول ہیں

علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٢٧٦ ھ لکھتے ہیں :

جب کافر مسلمانوں کو ڈھال بنالیں تو پھر کفار پر گولی چلانے میں دو قول ہیں، ایک قول یہ ہے کہ ان پر گولی چلانا جائز ہے، جس طرح قلعہ پر منجنیق (توپ) نصب کرنا جائز ہے، خواہ اس کے گولے مسلمانوں کو لگ جائیں اور تاکہ لوگ اس کو جہاد کے معطل کرنے کا ذریعہ نہ بنالیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں کفار پر گولی چلانا یا گولہ باری کرنا جائز نہیں ہے، قفال کے نزدیک یہ قول زیادہ صحیح ہے اور بعض علماء نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ (روضتہ الطالبین ج ٧ ص ٤٤٦، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٢ ھ)

فقہاء احناف کے نزدیک صورت مذکورہ میں کفار پر گولی چلانا اور گولہ باری کرنا جائز ہے۔

علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی الحنفی المتوفی ٥٨٧ ھ لکھتے ہیں :

کفار پر گولی چلانا جائز ہے خواہ ان کو یہ علم ہو کہ ان میں مسلمان قیدی اور تاجر بھی ہیں، کیونکہ اس میں ضرورت ہے۔ کیونکہ کفار کے قلعے بہت کم مسلمان قیدیوں اور تاجروں سے خالی ہوتے ہیں، سو ان کا اعتبار کرکے کافروں پر حملہ کرنا جہاد کا دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے، لیکن ان پر حملہ کافروں کے قصد سے کریں نہ کہ مسلمانوں کے قصد سے کیونکہ مسلمان کا قتل ناحق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کفار مسلمان بچوں کو ڈھال بنالیں تب بھی کفار پر گولی چلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ جہاد کو قائم کرنا فرض ہے، لیکن مسلمان کفار کے قصد سے گولی چلائیں اور اگر وہ کفار پر گولی چلائیں اور اس سے مسلمان ہلاک ہوجائے تو ان پر اس کی دیت ہے نہ کفارہ۔ (بدائع الصنائع ج ٩ ص ٣٩٤، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

باقی رہا یہ اشکال کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے :

……(الفتح ؛ ٢٦) اگر مسلمان کافروں سے الگ ہوتے تو ہم ان کافروں کو دردناک عذاب دیتے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایا کہ ایسی صورت میں جہاد کرنا حرام ہے یا ناجائز ہے، اس آیت سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان بچانے کے لئے اگر کافروں پر حملہ نہ کیا جائے تو یہ جائز ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں کچھ نہ کچھ مسلمان ضرور ہیں حتیٰ کہ اسرائیل میں بھی ہیں۔ اس لئے اس آیت کا اگر وہ مطلب لیا جائے جو امام مالک نے لیا ہے تو قرآن مجید کی ان آیات پر عمل کرنا ممکن نہیں رہے گا جن میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب آٹھ ہجری کو مکہ پر حملہ کیا تھا، اس وقت بھی وہاں کچھ مسلمان تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 25