روشن خیالی کے مریض

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

 

‘روشن خیالوں’ کی بھی اپنی دنیا ہے۔ جو بات انہیں پسند آجائے اسے درست ٹھہرانے کے لیے ایسی ایسی ‘تِکڑم’ بھڑاتے ہیں کہ شیخ رشید بھی شرما جائے۔ ان کی فکر ‘تنقید پروف’ ہوتی ہے۔ اگر کسی نے جسارت کر ہی لی تو اسے شدت پسند اور تنگ نظر ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔ ان کی خود کی وسعت ظرفی کا یہ عالم ہے کہ انبیاے کرام کو مطلقاً خطاکار اور صحابہ کرام کو بزدل کہنے والے مودودی کو سر پر اٹھائے گھومتے ہیں، لیکن کوئی سنی عالم کسی مقدس ہستی کے لیے خطاے اجتہادی کا قول بھی کر لے تو ان کی سوئی ہوئی غیرت غلیظ ترین گالیوں پر منتج ہوتی ہے۔ آج کل یہ طبقہ یزید پلید کی کی ماں اور زوجۂ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ (میسون بنت بحدل) کے کفر ونصرانیت کا فتوی لیے گھوم رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی اعتدالی ٹولہ ہے جو ہر دوسرے گھنٹے علماے اہل سنت کو تکفیری کہنا عملاً واجب سمجھتا ہے۔ مگر آپ یہ پوچھنے کی قطعاً جرأت نہ کریں کہ اگر آپ کو یزید پلید کی ماں کے متعلق تاریخ میں زیادہ معلومات نہیں ملیں تو آپ کب سے داروغہ جہنم بن گئے جو ایک صحابی کی بیوی کے لیے کفر کا وارنٹ جاری کر رہے ہیں؟ کیا آپ کے عدم علم اور زبردستی کے اشکالات کی بنا پر کفر واسلام کے فیصلے صادر ہوں گے؟

یہ وہ معتدل مُنّے ہیں جو غمِ حسین میں نکاح جیسی پاکیزہ سنت کو بھی بے ادبی قرار دے دیتے ہیں، مگر اپنے ہی قرار فرمودہ “ایامِ غم” میں بے پردہ خواتین کے ساتھ اختلاط اور ساحل سمندر کی سیر سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جو کتاب ان کے موافق نہ ہو انہیں یوپی اور کراچی کا بتا دیتے ہیں اور اپنے مطلب کے لیے تہرانی عزاداروں کا بوجھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ زوجۂ امیر معاویہ کو کافرہ ثابت کرنے کا جنون اس قدر ہے کہ انہیں تاریخ دمشق، العباب الزاخر، اور تاج العروس، جیسی کتابیں نظر نہیں آئیں، جس میں انہیں نہ صرف مومنہ بلکہ تابعیہ قرار دیا گیا ہے، مگر ان کا دعوی ہے کہ تاریخ اس معاملے میں گم ہے۔!!

ان کے پیرامیٹر کے مطابق جب تک انہیں کسی کے ایمان، نکاح وطلاق کی تاریخ اور اسباب وجوہات کا علم نہ ہو تو یہ لوگ ایمان کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتے۔ اب کوئی انہیں بتائے کہ تاریخ دمشق، العباب الزاخر، البدایہ و النہایہ، اور تاج العروس، یوپی/کراچی نہیں عراق و دمشق اور مصر و لبنان کی کتابیں ہیں۔ یوپی وکراچی سے چِڑھنے والوں کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آج لکھنے پڑھنے کا جو شعور آیا ہے وہ یوپی وکراچی کی کتابوں اور یہیں کے اساتذہ وشیوخ کی مرہون منت ہے، ورنہ میاں کس شمار وقطار میں ہوتے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تہران کا نہیں محمد عربی ﷺ کا اسلام ہے جہاں کسی کو کافر کہنے کے لیے وجہِ کفر کا آفتاب سے زیادہ ظاہر وباہر ہونا ضروری ہے محض اپنی پسند و ناپسند اور عقلی اکھاڑ پچھاڑ کی بنا پر مَن مرضی کے فتوے نہیں داغے جاسکتے۔ کسی بد بخت کی دشمنی میں اتنا بھی جنونی نہ ہوں کہ اس کے اہل خانہ کو بھی کفر کی بھینٹ چَڑھانے کے لیے کفر کی تلوار نکالے پھریں۔ ‘دین آپ کے مزاج کا نام نہیں ہے’ کہ جو پسند نہیں آیا اس کی گردن قلم کردیں۔

 

19 محرم الحرام 1443ھ

29 اگست 2021 بروز اتوار