أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو، کہیں تم ناواقفیت سے کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پیشیمان رہو

ولید بن عقبہ کا جھوٹی خبر دینا

الحجرات : ٢ میں فرمایا : اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو، کہیں تم ناواقفیت سے کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچا دو ، پھر اپنے کیے پر پشیمان رہو۔

حضرت الحارث بن ابی ضرار (رض) بیان کرتے ہیں : یہ آیت ولید بن عقبہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا اور ولید کے درمیان اور بنو المصلطق کے درمیان زمانہ جاہلیت میں عداوت تھی، جب بنو المصطلق نے اس کی آمد سے متعلق سنا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے اس کی تعظیم کی، شیطان نے اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ یہ لوگ اس کو قتل کرنا چاہتے ہیں وہ خوف ذدہ ہو کر راستہ سے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹ گیا اور آپ سے کہا کہ بنو مصطلق ان کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضب میں آگئے اور ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا، ادھر بنو مصطلق کو یہ خبر پہنچی کہ ولید بن عقبہ واپس چلے گئے تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کے نمائندہ کی آمد کے متعلق سنا تو ہم اس سے ملاقات کرنے اور اس کی تکریم کرنے کے لئے نکلے اور تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں مال دیا ہے ہم اس مال میں اللہ کا حق ادا کریں، تب ہم کو معلوم ہوا کہ وہ نمائندہ واپس چلا گیا۔ ہمیں خطرہ ہوا کہ کہیں آپ کی طرف سے اس کو یہ ھکم تو نہیں پہنچا کہ تم واپس آجائو اور آپ کسی وجہ سے ہم پر ناراض ہوگئے ہوں، اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر یقین نہیں کیا اور خفیہ طور پر حضرت خالد بن ولید (رض) کو ایک لشکر کے ساتھ ان کی طرف روانہ کیا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ چپکے سے وہاں پہنچیں اور وہیں تفتیش کریں، اگر وہاں ایسے آثار ہوں جو ان کے ایمان پر دلالت کرتے ہوں تو ان سے ان کے اموال کی زکوٰۃ وصول کرلیں اور اگر وہاں کے ایسے آثار ہوں جو ان کے ایمان پر دلالت کرتے ہوں تو ان سے ان کے اموال کی زکوٰۃ وصول کرلیں اور اگر وہاں ان کے ایمان کے آثار نہ ہوں تو پھر ان کے ساتھ وہ معاملہ کریں جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے، حضرت خالد وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے وہاں پر مغرب اور عشاء کی اذانوں کو سنا، انہوں نے ان سے صدقات وصول کیے اور سوائے اطاعت اور نیکی کے ان کے پاس اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس پہنچے اور آپ کو تمام حالات بتائے اور تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس فاسق (یعنی ولید بن عقبہ) کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو، کہیں تم ناواقفیت سے کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچا دو پھر اپنے کیے پشمان رہو۔ (ولید بن عقبہ حضرت عثمان (رض) کا ماں شریک بھائی تھا) ۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٢٨٧۔ ٢٥٧، مسند احمد ج ٤ س ٢٧٩، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٣٩٥، اسباب النزول للواحدی ص ٧٦٠، حافظ الہیثمی نے کہا : امام احمد کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١١٣٥٢، حافظ ابن کثیر نے کہا : اس قصہ کے متعلق امام احمد کی روایت سب سے عمدہ ہے، امام طبرانی نے اس قصہ کو حضرت جابر (رض) سے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٨٠٠٩، امام جریر نے اس واقعہ کو حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت ابن عباس، قتادہ اور ابن اسحاق وغیر ہم سے روایت کیا ہے، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٥٤٣۔ ٢٤٥٤١۔ ٢٤٥٣٩۔ ٢٤٥٣٧)

فاسق کی شہادت اور روایت کا شرعی حکم

علامہ سید محمود آلوسی متعدد حوالہ جات سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ فاسو شہادت دینے کا اہل ہے کیونکہ اگر اس کی شہادت ادائیگی کے لائق نہ ہوتی تو پھر اس کی خبر کی تحقیق کرنے کے حکم دینے کا کوئی معنی نہ تھا اور یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد کو قبول کرنا جائز ہے۔

فقہاء احناف نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس شخص کا عادل اور نیک ہونا معلوم نہ ہو اس کی خبر کو بھی قبول کرنا جائز ہے اور اس کے نیک ہونے کی تفتیش کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ یہ تفتیش اس وقت واجب ہوگی جب اس کا فسق ثابت ہو اور جس شخص کا نیک ہونا ہمیں معلوم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا فاسق ہونا معلوم ہے تو ہم ظاہر حال کے اعتبار سے اس کو نیک قرار دیں گے اور اس کی تفتیش کرنا ہم پر واجب نہیں ہے، واضح رہے کہ فاسق وہ شخص ہے جس نے کوئی علی الاعلان گناہ کبیرہ کیا ہو۔

نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں : فاسق کی دو قسمیں ہیں : ایک فاسق غیر متاول ہے (جو بگیر تاویل کے کوئی گناہ کبیرہ کرے) اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس کی خبر قبول نہیں کی جائے گی اور دوسری قسم فاسق متاول ( جو تاویل سے کوئی گناہ کبیرہ کرے) جیسے جبری اور قدری اور اس کو بدعت واضحہ کا مرتکب کہا جاتا ہے۔ بعض اصولیین اس کی شہادت اور روایت کو مسترد کرتے ہیں، جیسے امام شافعی وغیرہ اور بعض اس کی شہادت کو قبول کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شہادت کو کذب کی تمہت کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے اور اس شخص کے عقائد میں فسق ہے اور کذب تمام مذاہب میں حرام ہے، ماسوا خطابیہ کے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ہم ظاہر پر حکم لگاتے ہیں اور اس کی روایت کو قبول کرنا اس لئے جائز ہے کہ جو شخص غیر رسول پر کذب کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کذب کو بہ طریق اولیٰ جائز نہیں سمجھے گا اور ہمارے اصحاب احناف اس کی شہادت کو قبول کرتے ہیں اور اس کی روایت کو قبول نہیں کرتے خصوصاً جب وہ اپنے عقیدہ کے پر چار کے لئے حدیث روایت کرے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٢٢١۔ ٢٢٠، ملخصا، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات آیت نمبر 6