متن اور سند میں احکام کا فرق

راوی کی مجروحیت اور وجوہ طعن کا تعلق سند سے ہوتا ہے متن حدیث کا حکم دوسرے قرائن کے اعتبار سے کیا جاتا ہے یہ ممکن ہے کہ کسی صحیح حدیث کو ایک وضاع راوی بیان کرے پر اس سند کے اعتبار سے تو اس حدیث کو موضوع کہا جائے گا لیکن فی نفسہ وہ حدیث موضوع نہیں کہلائے گی البتہ جب کسی حدیث کی سند میں کوئی وضاع راوی ہو اور اس حدیث کا متن کسی طریقہ سے ثابت نہ ہو تو وہ حدیث مطلقا موضوع کہلائے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ علامہ شمس الدین ذہبی میزان الاعتدال میں بیان فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے عن ابراهيم بن موسی المروزي عن مالك عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما حدیث ”طلب العلم فريضة“ کو موضوع فرمایا علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس سند کے اعتبار سے موضوع ہے ورنہ نفس حدیث دیگر طرق ضعیفہ سے ثابت ہے اسی طرح تمہید میں حافظ ابن البر نے حدیث “الصلوة بسواك خير من سبعين صلوة“ کو باطل کہا ہے لیکن علامہ سخاوی فرماتے ہیں کہ حکم بھی اس خاص سند کے اعتبار سے ہے۔

اسی طرح حدیث ضعیف میں بھی ضعیف کا حکم باعتبار سند کے ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی حدیث کو ایک ضعیف راوی بیان کر ے اس سند کے اعتبار سے وہ حدیث ضعیف کہلائے گی لیکن متن حدیث کا حکم نہیں ہوگا علامہ نووی فرماتے ہیں:

ان روایات الراوي الضعيف يكون فيه الصحيح والضعيف والباطل فيكتبونها ثم يميز اهل الحفظ والاتقان بعض ذلك من بعض وذلك سهل عليهم معروف عندهم وبهذا احتج السفيان الثوری حین نهی عن الرواية عن الكلبي فقيل له انت تروى عنه فقال انا اعرف صدقه من كذبه.(شرح مسلم للنووی ج 1 ص۲۱ طبع کراچی)

ضعیف راوی کی روایات میں صحیح ضعیف اور باطل ہرقسم کی احادیث ہوتی ہیں۔ محدثین ان تمام روایات کو لکھ لیتے ہیں، پھر اہل علم ان کو تمیز دیتے ہیں اور یہ ان کے لیے آسان ہے اسی دلیل سے سفیان ثوری نے اس وقت استدلال کیا جب ان سے کلبی کی روایات قبول کرنے پر اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں اس کے صدق اور کذب میں تمیز کر لیتا ہوں ۔

 

وغير ذلك فلا يعمل فيها الا بالحديث الصحيح او الحسن الا ان يكون في احتياط شیء كما اذا ورد حديث ضعيف بكراهية بعض البيوع او الانكحة (شرح مسلم للنووی ج 1 ص 21 طبع کراچی)

اور طلاق وغیرہ میں حدیث صحیح یا حسن کے سوا اور کسی پر عمل درست نہیں الا یہ کہ اس میں احتیاط بؤ مثلا بیع یا نکاح کی کراہت میں کوئی حدیث ضعیف وارد ہو۔